دو چار ہاتھ جب

2019-06-14 10:51:46 Written by ماہ رخ ارباب

دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی تو ڈاکٹر عبدالودود نے ایک ثانیے کو نگاہ اٹھاکر دروازے کی جانب دیکھا۔ایک پل کو اسے یوں محسوس ہوا جیسے دل اپنی ایک دھڑکن مس کرگیاہو ،وہ کوئی دل پھینک انسان نہیں تھا ۔اپنے طویل پیشہ ورانہ کیرئیر میں اس نے ان گنت بار ایسے حسین چہرے بھی دیکھ رکھے تھے،جن کی تابانی سورج کو شرماتی تھی۔مگر یہ جلوہ تو قاتل ہوش و خرد ثابت ہوا تھا۔

وہ دروازے پر کھڑی اندر آنے کی اجازت طلب کر رہی تھی ۔

ڈاکٹر نے سحرزدہ سا ہوکر سر کی ہلکی سی جنبش سے اسے اندر آنے کی اجازت دی اور سامنے رکھی فائل میں اس کا نام دیکھا ،مہوش صبور ۔۔۔۔

شادی شدہ حیثیت کے خانے میں ابھی تک شوہر کا خانہ خالی تھا، تو کہا جاسکتا تھا صبور اس کے والد کا نام رہا ہو گا-

"تشریف رکھئیے مس مہوش !اور مجھے تفصیل سے بتائیے، جو کچھ اپ کہنا چاہتی ہیں۔۔ ہمارے پاس کافی وقت ہے”

ڈاکٹر عبدالودود نے خوشگوار انداز میں اسے مخاطب کیا۔اپنے لہجے کی کھنک نے ایک پل کو اسے خود بھی حیران کیا۔ وہ مضطرب انداز میں ہاتھ مسلتی ہوئی ڈاکٹر کی ٹیبل کے سامنے رکھی کرسی پر آبیٹھی۔اس کی اعصاب زدہ کیفیت واضح طور پر کسی نفسیاتی کجی کو ظاہر کر رہی تھی ۔

وہ سیشن کوئی ایک گھنٹے تک جاری رہا ،مہوش نامی مریضہ رک رک کر اپنی کیفیت بتاتی رہی اور ڈاکٹر مسلسل اس کے ہلکورے لیتے سیاہ بالوں،بڑی بڑی سرمگیں آنکھوں اور گلابی لبوں کے بنتے بگڑتے زاویوں پر نگاہ جمائے بیٹھا رہا۔وہ ایک اچھانفسیاتی معالج تھا اور آنے والی مریضہ کسی پیچیدہ بیماری کا شکار نہیں تھی اسے معمولی اعصابی مسائل لاحق تھے جو چند سیشنز اور دواؤں کے استعمال سے قابو میں آجاتے ۔

اس دن وہ کلینک سے نکلا تو مسلسل مہوش کے بارے میں سوچ رہا تھا۔وہ جیسے اس کے ذہن سے چپک کر رہ گئی تھی وہ اپنی کیفیت کا تجزیہ نہیں کر پارہا تھا

ایک طویل یکسانیت سے بھرپور شادی شدہ زندگی گزارنے کے بعد وہ زندگی میں کچھ تبدیلی چاہ رہا تھا۔چور جذبات اسے اس کام کے لئیے غلط راہیں ڈھونڈنے پر اکسا رہے تھے کیونکہ اسے معلوم تھا سائرہ ،اس کی بیوی ،کبھی اسے دوسری شادی کی اجازت نہیں دے گی۔۔۔

