موت کی سوداگری

2019-07-08 20:04:38 Written by عشا عباس

*موت کی سوداگری*

از قلم 

*عشا عباس*

وہ میڈیکل سٹور پہ بیٹھا منہمک ہو کر دوائیوں پر مشہورِ زمانہ کمپنیوں کی مہر لگا رہا تھا۔دوائی کے دو نمبر ہونے پر اسے شک تھا نہ وہ شک کرنا چاہتا تھا۔کیونکہ اسے یقین تھا کہ یہ دو نمبر ادویات اسکے گھر والوں کے لیے شجرِ ممنوعہ ہے ۔گھر میں دوائی اسکی مرضی اور جانچ پڑتال کے بعد استعمال کی جاتی تھی, مگر جو دوائی وہ اپنے میڈیکل سٹور پر دانستہ بیج رہا تھا وہ کسی اور کے بچے اور پیارے کھائیں گے ۔

رفتہ رفتہ اس کا کاروبار ترقی کے زینے طے کرتا ہوا بام عروج پر پہنچ گیا۔

سٹور پہ لکھی قرآنی آیات اور اسکے چہرے پہ سجی پر نور داڑھی کی وجہ سے سٹور پہ غیر معمولی رش رہتا تھا۔ساتھ بیٹھے ڈاکٹر حضرات کے کلینک اور ہسپتال کے عملے سے اسکے دیرینہ ذاتی تعلقات تھے۔ جب بھی مریض گولی سر درد کی لیکر جاتا چند دن بعد اسکے گردے میں انفکشن شروع ہو کر بالآخر موت پر جا کر منتج ہوتا۔اور وہ جوان لاشوں کو دیکھ کر تاسف سے سوچتا شاید اسکی زندگی یہیں تک تھی۔ملول چہرے کے ساتھ وہ قرآنی آیات کا ورد کرتا اور پھر دوائیوں کی پیکنگ میں مصروف ہو جاتا۔

ایک جواں سالہ نوبیاہتا جوڑا لیڈی ڈاکٹر سے چیک اپ کے بعد اسکے سٹور پہ دوائیوں کی لمبی لسٹ لیے آیا-

دونوں کی آنکھوں میں خوشیوں کی جھلک واضح تھی جیسے زمین پہ پاؤں رکھتے ہوئے بھی وہ آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔

شاید اولین خوشی کہ خماری تھی یا قدرت کے بہترین تحفے کی نوید کہ پل بھر کے لیے اسکی نظر ان دونوں کے چہرے سے ہٹنا بھول گئی,

مگر اس بے خودی کو چند لمحوں میں اس نے چند ہرے نوٹوں کے نیچے دفن کیا اور اپنے کام میں مہنمک ہوگیا-

ایک ماہ کے بعد اس نے ان دونوں کو قریبی کلینک سے نکلتے دیکھا تو دونوں کے چہرے نا امیدی کے بوجھ تلے دبے نظر آئے -

شریک حیات کے چہرے پہ زردی کے رنگ نمایاں تھے, اور وہ جان چکا تھا کہ اولین خوشی اور اولین محبت لٹنے کے غم کا مدوا کرتے، کرتے عمریں بیت جاتی ہیں-

کبھی کبھی اسکے مردہ ضمیر میں ہلکی سی بیداری کی چھلک اٹھتی تو راتوں کی نیند اور چین سب غارت ہوجاتا -اسے خواب میں ڈروانے مردے اور چیختی چلاتی کفن ذدہ لاشیں نظر آتیں- اسکے دل کی دھڑکن بڑھ جاتی اور سانس اتھل پتھل ہو جاتیں وہ سوتے ،سوتے ہڑ بڑا کر جاگ اٹھتا ,اور اپنے دل کی دھڑکنوں کو ہموار کرنے کے لیے نیند کی خالص گولی کھا کر سونے کی کوشش کرتا-

