سودا

2019-07-11 20:21:08 Written by ارفع آصف

سودا

از قلم

ارفع آصف 

بھائی بھائی۔۔دیکھ مجھے جانے کا نہ کہہ۔۔میں تو تیرے گھر شہزادی تھی تو تو مجھے شہزادی کہتا تھا‘‘۔(اماں بی کو اپنا ماضی یاد آنے لگامجھے بھی میرے بھائی ’ست پھلا رانی‘ کہتے تھے۔سات بھائیوں کی اکلوتی بہن)۔

۔’’بھائی دیکھ اگر آج ابا ہوتا تو وہ میرے ساتھ ایسا نہ ہونے دیتا‘‘۔(لیکن میرا تو باپ زندہ تھا،اماں بی نے سوچا)۔’’بھائی دیکھ ناں اس نے مجھے تین طلاقیں اکٹھی دیں ہیں۔اب تو کوئی جواز نہیں اس گھر میں جانے کا‘‘۔(ارے پگلی تو تین کی بات کرتی ہے۔میں پانچ طلاقوں کا داغ پیشانی پر لئے بیٹھی ہوں)۔اس کا بھائی مسلسل کہ رہا تھا "تو گھر جا" ’۔میں تیرے بچوں کو کھلا سکتا ہوں کیا؟‘‘۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

اماں بی کو انمول کی باتیں سن کر اپنا ماضی یاد آنے لگا۔

۔’’چودھری نظام کے گھر سات بیٹوں کے بعد بیٹی نے آنکھ کھولی ۔چودھری صاحب خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے۔سب سے کہتے پھر رہے تھے میرے آنگن میں تو بہار آ گئی ہے۔اس کا نام بھائی نے کلثوم نظام رکھا تھا۔وقت نے اڑان بھری۔پتہ ہی نہ چلا کلثوم کا قد ماں کے قد کے برابر ہو گیا۔اماں کہتی تھیں۔’’لڑکیاں تو انگور کی بیل کی طرح ہوتی ہیں۔بڑے ہوتے پتہ ہی نہیں چلتا‘‘-وہ اپنی سکھیوں سہلیوں کے ساتھ ہر وقت باغ میں پائی جاتی۔اس پر جوانی کا خوب رنگ چڑھا تھا۔اور اسی خوبصورت رنگ پر کسی بد فعال کی نظر پڑ چکی تھی۔

۔۔۔۔۔۔

ایک دن ابا گھر آئے اور کہا کہ میں نے کلثوم کی منگنی کر دی ہے۔کلثوم گئی تھی ابا کے پاس لیکن ابا نا مانے۔۔’’ابا میرے پیارے ابا۔۔مجھے پڑھنا ہے۔ابھی تو میں نے صرف میٹرک پاس کیا ہے‘‘۔

۔’’پتر جتنا پڑھنا تھا پڑھ لیا۔شریف لوگ بیٹیوں کو یوں گھروں میں نہیں بٹھائے رکھتے‘‘۔

۔’’پھر بھی ابا.......

۔’’بس میں نے جو بات کہہ دی وہ کہہ دی اور کچھ نہیں سنوں گا ........"

اس نے اپنے باپ کا کٹھور روپ پہلی بار دیکھا تھا. اسے پہلی بار اپنے باپ پر غصہ آیا تھا۔اسے یقین تھا وہ اپنے باپ کو راضی کر لے گی۔ لیکن زندگی اس کیلئے ایک کڑا امتحان لائی تھی.

......