اس نے سائرہ کے متعلق سوچا تو ذہن میں ایک تلخ سی سوچ ابھری۔۔شادی کے وقت وہ کافی خوبصورت ،نازک اندام اور نرم خو سی ہوا کرتی تھی، جو غیر محسوس انداز میں بتدریج ایک موٹی ،بدنما ،بدزبان عورت میں بدل چکی تھی۔ڈاکٹر کی لائی گئی چیزوں میں مین میخ نکالنے کی عادت سے مجبور ہوکر عبدالودود نے اسے شاپنگ کے لئیے جو فری ہینڈ دیا وہ اس کی بربادی کا نیا نقطہ آغاز ثابت ہوا تھا۔وہ ایک انتہائی فضول خرچ عورت تھی ،ڈاکٹر کی اچھی خاصی آمدنی اس کے اخراجات کے لئیے کم پڑنے لگی تھی۔

ان ہی تلخ سوچوں میں گھرے،ڈاکٹر کو اندازہ تک نہ ہوا وہ کب گھر تک پہنچ گیا۔

وہ ایک طویل تھکا دینے والا مصروف دن گزارا کر گھر پہنچا تھا اور حقیقتا کسی سے ملاقات کے موڈ میں نہیں تھا۔

اسی لئیے جب اسے گھر میں داخل ہوتے ہی مردانہ آواز میں کسی کی گفتگو سنائی دی ،تو خاموشی سے ڈرائنگ روم کے بغلی کمرے سے ہوتے ہوئے ،۔۔ اوپر اپنے بیڈروم تک پہنچ جانے کی معمولی سی چالاکی کی کوشش بھی بیوی کی پیار بھری آواز میں کہے گۓ

"آپ آگۓ عبدالودود!؟”

نے ناکام بنادی۔

اس نے بےبسی سے بھری ایک گہری سانس لی اور لباس درست کرتا برابر موجود ڈرائنگ روم کے دروازے سے اندر داخل ہوگیا ۔

سامنے ہی اپنے بردار نسبتی کی سیاہ رات سے مشابہہ صورت پر نگاہ پڑی تو اس کا حلق تک کڑوا ہوگیا ۔کہاں وہ راستے بھراس پیکر ماہ تمام مہوش کے متعلق سوچتا آیا تھا اور کہاں یہ آتے ساتھ ہی اماوس کی رات سے سامنا ہوگیا۔

اس پر بیوی کا شہد ٹپکاتا لہجہ اس کے ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں بجانے لگا تھا۔ایسا لہجہ وہ اس وقت اختیار کرتی تھی جب اس کی جیب ہلکی کروانی ہو۔

اس نے غیر ارادی طور پر مضبوطی سے جیب پر ہاتھ رکھا۔۔ نسبت اور برادر نسبتی دونوں نے اس حرکت کو بغور ملاحظہ کیا اور بردباری سے یوں نگاہ پھیری جیسے کسی بچے کی معصوم سے غلطی سے بڑے صرف نظر کیا کرتے ہیں۔

عبدالودود کو سالے اور بیوی کے مدھر لہجے کے درمیان موجود تعلق کا اندازہ شادی کے ابتدائی عرصے میں ہی ہوچکا تھا ۔اسے اپنے تمام سسرالی رشتے داروں میں یہ سالا اپنی بد حرکات کے سبب، سب سے زیادہ ناپسند تھا۔اپنی غیر ذمہ دار فطرت اور عیاشیوں کی وجہ سے کبھی کوئی کام مستقل مزاجی سے نہیں کرسکا نتیجتا بھائیوں سے مایوس ہونے کے بعد اکثر و بیشتر بہن کے در دولت پر ہاتھ پھیلاۓ موجود پایا جاتا ۔

ڈاکٹر کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا کھانے کی ٹیبل پر جلد ہی بلی تھیلے سے باہر اگئی

ہنی!میں نے سوچا ہے۔۔ کیوں نہ ہم کوئی بزنس کرلیں۔۔

دیکھو نا آخر تمہیں کتنی محنت کرنی پڑتی ہے۔۔۔ تب کہیں جاکر اتنی مشکل سے چند لاکھ کما سکتے ہو ۔۔

