چال

2020-11-11 19:18:08 Written by عمر شریف

افسانہ

چال

 

۔۔۔۔۔

کچے مگر وسیع صحن میں رات کی سیاہی آہستہ آہستہ اتر رہی تھی۔ سورج دن کے تمام ہنگاموں کو اپنے دامن میں سمیٹے ڈھل چکا تھا ۔ ہر شے پر اک خاموشی سی طاری تھی۔ صحن کے ایک طرف بندھی دو بھینسیں بیٹھی جگالی کر رہی تھیں۔ اور صحن کے درمیان شیشم کے پیڑ پر مرغیاں اپنے پروں میں چونچیں چھپائے بیٹھی تھیں۔ کبھی کوئی مرغی کڑ کڑ کرتی پروں کو پھڑپھڑاتی اک ٹہنی سے دوسری ٹہنی پر جا بیٹھتی۔

شیشم کے درخت سے ذرا پرے تین چارپائیاں ایک قطار میں بچھی ہوئی تھیں اور ان پر بچھی سفید اجلی چادریں گھر والوں کی نفاست کا منہ بولتا ثبوت تھیں۔

درمیان والی چارپائی پر غلام رسول بیٹھا کھانا کھا رہا تھا جبکہ چارپائیوں کے درمیان اس کی گھر والی شہناز روٹیوں کی چنگیر اور کھانے کے برتن لئے بیٹھی تھی 

غلام رسول نے جیسے ہی کھانا ختم کیا تو اس کی اکلوتی بیٹی رمشاء نے تازہ حقہ چارپائی کے ساتھ لا رکھا اور باپ کی پائنتی کی طرف بیٹھ گئی۔ غلام رسول نے بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور حقے کی نے کو اپنی طرف موڑا اور اک بھرپور کش لیا۔

یہ کش گویا غلام رسول اور شہناز کے درمیان معمول کی بحث کا اعلان تھا۔

شہناز نے غلام رسول کے سامنے سے برتن اٹھاتے ہوئے کہا ۔ تو میری بات کیوں نہیں سمجھتا غلام رسول, ان بڑے لوگوں کیلئے ہماری کوئی اہمیت نہیں۔ یہ ہمیں صرف استعمال کرتے ہیں۔ لیکن تجھ پہ تو میری کسی بات کا کوئی اثر نہیں 

غلام رسول بنا کوئی جواب دئیے حقے کے کش لیتا رہا

شہناز نے غلام رسول کی خاموشی پر جھنجھلاتے ہوئے کہا۔ بس غلام رسول آج کے بعد تو ملکوں کے پاس نہیں جائے گا اور نہ ان بڑوں کے کھیل میں کسی کو اپنا دشمن بنائے گا۔

غلام رسول نے حقے کی نے کو پرے کیا اور شہناز کو سمجھانے کے انداز میں بولا۔ نیک بختے بات کو تو نہیں سمجھ رہی۔ یہ کھیل نہیں ہماری ضرورت ہے۔ آج میں ملک حیات کے ساتھ جاتا ہوں تو کیا برا کرتا ہوں۔ کل کو ملک حیات الیکشن جیتے گا تو ہمارا ہر اونچ نیچ میں سہارا بنے گا۔ اور ویسے بھی وہ میرا بڑا لحاظ کرتا ہے۔ چاچا چاچا کہتے اس کی زبان نہیں تھکتی۔

شہناز نے لہجے کو ذرا دھیما رکھتے ہوئے کہا۔ لیکن غلام رسول اس طرح تو تم چوہدریوں کو اپنا شریک بنا لو گے۔ اور ہمارا آسرا ملکوں نے کیا بننا ہے۔ آسرا بس اللہ کا ہوتا ہے۔ اور غلام رسول ہم نے کونسا کسی کے ساتھ شریکے بازی کرنی ہے جو ہمیں ان سہاروں کی ضرورت پڑے۔ اک تو بیٹی ہے ہماری۔

غلام رسول نے چارپائی پر لیٹتے ہوئے کہا۔ نیک بختے ہم نے شریکے بازی نہیں کرنی تو کیا پتا کوئی ہم سے کر لے۔

کیا مطلب ہے تیرا؟ شہناز نے پوچھا

تجھے نہیں یاد کہ پچھلے ہاڑ جیٹھ میں جب یہ بھوری بھینس چوری ہو گئی تھی تو یہ ملک حیات ہی تھا جس نے بھاگ دوڑ کر کے تین دن میں واپس موڑ لی تھی۔ ورنہ تجھے معلوم ہے اچے پنڈ والے کسی کی گائے بھینس کھول لیں تو مر جاتے ہیں پر ڈنگر واپس نہیں موڑتے۔ اور جب نمبردار سے ہمارا پانی کا مسئلہ بنا تھا تو ملک حیات نے ہی بھری پنچایت میں میری حمایت کی تھی ۔ غلام رسول نے ملک حیات کے احسان گنوائے

