کہانی میں واپسی

2019-07-14 19:45:48 Written by کشف بلوچ

"کہانی میں واپسی"

از قلم 

"کشف بلوچ" 

 

منگل کے روز وہ کام سے واپس آیا تو اسے دروازے کے پاس ایک خط ملا۔کمرے میں داخل ہونے سے قبل ہی وہ خط کا لفافہ چاک کر چکا تھا۔ٹیڑھی میڑھی لکھائی میں لکھا تھا۔

"کہانی میں تمہاری واپسی کے سین آ گئے ہیں۔پہلی فرصت میں چلے آٶ۔" یہ پڑھ کر اس کے ہاتھ سے کاغذ گر پڑا۔

"بس اتنی سی عبارت۔۔۔؟" 

بھلا اتنی عبارت پر کون چھٹی کر کے اتنی دور گاٶں سیداں والی جائے۔۔وہ جوتوں سمیت بستر پر نیم دراز ہو گیا۔مگر کچھ یاد آنے پر فوراً اٹھ بیٹھا۔کھڑکی کے پاس پڑی رائیٹنگ ٹیبل کی جانب تقریباً بھاگ کر گیا۔اور خط کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔خط کی پشت پر نہ تو کسی کا نام لکھا تھا اور نہ ہی کسی کا پتہ درج تھا۔

"یقینا میری غیر موجودگی میں کوئی خود ہی پھینک گیا ہوگا۔"اس نے سوچا۔ پھر تھکے تھکے قدموں سے واپس بستر پر بیٹھ گیا۔

"مگر میرے ذہن میں یہ خیال کیونکر آیا کہ خط گاٶں سیداں والی سے ہی آیا ہوگا۔۔۔" 

اگلے دو دن اسی ادھیڑ بن میں گزر گئے۔

شہر سے مغرب کی طرف نہر والے پل سے ایک سڑک اس کے ننھیالی گاٶں کو جاتی تھی۔شام ہوئی تو وہ بس اسٹاپ پر کھڑا تھا۔بس اسٹاپ سنسان پڑا ہوا تھا۔

"کہیں یہ میرا وہم تو نہیں ۔۔۔۔بھلا نانی کے مرنے کے بعد وہاں میرا کون بیٹھا ہے جو مجھے خط لکھ کر بلائے گا۔۔" 

اس کا من کیا وہ واپس پلٹ جائے۔۔ایک تو کام کی چھٹی اوپر سے اتنے لمبے سفر کی خواری۔۔۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ گاؤں سیداں والی میں جائے گا کس کے پاس ۔۔۔؟"

لیکن اس سے پہلے کہ وہ الٹے قدموں واپس لوٹ جاتا۔بس ہارن بجاتی ہوئی آ گئی۔اور وہ اس میں سوار ہوگیا۔۔۔

بس روانہ ہوئی تو اس نے باہر دیکھنا شروع کردیا۔

بعض پیڑ بوڑھے ہو چکے تھے۔اور کچھ نئے پیڑ پودے حیرت سے آنکھیں جھپکاتے ہوئے اسے دیکھ رہے تھے۔

یہ راستے جنہیں دیکھے ہوئے پانچ سال ہو گئے تھے۔جو روز رات کو چھت پر سوتے ہوئے اس کی آنکھوں میں چلے آتے۔۔اوپر تنا ہوا آسمان گاؤں سیداں بن جاتا اور تارے گاٶں کے سب گھر۔۔

وہ لیٹے لیٹے ہی اپنی انگلی مغرب کی جانب تاروں کے جھرمٹ پر رکھتا اور زیرِ لب کہتا۔

یہ نانی کا گھر ہے۔۔۔اور پھر پور پر چڑھ کر ایک لمبی چھلانگ لگا کر گھر میں داخل ہو جاتا۔ویسے بھی اونچی دیواریں، لمبے صحن اور بڑے بڑے کھیت عبور کرنا اس کے لیے کون سا مشکل کام تھا۔۔

"نانی میں ماسی شیداں کے گھر جارہا ہوں۔"

اور نانی جھٹ اسے دروازے پر دبوچ لیتی۔

"تجھے کتنی بار منع کیا ہے کہ اب تو ان کے گھر نہ جایا کر،اس کے بھائی بشیرے کو تیرا یوں منہ اٹھا کر آنا پسند نہیں۔" 