اگر بزنس ہو تو ہم دن دوگنی رات چوگنی ترقی کریں”

وہ بولتے ہوۓ نگاہیں یوں اوپر لے گئی ،جیسے چشم تصور میں خود کو کسی بلند و بالا محل کے دریچے میں کھڑا دیکھ رہی ہو۔

یہ میٹھا لہجہ سن کرڈاکٹر عبدالودود کے رونگٹے کھڑے ہونے لگے ۔۔اس نے کن اکھیوں سے اپنے سیاہ رو برادر نسبتی کی جانب نگاہ کی وہ یوں خاموشی سے سر جھکائے مرغی کی ران ادھیڑ نے میں مگن تھا جیسے اس تمام گفتگو سے اس کا سرے سےکوئی تعلق ہی نہ ہو ۔

ڈاکٹر نے کھنکار کر گلا صاف کیا۔۔

"اہمممم ۔۔مجھے یقین ہے ڈئیر تم نے کچھ اچھا ہی سوچا ہوگا ۔۔۔ویسے تم نے کس کاروبار کے متعلق سوچا ہے جو بقول تمہارے میری چند لاکھ کی آمدنی میں شروع کیا جاسکے اور جس کے لئیے ہمیں گھر نہ بیچنا پڑے؟”

اس نے انتہائی ٹھنڈے لہجے میں طنز کیا جو اس کی توقع کے عین مطابق اس کی نصف بہتر کے سر پر سے گزرگیا۔

وہ انتہائی جوش و خروش سے اسے بتانے لگی کہ کس طرح وہ ایک بھینس خریدنے کے بعد اس کی نسل بڑھا کر اسے باقاعدہ بھینسوں کے باڑے میں بدل سکتے ہیں۔ اور دودھ دہی کی دکانیں بھی اگر ان کی اپنی ہوں تو چاروں انگلیاں دیسی گھی اور سر دودھ کی بھری کڑاہی میں ہوسکتا ہے۔۔ بس اس کے لئیے ڈاکٹر عبدالودود کو ایک عدد بھینس خریدنی ہوگی۔

اور اس سوال کے جواب میں ،کہ یہ تمام معاملات یعنی بھینس کی خریداری سے لے کر دودھ دہی فروخت کرنے تک کے کام کی نگرانی کون کرے گا ؟کیونکہ ایک ماہر نفسیات سے بھینسوں کے باڑے کا مالک بننے تک درمیان میں کئی رکاوٹیں آئیں گی، جیسے کہ بھینس خریدی کہاں سے کی جائے ، اور رکھی کہاں جائے ۔۔۔۔وغیرہ۔

ان تمام مشکلات سے نمٹنے کے لئیے ضرور کوئی قابل اعتبار انسان بطور شریک کار اس کے ساتھ ہونا چاہئیے۔

دراصل عبدالودود نے یہ سوال ایک خاص سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا تھا۔

اور اس سوال کے جواب میں جس طرح سائرہ کی نگاہ اپنے بھائی کی جانب اٹھی، عبدالودود بنا پوچھے سمجھ گیا کہ اس نامعقول منصوبے کے پس پشت ہمیشہ کی طرح اس کے منحوس سالے کا عیار دماغ کام کر رہا ہے ۔ڈاکٹر عبدالودود نے چشم تصور میں دھوتی باندھے، سر پر میلا سا صافہ لپیٹے ، ہاتھ میں بالٹی تھامے خود کو بھینسوں کا دودھ دوہتے دیکھا اور ایک جھرجھری لے کر رہ گیا۔

