A Time to dance

2020-07-13 22:42:47 Written by اعتزاز سلیم وصلی

ناچنے کی وبا

ہم آج تک مختلف بیماریوں کی وبا کے متعلق پڑھتے اورسنتے آئے ہیں مگر اس پراسرار دنیا میں آج سے کوئی پانچ سو سال پہلے ایک ایسی وبا بھی پھیلی تھی جو تکلیف کی بجائے خوشی دیتی تھی۔اس وبا کو ناچنے کی وبا کی کہا جاتا ہے۔یہ چودہویں سے سترہویں صدی تک رومن ایمپائر کے مختلف علاقوں میں پھیلی مگر 1518میں اس نے شدت اختیار کی۔اسٹراس برک میں پھیلنے والی اس وبا نے کتنی تعداد میں لوگوں کی جان لی،اس بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔

آغاز

وبا اسٹراس برک میں پھیلی جو تب ہولی رومین ایمپائر کا حصہ تھا۔اسٹراس برک اب فرانس کے گرینڈ ایسٹ ریجن کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت ہے۔جولائی 1518میں ایک لڑکی جس کا نام فرو ٹروفیا تھا،اس نے شہر کی گلیوں میں قدم رکھا اور ناچنا شروع کردیا۔اس کا ناچنے کا انداز روحانی تھا۔ایک دن میں ہی تقریباً تین درج شہریوں نے اسے جوائن کیا اور یوں وبا پھیلتی چلی گئی۔اگست تک یہ وبا چار سو لوگوں کو نشانہ بنا چکی تھی۔ان لوگوں کے جنون کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے باقاعدہ ایک میوزک بینڈ کو میوزک فراہم کرنے کیلئے رکھا تھا۔

اموات

اس وبا سے ہونے والی اموات کے متعلق کوئی ایک ٹھوس ثبوت موجود نہیں مگر کہا جاتا ہے کہ اس وبا سے روزانہ پندرہ سے پچاس لوگ مرتے تھے۔کچھ رپورٹس کے مطابق ٹوٹل چار سو اموات ہوئی تھیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس سے ہونے والی اموات کے متعلق کبھی کوئی تاریخ دان متفق نہیں ہوا۔ہاں مگر جون ویلر نے اس وبا پر کتاب لکھی جس کا نام A Time To Dance,A Time To Dieتھا۔اس کتاب میں اس نے ہونے والی اموات کے متعلق تفصیل لکھی۔

تھیوریز

اس وبا کے متعلق ہمیشہ دو رائے پائی جاتی ہیں۔اس لئے مختلف لوگوں نے اس کے متعلق مختلف تھیوریز پیش کی۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ وبا دراصل فنجائی کی وجہ سے پھیلنے والی فوڈ پوائزنگ کی وبا تھی اس لئے لوگ ناچتے ہوئے مر جاتے تھے ۔جون ویلر نے اس بات کی تردید کی ہے۔اس نے کہا ’’یہ تھیوری تسلیم نہیں کی جاسکتی کیونکہ اتنے لوگوں پر فنجائی کا اثر ہو سکتا ہے نہ ہی شکار ہونے والے لوگ اتنی دیر ناچ سکتے ہیں۔

کچھ لوگوں کے خیال میں مرنے والے ہسٹریا کا شکار تھے۔وہ لوگ اپنے دباؤ اور پریشانی کو بھلا کر بس ناچنا چاہتے تھے۔1518کے علاوہ بھی اس وبا کا تذکرہ بہت سی جگہوں پر ملتا ہے۔