 اس کی چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوا ۔وہ نکاح کے تین بولوں میں کلثوم نظام سے کلثوم صابر بن گئی۔اور اسے اپنی زندگی میں صبر ہی تو کرنا تھا۔اپنے باپ کی محبت کی پٹی تو اسی رات اتر گئی تھی جب صابر نے اسے پہلی رات کہا تھا۔

۔’’اوہ میری رانی۔۔تجھے پتہ ہونا چاہئے تیرے باپ نے میرے ساتھ سودا کیا ہے اسے کیا کہتے ہیں انگریجی میں۔۔ہاں ہاں ڈیل۔۔ڈیل،وہی کی ہے‘‘چودھری نظام زمینوں کا بیوپاری تھا پتہ نہیں بیٹی کا کب سے بن گیا۔کلثوم ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہی تھی۔’’اسے وہ زمین چاہئے تھی اور مجھے تو‘‘وہ اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ہنسا۔

صابر حسین دوگنی عمر کا تھا۔کلثوم کو باغ میں دیکھا تب سے اس کے حسن پر فدا ہو گیا۔صابر حسین معمولی صورت کا مالک تھا۔چہرے پر چیچک کے نشان تھے اور اس کی حرکات اس کی شکل سے بھی زیادہ معمولی تھیں۔ دولت کے اعتبار سے کہا جا سکتا تھا کہ وہ غیرمعمولی تھا۔اس کے باپ نے مرتے سمے اکلوتے بیٹے کیلئے بڑی جائیداد چھوڑی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت پر لگا کےاڑا۔کلثوم کی شادی کو چار سال گزر گئے لیکن کلثوم پہلے والی کلثوم نہ رہی۔اس کے دو بیٹے تھے۔عامر اور عرفان۔اب اس کا باپ کے گھر جانے کو دل نہیں کرتا تھا۔بھائی اپنی زندگی میں خوش تھے.کبھی ماں سے ملنے چلی جاتی ورنہ وہ گھر میں صابر حسین کی گالیاں سنتی رہتی۔ان چار سالوں میں اس کی رنگت کملا گئی تھی۔ " عورت کو اس کا من پسند مرد نہ ملے تو وہ جتنی بھی حسین ہو, خود کو بدصورتی کی میلی چادر میں چھپا لیتی ہے"۔اس نے اپنے آپ کو صابر حسین کیلئے کبھی نہ سنوارا تھا۔اس لئے صابر حسین بھی اس کے حسن سے جلد اکتا گیا تھا اور اپنی پرانی روش پہ لوٹ آیاتھا۔

۔۔۔۔۔۔۔

ایک دن صابر حسین گھر آیا تو کلثوم پر چڑھ دوڑا۔اسے مار مار کے ادھ موا کردیا۔’’تجھے میرے چہرے سے گھن آتی ہے ناں یہ لے میں تھوکتا ہوں تجھ پہ ۔۔تو اس لئے مجھ سے دور بھاگتی ہے تیرے معاشقے جو چل رہے ہیں‘‘کلثوم کے قدموں تلے سے زمین نکل گئی۔برا تھا شوہر تو تھا۔وہ اس کے حق میں جتنی بددیانتی کرے لیکن کلثوم نے ایسا کبھی نہ کیا تھا۔’’بول اب.......۔۔‘‘اس کے منہ سے گالیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا۔’’ نہ بول..... تو سن لے پھر۔۔صابر حسین با قائم ہوش و حواس تجھے طلا۔۔۔‘‘ابھی اس کے منہ سے پورے الفاظ ادا نہیں ہوئے تھے کہ وہ بولی..

۔’’صابر حسین ایسا نہ کر۔۔ میں کدھر جاؤں گی میری تو یہی پناہ گاہ ہے ۔۔دیکھ۔۔میں ہاتھ جوڑتی ہوں .....‘‘۔’’طلاق دیتا ہوں۔۔طلاق دیتا ہوں۔۔طلاق دیتا ہوں‘‘کلثوم کو ایک دم سے جھٹکا لگا،کمرےمیں سے اپنی چادر لی اور باپ کے گھر کی راہ لی۔

۔’’کتنا مشکل ہوتا ہے ہم عورتون کیلئے نکاح کے تین بول بولنا اور مرد کس قدر آسانی سے طلاق کے تین لفظ بول کر ہم عورتوں کو برباد کر دیتے ہیں.........