اس نے اس وقت تو بصد کوشش ،بات ٹال دی مگر رات ہوتے ہی دو ٹوک اندازمیں کامران کی نحوستوں پر روشنی ڈالتے ہوۓ اس منصوبے کو فائنانس کرنے سے صاف انکار کردیا۔نتیجتا اس کی وہ رات بھی لاونج میں صوفے پر سوتے ہوۓ گزری۔اس نے شکر ادا کیا کہ سائرہ کا ذہن بس بیڈروم کے دروازے تک ہی پرواز کرتا تھا ۔لیکں تا آنکہ، کبھی نہ کبھی کامران نامی وہ سیاہ دیو اسکی کم عقل زوجہ کی توجہ اسے گھر سے نکالنے کی جانب بھی مبذول کروا ہی دیتا ۔اور تب !!وہ کیا کرتا ؟یہ سوچنے کی وہ کوشش بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔

وہ اگلے دن انتہائی خراب موڈ میں بنا ناشتہ کئیے دفتر کو روانہ ہوا تھا۔

ایسے برےموڈ کے ساتھ وہ مریضوں کے ساتھ کیسے پیش آتا جب کہ اسے خود کسی نفسیاتی ٹریٹمنٹ کی ضرورت تھی۔۔اس نے سیکرٹری سے کہہ کر اس دن کی تمام اپائنٹمنٹس کینسل کروادیں اسے ذہنی سکون کی اشد ضرورت تھی ۔۔۔پرسوچ انداز میں کلینک کی کھڑکی سے نظر آتے۔ دورتک پھیلے شہر کی گہماگہمیوں کو دیکھتا وہ اپنی بے ڈھب زندگی کے متعلق ہی سوچ رہا تھا۔ جب وہ کڑی دھوپ میں ابر سایہ دار کی مانند اس کے آفس میں چلی آئی ۔۔۔۔

وہ انہماک سے اسے دیکھتا سیکرٹری سے اس بدنظمی کا سبب پوچھنا بھی بھول گیا کہ پیشنٹ کو بنا اپائنٹمنٹ کے کیوں بھیجا گیا۔

کل کی نسبت آج کچھ زیادہ ہی نکھری ہوئی نظر آرہی تھی۔وہ ایک بزنس ایمپائر میں اچھے عہدے پر فائز تھی اور ترقی کی دوڑ میں بھاگتے ہوۓ اسے بہت دیر سے احساس ہوا تھاکہ وہ تمام لوگ جن کے حصار محبت میں وہ محفوظ و مامون رہا کرتی تھی۔ انہیں تو وہ بہت پیچھے چھوڑ آئی ،اب جو لوگ اس کے اردگرد موجود ہیں وہ وہی ہیں جو کسی طرح اس کے پیروں کے نیچے سے زمین اور سر کے اوپر تنا ہوا آسمان کھینچ کر اسے بے سائبان اور اپنے قدم مضبوط کرلینا چاہتے ہیں۔مسابقت کی اس دوڑ نے مسلسل تناؤ میں رہنے والے ہر انسان کی طرح اسے بھی تھکا ڈالا تھا۔

اس دن ڈاکٹر عبدالودود کی تھراپی نے اس کے مزاج پر جو خوشگوار اثر ڈالا تو وہ دوسرے دن بھی کچے دھاگے سے بندھی چلی آئی تھی۔۔۔۔

سیکریٹری کے سامنے منت سماجت کا کامیاب حربہ استعمال کرکے وہ اس امید پر اندر چلی آئی کہ ایک مریض کی معمولی سی تقصیر یقینا معالج کے لئیے قابل تعزیر نہ ہوگی۔

وہ دن اور اس کے بعد کئی اور دن اس مریض کا علاج کرتے کرتے ڈاکٹر خود اس کا بیمار ہونے لگا تھا۔۔۔۔

بیوی،اس کا بھائی،گھریلوں زندگی کی تلخیاں ،بھینسیں ۔۔۔تمام مسائل اس کے ذہن سے محو ہوچکے تھے یاد تھی تو بس وہ حورشمائل جس کی سنگت میں زندگی اسے دوبارہ سے حسین لگنے لگی تھی۔

