لیبر ڈے

2019-05-01 20:04:44 Written by تیمور احمد

جہازی سائز کے پلنگ پر لیٹے ہوئے اس نے کروٹ بدلی تو دیوار پر لگی گھڑی کی سوئیاں آٹھ بجنے کا اعلان کر رہی تھیں-وہ ہاتھ لمبا کر کے چادر پھر سے اوڑھنا لگا تھا کہ اس کی بیوی کمرے میں داخل ہوئی-” اٹھ بھی جائیے اب.... پھر کہیں گے کہ تقریب سے لیٹ ہو گیا“-اس کی بیوی چادر کھینچتی ہوئی بولی-

” تمہارے سرتاج کے بغیر تقریب شروع ہو سکتی ہے بھلا؟ ملک بھر کے بہترین مقررین میں سے ایک ہوں “-وہ پر غرور لہجے میں بولا -آدھا گھنٹہ مزید لیٹنے کے بعد وہ با دل نخواستہ بیڈ سے اٹھا اور باتھ روم میں گھس گیا-

غسل وغیرہ سے فارغ ہو کر وہ ناشتے کی پر پہنچا تو ناشتہ ابھی میز پر نہیں سجا ہوا تھا- ڈائننگ ٹیبل خالی دیکھ کر اس کا پارہ چڑھ گیا-” رمضی... رمضی... کدھر مر گئے ہو...“- وہ زور سے چلایا-” آیا صاحب جی..-ایک عجلت آمیز آواز سنائی دی اور اس کے ساتھ ہی ایک دبلا پتلا شخص ہاتھ میں دو ڈشیں اٹھائے تیزی سے کمرے میں داخل ہوا-

“کدھر دفع ہو گئے تھے... کب سے آوازیں دے رہا ہوں - ستر دفعہ کہا ہے کہ میرا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے - مگر تم کام چور سمجھتے ہی نہیں “-اس نے رمضی نامی شخص کو بری طرح لتاڑا-” سس سوری صاحب جی... ناشتہ بالکل تیار تھا بس آپ کا ہی انتظار کر رہا تھا-پہلے لگا دیتا تو پھر آپ کہتے ہیں کہ ٹھنڈا ہو گیا ہے“-رمضی جس کا سیدھا نام محمد رمضان تھا ڈرتا ہوا... صفائی پیش کرنے لگا -چٹاخ کی آواز آئی اور رمضی بے چارہ بمشکل گرنے سے بچا.. درمیانی جسامت کے مالک صاحب جی کا ہاتھ کافی بھاری تھا-” زبان لڑاتا ہے آگے سے زبان لڑاتا ہے... بد تمیز کہیں کے- کام تلاش کرتے وقت تو تم لوگ مسکین سی شکل بنا لیتے ہو اور بعد میں نخرے کرتے ہو“-صاحب جی شاید ابھی تھوڑی دیر مزید اسے جھاڑ پلاتے مگر پھر ایک نظر بازو پر بندھی گھڑی پر ڈال کر وہ ناشتہ کرنے لگے-

ناشتے کے بعد اس نے ایک بہترین لباس زیب تن کیا اور ڈرائیور کے ساتھ تقریب پر جانے کے لیے ہوٹل روانہ ہو گیا-اس کے جانے کے بعد سبھی ملازمین نے بے اختیار ایک ٹھنڈی سانس بھری-

گھر سے ہوٹل کی مسافت بیس کلو میٹر تھی مگر ڈرائیور کی تمام تر احتیاط کے باوجود اس کی بد قسمتی نے اسے گھیر لیا-ہوا یہ کہ ایک بلی اچانک سڑک پر آ گئی-اسے بچاتے ہوئے ڈرائیور کو ایکدم بریک لگانی پڑی جس کی وجہ سے پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے "صاحب جی" آگے کو اچھلے-بس پھر کیا تھا باقی کا سارا سفر ڈرائیور نے عجیب و غریب صلواتیں سنتے ہوئے طے کیا- پارکنگ میں کار پارک کرتے وقت بے چارے پارکنگ بوائے کی قسمت بھی شاید خراب تھی جو وہ انہیں لائن میں گاڑی کھڑی کرنے کا اشارہ کر بیٹھا-

پورے پانچ منٹ پارکنگ بوائے نے اپنی شان میں مختلف بیان سنے - جن میں سر فہرست جاہل، بد تمیز اور دو ٹکے کا ملازم شامل تھے - دربان نے "صاحب جی" کو آتے دیکھ کر جلدی سے دروازہ کھولا اور سلام کیا-” صاحب جی“ نے نخوت سے سر ہلایا اور آگے جا کر اپنی مخصوص سیٹ پر بیٹھ گیا-تقریباً سبھی مہمان آ چکے تھے-تھوڑی دیر بعد تقریب کا آغاز ہو گیا- سبھی مقررین نے آج کے دن کی مناسبت سے فصاحت و بلاغت سے بھرپور تقریریں کیں-

صاحب جی کی باری آخر پر تھی کیونکہ ان کی تقریر کا دورانیہ لمبا تھا-

اپنی باری پر وہ نپے تلے قدم اٹھائے ہوئے سٹیج پر گئے-مائک پکڑا، ایک طائرانہ نگاہ سارے ہال پر ڈالی اور گویا ہوئے-

 

” میرے پیارے مزدور بھائیوں“کے اس عالمی دن کے موقع پر...... 

اس سے آگے بھی شاید گفتار کا وہ غازی کافی کچھ کہتا رہا اور سننے والے سحر زدہ سے ہو کر جھومتے رہے مگر” صاحب جی"کا ضمیر پہلے چند لفظوں پر ہی اٹک گیا تھا- 

پیارے، بھائی، مزدور... مزدور.. بھائی.. پیارے _____________