شہناز منہ میں کچھ بڑبڑاتی ہوئی چارپائی پر جا بیٹھی ۔ وہ لاجواب ہو گئی تھی لیکن پھر بھی غلام رسول کو اس سب سے باز رکھنا چاہتی تھی۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یہ لوگ کسی کے سگے نہیں ہوتے۔ ان کے ہر کام کے پیچھے ان کا کوئی اپنا فائدہ ضرور چھپا ہوتا ہے

غلام رسول نے شہناز کو خاموش دیکھا تو پھر کہا۔ اور اک بیٹی ہے ہماری اس لئے میں یہ کر رہا ہوں۔ کوئی بیٹا ہوتا ہمارا تو پھر مجھے کس کی ضرورت تھی۔ کل کو ہر جگہ میرے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا ہوتا۔

شہناز نے غلام رسول کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ یہ بات نہ کر غلام رسول تجھے ہی جلدی تھی شادی کے بعد شہر جا کے کمانے کی۔ اور گیا بھی ایسا کہ اک عرصے تک واپس نہ پلٹا اور جب آیا بھی تو ناکارہ ہو کر۔

غلام رسول نے اپنی پائنتی کی طرف گم سم بیٹھی رمشاء کو اک نظر دیکھا اور شہناز سے کہا۔ اچھا سو جا اب۔ مجھے بھی اب نیند آ رہی ہے۔ سارے دن کا تھکا ہوا ہوں۔

جا میری دھی تو بھی سو جا۔ غلام رسول نے رمشاء سے کہا تو رمشاء نے جواب دیا۔ نہیں ابا لا میں تیری ٹانگیں دبا دوں۔ اماں کو تو اور کوئی کام نہیں ہر وقت تجھ سے لڑتی رہتی ہے۔ 

غلام رسول یہ سن کر ہنس دیا۔

اگلے دن منہ اندھیرے غلام رسول نے دودھ دھویا اور بھینسوں کو چارہ ڈال کے ہاتھ دھو کے چارپائی پر آ بیٹھا۔ شہناز نے ناشتہ رمشاء کو پکڑایا۔ رمشاء ناشتہ لے کر باپ کے پاس آئی تو غلام رسول نے رمشاء کو کہا۔ بیٹھ جا میری دھی میرے پاس ۔ اور ناشتہ کرنے لگا

رمشاء باپ کے پاس ہی بیٹھ گئی۔

رمشاء نے جھجکتے ہوئے باپ سے پوچھا۔ ابا آج بھی جاؤ گے ملکوں کے ڈیرے پہ؟

ہاں پتر جاؤں گا۔ آج ملک حیات کے ساتھ مراد پور جانا ہے ووٹ مانگنے۔ غلام رسول نے کھانا کھاتے ہوئے کہا

ابا کیا ملک جیت جائیں گے اس بار ؟ رمشاء نے تجسس سے پوچھا

پتر ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ چوہدریوں کا بھی اس بار بڑا زور ہے۔ اور مجھے تو ابھی تک چوہدریوں کا پلہ بھاری لگتا ہے۔ غلام رسول نے جواب دیا

پھر ابا ملک حیات کیسے جیتے گا؟ رمشاء نے پھر پوچھا

میری دھی ملک حیات بڑا سیانا بندہ ہے۔ اس کھیل کا بڑا پرانا کھلاڑی ہے۔ میں نے یہی یوچھا تھا اس سے۔ کہتا تھا کہ چاچا فکر نہ کر ہم ہی جیتیں گے۔ چوہدری قابو نہ آئے تو اک اور چال بھی ہے میرے پاس۔

رمشاء نے کھانے کے برتن سمیٹتے ہوئے پھر پوچھا۔ ابا وہ کیا چال ہے جو ملکوں کو جتوا دے گی؟

غلام رسول نے ہنس کے کہا۔ او پتر اس چال کا مجھے کیا پتا۔ اتنی اندر کی باتیں ملک کسی کو نہیں بتاتا۔ اچھا جا یہ برتن جا کے ماں کو دے آ نہیں تو وہ پھر شروع ہو جائے گی۔ غلام رسول نے اٹھتے ہوئے کہا

رمشاء برتن لے کر چلی گئی اور غلام رسول نے چادر کندھے پر رکھی اور باہر کو چل دیا۔ شہناز تاسف سے غلام رسول کو باہر جاتے دیکھتی رہی۔ 