اب وہ سنجیدگی سے دوسری شادی کے متعلق سوچنے لگا تھا۔مگر سائرہ کسی وزنی چٹان کی مانند اس کی راہ میں حائل تھی ۔۔

طلاق کی صورت میں ایک بھاری حق مہر اس کا دیوالیہ نکال دیتا۔۔۔جب کہ گھر اور کلینک کی تعمیر میں بھی سائرہ کی مالی مدد شامل رہی تھی اگر وہ اس رقم کی واپسی کا مطالبہ کردیتی تو وہ سیدھا سڑک پر اجاتا

سائرہ سے اس کے تعلقات دن بہ دن رو بہ زوال تھے جنہیں سدھارنے کی کوشش دونوں فریقین میں سے کسی نے نہیں کی ۔ڈاکٹر نے شادی کے ابتدائی سالوں میں اپنا ایمانداری سے تجزیہ کرنے کی کوشش بھی کی تھی کہ کہیں وہ سائرہ سے بہت زیادہ توقعات تو وابستہ نہیں کر رہا

وہ چاہتا تھا وہ اس کے گھر کا خیال رکھے اور اس کے لئیے کھانا بناۓ لیکن شادی کے ابتدائی دنوں کے بعد یہ بات ایک خواب و خیال ہوکر رہ گئی تھی۔۔۔۔

اس نے پہلا ووٹ اپنے حق میں دیا ۔

ڈاکٹر کے مریض اکثر گھر پر فون کرلیا کرتے اور اس کی اجازت خود انہیں ڈاکٹر نے دے رکھی تھی۔ اس کے باوجود وہ متعدد بار مریضوں کو جھڑک دیا کرتی ،نتیجتا انہوں نے معالج بدل لیا۔بقول اس کے وہ نہیں چاہتی تھی کہ مریض اس کے گھر کو پاگل خانہ بنانے کی کوشش کریں،،،

جبکہ ڈاکٹر کے خیال میں یہ گھر پہلے ہی ایک پاگل خانہ تھا جہاں ایک لاعلاج مریض رہائش پذیر تھا۔ان تمام حرکات سے وہ درگزر کرتا آرہا تھا جب تک وہ مہوش سے نہیں ملا تھا۔۔مگر اب سائرہ کے ساتھ گزرا ایک ایک دن اسے عذاب لگنے لگا تھا۔وہ فورا سے پیشتر مہوش کی مدد سے اپنی بے رنگ زندگی کو گل گلزار کرلینا چاہتا تھا۔

لیکن بنیادی مسلہ سائرہ نامی بلائے بے درماں کی صورت میں وہیں موجود تھا۔

آخر بہت سوچ بچار کے بعد اسے ایک طریقہ سمجھ آیا۔جو اسے سائرہ سے ہمیشہ کے لئیے نجات دلانے والا تھا ۔۔۔وہ اپنی بیوی سے ہمیشہ کے لئیے چھٹکارا پانے کے متعلق سوچ رہا تھا۔

اس نے اپنے خیالات سے مہوش کو بالکل بے خبر رکھا تھا ۔۔وہ نہیں چاہتا تھا وہ اس سے بدظن ہو جائے ۔۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ اس کام کو پایہء تکمیل تک کیسے پہنچایا جائے ۔وہ کوئی پیشہ ور قاتل نہیں تھا ۔۔کئی دن قتل کرنے کے لئیے خود کو ذہنی طور پر تیار کرتا رہا۔ کسی فول پروف منصوبے کے متعلق سوچتا رہا لیکن ہر منصوبے کے اختتام پر وہ خود کو دست بستہ پھانسی کے پھندے سے جھولتا ہوا دیکھتا اور اور منصوبہ فی الفور ترک کردیتا۔