اگلے دن پھر سے معمول کہ مطابق اپنے دھندے پہ نکل جاتا

دولت کی حرص دل کو لگ جائے تو قبر تک پیچھا نہیں چھوڑتی

یہی معاملہ اسکے ساتھ تھا کہ کبھی اس نے اس سوداگری میں رحم کے جذبات کوآنے نہیں دیا تھا-

وقتاَ فوقتاَ وہ صدقے خیرات دے کر کالے دھن کو پاک کرتا تو رہتا مگر من پہ لگی کالک کو دور کرنے کے لیے اسکے پاس وقت ہی نہ تھا-

اسے کامیابی کے راستے پہ چلنا نہیں دوڑنا تھا اور دوڑ نے کے لیے ہر جائز اور ناجائز حد کو عبور کرتے کرتے کبھی، کبھی اسکی سانس پھول جاتی-

ہوس اور حرص بس ہر وقت اور، اور کی گردان لگائے رکھتی ہے ورنہ قناعت میں سکون کی دولت تو وافر مقدار میں ہوتی ہے-

کسی کی سسکیوں کو سن کر کسی کی آہ وبکا کسی کے ماتم اور واویلے سن کر بھی دل میں رحم کی جذبات نہ آئیں تو دل پہ بد نصیبی اور بے ہدایتی کی مہر لگ جانا تو قدرتی امر ہے-

 *موت کی سوداگری* کا یہ چلن تو یوں ہی چلتا رہنا تھا مگر

گھر سے آئی کال نے اسے چونکا دیا تھا۔...... 

 

 موت کی وجہ پھیپھڑوں کی انفکشن بتائی جا رہی تھی۔وہ معمولی بخار میں کسی سے بھی ہوچھے بغیر کسی ڈاکٹر کو چیک کروانے گیا اور کسی میڈیکل سٹور سے دوائی لیکر لگا تار استعمال کرتا رہا تھا- نییجتاَ پھیھپڑے میں انفکشن نے شدت اختیار کی اور بر وقت طبی امداد نہ ملنے پر جان کی بازی ہار گیا۔

ملول چہرے، بکھرے اور ندامت کے آنسو لیے بیٹے کے کمرے میں بیٹھا چند دوائیوں کو ہاتھوں میں لیے وہ اتنا بھی نہ کہہ سکا کہ مرحوم کی زندگی بس یہی تک تھی۔۔۔۔۔

اسکے بے جان ہاتھوں میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ جنازے کو کندھا دے کر آخری منزل تک پہنچا دیتا۔اچانک اسکے دل و دماغ میں آہوں سسیکیوں 

چیخ و پکار کا ایک طوفان امڈ آیا تھا اس نے اپنے سر کو زور سے پکڑا اور ان نادیدہ آوازوں کو روکنے کی ہر ممکن سعی کی تھی مگر آوزوں کا ایک اژدحام اسکے پورے وجود پہ زلزلہ بن کر اترا تھا- اسکی ساری ہستی کو ملیامیٹ کرنے کے درپہ تھا- اس نے اپنی سانسوں کو بے قابو پایا تھا ،دل کی ہلچل اور رفتار میں غیر معمولی اضافہ ہوا تھا، اور اس نے گھبرا کر دل پہ ہاتھ رکھا زبان میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ کسی کو اس الماری کا پتہ دے سکتا جس میں ایک نمبر ادویات کا ایک ذخیرہ تھا- جن کو کھا کر وہ اپنی سانسوں کا تسلسل قائم رکھ سکتا۔۔۔۔۔۔اس نے خود اس الماری تک پہنچنے کی کوشش کی 

مگر اس سے قبل موت کا رقص اپنا نقارہ بجا چکا تھا-

موت نے زندگی کی دہلیز پہ دستک دی تھی اور شاید ہی کوئی خالص دوائی اس کو موت کی آغوش سے بچا سکتی۔کیونکہ جو

 *بویا جایا وہ کاٹنا تو پڑتا ہے*