ہیومن راڈ

2020-07-17 21:25:33 Written by انصر علی

آج ہم آپ کو دو ایسوں لوگوں کی سچی کہانی سنائیں گے جن کو الیکٹرک فیکٹری ، ہیومن راڈ جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔

ان کی اس عرفیت پیچھے موجود وجہ بہت دلچسپ ہے۔

آسمانی بجلی 

شاید ہی کوئی نارمل شخص ایسا ہو جس نے یہ نام نہ سنا ہو۔کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس کی تباہ کاریاں بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھی ہیں۔

کہتے ہیں کہ ایک انسان اسی سال جیے اور اس دوران دس ہزار مرتبہ آسمانی بجلی گرے تو ایک فیصد چانس ہوتا ہے کہ وہ کسی انسان کے اوپر گرے۔

لیکن جن دو لوگوں کے بارے آج آپ پڑھیں گے ان پر بالترتیب سات اور چار مرتبہ آسمانی بجلی گری اور یہ ہر دفعہ بچتے رہے۔

 

Roy Sullivan

 

رائے سیلوان امریکہ کی ریاست ورجینیا کے ایک Shenandoah National Park میں کام کرتا تھا۔1942 سے 1977 کے درمیان سات مختلف مواقعوں پر آسمانی بجلی کا شکار ہؤا لیکن انتہائی حیرت انگیز طور پر ہر دفعہ بچ گیا۔

رائے کا نام ورلڈ گنیز بک میں بھی شامل ہے۔"ایک ایسا شخص جو دنیا میں سب سے زیادہ آسمانی بجلی کا شکار بنا۔"

سات دفعہ آسمانی بجلی کا شکار بننے کے باوجود اس شخص اپنی زندگی کا خاتمہ خود کر لیا۔

Seven strikes

رائے پہلی دفعہ آسمانی بجلی کا شکار اس وقت بنا جب وہ پارک میں اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہا تھا۔اس حادثے میں رائے کی پنڈلی اور پیر متاثر ہؤا۔رائے کو محسوس ہوا کہ یہ اس کی زندگی کا سب سے برا دن تھا لیکن تب اسے نہیں پتہ تھا کہ یہ تو بس شروعات ہے۔

جولائی 1969 میں ستائیس سال بعد ، سلیوان ایک بار پھر ڈیوٹی پر تھا ، اس بار ایک پہاڑی سڑک پر ٹرک چلاتے ہوئے وہ اس کا شکار بنا۔ آسمانی بجلی اس دفعہ ٹرک کی کھلی کھڑکی سے اندر آئی ۔رائے کے بالوں میں آگ لگ گئی اور اس کی بھنویں بھی جل گئیں۔ رائے خود تو بے ہوش ہو گیا تھا لیکن اس کی خوش قسمتی کہ ٹرک بند ہو گیا اور سڑک کے کنارے پر جا کر رک گیا۔

جولائی 1970 میں تیسری دفعہ رائے پر اس وقت بجلی گری جب وہ اپنے باغ میں کھڑا تھا۔بجلی پہلے قریبی ٹرانسفارمر پر گری اور پھر رائے کی طرف آئی ۔اس دفعہ رائے کا کندھا نشانہ بنا۔

چوتھی اور پانچویں دفعہ بھی دورانِ ڈیوٹی ہی اس کے ساتھ یہ واقعات پیش آئے۔

چوتھی دفعہ اس کے ساتھ یہ حادثہ 1972 میں پیش آیا جبکہ پانچویں دفعہ 1973 میں۔

پانچویں دفعہ جب رائے کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا تو اس نے کچھ یوں اس بارے رائے دی۔

 

"میں بہت مضبوط اعصاب اور نڈر طبیعت کا حامل شخص تھا،لیکن اب جب میں بادلوں کے گرجنے کی آواز سنتا ہوں تو میرا دل کانپنے لگتا ہے۔"

اگلا حملہ 5 جون 1976 کو ہؤا۔رپورٹس کے مطابق رائے نے اس دن ایک بادل دیکھا جو اس کا پیچھا کر رہا تھا۔اس نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ نہیں پایا۔

آسمانی بجلی کا آخری اور ساتواں حملہ اس پر 25 جون 1977 کو اس وقت ہوا جب وہ ایک تالاب میں فشنگ کر رہا تھا۔اس دفعہ کے اٹیک میں نہ صرف اس کے بال جلے،بلکہ اس کا سینہ اور پیٹ بھی زخمی ہؤا۔

