دوستی

2019-07-10 20:22:24 Written by محمد شاہد

دوستی 
 از قلم 
محمد شاہد 

”دیکھو علی!
میری بات مان جاٶ۔
تم جس راستے پہ جا رہے ہو یہاں بہت ذِلتیں اور بربادیاں ہیں،دوست ہونے کے ناطے تم سے کہہ رہا ہوں۔

احمد!
تم بھی بس ہر وقت یہ گِھسی پٹی باتیں کرتے رہتے ہو،کبھی پرانے خیالات سے باہر بھی نکلو،دنیا میں اور بھی بہت کچھ ہے،تمہارے باپ دادا نے تمھیں ما سوائے مذھب کے اور بتایا بھی کیا ہے“
وہ دونوں بچپن کے دوست تھے،ایک محلہ ایک سکول ہونے کے باوجود دونوں کو گھر کا ماحول مختلف ملا تھا،
علی ایک امیر ترین خاندان سے تھا جبکہ احمد متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔
علی کے والد ایک بزنس مین تھے جن کے دوروں اور پارٹیوں نے اولاد کی طرف سے ان کی توجہ ختم کر دی تھی اور انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ جس اولاد کی خاطر دن دُگنی رات چوگنی میں محنت کر رہا ہوں اسکا مستقبل اندھیری رات،بیابان جنگل اور وحشت ناک ویرانہ ہے۔۔
احمد کے دادا نیک سیرت،سخی اور باکردار انسان تھے،انہوں نے اپنی اولاد کی تربیت اچھے طریقے سے کی تھی۔
احمد اپنے دوست کو بھی اپنی طرح نیک،بااخلاق،اعلیٰ کردار کا حامل اور معاشرے کا عزت دار شخص دیکھنا چاہتا تھا۔
احمد جب بھی اسے کسی برے کام سے روکتا تو وہ کہتا”یار چار دن کی زندگی اگر عیش و عشرت میں گزر گٸ تو اس میں کیا قباحت ہے“
احمد اسے اکثر سمجھاتا کہ انسان کا امیر ہونا اور بات ہے لیکن خدائی نعمتوں کا بے جا استعمال کسی خطرے سے خالی نہیں۔۔۔
آخر کار جب دونوں کے کاندھوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ پڑا تو علی نے آفس کی نوکری اختیار کر لی اور احمد نے اسلامی فوج میں بھرتی ہونے کو ترجیح دی۔۔۔
کافی عرصے بعد جب ملاقات ہوئی تب علی نے احمد کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔۔ کیسے بیوقوف آدمی ہو،دن رات جان ہتھیلی پر لیۓ سرحدوں کے دفاع کیلیۓ چاق و چوبند رہتے ہو،دشمن کی ایک گولی کی مار ہو بس پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد نے کہا ایسی موت میرے لیۓ سب سے بڑا اعزاز ہے۔
میرے رب کا وعدہ ہے میں ہمیشہ زندہ رہوں گا اور قیامت کے دن سرخرو و کامیاب اٹھایا جاٶں گا۔
اچھا تو پھر کیا ملے گا تمھیں اس کے بدلے؟
مجھے رب کی رضا،جنت کا حصول،آبِ کوثر،عرش کا سایہ،قیامت کی ہولناکیوں سے حفاظت اور باقی کئی انعامات میسر ہونگے۔
تو تمھارے لیۓ جنت میں کیا رکھا ہے جو دنیا سے اتنے لاپرواہ ہو؟
وہاں میرے لیۓ دیدارِ الٰہی،دودھ شہد شراب، پانی کی نہریں،باغیچے،محلات،حور و غلمان الغرض جو میں چاہوں گا میسر ہو گا۔
یہ حوروں کے تذکرے میں نے بھی بہت سن رکھے ہیں کیسی ہونگی یہ حوریں؟
اچھا تو وہ کیسی ہیں میں بتاتا ہوں کیسی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ حوریں نسوانی جمال کا آخری نمونہ اور جسمانی خوبصورتی کا آخری شاہکار ہیں،