رمشاء گھر کے کام کاج بھی کر رہی تھی اور مسلسل غلام رسول کی باتوں پر غور کر رہی تھی۔ اس کی ہمدردیاں بھی ملکوں کے ساتھ تھیں۔ کیونکہ اس کا جان سے پیارا باپ ملکوں کا حمایتی تھا۔ وہ بھی دل سے چاہتی تھی کہ ملک جیت جائیں۔

پھر اسے چال والی بات یاد آئی اور وہ اس بارے میں سوچنے لگی کہ پتا نہیں ملک حیات کون سی چال چلے گا کہ ہار جیت میں بدل جائے گی۔

رات کو غلام رسول واپس گھر آیا تو اداس سا تھا۔ شہناز نے کھانا سامنے رکھا اور پوچھا۔ کیا بات ہے غلام رسول خیر تو ہے؟

کچھ نہیں نیک بختے۔ بس ویسے ہی۔ غلام رسول نے افسردگی سے کہا

لیکن منہ کیوں اترا ہوا ہے تیرا؟ شہناز ںے پھر پوچھا

اتنے میں رمشاء بھی باپ کی چارپائی پر آ بیٹھی۔ اس نے بھی ماں والا سوال دہرایا۔

کچھ نہیں پتر۔ تجھے بتایا تھا نا مراد پور جانا ہے آج۔ تو بس اس لئے۔ غلام رسول نے رمشاء کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر کر کہا۔

لیکن اس میں اداس ہونے والی کیا بات ہے؟ رمشاء کی بجائے شہناز نے پوچھا

کیونکہ مراد پور والوں نے ملکوں کو ووٹ دینے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ غلام رسول نے کھانے کے برتن پرے کرتے ہوئے کہا

اچھا تو اس میں ایسی کیا بات ہے بھلا۔ تو کھانا تو کھا لے۔ شہناز نے برتن پھر آگے رکھتے ہوئے کہا۔

بات ہے ایسی۔ مراد پور بہت وڈا پنڈ ہے۔ اگر وہ ہی ووٹ نہیں دیں گے تو ملک آج ہی ہارے سمجھو۔ غلام رسول نے جواب دیا

مراد پور والے ووٹ کیوں نہیں دیں گے ابا؟ اب رمشاء نے سوال کیا

پتر وہ کہتے ہیں کہ ان کی اور نور والا کے جھگڑے میں ملکوں نے نور والا کے لوگوں کا ساتھ دیا تھا ۔ اس لئے ہم اب ملکوں کو ووٹ نہیں دیں گے۔ غلام رسول نے تاسف سے بتایا

تو ابا اب ملک کیا کریں گے؟ رمشاء نے پوچھا

پتا نہیں پتر, کل جاؤں گا تو پتا چلے گا کہ اب آگے کیا ہوتا ہے۔ غلام رسول نے لیٹتے ہوئے جواب دیا۔

اچھا ابا اٹھ کھانا تو کھا لے۔ رمشاء نے کھانا پکڑ کے کہا

اچھا میری دھی تو کہتی ہے تو کھا لیتا ہوں۔ غلام رسول اٹھ کر بیٹھ گیا۔ رمشاء نے کھانا چارپائی پر رکھا اور ساتھ ہی بیٹھ گئی۔

شہناز کچھ دیر تو باپ بیٹی کی باتیں سنتی رہی پھر اٹھ کر کھانے کے برتن دھونے چلی گئی

ابا تو اداس نہ ہو۔ خود ہی تو کہتا ہے کہ ملکوں کے پاس کوئی چال بھی ہے۔ رمشاء نے معصومیت سے کہا

غلام رسول نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ ہاں پتر کہتا تو ملک حیات ایسا ہی تھا۔ دیکھتے ہیں اب کیا ہوتا ہے۔ غلام رسول نے کہا

اگلے دن صبح ابھی غلام رسول حقہ تازہ کر ہی رہا تھا کہ ملکوں کا ملازم اسلم غلام رسول کیلئے ملک حیات کا پیغام لے کر آ گیا۔ غلام رسول نے جلدی جلدی حقہ تازہ کر کے ایک طرف رکھا اور اسلم کے ساتھ چلا گیا۔

رمشاء نے شہناز سے کہا۔ اماں ابا آج ناشتہ کئے بغیر ہی چلا گیا۔

ہاں پتر آج ملکوں نے جلوس نکالنا ہے اسی لئے تیرے ابے کو بھی بلا بھیجا ہے۔

ماں بیٹی کام میں مصروف ہو گئیں۔ لیکن رمشاء کا دھیان ہر وقت باپ اور ملکوں کے الکیشن کی طرف ہی رہا۔

