وہ چمکا ہلال عید

2019-05-30 21:24:36 Written by ماہ رخ ارباب

 

                 (وہ چمکا ہلال عید)

 

 "زلفی!ارے میرا بچہ کام میں جٹا ہے؟چلو ایسا کرو یہ نمٹا لو اپنا بکھیڑا تو یہ پیسے سامنے والی مسجد میں دے دیجیو۔میرا بچہ"

وہ تیزی سے اپنا یونی ورسٹی کا اسائنمنٹ مکمل کر رہا تھا جب اماں زور زور سے بولتی ہوئی اس کے پاس آکھڑی ہوئیں۔۔

"یہ کیسے پیسے ہیں اماں ؟اس نے ہاتھ میں تھامے ہزاراور پانچ پانچ سو کے چند نوٹوں پر نگاہ کی۔۔

"ارے نفیسہ کو اس کی ساس لے گئی ہے ہاسپٹل ،بس اللہ سب خیر خیریت رکھے ۔اپنے نبی پاک صل اللہ عیہ وسلم کے صدقے۔بس خیرات کے ہیں تو جاکر دے آئیو یاد سے ہاں!۔میں تیری پھپھو کے پاس بیٹھوں جاکر۔اللہ جانے یہ کیوں آ گئیں اس ٹائم روزے میں"

وہ جس طرح آنا فانا آئی تھیں یونہی ہانپتی کانپتی باہر نکل گئیں۔

نفیسہ ان کی اکلوتی شادی شدہ بیٹی کا نام تھا ۔جس کے گھر ہونے والی پہلوٹھی کی اولاد کا شوق اور گھبراہٹ ان کے ہاتھ پاؤں پھلائے دے رہا تھا ۔

اس نے جلدی جلدی کام نمٹایا اور اٹھ کھڑا ہوا۔بائک نکالتے ہوۓ اس کی نگاہ پھپھو پر پڑی جو ہمیشہ کی طرح اماں کے آگے سر جھکائے بیٹھی تھیں۔اماں کے آگے سر اٹھانا تو کبھی والد صاحب کو نہ آیا ،بیچاری پھپھو کی کیا مجال ۔وہ دل ہی دل میں ہنسا۔آج پہلا روزہ تھا اسی لحاظ سے طبیعت کی نازکی بھی سوا تھی۔گھر سے نکلتے ہی تیز دھوپ نے مزاج پوچھے تھے۔کریانے کی دکان سے گزرتے ہوۓ اس کی نگاہ ہل ہل کرتسبیح پڑھتے چاچا عبدالقدوس پر پڑی ،جو باقاعدگی کے ساتھ سنت نبوی کے مطابق اپنی ریش مبارک کو مہندی اور آنکھوں کو سرمے سے سجایا کرتے تھے۔۔۔

"کیا حال ہے چاچا؟!کیسا چل رہا ہے سب۔٬اس نے عادت کے مطابق رک کر احوال پوچھا۔۔تو ہلتے ہوۓ چاچا عبدالقدوس نے تسبیح ایک جانب رکھی اورسودا لینے کے لئیے کھڑے ایک بچے کی جانب متوجہ ہوۓ ۔جو دھنیہ لینے کے لئیے جانے کب سے آیاکھڑا تھا مگر چاچا کا ورد مکمل ہوتا تو اسے نمٹاتے ۔

ترازو کے ایک پلڑے میں چھوٹا سا باٹ رکھ کر چاچا نے دوسرے میں اخبار کا بڑا سا کاغذ دہرا کرکے جمایا ۔ پیمانے میں بھر کر تھوڑا سا دھنیہ کاغذ پرانڈیلا، تو پلڑا ذرا سا نیچے جھکااور ابھی ہوا میں دوسرے پلڑے سے کافی اوپر ہی معلق تھا کہ انہوں نے جلدی سے کاغذ سمیٹا اور بچے کو تھمادیا۔زلفی نے بغور ان کی کارروائی ملاحظہ کی مگر کچھ بھی کہنے سے گریز کیا۔وہ عمر میں بڑے تھے۔ اور ان کا کریانہ اسٹور زلفی کے والد صاحب کے دور سے چلا آرہا تھا۔پرانی عادتیں محض بولنے سے کہاں ختم ہوتی ہیں۔

