لاتوں کے بھوت

2019-04-16 10:47:48 Written by فہمی فردوس

لاتوں کے بھوت

میرا پورا نام، ڈاکٹر شکیل ہمدانی ہے۔ میں ایک مشہور و معروف سائیکالوجسٹ ہوں۔ پیچیدہ سے پیچیدہ کیسز کو آسانی سے سالو کرنے کی اہلیت رکھتا ہوں۔

 بچوں کی نفسیات اور مسائل سمجھنے میں، مجھے خصوصی ملکہ حاصل ہے۔ ان کی الجھی ہوئی نفسیاتی گتھیوں کو اپنی پیشہ ورانہ قابلیت اور مہارت سے باآسانی سلجھا لیتا ہوں۔

 یوں تو میں زندگی میں کئی طرح کے مشکل اور اپنی طرز کے انوکھے معاملات کو ہینڈل کر کے، ذہنی طور پر بیمار لوگوں کو صحت مند اور نارمل زندگی کی طرف واپس لانے میں کامیاب رہا ہوں۔

 مگر ایک دن میرے پاس ایک ایسا کیس آیا۔ کہ جس نے مجھے بھی سوچنے اور چونکنے پر مجبور کردیا۔

 میرے سامنے ادھیڑ عمر کا جوڑا( میاں بیوی) چہروں پر پریشانی اور تفکر سجائے بیٹھا تھا۔

 دونوں میاں بیوی چالیس سے پنتالیس کے پیٹے میں ہونے کے باوجود خوش شکل اور باوقار دکھائی دیتے تھے۔ 

ان کی ظاہری پوزیشن انہیں مطمئن اور آسودہ حال ظاہر کر رہی تھی۔

 "جی فرمائیے... میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔؟" میں نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے پوچھا۔

 "میرا نام ناصر احمد جنجوعہ ہے۔ اور یہ میری بیگم خیرالنسا ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ہم دونوں میاں بیوی اپنے بیٹے کے سلسلے میں بہت پریشان ہیں۔" مرد نے اپنا تعارف کروانے کے ساتھ اپنا مسئلہ بھی کسی حد تک بیان کر دیا۔

"کیا مسئلہ ہے آپ کے بیٹے کے ساتھ۔؟" میں نے پوچھا۔

 "شرجیل ہمارا سب سے بڑا بیٹا ہے۔ اس کی عمر پندرہ سال ہے۔ اس کا رویہ ہمارے ساتھ بہت نامناسب اور الجھا ہوا سا رہتا ہے۔"

"کیا بدتمیزی سے پیش آتا ہے آپ کے ساتھ۔؟"

 "ہاں جی! کئی دفعہ تو ساری حدیں پار کر جاتا ہے۔ بہت دل دکھتا ہے۔" ناصر صاحب افسردگی سے بولے۔

"آپ کا رویہ اپنے بیٹے کے ساتھ کیسا ہے۔؟"

 "میرے خیال میں ہماری طرف سے کسی قسم کی، کوئی کمی یا کوتاہی نہیں ہے۔ ڈاکٹر کیا آپ یقین کریں گے، کہ ہم دونوں میاں بیوی نے شرجیل سے اتنی محبت کی ہے کہ جس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ پھولوں کی طرح اس کی پرورش کی ہے۔ اس کی ایسی کونسی ضد اور فرمائش ہے۔ جو ہم نے پوری نہیں کی۔" اس کی آواز بھرا گئی۔

ناصر صاحب کی بیگم بھی بہت رنجیدہ دکھائی دینے لگیں۔

کمرے کی فضا سوگوار سی ہو گئی تھی۔

"تعجب کی بات ہے۔ کیا آپ کی اور اولادیں بھی ہیں۔؟" میں نے پوچھا۔

 "جی ہاں دو بیٹے اور ہیں۔ وہ دونوں اس سے چھوٹے ہیں۔ اور ان کے ساتھ ہمارا رویہ ایسا نہیں ہے۔ میرا مطلب ہے، ان کے ہم اتنے زیادہ لاڈ نہیں اٹھاتے۔

 ان کو غلطی کرنے پر ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے ہیں۔ اور ضرورت پڑے تو ان کی پٹائی بھی ہوجاتی ہے۔ لیکن شرجیل کے ساتھ کبھی ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بڑے سے بڑے نقصان پر بھی ہم نے اسے ہمیشہ سینے سے لگا لیا۔ مگر پھر بھی اس کا رویہ ہمارے ساتھ، دن بدن تلخ سے تلخ ہوتا جا رہا ہے۔ اب تو وہ ہماری شکلیں بھی دیکھنے کا روادار نہیں ہے۔" ناصر صاحب کی آواز میں بے پناہ دکھ تھا۔ کوئی باپ ہی ایسے کرب کا اندازہ لگا سکتا ہے۔