آخر کار ایک دن سائرہ نے خود ہی اسے بتادیا ،کہ اسے کیسے ٹھکانے لگایا جاۓ۔

وہ لاونج میں بیٹھا کلینک سے لائی گئی کسی مریض کی فائل کے مطالعے میں مصروف تھا ۔جب وہ اپنے بھاری وجود کے ساتھ دھم دھم کرتی سیڑھیاں چڑھتی چلی گئی۔اور تب ہی ایک خیال کوندے کی طرح اس کے ذہن میں لپکا اور پل بھر میں اس کے ذہن کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔

اس پروگرام پر عمل کرنے کے لئیے اسے سائرہ کے گھر سے باہر جانے کا انتظار تھا اور عبدالودود کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا دوسرے ہی دن وہ شاپنگ پر نکل گئی۔اسے معلوم تھا اب وہ دیر تک واپس نہیں آۓ گی۔اور آتے ہی سیڑھیاں دھڑ دھڑاتی اوپر بیڈروم میں گھس جاے گی۔

سائرہ کو دکھانے کے لئیے وہ صبح معمول کے مطابق کلینک کے لئیے نکل گیا ۔مگر تھوڑی ہی دیر میں اپنے مطلوبہ سامان کے ساتھ واپس آگیا ۔ وہ ایک انتہائی مہین تار اور اسپرےپر مشتمل تھا۔ یہ دونوں اشیاء اس نےگھر سے بہت دور دو الگ الگ آبادی کے بہت اندر واقع دکانوں سے خریدی تھیں ۔تاکہ پولیس کسی شبہے کی صورت میں تفتیش کرے بھی تو وہاں تک نہ پہنچ پاۓ۔ اسے تار سب سے پہلی سیڑھی پر اس طرح باندھنا تھا کہ جب وہ اپنی دھن میں جھومتی جھامتی اوپر جاتی تو تار سے الجھ کرلڑھکتی ہوئی آخری زینے پرآکر دم لیتی۔

اگر فوری طور پر جان سے نہ بھی جاتی تو شدید زخمی ضرور ہوجاتی۔

اور بروقت طبی امداد نہ ملنے پر اسے مرنے سے کون روکتا!!!اس نے سفاکی سے سوچا ۔۔

اس کا منصوبہ بہت خطرناک اور سفاکی سے بھرپور تھا مگر مہوش کو حاصل کرنے اور سائرہ سے جان چھڑانے کے لئیے اب وہ کسی بھی حد تک جانے کے لئیے تیار تھا۔

اس تمام کاروائی سے نمٹ کر وہ دوبارہ کلینک روانہ ہوگیا ۔

وہ پورا دن بہت بے کیف تھا اضطراب اور بے چینی پورا دن اسے حصار میں لیے رہی تھی۔سائرہ کے ساتھ گزرے روزوشب کا ہجوم بار بار ذہن و دل پر دستک دیتا رہا جسے وہ سر جھٹک جھٹک کر دور دھکیلتا رہا ۔جیسے ہی چھ بجے ،وہ جیل سے رہا ہوے قیدی کی مانند باہر نکلا تھا۔کار کو معمول کے مطابق ڈرائیو کرنے کے لیے اسے خود پر بہت جبر کرنا پڑا تھا ۔۔۔۔

گاڑی کو آہستگی سے پورچ میں روکتےہوےء وہ باہر آیا ۔۔۔

دروازہ کھلا ہوا تھا جیسے کہ اسے توقع تھی۔۔کیونکہ دروازہ لاک کرنے کے لئیے اسے ہمیشہ سائرہ کو ٹوکنا پڑتا تھا ۔لیکن اب اس کی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں سے میری جان چھوٹنے والی ہے، اس نے خود کو تسلی دی۔

دروازہ کھولتے وقت اس نے سوچا نہیں تھا کہ اپنی بیوی کی مڑی تڑی لاش کیسے دیکھ پائے گا جسے کبھی جی جان سے چاہا تھا ۔

مگر بہرحال وہ اپنی حرکتوں کے سبب اس حال کو پہنچی ہے۔ وہ ضمیر کو تھپکیاں دیتا آگے بڑھا ۔

مگر اندر داخل ہوکر وہ ساکت سا رہ گیا ۔سیڑھیوں کے نیچے کی جگہ بالکل صاف تھی ۔۔

اس کا مطلب وہ تار سے محفوظ رہی ۔۔مگر، اندر اتنی خاموشی کیوں تھی۔۔۔۔

سائرہ !!!!