"کیا پوچھتے ہو میاں!ارے کسی شے میں برکت ہی نہیں رہی ،ابھی کل ہی تمہاری چاچی کے جو گردے میں درد اٹھا تو پورے دو ہزار لگ گئے دواؤں پر۔اور ڈاکٹر الگ قصائی بنے بیٹھے ہیں۔دوائیں آۓ روز مہنگی۔۔کوئی پرسان حال نہیں ہمارا' جو ان سے پوچھےکہ کیوں مہنگائی بڑھائے جاتے ہو ظالمو"چاچا عبدالقدوس کا بولتے ہوئے لہجہ رقت آمیز ہوچلا تھا قریب تھا کہ ہچکیوں سے رونے لگتے۔ان کے پاس کہنے اور رونے کو بہت سے دکھڑے تھے۔

 وہ انہیں تسلی دلاسے دیتا اگے بڑھ گیا۔۔

مین روڈ پر پہنچ کر بھی اس نے بائک کی رفتار کم ہی رکھی۔ مسجد سے فاصلہ اتنا زیادہ نہ تھا کہ بائک کی ضرورت پڑتی، مگر تساہل پسندی کا کیا کیجئیے۔۔وہ روزے میں اپنا سحری میں پیا گیا پانی افطارتک جسم میں محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔ اسٹاپ سے گزرتے ہوۓ اسے ایک خاتون پر پھپھو ہونے کا شک سا گزرا تو گاڑی روک لی۔۔اور شبہ ٹھیک نکلا وہ پھپھو حلیمہ ہی تھیں۔

 مگر ان کا ہر وقت ہنستا مسکراتا چہرہ اس وقت آنسوؤں سے تر تھا۔

"پھپھو آپ رو رہی ہیں"وہ تشویش سے کہتا ہوا بائک سے نیچے اتر آیا۔

"ارے نہیں بیٹا بس یونہی!انہوں نے جھٹ آنسو پونچھے مگروہ زلفی ہی کیا جو یوں بہل جاۓ اس نے اگلوا کر ہی دم لیا ۔

 علم ہوا کہ پھپھا جو پچھلے پندرہ روز سے شدید علیل تھے ان کی بیماری سے پریشان پھپھو نے نہ جانے کس رو میں اماں سے یہ تذکرہ کردیا۔اور نتیجتا جو سخت سست سنیں اس سے دلبرداشتہ ہوکر وہاں سے تو چپ چاپ نکل آئیں مگر یہاں پہنچ کر آنسوؤں پر قابو نہ پاسکیں ۔اماں کا خیال تھا پھپھو اپنے دکھڑے سنا کر ان سے امداد کی خواہاں ہیں ۔زلفی نے بس ایک پل کو سوچا تھا۔اور پھر ایک فیصلہ کرکے پھپھو سے مخاطب ہوا۔

"چلئیےآپ کو گھر چھوڑ دوں ۔دھوپ میں کہاں بسوں میں پریشان ہوں گی"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزے بہت پرسکون گزر رہے تھے ۔اماں کو خیرات کرنا بہت پسند تھا ۔ کبھی مسجد تو کبھی کسی اور خیراتی ادارے کو پیسے بھجواتی رہا کرتی تھیں۔۔ایسے میں وہ ہر پانچ دس دن بعد ایک چکر پھپھو کے گھر کا لگا لیا کرتا۔پھوپھا صاحب بستر علالت سے تو اٹھ آئے تھے مگر طبیت میں نقاہت باقاعدگی سے فیکٹری جانے کی اجازت دینے پر راضی نہیں تھی۔جہاں وہ بطور سپروائزر تعینات تھے۔ایسے میں رمضان میں ان کے گھر کی صورتحال کچھ اچھی نہ تھی۔زلفی کے پہنچتے ہی ان کے ننھے ننھے بچوں میں خوشی کی لہر دوڑ جایا کرتی تھی۔کیوں کہ انہیں معلوم تھا زلفی بھیا کبھی خالی نہیں آتے۔ہمیشہ پھل فروٹ سے لدے پھندے ان کے گھر پہنچتے ہیں۔

