گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے

2019-05-06 16:37:26 Written by طاہر سراج

تحریر : طاہر سراج

"میسور کا شیر" 

گرم اور جھلساتی ہوئی چار مئی 1799 کی دوپہر - ہندوستان کی آخری امید سلطان فتح علی ٹیپو کبیدہ خاطر سرنگا پٹنم کے قلعے میں جلدی جلدی دوپہر کا کھانا کھا رہے ہیں - 

پورنیا دیوان اور میر صادق تھوڑی دیر پہلے فوجیوں کو تنخواہوں کا کہہ کر پیچھے لے گئے ہیں - 
توپوں کے دہانوں میں ریت بھر دی گئی ہے - 

اچانک خبر ملتی ہے کہ لارڈ ولزلے، جسے خاص طور پر ٹیپو سلطان کو شکست دینے کے مقصد سے افریقہ کے صحراؤں سے ہندوستان بلایا گیا ہے، کی فوجوں نے قلعے پر دھاوا بول دیا ہے - 
سلطان اپنے مٹھی بھر وفاداروں کے ساتھ قلعے سے باہر نکلتا ہے - کہ اچانک پیچھے سے دیوان پورنیا دروازه بند کر دیتا ہے - 4 مئی 1799 کو یہ دروازه 14 اگست 1947 تک کیلئے بند کر دیا جاتا ہے - تقدیر کے قاضی کا فتویٰ پیچھے بچ جانے والوں کیلئے مرگ مفاجات کی سزا تجویز کر چکا ہے -
 
سلطان چونک کر پیچھے دیکھتا ہے - اپنوں نے حفاظت کا آخری مورچہ بھی چھین لیا ہے - 
سامنے لارڈ ولزلے جیسا ظالم جرنیل کھڑا ہے - غداران ملک و ملت، اور انگریز سرکار کی فوج کے ساتھ - اس کے چہرے پر مکروہ مسکراہٹ ہے - جنگ کا پہلا مرحلہ وہ اپنی جنگی چال  کے عین مطابق جیت چکا ہے - 

سلطان کے پاس کھڑا علی قلی خان کہتا ہے، اب بچنے کی ایک ھی صورت ہے سلطان کہ آپ اپنا تعارف کروا دیں - 
"نہیں " 
سلطان شیر کی طرح دھاڑتا ہے - اور آن واحد میں سلطان سے سپہ سالار بن جاتا ہے - 1200 سال کی جنگی تاریخ رکھنے والا سپہ سالار - 
اپنوں کے تیروں سے چھلنی دل کے ساتھ کہتا ہے - "نہیں علی خان" - میں اپنا تعارف نہیں کرواؤں گا - اور پھر اپنا وہ مشہور زمانہ جملہ بولتا ہے جو قیامت تک انے والے بہادروں کیلئے مشعل راہ بن جاتا ہے - 
"علی خان، شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے " 
ان غداروں کی آنے والی نسلیں ایک ایک دانے کو ترسیں گی - 

اور پھر گھمسان کا معرکہ شروع ہوتا ہے - 
سلطان پہلے سالار، اور پھر سالار سے سپاہی بن جاتا ہے - 
سلطان تو تھا ہی غضب کا شمشیر زن - 
اکیلے فتح علی ٹیپو کی تلوار نے کئی صلیبی خاک و خون میں نہلا دیے - سلطان تو اللہ کے قہر کی مانند دشمن پر ٹوٹ رہا تھا - کہ اچانک ایک سنسناتی ہوئی گولی آئی، اور سینه تان کر لڑتے شیر کے سینے میں دل کے پاس اتر گئی - 

سلطان ابھی زخمی تھا آخری سانسیں لے رہا تھا کہ ایک انگریز سپاہی کی نظر ان کے سونے کے بیلٹ پر پڑ گئی - وہ ان کی بیلٹ اتارنے کو آگے بڑھا - مگر سلطان کی تلوار اپنا کام دکھا چکی تھی - آر پار ہو گئی اس کے سینے سے - انگریز سپاھی کی آنکھوں میں حیرت و حسرت تھی - جانتا نہیں تھا کہ اس کا ہاتھ کس شیر کے جسم سے بیلٹ اتارنے کو بڑھا تھا؟
 
چار مئی کو میسور کا آسمان بہت کھل کر برسا تھا  - بہت رویا تھا - بہت طوفانی بارش ہو رہی تھی - 
اتنی بارش کہ لاشیں پہچاننا مشکل ہو رہا تھا - مگر لارڈ کی ایک ہی ضد تھی کہ ٹیپو کی لاش کو ڈھونڈو - 
اور بالآخر بہت سے وفاداروں کے نیچے دبا ہوا ٹیپو کا جسد خاکی نظر آیا - 

لارڈ ولزلے نے اٹھ کر شیر میسور کے شہید جسد خاکی کو سیلوٹ کیا - اور وہ جملہ بولا جو اگلے دیڑھ سو سال کی تاریخ میں حرف بحرف سچ ثابت ہوا - "ٹیپو کی موت کا مطلب ہے  پورے ہندوستان پر سرکار انگلشیہ کا قبضہ" - 

ایک طرف قطار میں انگریز سپاہی اسلحہ پکڑے گارڈ آف آنر دے رہے ہیں - جبکہ دوسری طرف یہی رسم ہندوستانی سپاہی  ادا کر رہے ہیں - درمیان میں اس فوجی اعزاز کے ساتھ سلطان فتح علی ٹیپو کا جنازه بڑے کروفر اور شان سے جا رھا ہے - تاریخ میں کتنے جنگجوؤں کو یہ اعزاز ملا ہو گا کہ دشمن کی طرف سے اتنی عزت؟؟دشمن خود آخری رسومات کا اہتمام کرے؟؟؟

انگریز سپاہیوں نے اپنی بندوقوں کا رخ آسمان کی طرف کر کے ھوائی فائرنگ کی - اور اسی گارڈ آف آنر کے ساتھ ٹیپو شہید کو لحد میں اتارا گیا - 

لوگ چلے جاتے ہیں - اچھا کر کے جائیں یا برا - مگر چلے جاتے ہیں - پیچھے رہ جانے والوں کیلئے داستانیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں - اب یہ پیچھے ره جانے والوں کی پسند ہے کہ وه کس کا انتخاب کرتے ہیں - کیوں که ان کے انتخاب پر ہی آگے چل کر ان کی اپنی داستان بننی ہوتی ہے -