اس نے پکارا ۔۔مگر جواب ندارد۔

وہ اپنے باندھے ہوے تار کو دھیان میں رکھتے ہوۓ تیزی سے اوپر کی جانب لپکا تاکہ سائرہ کی نظر پڑنے سے پہلے اسے کھول دیا جاۓ۔

مگر آخری قدمچے سے دو زینے پہلے اس کا پیر کسی چیز میں الجھا اور وہ تیزی سے مختلف زینوں سے ٹکراتے ہوے نیچے ایا ۔اس کے منہ سے نکلنے والی چیخیں بے ساختہ اور دلدوز تھیں۔۔۔

کچھ لمحوں کے لئیے وہ بالکل بے حس و حرکت پڑا رہ گیا ۔۔

جب آنکھ کھلی تو نظر چھت سے لٹکتے جھومر پر پڑی کچھ دیر تو اسے احساس ہی نہ رہا کہ وہ کہاں لیٹا ہے۔پھر کمر اور سر سے اٹھتی ٹیسیں ہوش میں لے ائیں۔سر میں ہونے والا درد جان لیوا تھا۔۔۔مگر اچھی بات یہ تھی کہ وہ زندہ تھا۔۔

اچانک اسے بلب سے نکلتی روشنی کو گھیرتے کسی وجود کا احساس ہوا جو دھیرے دھیرے اس کے نزدیک آتا جارہا تھا۔اخر وہ بالکل اس کے سر کے پاس آ پہنچا۔۔وہ اس کے سر کے بالکل پاس تھی اور وہ انکھیں پوری طرح کھول کر اسے دیکھ پارہا تھا۔ مگر اٹھنے سے قاصر تھا۔۔

"تمہیں کیا لگا ؟۔۔تمہاری عقل سے اندھی بیوی نظر سے بھی عاری ہے کہ اسے مارنے کے لئیے ایسا احمقانہ منصوبہ تیار کیا ۔۔۔؟”

وہ کسی بپھری ہوئی شیرنی کی طرح غرائی۔

سائرہ! "وہ بمشکل بول سکا تھا

” ایمبولینس منگواؤ میں بہت زخمی ہوں ۔۔۔۔اگر خون زیادہ بہنے سے میری موت واقع ہوگئی ۔۔تو بچو گی تم بھی نہیں۔۔تم سے پوچھا جائے گا کہ زخمی شوہر کو ہسپتال کیوں نہیں پہنچایا "وہ اتنی بات کرکے ہی نڈھال ہوگیا تھا ۔نقاہت تیزی سے اسے حصار میں لے رہی تھی سر پر لگنے والی چوٹ کی تکلیف ناقابل برداشت ہورہی تھی۔وہ اب باقاعدہ گڑگڑانے لگا تھا۔

"اور۔۔

اگر میرا شوہر ۔۔۔

سیڑھیوں سے گرتے ہی سر پر لگنے والی چوٹ سے مرگیا ہو تو؟”۔۔۔

وہ اپنی پشت پر چھپایا ہوا ہاتھ سامنے لائی ،تو ہاتھ میں تھاما ہوا ماربل کا بھاری گلدان تیز روشنیوں میں جگمگانے لگا۔۔

ڈاکٹر عبدالودود نے سائرہ کو گلدان سر سے بلند کرتے ہوئے دیکھا۔۔ اور آنکھیں بند کرلیں۔۔۔۔۔۔

 

تحریر: ماہ رخ ارباب