آپی نفیسہ گھر آئیں تو اماں نے پورے محلے میں مٹھائی بانٹی۔

"بہت مشکل صورتحال تھی نفیسہ!ڈاکٹر بتا رہی تھی ۔میں نے تو سنتے ہی پیسے دے کر زلفی کو مسجد دوڑایا۔مولوی صاحب کو مسجد کی تزئین و آرائش کے لئیے ہر وقت اعلان کرتے سنتی ہوں ۔بس فورا خیال وہیں گیا۔ صدقہ خیرات کبھی رائگاں نہیں جاتا۔اللہ نے سن لی میری"

امی نے ننھے سے نواسے کو احتیاط سے کاٹ میں لٹایا۔ تو آپی نفیسہ نے مسکرا کر اپنے جگر گوشے کو دیکھا۔اسی وقت صحن میں کسی کی آمد کا شور گونجا۔

"ارے زلفی باہر جا کر تو بیٹھ ،عید کا دن مہمانوں کی آون جاون میں کہاں کہاں دیکھوں۔شیر خورمہ بنا کر رکھ دیا ہے ۔اس کے ڈونگے ٹیبل پر لگا۔اور ہاں چمچ اور پیالیاں بھول نہ جائیو ۔ہاں"اماں نے اسے باہر کی راہ دکھائی تو وہ اہنے خوبصورت کڑھائی دار کرتے پر بے بسی کی نگاہ ڈالتا باہر کو چل دیا۔

"اماں!میرے جانے کے بعد آپ نے تو اسے بالکل لڑکیوں کی طرح ٹرینڈ کردیا ہے" نفیسہ ہنسی۔

"ارے اور نہیں تو کیا!اب میں اکیلی جان کیا کیا دیکھوں۔بس نوکری سے لگ جائے تو دلہن لے آؤں اس پگلے کی بھی"اماں بھی مسکرائیں۔

باہر آنے والی پھپھو تھیں۔ پیچھے زرق برق لباسوں میں ملبوس ان کے بچے۔جو جمع شدہ عیدیوں کے دل کش بوجھ سے جیبیں بھرے نہال سےتھے۔

وہ آگے بڑھا کہ انہیں ڈرائنگ روم میں لے جائے مگر وہ تیزی سے زلفی کے پیچھے آتی اماں سے جا لپٹیں۔۔

"آپا میں کیسے شکریہ ادا کروں تمہارا۔تم نے میرے بچوں کی عید کرادی۔زلفی نے جب چپ چپاتے دس ہزار پکڑائے تو دل سے ہزاروں دعائیں نکلیں آپ کے اور بھائی جان کے لئیے۔ورنہ اس سال تو منے کے ابا کی بیماری نے میرے بچوں کی خوشیاں ہی چھین لی تھیں۔"پھپھو مستقل بولے جارہی تھیں اور اماں حیرت سے زلفی کو دیکھ رہی تھیں جو مجرموں کی طرح سر جھکائے کھڑا تھا۔انہوں نے مسکرا کر اسے دیکھا اور گلے سے لگی پھپھو کو خود بھی بھینچ لیا۔اور یہ خوبصورت منظر عید کی ان مبارک ساعتوں میں کہیں دور لکھے جا رہے اعمال ناموں میں محفوظ ہوگیا____

                        *******