قسمت کا کھیل

2019-07-09 19:56:26 Written by رباب فاطمہ

"قسمت کا کھیل" 

از قلم 

" رباب فاطمہ" 

 

مجھے نئی نوکری شروع کیے ہوئے ایک ہفتہ ہی گزرا تھا۔ سینٹر بھی نیا ہی کھلا تھا اس لیے شام کے وقت بچوں کی تعداد کم ہی ہوتی تھی ابھی بس اسٹاف ہی رکھا تھا اور باقی چیزیں دیکھی جارہی تھی۔۔ ایک شام میں بیٹھی ہوئی تھی کہ ہمارے سینٹر کے اونرز میرے سامنے ٹیبل پر آبیٹھے اور سینٹر میں بہتری لانے کے موضوع پر باتیں ہوتی رہیں۔۔ ہمارے ساتھ آفس بوائے بھی حصہ لیتے رہے۔۔ اور اپنی رائے دے رہے تھے۔۔ اور جو بھی انہوں نے محسوس کیا تھا وہ سب ہم سے شیئر کر رہے تھے۔۔ بات سے بات نکلی تو سر مجھے بتانے لگے کہ ثانیہ آپ جانتی ہیں کہ ہمارے ولید بھائی ( آفس بوائے ) نے بی کام کیا ہوا ہے۔۔ میں نے حیرانی سر کو دیکھا پھر میں ہنسنے لگی کہ سر یہ کیسا مذاق ہے۔۔ سر کہنے لگے نہیں یہ مذاق نہیں ہے یہ سچ ہے میں نے ولید بھائی کی طرف دیکھا وہ سر جھکائے اٹھے اور کچن میں چلے گئے چائے بنانے۔۔ میں دوبارہ سر سے مخاطب ہوئی کہ سر اگر یہ اتنے پڑھے لکھے ہیں تو یہ نوکری کیوں کر رہے ہیں۔۔ سر نے کہا یہ تو آپ کو ولید بھائی ہی بتا سکتے ہیں۔۔ اور پھر سر دوسری باتوں میں مصروف ہو گئے لیکن میری سوئی تو وہیں اٹکی ہوئی تھی کہ یہ ایسی جاب کیوں کر رہے ہیں۔۔ مانا کہ ہمارے معاشرے میں تعلیم کی اہمیت نہیں اور نہ ہی کوئی کام چھوٹا بڑا ہوتا ہے مگر ایسی بھی کیا مجبوری ہو گئی۔۔ اور ولید بھائی مجھ سے عمر میں پندرہ، بیس سال بڑے تھے۔۔ مجھے یاد ہے جب میری نوکری کا پہلا دن تھا انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھا تھا کہ مس آپ میری چھوٹی بہن اور بیٹی جیسی ہیں کوئی بھی مسئلہ ہو فوراً سے بتا دینا۔۔ اتنی دیر میں ولید بھائی کچن چائے کی ٹرے لے کر آگئے۔۔ دونوں سر چائے کا کپ ہاتھ میں لیے اپنے آفس کی طرف چل دیے۔ میری چائے سامنے ٹیبل پر رکھی رہی میں نے ولید بھائی سے پوچھا آپ نے بی کام کیا ہوا ہے سچ میں؟ ولید بھائی کہنے لگے جی مس میں نے بی کام کیا ہوا ہے اور میں نے بی کام کے امتحان 1989 میں دیے تھے۔۔ میں ہنسنے لگی کہ تب تو میں پیدا بھی نہیں ہوئی تھی بھائی۔۔ کہنے لگے آج اگر میری پہلی بیٹی حیات ہوتی تو وہ بھی آپ جتنی ہوتی اسی لیے تو میں نے آپ کو اپنی بیٹی کہا تھا۔۔ میں ان کی بیٹی کے مرنے ہر اظہار افسوس کیا۔۔ پھر میں نے ولید بھائی سے پوچھا آپ اس نوکری کے علاو کیا کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا ایک اور نوکری کرتا ہوں رات کی شفٹ میں۔ میں نے پوچھا پھر آپ سوتے کب ہیں ؟ کہنے لگے سوتا ہوں صبح گھر آکر۔ میں نے کہا اپنا معمول بتائیے گا۔۔ انہوں نے کہا یہاں 11 بجے آتا ہوں یہاں سے 8 بجے گھر جاتا ہوں اس کے بعد 9 بجے دوسری نوکری پر جاتا ہوں وہاں سے صبح 6 بجے گھر جاتا ہوں تو سو جاتا ہوں کچھ دیر۔۔ میں بہت حیرانی سے ان کو دیکھتی رہی کہ ہم بس اپنے دکھ درد کو سوچتے ہیں لیکن باہر کی دنیا میں کتنا کچھ ہو رہا ہے اس کے آگے تو میرا دکھ، غم، پریشانی کچھ بھی نہیں ہے۔۔ میں نے ان سے پوچھا بھائی ایسا کیا ہوا کیوں انتی مشکل زندگی بنا لی آپ نے؟ اپنے بچوں کو بھی وقت دینا ہوتا ہے۔۔ کہنے لگے مس میں یہ سب ان کے لیے ہی تو کر رہا ہوں۔۔ پھر میرے سامنے کرسی پر آبیٹھے اور بتانا شروع کیا۔۔ میری چائے ٹھنڈی بد مزا ہو چکی تھی۔۔ جیسے کسی کی زندگی بد مزا ہو جائے۔۔ ولید بھائی نے بتایا کہ۔۔ 