 "اب جس بات نے ہمیں بہت زیادہ پریشان کیا ہے۔اور آپ کے پاس آنے پر مجبور کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس نے اچانک تعلیم چھوڑ دینے کا اعلان کردیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں اب مزید نہیں پڑھ سکتا۔"

"کون سی کلاس کا طالب علم ہے وہ۔؟"اس بات نے مجھے بھی پریشان کر دیا۔

 "میٹرک کا طالب علم ہے۔ پڑھائی میں بہت تیز ہے۔ بہت اچھے نمبر لے کر اس نے نویں جماعت پاس ہے۔ اور اب اچانک سکول جانے سے انکار کر دیا ہے۔"

 ناصر صاحب کی باتیں سن کر میں سوچ میں پڑ گیا۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد کیس تھا۔

 "کیا شرجیل کا رویہ صرف آپ دونوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے؟ یا باقی لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ری ایکٹ کرتا ہے؟"

 "یہی تو دکھ کی بات ہے۔ اس کا رویہ صرف ہمارے ساتھ ہی بے زار کن ہوتا ہے۔ باقی لوگوں سے، بلکہ اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں سے بھی اس کا رویہ بہت خوشگوار اور اپنایت بھرا ہوتا ہے۔"

"ہمم....کیا شرجیل آپ کے ساتھ آیا ہے؟"

"نہیں... اس نے ہمارے ساتھ آنے سے صاف انکارکر دیا۔"

 "مگر اس کا علاج کرنے کے لئے میرا اس سے ملنا نہایت ضروری ہے۔" میں نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔

 "آپ خود ھی بتائیے ڈاکٹر صاحب! زبردستی اسے آپ کے پاس کیسے لا سکتے تھے؟ وہ کوئی چار پانچ سال کا بچہ تو ہے نہیں، کہ جسے زبردستی اٹھا کر لے آتے، پندرہ سولہ سال کا نوجوان ہے۔" ناصر صاحب بے بسی سے بولے۔ تو میں بھی لا جواب ہو گیا۔ کچھ لمحے سوچنے کے بعد میرے ذہن میں ایک تجویز آئی۔

 "کیوں نہ میں آپ کے گھر جاکر اس سے ملاقات کر لوں؟ مگر آپ میرا تعارف اس سے، اپنے دوست کی حیثیت سے کروائیں گے، ڈاکٹر کی حیثیت سے نہیں۔"

 "اوکے ڈاکٹر صاحب! جیسا آپ کہیں۔ تو پھر کب تشریف لا رہے ہیں آپ ہمارےغریب خانے پر۔؟" میری تجویز سن کر ناصر صاحب پر امید نظروں سے میری طرف دیکھنے لگے۔

"صبح کس وقت تک جاگ جاتا ہے وہ۔؟"میں نے پوچھا۔

 پہلے تو سات بجے تک جاگ جاتا تھا اور تیار ہو کر سکول چلا جاتا تھا۔ مگر اب کچھ دنوں سے نو بجے سے پہلے کمرے سے باہر نہیں نکلتا۔ اور وجہ صاف ظاہر ہے کہ سکول جانا چھوڑا ہوا ہے۔"

"اوکے ناصر صاحب۔ میں کل صبح دس بجے آپ کے گھر ہونگا۔ کلینک میں، میں عموما گیارہ بجے تک آتا ہوں۔یہ ایک گھنٹہ میں شرجیل کے ساتھ گزاروں گا۔ شاید امید کی کوئی کرن دکھائی دے جائے۔"

"اگر ایسا ہو جائے تو میں آپ کا تا زندگی ممنون رہوں گا ڈاکٹر صاحب! آپ نہیں جانتے کہ اس لڑکے کی وجہ سے ہم دونوں کو کس قدر ذہنی اذیت اٹھانا پڑ رہی ہے۔" اس نے کھڑے ہو کر ممنونانہ انداز میں مجھ سے مصافحہ کیا اور اپنی بیگم کے ہمراہ باہر نکل گیا۔