ان کا حسن خوبصورتی کے ہر معیار پر آخری درجہ میں پورا اترتا ہے،ان کا بے مثال حسن اور با کمال روپ سرخی پاٶڈر کے سنگھار گجروں کے تار موتیوں کے ہار اور زیب و زینت کی جھنکار کا محتاج نہیں ہوتا،ان کے وجود کی تشکیل کیلیۓ کاٸنات اپنا ہر حسن مستعار دیتی ہے،پھول اپنے رنگ،ہوا اپنی لطافت،دریا اپنا بہاٶ،زمین اپنا ٹھہراٶ،تارے اپنی چمک،کلیاں اپنی مہک،چاند اپنی روشنی،سورج اپنی کرنیں،آسمان اپنا توازن،چوٹیاں اپنی بلندی اور وادیاں اپنے نشیب جب جمع کر دیتے ہیں تو ایک حور وجود میں آتی ہے۔
ان کا قد لمبا اور رنگ زردی ماٸل گورا ہے،پورے جسم کی جلد بے داغ اور شفاف ہے،آنکھیں بڑی بڑی اور گہری سیاہ ہیں مگر ہر لباس کی مناسبت سے اس کے رنگ میں ڈھل سکتی ہیں،بھنویں ہموار،پلکیں دراز،نظر عام طور پر جھکی رہتی ہے مگر جب اٹھتی ہے تو تیر کی طرح دل تک جا پہنچتی ہے۔
کتابی چہرہ،کشادہ پیشانی،سرخی ماٸل رخسار،ستواں ناک،شیریں زبان،گلاب کی طرح نازک ہونٹ اور موتیوں کی طرح چمکتے دانت،ریشم کی طرح نرم بال،سریلے نغمے کی طرح کان میں رس گھولتی آواز،وجود میں حیا کا عطر،سانسوں میں خوشبوٶں کی مہک،لہجے میں نرمی،چلنے کے انداز میں دلربائی ،بولنے کے طریقے میں شان و وقار،مخملی لباس،وجود معطر،باتوں سے موتی جھڑتے،بادلوں میں کھیلتے چھپتے بدرِ کامل کا منظر یہ سب ایک حور کی صفات ہیں۔
اچھا تو یہ ہوتی ہے ایک حور؟
علی نے سوالیہ انداز میں پوچھا ۔
نہیں یہ تو بس انسانی جزبات و احساسات کی عکاسی کی ہے میں نے،حوریں کیا ہیں کیسی ہیں کون ہیں کب ہیں کہاں ہیں کس کو ملیں گی یہ سب ہمارے اوھامِ ناقصہ سے بالا تر باتیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہر خیر مجلس کافی گفت و شنید کے بعد برخاست ہو گئی ۔۔۔
عرصہِ قلیل بعد چار سو اخبارات،ٹیلی وژن،ریڈیو پر پیغام نشر ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔دشمن ملک نے حملہ کر دیا ہے اور ہماری فوج پانی زمین اور خلائی تمام محاذوں پر ڈٹی دشمن سے نبرد آزما ہے۔
قوم سے ملکی سلامتی کیلئے دعاؤں کی اپیل ہے۔
علی اپنے آفس میں کرسی گھمائے جب اس خبر سے با خبر ہوا تو اس کے رونگھٹے کھڑے ہو گئے ۔۔۔۔
جنگ شروع ہو گٸ ؟؟؟
نہیں میرا دوست ؟؟؟
اس کا کیا ہو گا؟؟؟
اس سے رابطہ؟؟؟
اگر وہ ؟؟؟
نہیں نہیں یہ میں کیا سوچ رہا ہوں؟؟؟
اس کے ذھن میں مختلف سوالات جنم لے رہے تھے وہ کرے تو کیا کرے؟؟؟
آخر چند روز بعد دوبارہ ایک خبر اخبارات کی زینت بنی،جنگ بندی کے بعد تمام شہدا ٕ کے اجسادِ خاکی ورثا ٕ کو بھیج دیے گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علی ہانپتا کانپتا احمد کے گھر پہنچا،لوگوں کے ہجوم کو چیرتا ہوا احمد کے سرہانے آن کھڑا ہوا درانحالیکہ آنکھوں میں نمی اور چہرے پر اداسی چھائی ہوئی تھی۔
احمد اس کے سامنے تابوت میں چہرے پر مسکراہٹ بکھیرے اک خاموش پیغام لیے لیٹا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علی اتنے گہرے یار کو خود سے جدا ہوتا دیکھ کر بس اتنا ہی کہہ سکا
”جاٶ احمد اپنے مالک کے پاس تم حقیقت میں سرخرو و کامراں ٹھہرے“____