وہ اپنے حواسوں میں نہیں تھی۔بڑے پتھر سے ٹکرائی تو منہ کے بل جا گری۔جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی، کپڑے جھاڑے اور دوبارہ سے اپنے راستے پر چل پڑی۔جیسا آج اسے صابر حسین نے گرایا تھا اس کے مقابلے میں یہ تو کچھ بھی نہیں تھا۔

وہ گھر کے دروازے کے سامنے کھڑی تھی۔اندر جانے سے گریز کررہی تھی۔۔لیکن وہ اندر چلی گئی۔وہ ماں کو تو ہمیشہ کہتی تھی وہ خوش ہے لیکن مائیں ہر بات کا بھید پا لیتی ہیں۔اس کی ماں نے بھی اس کا بھید پا لیا تھا اور اس کو خاموشی اختیار کرنے کا کہا تھا۔وہ گھر کے اندر داخل ہوئی تو ماں نے اپنا دل تھام لیا۔ بیٹی کو اس حالت میں دیکھ کر وہ دوڑ کر اس کے پاس گئی۔

۔’’کیا ہوا میری دھی رانی؟‘‘۔

۔’’اماں اس نے چھوڑ دیا۔اماں وہ کہتا ہے کلثوم بدکردار ہے‘‘پھر چپ۔۔۔

۔’’نہ میری دھی۔۔ایسا نہیں ہے۔تو ایسے کہہ رہی ہے ناں۔اپنی ماں کے ساتھ جھوٹ تو نہ بول۔۔۔میں بھیجتی ہوں تیرے باپ بھائیوں کو،بات کرتے ہیں اس سے۔‘‘’’اماں اب بات کرنے کو کچھ باقی نہیں رہا۔۔اماں اس نے مجھے طلاق دی ہے اماں تو تو کہتی تھی طلاق دینے سے عرش ہل جاتا ہے۔۔اماں اس کا دل نہیں کانپا ہو گا؟‘‘۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابا اور بھائی کمرے میں بیٹھے اس معاملے پر غور کررہے تھے۔کلثوم ایک کونے میں سمٹی بیٹھی تھی۔اسے خوف تھا۔غلط فیصلے کا۔۔۔

’’کلثوم میری بہن۔۔شاید صابر پاجی نے ایسا نہ کہا ہو۔۔تجھے سننے میں غلطی ہوئی ہو‘‘۔

اس نے خاموشی کی چادر اوڑھ لی تھی۔’’کیا وہ بہری ہے جو نہ سن سکے‘‘اماں نے جواب دیا۔’’اماں تو چپ کرجا‘‘۔’’میری دھی سیانی ہے۔۔اپنے باپ کی لاج رکھے گی۔چل پتر تجھے گھر چھوڑ آؤں دیری ہو رہی ہے۔تیرے بچے انتظار کررہے ہوں گے‘‘باپ نے بازو سے پکڑ کر اٹھانے کی کوشش کی۔وہ مٹی کا مجسمہ بنی بیٹھی تھی۔

