رین میکر

2020-07-24 23:07:10 Written by انصر علی

اگر آپ کو تاریخ کی بدترین خشک سالی کا سامنا کرنا پڑے،فصلیں سوکھ رہی ہوں ،خوراک کی قلت ہو جائے اور یہاں تک کہ پینے کا پانی بھی کم پڑنے لگے تو آپ کیا کریں گے؟ 

آپ یقیناً ہر قیمت پر بارش مانگیں گے۔اور اس کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں گے۔ یہی صورت حال آج سے ایک سو پانچ سال پہلے سان ڈیاگو میں پیدا ہوئی۔

لوگ بارش کے لیے ترسنے لگے ۔جب قحط کا خطرہ حد سے بڑھنے لگا تو وہاں کی سٹی کونسل تک چارلس ہیٹ فیلڈ کی شہرت پہنچی۔ 

 

چارلس ہیٹ فیلڈ کون تھا؟

چارلس ہیٹ بہت ساری خصوصیات کا مالک تھا لیکن وہ مشہور  "رین میکر " کے نام سے ہؤا۔ اس کی شہرت کا آغاز بیسویں صدی کے اوائل میں تب ہوا جب اس نے 23 کیمیکل کے ذریعے ایک ایسا خفیہ نسخہ تیار کرنے کا دعویٰ کیا  جس کے ذریعے وہ بادلوں کو اپنے تابع کر سکتا تھا۔

ہیٹ فیلڈ 15 جولائی 1875 کو کینساس کے فورٹ اسکاٹ میں پیدا ہوا تھا۔اس کا کنبہ 1880 کی دہائی میں جنوبی کیلیفورنیا چلا گیا تھا۔ بالغ ہونے کے بعد ، وہ نیو ہوم سلائی مشین کمپنی کا سیلزمین بن گیا۔ 1904 میں ، وہ کیلیفورنیا کے  شہر گلینڈیل چلا گیا۔

فارغ ٹائم میں اس نے pluviculture کے بارے پڑھنا شروع کر دیا۔1902 میں اس نے 23  کیمیکلز کے ذریعے خفیہ مرکب تیار کیا جن کے ذریعے وہ جب چاہتا بارش برسا سکتا تھا۔

اگلے دو سال میں وہ کافی مشہور ہوا۔ لوگ اس کے ساتھ معاہدہ کر کے اسے بارش برسانے کے لیے بلاتے اور وہ جہاں بھی جاتا کامیاب رہتا۔ بہت جلد لوگ اس کے "رین میکر" ہونے بارے پختہ یقین رکھنے لگے۔

اس نے باقاعدہ اخبارات میں اشتہارات بھی چھپوائے جس کا بہترین رسپانس ملا۔ فروری میں لا کریسینٹا میں اسے بارش بلانے کے لیے بلایا گیا۔ اس نے اپنے خفیہ نسخے کے ساتھ عمل کا آغاز کیا اور وہ ایک مرتبہ پھر کامیاب رہا۔ معاہدے کے مطابق اسے سو ڈالر ادا کیے گئے۔ گو کہ محکمہ موسمیات کے مطابق بارش کا ویسے بھی امکان تھا لیکن ہیٹ فیلڈ حامیوں نے اس بارش کو ہیٹ فیلڈ کا ہی کارنامہ قرار دیا۔

1906 میں ہیٹ فیلڈ کو یوکون علاقہ میں مدعو کیا گیا۔ یہاں اس کا معاہدہ دس ہزار ڈالرز کا تھا۔لیکن  یہاں قسمت نہ اس کا ساتھ نہیں دیا اور بہت ساری ناکام کوششوں کے بعد وہ یہاں سے بھاگ گیا۔ البتہ بھاگتے چور کی لنگوٹی کے مصداق اس نے یوکون والوں سے 1100 ڈالرز بٹور ہی لیے۔ مگر اس کے حامیوں نے پھر بھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑا۔

1915 میں  جب سان ڈیاگو بری طرح خشک سالی کی لپیٹ میں آیا۔یہاں کے لوگ بارش کے لیے ترس گئے۔  شہر کے لوگوں نے ایک "بارش والے شخص" کی کہانیاں سن رکھیں تھیں۔ انہوں نے چارلس  ہیٹ فیلڈ سے رابطہ کیا اور اس سے مدد کی درخواست کی۔

