ہم ابی کی بیٹیاں

2019-07-05 20:12:40 Written by عندلیب زہرا

ہم ابی کی بیٹیاں 

از قلم 

عندلیب زہرا 

دھول۔۔مٹی،گرد سے میرا دم گھٹ رہا تھا لیکن فرحان کی

ضروری فائل مل ہی نہیں رہی تھی۔ٹیپو کا بچپن کا ٹیڈی بیئر،ڈولی کا باربی ہاؤس،میری کشمیری شال۔۔سب گمشدہ

چیزیں ہاتھ آ رہی تھیں ماسوائے فائل کے،اور مجازی خدا کا حکم تھا کہ آج کی تاریخ میں فائل کا حصول یقینی بنایا جائے۔سو میں اس حکم کی تکمیل میں سرگرداں تھی جب اچانک میرا ہاتھ گرد آلود فائل کور سے ٹکرا گیا اور زمین بوس ہو گیا۔میں جھنجھلا کر اسٹول سے اتری۔سارے بوسیدہ کاغذات،اخباری تراشے،زرد تصاویر زمین پر الٹی گری تھیں۔میں نے کاغذات سمیٹے،تصاویر سیدھی کیں۔دھندلی،مٹی مٹی سی تصاویر میرے بچپن کا دروازہ کھولنے لگیں۔ماضی کے دریچے کھل گئے اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آنے لگے۔

۔’’اے خدا میرے ابو سلامت رہیں

اے خدا میرے ابو سلامت رہیں‘‘۔

گرد آلود کمرے میں باریک مہین سی آواز گونجنے لگی اور مجھے پتہ بھی نہ چلا۔کھلے آنگن میں جھولے پر بیٹھ کر یہ جنگل گانے لگی۔

۔’’آنے دو باپ کو۔۔جب دیکھو گانے نظمیں۔۔نہ پڑھائی نہ لکھائی‘‘دادی روز ڈانٹتی تھیں۔میں اور مایا ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگ گئیں۔’’میں تو ابی کو یاد کررہی تھی‘‘میں نے کندھے اچکا کر کہا۔’’بھول نہ جانا پھر پیا۔۔نورس میں لے کر گھر آنا‘‘۔اب میں فرمائشی جنگل گا رہی تھی۔مایا بھی میری ہم آواز تھی۔جھولا اونچا ہی اونچا جا رہا تھا۔گیت کے سروں کی طرح۔میں یعنی جیا اور مایا اپنی ابی کی جڑواں بیٹیاں تھیں۔بابا کی لاڈلی،پپا کی ڈول،ابو کی گڑیا،بابا کی رانی۔۔یہ خطاب ہم دونوں کو ملتے تھے۔ابی کو کبھی بیٹے کی چاہ نہیں ہوئی۔ہم دونوں جڑواں بہنیں بہت دعاؤں کے بعد شادی کے پانچ برس بعد پیدا ہوئیں۔ابی شکرانہ نفل ادا کرتے نہ تھکتے تھے۔مما بتاتی تھیں،کبھی ایک بیٹی کو اٹھاتے۔کبھی دوسری کو بوسہ دیتے۔’’میرے رب نے میری دعا سن لی اور رب کی ذات پر میرا یقین بڑھ گیا ہے‘‘وہ اکثر کہتے۔’’آپ کو بیٹے کی آرزو نہیں؟‘‘اکثر لوگ سوال کرتے۔’’مجھے یہ گڑیائیں کافی ہیں‘‘وہ ہم دونوں کو ہوا میں اچھالتے۔۔جھلاتے جواب دیتے۔طمانیت کے ساتھ۔مما تو پھر سختی کرتیں مگر ابی۔۔وہ ہمارا ہیرو۔۔پہلا پیار سب کچھ تھے،سب کچھ۔۔

ہم دونوں بہنیں گریڈ ٹو میں تھیں جب اچانک مما فوت ہو گئیں۔سازوسامان سے بھرا گھر،ایک امیر ترین شخص۔بہت سے لوگ لالچ میں آ گئے لیکن ابی نے سب کو انکار کر دیا۔’’ماں بھی چلی گئی اور باپ بھی چھن جائے‘‘ابی کی سرخ آنکھیں ہمار لئے فکرمند تھیں یا مما کے جانے کا صدمہ؟؟

ہم دونوں ان کے سینے سے لگی تھیں اور ہاتھ ان کے ہاتھ میں دئیے ہوئے تھے۔اس رات ہم تینوں بہت روئے ایک دوسرے کے گلے لگ کر۔۔

پھر ہم نے ابی کو کبھی روتے نہیں دیکھا،اداس نہیں دیکھا۔وہ میرے اور مایا کیلئے ہر رشتہ بن گئے تھے۔ہر رشتہ مکمل۔۔اور خوبصورت۔۔گھر میں ایک عورت کی ضرورت تھی۔سو دادی تایا کو چھوڑ کر ہمارے پاس رہنے لگیں۔وہ ہم پر سختی کرتیں،ڈانٹ ڈپٹ۔۔ہم بھاگ کر ابی کی گود میں چھپ جاتیں۔

آج بھی ایسا ہی ہوا تھا۔’’آنے دو باپ کو،اتنا قیمتی گلاس توڑ دیا‘‘مایا دودھ پینے کی چور تھی۔اس کے ہاتھ سے چھناکے سے گلاس ٹوٹ گیا۔۔۔