۔’’اچھا ابا۔۔چھوڑ۔۔آج رات یہی رہنے دے۔۔صبح میں اپنی بہن کو چھوڑ آؤں گا۔‘‘۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کو ہر طرف ہو کا عالم تھا۔اس کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔جب وہ چھوٹی تھی تو اس کے ابا اور بھائی کتنے اچھے تھے ناں لیکن آج سب سے برے مرد لگ رہے تھے۔کمزور اور غیرت کے نام پہ بےغیرت۔ وہ رب سے شکوہ کرنے لگی۔’’اتنی سوہنی شکل دے کے تو نے میرا نصیب کس قدر غلط لکھ ڈالا‘‘۔نہیں نہیں پھر اسے اماں کی بات یاد آئی۔’’رب سوہنے سے کبھی شکوہ نہیں کرتے۔وہ سوہنا تو بڑے پیارے نصیب جوڑتا ہے‘‘اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔’’کلثومی۔۔‘‘اس نے کوئی جواب نہ دیا۔’’کلثوم........‘‘ماں اٹھ کر اس کی چارپائی پر جا بیٹھی۔’’مجھے پتہ ہے میری بیٹی جھوٹ نہیں بولتی۔۔اپنی ماں کو سچ بتا‘‘اس دن ماں بیٹی ایک دوسرے سے لپٹ کر بہت روئی تھیں۔’’اماں ابا مجھے بھیج دے گا۔۔۔ میں جھوٹ نہیں بولتی۔اماں تجھے تو معلوم ہے۔‘‘۔’’پتر تیرے باپ نے تیرا سودا کیا تھا‘‘’’ہاں اماں مجھے پتہ ہے بڑے ہی سستے داموں بکی تھی۔کوڑیوں کے بھاؤ‘‘اس نے ہموار لہجے میں جواب دیا۔’’تجھے کیسے پتہ؟َ‘‘’’چھوڑ اس بات کو۔۔اب بہت پرانی ہو چکی ہے اس پر تو اب گرد پڑ چکی ہے بے حسی کی۔۔

‘۔’’پتر اگر تیرا باپ تیرے ساتھ زبردستی کرنے لگے تو یہ پتہ لے تو چلی جانا۔ شہر میں رہتی ہے۔میری ماسی ہے۔۔ٹھیک ہے ناں؟‘‘۔اس نے پتہ تھام لیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔’’چل اٹھ کلثوم تجھے گھر چھوڑآؤں۔‘‘۔ ۔’ ابا۔۔تو میری بات سمجھ نا‘‘۔ ۔’’او چل پتری۔۔وہ کل آیا تھا۔ شرمندہ تھا بڑی معافیاں مانگ رہا تھا کہہ رہا تھا غلطی سے چند الفاظ بول دئیے ورنہ کہنے کا ارادہ نہیں تھا‘‘۔ ۔’’اوئے شاکر تیری بہن کو فارغ کر دیا ہے۔‘‘وہ ان کے ڈیرے پر آیا اور کہا’’اپنی بیوی نہیں تو نوکرانی تو بن سکتی ہے ناں‘‘اور وہ مکروہ ہنسی۔ ۔’’او تیری تو۔۔‘‘سب سے چھوٹا اس پر چڑھ دوڑا۔’’تیری یہ ہمت۔۔‘‘۔’’اوئے شیر مجھے لگتا ہے میری زمین کے اناج نے تجھ پر بڑا اثر ڈالا ہے گیدڑ سے شیر بن گیا ہے‘‘اس کے گریبان تک جاتے ہاتھ رک گئے۔’’کل صبح تک اپنی بہن خود چھوڑ دینا ورنہ زمین کو چھوڑ دینا‘‘وہ چلا گیا تھا۔ ۔’’ابا زمین کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔بڑی اچھی فصل آئی ہے اس بار‘‘۔ ۔’’ابا کلثوم کو بھیج دے پھر۔۔وہ کہہ رہا ہے ناں نوکرانی بنا کر رکھے گا۔بچے بھی بڑے ہو جائیں گے۔۔چل جائے گا گزارا‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن کلثوم اپنے گھر گئی تھی ۔اس دن ایک بڑھیا نے کہا تھا’’کہیں کوئی گناہ سرزد ہوا ہے۔خدا کے قہر کی آندھی ہے۔‘‘۔کلثوم اپنے باپ اور بھائیوں کے سامنے ہار گئی تھی۔اس کا دل تو کررہا تھا سب کا منہ نوچ لے مگر وہ ایسا نہ کر سکی۔ صابر حسین نوکرانی کی حد سے آگے آنے لگا تھا۔ اسے بیوی سمجھنے لگا تھا۔لیکن اس سے برداشت نہ ہوا۔وہ واقعی عزت دار لڑکی تھی۔وہ بھاگ گئی تھی گھر سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے۔پیچھے اس لڑکی سے سب نفرت کرنے لگے تھے۔وہ سچی ہوتے ہوئے بھی گناہ گار ٹھہرائی گئی تھی۔ ...... وہ اس پتے پر گئی تھی۔ماسی اس وقت بستر پر پڑی تھی۔اس نے ماسی کی خوب خدمت کی ۔آخری وقت میں وہ اپنا پیشہ اسے سونپ گئی تھی۔ماسی کی بہوؤں اور بیٹوں نے خدا ترسی کرکے ایک کمرے کا مکان بنا کر اسے دے دیا تھا۔۔وہ وہیں رہنے لگی۔ آج پچیس سال گزرنے کے بعد بھی وہ وہیں رہ رہی تھی۔محلے والے اس کا احترام کرتے تھے اس کی مدد کرتے ،کیونکہ وہ ان کے بچوں کو قرآن پڑھاتی تھی۔ماسی کی چھوٹی بہو گئی تھی جب اماں فوت ہوئی ۔اس نے آ کر بتایا تھا کہ تیرے بچے تجھ سےنفرت کرتے ہیں۔اس نے لفظ نفرت کو غور سے نہیں سنا تھا اسے تو بس ’تیرے بچے‘ لفظ سنائی دیا تھا۔ ۔’’میرا عامر تو گھبرو جوان ہو گیا ہو گا اور عرفان۔۔وہ تو میرا شہزادہ تھا۔‘‘۔ ۔’’کیسے تھے وہ؟‘‘۔ ۔’’کلثوم تو کتنی بھولی ہے۔۔میں نے کہا نفرت کرتے ہیں‘‘۔ ۔’’اچھا کوئی بات نہیں۔میں تو ان سے محبت کرتی ہوں ناں....