میرا ذہن الجھ سا گیا۔عموما یہ دیکھا گیا ہے کہ جن بچوں کو والدین کی توجہ یا پیار نہیں ملتا اور جن پر ماں باپ بے جا سختی کرتے ہیں۔ وہ بچے انتقاماً برباد ہوجاتے ہیں۔نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ لیکن یہاں تو کسی قسم کی سختی نہیں تھی۔ بلکہ پیار ہی پیار تھا۔

یہ کیس میرے لیے ایک چیلنج تھا۔

###

پورے دس بجے میں ناصر صاحب کے بنگلے کے باہر کھڑا ان کے دروازے کی ڈور بیل بجا رہا تھا۔

چوکیدار نے گیٹ کھولا۔

اور مجھے بڑے عزت و احترام کے ساتھ اندر لے گیا۔ مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا۔

ناصر صاحب پرتپاک انداز میں آکر مجھ سے ملے۔ اور پھر شرجیل کو میرے پاس لایا گیا۔

وہ دبلی پتلی جسامت رکھنے والا ایک خوبرو لڑکا تھا۔ چہرے سے ہی اکھڑا اکھڑا اور ناراض سا دکھائی دے رہا تھا۔

میں نے اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر اس کے ساتھ بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔ اس کا رویہ بھی میرے ساتھ بہت نرم اور مہذب تھا۔

ملازم چائے لے کر آیا۔ تو ہم تینوں چائے پینے لگے۔ چائے پینے کے دوران ہلکی پھلکی باتیں ہوتی رہیں۔ شرجیل صرف ہوں ہاں میں جواب دیتا رہا۔

چائے پینے کے بعد ناصر صاحب کوئی بہانہ بنا کر ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئے۔

اب ہم دونوں تنہا رہ گئے۔ باپ کے سامنے شرجیل نے بہت کم بات چیت کی۔

مگر باپ کی غیر موجودگی میں، وہ جلدی ہی مجھ سے گھل مل گیا۔ 

میں دوستانہ انداز میں بالکل غیر محسوس طریقے سے اس سے اپنے مطلب کی باتیں پوچھتا چلا گیا۔میں نے کچھ اس طرح کا انداز اپنایا کہ وہ خوشی خوشی میری ہر بات کا جواب دے رہا تھا۔

اسے دیکھ کر کوئی یقین نہیں کر سکتا تھا کہ اس کا رویہ اپنے ماں باپ کے ساتھ اس قدر ہتک آمیز اور سرد مہر رہتا ہوگا۔

تقریبا پونے گھنٹے بعد جب ناصر صاحب واپس ڈرائنگ روم میں آئے۔ تو ہم دونوں کو آپس میں یوں ہنستا کھیلتا دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ان کے چہرے پر رونق سی آگئی۔

میں نے رخصت ہونے کی اجازت طلب کی ناصر صاحب مجھے الوداع کرنے کی خاطر گیٹ تک چلے آئے۔ اور گرم جوشی سے مصافحہ کرتے ہوئے بولے۔ 

"آپ کے پاس کوئی جادو ہے ڈاکٹر صاحب! میں نے آج پتا نہیں کتنے عرصے کے بعد اپنے بیٹے کو یو ں ہنستے مسکراتے دیکھا ہے۔" 

"اس کی ذہنی الجھن کا سرا مل گیا ہے ناصر صاحب! بس ایک سیشن کرنا ہوگا اس کا۔ آپ اسے کل میرے کلنیک پر لے کر آ جائیں۔" 

"مگر وہ آنے سے انکار کر دے گا۔"وہ لاچاری سے بولے۔ 

"نہیں کرے گا انکار۔ میں نے اس سے وعدہ لے لیا ہے۔ آپ اسے لے کر آ جائیے گا۔" میں نے خوش دلی سے ناصر صاحب کا ہاتھ تھپکا۔ اور ان سے رخصت ہو کر اپنے کلینک آگیا۔

####

اگلے دن ناصر صاحب شرجیل کے ہمراہ میرے کلینک میں میرے سامنے بیٹھے تھے۔

میں نے ناصر صاحب کو باہر بھیج دیا اور شرجیل کے ساتھ ایک سیشن کیا۔

اور یہ سیشن میری توقع سے بھی زیادہ کامیاب رہا۔ میں نے دونوں باپ بیٹے کو رخصت کر دیا۔ اور ساتھ ہی ناصر صاحب کو کہہ دیا۔ کہ "کل آپ اکیلے میرے پاس تشریف لائیں۔"