چھناکے کی آواز آئی۔ماضی کی زنجیر ٹوٹی تھی یا میرا تخیل۔۔میں نے چونک کر دیکھا تو میں گردآلود سٹور میں بیٹھی ماضی کے لمحات کھوج رہی تھی۔کیسی فائل۔۔کیسے کاغذات۔۔مجھے کچھ یاد نہیں رہا تھا۔بس ذہن میکے کے آنگن میں۔۔ماضی گلیوں میں الجھ رہا تھا۔بچوں کو کیسے کھانا کھلایا۔کام کیسے سمیٹا۔۔کچھ یاد نہیں۔

بس البم لے کر میں اپنے کمرے میں بیٹھ گئی اور تصویریں دیکھنے لگی جو اچانک متحرک ہو گئیں تھیں یا لمحے زندہ ہو گئے تھے۔

۔’’مایا جیا۔۔بیٹا احتیاط سے سائیکل چلاؤ‘‘۔

۔’’سالگرہ کے کیک کا آرڈر دے دیا ہے‘‘۔

۔’’تم میرا فخر ہو گو لڈ میڈل لے کر تم نے میرا سر فخر سے بلند کر دیا ہے‘‘ابی کی آنکھوں میں نمی،ہونٹوں پر مسکان سجی تھی۔

یہ تصویریں نہ تھیں وہ لمحے تھے جو امر ہو گئے ہماری یادوں میں۔۔’’دونوں لڑکیاں خاندان میں بیاہ دو۔اپنوں سے جڑے رہو گے اور جائیداد بھی گھر میں رہے گی۔‘‘دادی اور سب رشتے دار سمجھا رہے تھے۔’’میری بیٹیاں ان پڑھ مردوں کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتیں۔میں خود کو خاندان سے جوڑنے کیلئے ان کے لبوں سے مسکان چھین لوں؟‘‘اور ہماری مسکان کی خاطر ابی نے سب کو ناراض کر دیا۔۔خود کو تنہا کردیا۔

مجھے فرحان پسند تھا۔انجینئر،قابل۔۔ہینڈسم

مایا کو اجمل پسند تھا۔۔کامیاب بزنس مین

ابی نے ہماری خواہش کا احترام کیا۔انہوں نے ہمیں اتنی محبت دی کہ ہم نے اسے اپنا حق مان لیا۔اس لئے تو ان کی زندگی میں ہی جائیداد میں حصے کا مطالبہ کردیا۔یہ سبق ہمارے خاوندوں نے ہمیں پڑھایا تھا لیکن کہیں نہ کہیں خودغرضی اور لالچ ہم دونوں کو بھی تھا۔

دادی فوت ہو چکی تھیں۔ابی عالیشان مکان میں تنہا تھے اور ہم بیٹیوں کی آمد کے منتظر رہتے۔

ایک ماں کی طرح کھانا پکواتے،کپڑے سلوا کر رکھتے۔ہم نے ساری ممتا اپنے باپ کی محبت سے کشید کر لی تھی۔ابی نے ایک مکان چھوڑ کر ہم دونوں میں مساوی جائیداد تقسیم کر دی تھی۔پھر بھی ہم دونوں کو لگا جیسے میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔سو ہم دونوں ایک دوسرے سے کھنچ گئی تھیں۔

اچانک ابی بیمار ہو گئے تھے۔ہم سب بھاگم بھاگ پہنچے۔

زرد کمزور۔۔ابی ہمارے منتظر تھے۔ہم دونوں پہلی دفعہ بیٹی بن کر ابی سے ملیں۔۔روئیں،لیکن ابی ابدی سفر پر جا چکے تھےاس وصیت کے ساتھ کہ یہ گھر کرایے پر دے دو اور کرایہ ہم دونوں کو ملے گا۔گھر بک نہیں سکتا تاکہ میکے کا احساس باقی رہے۔

ہم ابی کی خودغرض بیٹیاں اس وصیت پر ناخوش تھیں۔خود غرض دنیا کے جھمیلے میں ابھی۔۔بس یکم کو خطیر کرایہ لینا یاد رہتا۔۔باقاعدگی سے۔۔

۔’’ابی کی برسی کا ہی اہتمام کر لوں‘‘میں نے گیلی آنکھیں رگڑیں۔’’وہ تو دو ہفتے قبل تھی‘‘میرے اندر کوئی ہنسا’’یاد کیوں نہیں رہا؟‘‘میں نے یاد کرنے کی کوشش کی۔فرحان کا آفیشل ڈنر تھا۔

مجھے کسی ہمدم اپنے کی ضرورت تھی۔کندھا درکار تھا۔میں نے مایا کو فون کیا۔وہ بھی ملول تھی۔۔نجانے کیوں؟۔

۔’’مایا‘‘۔

۔’’جیا‘‘۔

۔’’ابی بہت یاد آ رہے ہیں‘‘۔

۔’’مجھے بھی‘‘۔شاید روحوں کا تعلق ہوتا ہے اور ان کو ہماری دعاؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔ہم دونوں ماضی کی یادیں دہرا رہی تھیں۔ایک طویل عرصے بعد۔

۔’’مایا بات سنو۔۔ہم ابی کے گھر کے کرائے سے ایک ٹرسٹ قائم کرتی ہیں۔مما اور ابی کے ایصال ثواب کیلئے۔۔پینے کا صاف پانی۔۔صدقہ جاریہ سمجھ کر۔۔۔‘‘میں نے آنسو صاف کر کے مضبوط لہجے میں کہا۔’’ہم زندگی میں ان کی خدمت نہیں کر سکیں۔اب تو اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں ناں؟۔۔‘‘آنسوؤں نے میری بات مکمل نہ ہونے دی۔

۔’’ہاں جیا۔۔ہم ابی کی بیٹیاں۔۔‘‘مایا نے بھی رندھی آواز میں کہا اور فون بند کر دیا۔