مغرب سے تھوڑا پہلے گھر کا لکڑی کا دروازہ کسی نے زور سے کھٹکھٹایا۔ شہناز جو کہ بھینسوں کے آگے پانی رکھ رہی تھی , دوپٹہ اٹھا کے دروازے کی طرف گئی۔ 

کون ہے ؟ تھوڑا صبر کرو, آ رہی ہوں۔ شہناز نے یہ کہتے ہوئے دروازہ کھولا تو سامنے اسلم کھڑا تھا

کیا بات ہے اسلم؟ شہناز نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا

دروازہ کیوں پیٹ رہے ہو؟

ماسی ۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ چاچے غلام رسول کو چوہدریوں نے گولی مار دی ہے۔ ملک صاحب اسے لے کر ہسپتال گئے ہیں اور مجھے تجھے لانے کیلئے بھیجا ہے۔

شہناز یہ خبر سنتے ہی بین کرنے لگی۔ رمشاء بھی ماں کی آواز سن کر اندر سے بھاگتی ہوئی آئی۔ جب اسے معلوم ہوا تو وہ دروازے کے پاس ہی بے ہوش ہو کر گر پڑی۔

 

آج غلام رسول کے قتل کو پانچواں دن تھا۔ شہناز صحن میں چٹائی پر کچھ عورتوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔ عورتیں غلام رسول کی موت کا افسوس کر رہی تھیں اور شہناز کو تسلیاں دے رہی تھیں۔ رمشاء نے جب سے باپ کے قتل کی خبر سنی تھی نہ کچھ بول رہی تھی اور نہ ہی رو پائی تھی۔ بس خالی خالی نظروں سے دیکھتی رہتی تھی۔

بہن کیا وجہ بنی اس ظلم کی؟ اک عورت نے شہناز سے پوچھا

کیا بتاؤں صغریٰ۔ ملکوں نے جلوس نکالا تھا اور غلام رسول بھی ساتھ تھا۔ آگے چوہدریوں کے بندوں سے سامنا ہو گیا۔ وہاں ملکوں اور چوہدریوں میں کسی بات پہ جھگڑا ہو گیا اور گولیاں چل گئیں۔ ان میں سے اک گولی اس بدنصیب کو آ لگی ۔ بتاتے ہوئے شہناز رونے لگی اور رمشاء کو اپنے ساتھ لگا لیا۔

بہن پرچے کا کیا ہوا؟ اک دوسری عورت نے پوچھا

چوہدری کہتے ہیں ہم سے قرآن پہ قسم لے لو ہم نے گولیاں نہیں چلائیں ۔ ملکوں نے کٹوا دیا ہے پرچہ چوہدریوں پر ۔ پر کیا بنتا ہے پرچوں سے یہاں۔ شہناز نے جواب دیا

یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ باہر سے کچھ شور سنائی دینے لگا۔ آہستہ آہستہ شور بلند ہونے لگا۔ اس میں ڈھول کی آواز بھی واضح ہونے لگی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کچھ لوگ نعرے لگا رہے ہیں 

بے شرموں کو یہ بھی خیال نہیں کہ پنڈ میں مرنا ہوا ہے۔ ایک عورت نے کہا

اتنے میں گاؤں کی اک عورت گھر میں داخل ہوئی تو شہناز نے پوچھا۔ یہ کیسا شور ہے جنتے؟

بہن سنا ہے کہ ملک الیکشن جیت گئے ہیں۔ اس لئے وہ جشن منا رہے ہیں۔ عورت نے شہناز کے پاس بیٹھتے ہوئے جواب دیا

ملک کیسے جیت گئے ہیں ؟ ابھی تو الیکشن میں چار دن ہیں ۔ شہناز نے حیرت کا اظہار کیا تو جنتے شہناز کو بتانے لگی

بہن میرا پتر اختر بتا رہا تھا کہ چوہدری غلام رسول کے مقدمے میں پھنس گئے تھے۔ انہوں نے ملکوں سے کہا کہ تم مقدمہ واپس لے لو اور ہم تمہارے مقابلے میں الیکشن نہیں لڑتے۔ ملک مان گئے اور چوہدریوں نے درخواست واپس لے لی ہے۔ اب جب مقابلے میں ہی کوئی نہیں رہا تو ملک جیت ہی گئے۔

یہ بات رمشاء نے سنی تو اک چیخ مار کے اٹھی اور باہر کو یہ چلاتے ہوئے بھاگی , چال ۔۔۔۔ چال۔۔۔۔ ملک۔۔۔۔ چال 

۔۔۔۔۔۔۔

عمر شریف