انہوں نے آنے کی یقین دہانی کرائی۔ اورچلے گئے۔

###

ناصر صاحب میرے سامنے بیٹھے، پر اشتیاق نگاہوں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں مسکراتی نظروں سے چند لمحوں تک ان کے پر تجسس چہرے کا جائزہ لیتا رہا پھر بولا۔

"سب سے پہلی بات تو یہ ہے ناصر صاحب! کہ آپ نے وہ کہاوت تو ضرور سنی ہوگی، کہ ڈاکٹر اور وکیل سے کچھ نہیں چھپانا چاہیے۔ پھر آپ نے اس کہاوت پر عمل کیوں نہیں کیا۔؟"

میری بات سن کر ناصر صاحب حیرانی سے میری طرف دیکھنے لگے۔ 

"کیا مطلب... ڈاکٹر صاحب! میں کچھ سمجھا نہیں۔" 

"مطلب یہ، ناصر صاحب! آپ نے مجھ سے اتنی بڑی بات کیوں چھپائی۔؟"

"کون سی بات۔؟"

"یہی کہ، شرجیل آپ کا اپنا بیٹا نہیں ہے۔"

میری بات سن کر ناصر صاحب یوں چونکے۔ جیسے پاؤں پر کسی بچھو نے ڈنگ مار دیا ہو۔ "آپ کو یہ بات کس نے بتائی ڈاکٹر صاحب۔؟"ان کے منہ سے سرسراتی آواز بر آمد ھوئی۔ م

"مجھے یہ بات شرجیل کے ذریعے پتا چلی ہے۔" میں نے پرسکون لہجے میں جواب دیا۔ 

"کیا؟؟ کیا کہہ رہے ہیں آپ۔؟؟" ناصر صاحب کے سر پر گویا آسمان گر پڑا۔

"پہلے آپ اس بات کی تصدیق کریں کہ کیا یہ سچ ہے۔؟"

"جی یہ سچ ہے۔ مگر شرجیل تو اس وقت صرف تین سال کا تھا، جب اس کے ماں باپ کی ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں ڈیتھ ہوئی۔ اور یہ معجزانہ طور پر بچ گیا تھا۔ شرجیل میرے بڑے بھائی کی اولاد ہے۔ مگر میں نے اسے ہمیشہ اپنی اولاد سے بڑھ کر چاہا ہے۔اسے کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا، کہ یہ ہماری سگی اولاد نہیں ہے۔ مگر تین سال کا بچہ یہ سب کچھ کیسے یاد رکھ سکتا ہے۔؟" وہ ناقابل یقین نظروں سے میری طرف دیکھنے لگے۔

"یہ سچ ہے ناصر صاحب۔ ماں باپ کی موت کا وہ حادثہ، اس کے ذہن میں نقش ہو کر رہ گیا ہے۔"

"اوہ میرے خدا.... یہ تو بہت بڑا انکشاف ہے۔مگر ہم نے تو اسے اپنی جان سے زیادہ بڑھ کر چاہا ہے۔"

"بس یہی اس کی زندگی میں ایک کمی رہ گئی تھی۔جس نے اسے نفسیاتی مریض بنا دیا۔یہ انسان کی فطرت ہے ناصر صاحب! اس پر سختی کی جائے تو وہ نرمی کو ترستا ہے۔ اور اگر حد سے زیادہ نرمی برتی جائے تو سختی کی خواہش کرتا ہے۔"

"عجیب بات ہے۔"ناصر صاحب زیر لب بڑ بڑائے۔

"یہ آپکی غلطی ہے۔ کہ آپ نے اسے حد سے زیادہ پیار دیا۔ آپ کا رویہ اس کے ساتھ غیر فطری رہا ہے۔ آپ اپنے بچوں کو تو ڈانٹتے اور مارتے تھے۔ لیکن اسے کبھی ہاتھ تک نہیں لگایا۔ اور یہ بات اس کے ذہن میں بیٹھ گئی، کہ آپ دونوں اسے اپنی اولاد نہیں سمجھتے۔ غیر سمجھتے ہیں۔ مہمان سمجھتے ہیں۔ ورنہ کبھی تو ڈانٹتے کبھی تو مارتے۔ لیکن آپ نے کبھی ایسا کچھ نہیں کیا۔ اس لئے وہ آپ کو ضد اور غصہ دلانے کے لیے بے تکی حرکتیں کرتا رہا۔ نقصانات کرتا رہا۔ لیکن آپ اسے ڈانٹنے کی بجائے اور زیادہ پیار کرنے لگتے۔ محرومی کے اس احساس نے اسے ضدی اور خود سر بنا دیا۔"