مس جب میں تعلیم حاصل کر رہا تھا میرے والد صاحب وفات پا گئے۔۔ میرے والد پیچھے کافی دولت چھوڑ گئے تھے۔جس کا استعمال صحیح جگہ پر کرنا تھا تاکہ گھر کا خرچ احسن طریقے سے چل سکے، بہنوں کی شادی اچھے سے ہو سکے۔۔ میری اتنی عمر نہ تھی اس معاملے میں نہ ہی مجھے کوئی تجربہ تھا میں نے گھر کے بڑوں سے مشورہ لیا اور کچھ قریبی دوستوں سے۔۔ یوں میں نے ایک دوست کے ساتھ مل کر اپنا کاروبار شروع کر دیا۔۔ مس میں آپ کو بتا نہیں سکتا ہمارے پاس بہت دولت تھی نوٹ میرے ہاتھ میں یوں رہتے تھے جیسے کاغذ۔۔ اللہ نے مجھے کاروبار سے بہت نوازا لیکن پھر میرے دوست کی نیت خراب ہوگئی اس نے مجھے بہت بڑا نقصان دیا۔ اتنا نقصان کہ ہمارا سب کچھ ختم ہو گیا مس۔۔ ہماری قسمت بند گئی مس۔۔ یہ سب قسمت کا کھیل ہے۔۔ اب میں یہ سب کسی کو بھی بتاؤں کوئی یقین نہیں کرے گا۔۔ مس میں کلف کاٹن کے کپڑے پہننے والا آج یہاں نوکری میں باتھ روم تک دھوتا ہوں ۔ ولید بھائی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔ میری آنکھیں نم ہو چکی تھی۔  

بھائی کہنے لگے مس قسمت کے کھیل بڑے عجیب ہوتے ہیں۔۔ سب نے ہم سے منہ پھیر لیا۔۔ میں نے کہا آپ کو پولیس میں شکایت کرنی چاہیے تھی۔۔ کہنے لگے کی تھی شکایت مگر ہمارا انتظام اور میرے پاس اتنا پیسا نہیں تھا کہ کیس لڑتا۔۔ اگر پیسے کیس پہ لگا دیتا تو شاید یہ میری ایک اور بیوقوفی ہوتی۔۔ میں نے اپنا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں کر دیا ہے وہ انصاف کرنے والا ہے ۔ پھر سب سے پہلے بہنوں کو ان کے گھر کا کیا۔ ماں نے میری شادی کر دی میری بیوی بہت سلجھی ہوئی ہے مس کبھی زبان سے شکایت نہیں کی، جو بھی مل جائے اللہ کا شکر کرتی ہے۔۔ میں اسے کہتا ہوں کہ میں نے تمہاری زندگی خراب کر دی تو آگے سے جواب دیتی ہے کہ اللہ کا شکر ادا کیا کرو اس نے ہم سے چھت نہیں چھینی، کتنے ہی لوگ ہیں جن کے پاس یہ بھی میسر نہیں ہے۔۔ میں نے کہا اتنے سال بعد اس شخص کی کبھی خبر ملی ؟ ولید بھائی نے بتایا کہ وہ فراڈ کر کے باہر ملک چلا گیا تھا اور مس دولت بھی ایک امتحان ہے کسی کی حرص بڑھ جاتی ہے اور کوئی صحیح استعمال کرتا ہے۔۔ اس کی حرص بڑھ گئی تھی دولت کمانے کے چکر میں غلط راستے پر چل نکلا اس کی اولاد اس سے چار ہاتھ آگے ہے۔۔ اور سننے میں آیا ہے کہ اسے شاید کوئی بیماری بھی ہوگئی ہے جس کی وجہ سے وہ کمرے میں ایک چارپائی پر پڑا رہتا ہے اسی پہ پیشاب کرتا ہے نہ کوئی صفائی کا خیال کرتا ہے نہ علاج پر دھیان دیتا ہے۔۔ وہیں اسے باسی کھانا دے دیا جاتا ہے۔۔ مس ایسی دولت سے اس نے یہ کمایا ہے بس۔۔ نہ اولاد اس کی ہوسکی، نہ بیوی اور نہ ہی سکون ملا۔۔ دولت سے اسے کچھ نہ مل سکا۔۔ مس یہ تھی میری آپ بیتی۔۔

میں نے کہا معاف کیجیے گا میری وجہ سے آپ کو ایک بار پھر سے اس تکلیف سے گزرنا پڑا۔۔ لیکن میں آپ کی یہ کہانی دوسروں تک پہنچاؤں گی بھائی۔۔ شاید اسے پڑھنے سے کوئی راہ راست پر آجائے۔۔ مس ایسی بات نہیں ہے اللہ آپ کو خوش رکھے اللہ آپ کے نصیب اچھے کرے آمین 

ولید بھائی چائے کے کپ اٹھائے کچن کی طرف چل دیے برتن دھونے۔۔ سینٹر بند کرنے کا ٹائم ہو گیا تھا۔۔ میں جانتی تھی آج مجھے گھر پہنچ کر سب سے پہلے کیا کرنا یے۔۔