 

انمول آئی تھی اماں بی کے پاس...دعا کرانے کہ الللہ اس کے بھائی کو ہدایت دے.... اور اسے ہدایت مل گئ تھی وہ انمول کو اپنے ساتھ لے گیا تھا..ماہانہ خرچ بھی دیتا تھا..انمول بھی نوکری کررہی تھی. اب سارا بوجھ تو بھائی پہ نہیں ڈال سکتی تھی.....اماں بی کے بھائیوں کے دلوں پہ مہر لگ چکی تھی۔اماں بی سوچے جا رہی تھیں........

دنیا میں بہت سی لڑکیاں کلثوم جیسا نصیب لے کر پیدا ہوتی ہیں مگر بھائی ان کا سودا نہیں کرتے۔بچے اپنی ماؤں سے نفرت نہیں کرتےجیسے انمول کے بچے۔۔جو اس کے ساتھ رہتے ہیں۔

.......

آج کلثوم خود کو دنیا کی خوش قسمت عورت تصور کرتی تھی۔وہ اس چھوٹے سے محلے کی اماں بی تھی۔اس کے پاس ہر کوئی اپنا مسئلہ لے کر آتا تھا 

اس نے دنیا کی محبت چھوڑ کر رب سوہنے کی محبت اختیار کر لی تھی۔اس لئے آج وہ کامیاب تھی۔اس کو اپنے دو بچے کھو جانے کا کوئی افسوس نہ تھاکیونکہ رب سوہنے نے اسے اتنے بچوں سے نواز دیا تھا۔ہاں ناں وہ سب اس کے بچے تھےاسے اماں بی کہتے تھے۔

وہ یہ سب باتیں سوچ کر مسکرا دی۔کلثوم رب نے تیرے ساتھ بڑا بھلا سودا کیا ہےجھوٹی محبت لے کر اصلی محبت عطا کردی۔تجھے عشق حقیقی کے منصب پر بٹھا دیا۔’’یہ کوئی ماڑا سودا نہیں ہے‘‘یہ کہہ کر وہ مسکرا دی۔آج اس نے دل سے سب کو معاف کردیا تھا۔