میں اپنی بات مکمل کر کے ناصر صاحب کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لینے لگا۔

"او میرے خدا! اب ساری بات مجھے سمجھ میں آرہی ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی ضدیں منوانے کے بعد، اب اپنی انتہا پر چلا گیا۔ یعنی ہمیں زچ کرنے کے لیے تعلیم چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔"

"جی... اس بات کے پیچھے بھی اس کی یقینا یہی خواہش کار فرما ہو گی کہ آپ اسے ڈانٹیں۔ اسے ماریں۔"

"تو اب مجھے کیا کرنا ہوگا۔؟" ناصر صاحب نے پوچھا۔

"ابھی بھی آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں؟ اب تک تو آپ کو پوری بات سمجھ جانا چاہیے تھا۔" میں مسکرایا۔

"میں واقعی نہیں سمجھا۔" انہوں نے معصومیت بھرے انداز میں جواب دیا تو میں نے بمشکل اپنی ہنسی دبائی۔

"سیدھی سی بات ہے آپ کے برخودار کو ٹھکائی کی اشد ضرورت ہے۔ گھر جائیں اور اس کی تسلی بخش ٹھکائی کریں۔ سارا مسئلہ چٹکی بجاتے حل ہو جائے گا۔ اور ہاں اب سے آپ کو اپنا رویہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ امید ہے،جلدی ہی خوش خبری سنائیں گے مجھے۔" میں شرارت آمیز انداز میں ہنسا،تو وہ بھی مسکرا دئیے۔

###

تین ماہ بعد وہ ایک عدد مٹھائی کے ڈبے کے ساتھ پھر سے حاضر ہوئے۔

ان کا کھلا ہوا چہرہ دیکھ کر ہی میں سمجھ گیا۔ کہ ان کا مسئلہ حل ہو چکا ہے۔ وہ بہت خوش اور مطمئن دکھائی دے رہے تھے۔

"جی ناصر صاحب! کہیے؛ کیا رہا؟"

"آپ نے جو ٹوٹکا بتایا، وہ سو فیصد کامیاب رہا جناب۔" انہوں نے پرجوش لہجے میں جواب دیا۔

"اچھا جی..... کیسے۔؟" 

"آپ کی ہدایت کے مطابق میں نے گھر جاتے ہی اسے وارننگ دی۔ کہ "کل تم نے سکول جانا ہے۔" اس نے بگڑ کر کہا۔ "میں اسکول نہیں جاؤں گا۔" میں نے مزید سخت لہجے میں کہا۔ "اگر تم سکول نہیں گئے تو میں تمھاری ٹانگیں توڑ دوں گا۔" اس نے حیرت اور بے یقینی کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ میری طرف دیکھا اور بولا۔ "توڑ دیں۔ مجھے پروا نہیں۔" یہ بات سن کر میں نے ایک زور دار تھپڑ اس کے چہرے پر رسید کر دیا۔ اور اس کے بعد لاتوں، گھونسوں اور تھپڑوں سے اس کی تواضع کرنے لگا۔ اس کی ماں کمرے سے بھاگی بھاگی باہر آئی۔ اور اس نے زبردستی اس کو مجھ سے چھڑوا یا۔ مار کھا کے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اور میرے قدموں میں گر پڑا۔ "مجھے معاف کر دیں پاپا۔ میں کل سے اسکول جاؤں گا۔ اور آپ جیسا کہیں گے۔ ویسا ہی کیا کروں گا۔ آئندہ کبھی آپ کو تنگ نہیں کروں گا۔ اور اس کے بعد اس کا رویہ ہمارے ساتھ بالکل نارمل ہوگیا۔ اب وہ ہماری ہر بات مانتا ہے۔ اور عزت و احترام سے پیش آتا ہے۔"

"واہ واہ۔۔۔یہ تو کمال ہو گیا۔" میں مسکرا کر بولا۔

"جی ڈاکٹر صاحب۔ آپ نے میری بہت بڑی مشکل کو حل کردیا۔ یہ لیں۔ مٹھائی کھائیں اور منہ میٹھا کریں۔" اس نے مٹھائی کا ڈبہ میری طرف بڑھایا۔ میں نے ایک گلاب جامن اٹھایا۔ اور منہ میں رکھتے ہوئے بولا۔

"لوجی ناصر صاحب! یہ معمہ تو حل ہو گیا۔ یعنی کہ "لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے"۔

اس بات پر ہم دونوں ہنسنے لگے۔