 رائے سیلوان بیک وقت خوش قسمت اور بد قسمت شخص تھا۔

خوش قسمت اس لیے کہ سات دفعہ آسمانی بجلی کا شکار ہونے کے باوجود وہ زندہ رہا ۔لیکن بدقسمت اس لیے کہ 28 ستمبر 1983 کو عشق میں ناکامی پر اس نے خود کو گولی مار لی۔ وہ کام جو آسمانی بجلی سات بار میں نہیں کر سکی اس نے بندوق کی گولی سے ایک دفعہ میں کر لیا۔۔۔

 

2.walter summerford

تاریخ کا دوسرا بدقسمت شخص والٹر سمر فورڈ تھا ، جو برطانیہ کا رہائشی تھا۔ وہ فوج میں افسر تھا۔

۔ والٹر سمر فورڈ کے ساتھ پہلا واقعہ 1918 میں ہوا ، جب وہ عالمی جنگ کے وقت بیلجیئم میں تعینات تھا۔ ایک دن وہ گھوڑے پر سوار کہیں جا رہا تھا ، جب آسمانی بجلی اس پر گری۔ وہ مرنے سے تو بچ گیا لیکن 

اس کی کمر سے نیچے کا پورا جسم مفلوج ہو گیا تھا۔ 

اگرچہ وہ چند مہینوں میں مکمل صحت یاب ہو گیا اور پیدل چلنا شروع کر دیا ، لیکن آرمی نے اسے مدت سے پہلے ریٹائر ہونے کے لیے مجبور کر دیا۔

والٹر وینکوور چلا گیا جہاں اس نے سرے سے اپنی زندگی کی شروعات کی۔لیکن ابھی اس کی قسمت میں مزید حادثے باقی تھے۔

یہ حادثہ 1924 میں ہؤا۔ 

  ایک دن وہ مچھلی پکڑنے کے لئے قریبی دریا پر گیا۔کچھ دیر فشنگ کرنے کے بعد وہ سستانے کے لیے ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔آسمان بلکل صاف تھا۔اچانک بجلی کڑکنے کی آواز آئی۔اس بار والٹر کےجسم کا دائیں حصہ نشانہ بنا۔ تاہم ، معجزانہ طور پر ایک دفعہ پھر وہ مرنے سے بچ گیا۔اسے صحت یاب ہونے میں قریباً دو سال کا عرصہ لگا۔

 دوسرے واقعے کے ٹھیک چھ سال بعد ، سن 1930 میں والٹر سمر فورڈ کے ساتھ پھر ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ وہ ایک پارک میں چل رہا تھا اور خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ تب اچانک موسم خراب ہوگیا اور گہرے کالے بادلوں نے نیلے آسمان کو چھپا دیا۔ والٹر نے ادھر ادھر کسی پناہ کی تلاش میں نگاہیں دوڑائیں لیکن اس سے پہلے ہی ایک دفعہ پھر اس پر اٹیک ہو چکا تھا

اب کی دفعہ اس کا سارا جسم مفلوج ہو گیا۔ وہ دو سال موت سے جنگ لڑتا رہا لیکن بالآخر 1932 میں وہ زندگی ہار گیا۔

والٹر کی موت کے بعد اس کے اہل خانہ نے اسے وینکوور کے قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا۔ بظاہر والٹر کی کہانی ختم ہو چکی تھی۔لوگ آہستہ آہستہ اسے بھولتے جا رہے تھے کہ 1936 میں ہونے والے ایک حادثے نے ایک دفعہ پھر سب کی توجہ والٹر کی طرف کروا دی۔ والٹر کے مرنے کے بعد بھی آسمانی بجلی نے اس کا پیچھا کرنا نہیں چھوڑا تھا اور ٹھیک چھے سال بعد اس کی قبر پر ملنے آ گئی۔ اس کی قبر پر لگا پتھر کا کتبہ ٹوٹ گیا جس کی تصویریں آج بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔

والٹر پر آسمانی بجلی گرنے سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ واقعہ ہر چھے سال بعد پیش آتا تھا۔

پہلا واقعہ 1918،دوسرا 1924 ،تیسرا 1930 اور آخری واقعہ اس کی موت کے بعد 1936 میں پیش آیا۔

اس کے پیچھے کیا راز تھا! یہ کبھی پتہ نہیں چل سکا۔ لیکن مسلسل ایسے حادثات نے والٹر کو تاریخ کے سب سے "بدقسمت شخص" کے نام سے مشہور ضرور کر دیا۔

کچھ لوگ اسے ایک افسانوی قصہ جبکہ کچھ حقیقت مانتے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق آسمانی بجلی عام درختوں کی نسبت شاہ بلوط کے درختوں پر زیادہ گرتی ہے تو کیا والٹر کے جسم میں بھی کوئی غیر معمولی بات تھی؟

 

یا والٹر کے جسم میں کوئی خاص قسم کی کشش تھی!  

ان سوالات کے جواب کبھی نہیں مل سکے ۔