ہیٹ فیلڈ اب بہت پر  اعتماد ہو چکا تھا۔ اس نے کہا کہ وہ بارش برسانے کے لیے تیار ہے لیکن وہ ایک انچ بارش کے ہزار ڈالرز لے گا۔ سٹی کونسل کو یہ ڈیل مناسب لگی۔

معاہدے کے مطابق ہیٹ فیلڈ کو رقم صرف بارش برسنے کی صورت میں ادا کی جانی تھی اگر بارش نہ برستی  تو وہ ہیٹ فیلڈ کو ایک ڈالر بھی ادا کرنے کے پابند نہیں تھے۔ بارش نہ ہونے کی وجہ سے جو نقصان ہوتا وہ اس کے مقابلے میں بہت زیادہ رقم بنتی جو انہیں بارش ہونے کی صورت میں ہیٹ فیلڈ کو ادا کرنی تھی۔

یہ معاہدہ زبانی طور پر طے ہوا۔

یکم جنوری 1916 کو  ہیٹ فیلڈ نے اپنے کام کا آغاز کر دیا۔ وہ اونچی جگہ پر بیٹھ کر  اپنے  پراسرار کیمیکلز کو مکس کرتا اور پھر ان کے نیچے آگ جلاتا۔جس سے ان کیمیکلز کے بخارات اوپر بادلوں کی طرف اٹھنے شروع ہو جاتے۔

پانچ دن بعد بارش شروع ہو گئی۔ سبھی رہائشی خوشی سے جھوم اٹھے۔  لیکن بہت جلد لوگوں کی خوشی پریشانی میں بدلنے لگی جب ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بھی بارش نے رکنے کا نام نہیں لیا۔ حد سے زیادہ بارش ہونے کے باعث دریا میں سیلاب آ گیا ،جس کی وجہ سے  سڑکیں،گلیاں اور لوگوں کے گھر پانی سے بھر گئے۔پل گر گئے اور ریل گاڑی کی پٹری اکھڑ گئی۔

تبھی lower Otay Dam ٹوٹ گیا۔یہ ڈیم کافی بڑا تھا ۔اس کے ٹوٹنے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر سیلاب آ گیا۔ اس سیلاب میں کم از کم بیس لوگ ہلاک ہوئے۔مالی نقصانات اس کے علاؤہ تھے۔

سیلاب کے بعد بڑی دلچسپ صورتحال بن گئی۔ ہیٹ فیلڈ  فی انچ بارش کے حساب سے اپنی رقم کا تقاضا کرنے لگا جبکہ  سٹی کونسل کا موقف یہ تھا کہ ہیٹ فیلڈ نے ضرورت سے زیادہ بارش برسائی ،جس کے باعث  سیلاب آیا۔ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ $3.5 ملین ڈالرز لگایا گیا۔ چونکہ معاہدہ صرف زبانی کلامی طے ہؤا تھا اس لیے ہیٹ فیلڈ کے پاس کوئی پکا ثبوت نہیں تھا۔ اس لیے اس بات کے بہت کم امکانات تھے کہ سٹی کونسل والے اسے رقم ادا کرتے۔ مگر اس کے باوجود ہیٹ فیلڈ نے  1938 تک سٹی کونسل کے خلاف کیس لڑتا رہا۔ دو عدالتوں نے فیصلہ دیا کہ بارش برسانا خدائی کام ہے لہذا نہ تو سٹی کونسل کے ذمے کوئی رقم ہے اور نہ ہی ہیٹ فیلڈ ہرجانہ بھرنے کا پابند ہے۔

 

کیا چارلس ہیٹ فیلڈ واقعی بارش برسانے کا فارمولا جانتا تھا؟

اس بارے میں عام رائے یہی تھی کہ وہ صرف ایک فراڈیا تھا۔ماہرین کے مطابق ایسے کوئی کیمیکلز نہیں جن کے ذریعے بارش برسائی جا سکے۔ چارلس ہیٹ فیلڈ نے پانچ سو سے زائد مرتبہ بارش برسانے کا دعویٰ کیا ۔

کچھ لوگوں کے نزدیک وہ بس موسم کی پیش گوئی کرنے میں ماہر تھا ،اس کے علاؤہ اور کچھ نہیں....

آپ کو کیا لگتا ہے؟؟؟