اور وہ نانی کی بات پر ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہتا۔

"چاچے کو تو رات کو برستا مینہ بھی پسند نہیں ،گندم کی کٹائی سے اسے شدید نفرت ہے۔اور تو اور اسے تو اپنا بہنوئی تک پسند نہیں ،جس کے گھر وہ تب سے رہ رہا ہے جب سے اس کی بہن بیاہ کر اٌس گھر آئی تھی۔مگر ساڑھے چوالیس برس سے وہ یہ سب برداشت کررہا ہے تو مجھے بھی دس سال برداشت کر لیں۔" 

"چل ہٹ۔۔۔اللہ تجھے لمبی عمر دے۔" نانی اس کی مذاق میں کہی باتوں پر ہول سی جاتیں۔

اوہو نانی میرے نہیں،چاچے بشیرے کے دس سال۔" وہ ہنستے ہنستے دروازہ پار کر جاتا۔

اس کا زیادہ تر وقت اپنی ماں کے ساتھ کھیتوں میں گزرتا۔وہ اپنی بکریوں کے لیے چارہ اکٹھا کرتی رہتی۔کھیتوں میں گرے پڑے گندم کے خوشے چنتی رہتی۔ساگ پات کی گٹھڑی سی باندھ لاتی۔اور وہ یونہی اس کے پیچھے پیچھے پھرتا رہتا۔

ایک دن نانی نے تنگ آ کر اسے سکول میں داخل کرایا تو سب نے جیسے سکھ کا سانس لیا۔مگر وہ اس کے بعد کا سارا وقت شمی کو پڑھانے کے بہانے ان کے گھر میں گزار دیتا۔ادھر اس کی میسیں بھیگی،آواز بھاری ہوئی اور اس کا شمی کے گھر داخلہ بند ہوگیا۔لیکن وہ جب کسی کے بیاہ پر اسے دیکھتا تو اس کا دل خوشی سے بھر جاتا۔

جب شمی چھوٹی تھی تو وہ اس کے لیے جنگلی شہتوت اور کیریاں اٹھا لاتا۔مگر جب بڑی ہوئی تو میلوں ٹھیلوں میں بکتی ہار سنگھار کی چیزیں دیکھ اس کی آنکھیں چمک اٹھتیں۔شمی کا خاندان بھی باقی گاٶں والوں کی طرح کھیتوں میں کام کر کے گزارا کرتا۔

جبکہ اس کا نانا کافی زمینیں چھوڑ کر مرا تھا۔اس کے باپ کے مرنے کے بعد وہ انہیں اپنے گھر لے آیا۔پھر پہلے اس کی ماں مری اور اس کے پیچھے نانا۔دونوں کے مرنے کے بعد نانی اور اس کا خرچ ہی کتنا ہوتا۔وہ اپنے حصے کا سب کچھ شمی پر خرچ کردیتا۔

بس رکی تو وہ نیچے اتر آیا۔سڑک کے دونوں جانب ہری بھری فصلیں تھیں۔ایک طرف پیدل چلنے کا کھلا راستہ تھا۔رات کے نو بجے کا وقت تھا جب وہ وہاں پہنچا۔

ایک نیم شکستہ مکان کے کھلے دالان میں سب لوگ بیٹھے تھے۔

وہ پیڑھی پر بیٹھی تھی۔ایک آدمی چولھے کے پاس بیٹھا چلم تازہ کر رہا تھا۔دروازہ کھلا ہوا تھا۔

سب اسے دیکھ کر چونکے اور پریشان ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔

سب سے پہلے ماسی شیداں اٹھی۔اور اس کا بیگ اٹھا کر کمرے میں چلی گئی۔پھر شمی نے بنا کچھ کہے اس کے لیے پیڑھی خالی کردی۔شمی کے باپ نے حقے کی نے کو منہ لگاتے ہوئے شمی کو اشارہ کیا۔فوراً اس کے سامنے کھانا رکھ کر اس کا بستر صحن میں لگا دیا گیا۔

وہ جو ڈرتے ڈرتے گھر میں داخل ہوا تھا۔آٶ بھگت دیکھ کر شیر بن گیا۔لسی کا ٹھنڈا ٹھار گلاس پی کر نہایت تلخ لہجے میں کہا۔

"میں گوگی کے بستر پر نہیں سوؤں گا۔"

اور بجلی کے بلب کے نیچے یونہی بے وجہ کھڑی شمی کو روٹھے پن سے دیکھا۔

"تجھے پتہ ہے نا مجھے گوگی پسند نہیں ہے۔" جوابا وہ نظریں چرا گئی۔

"ہاں پر اب یہ گوگی کا بستر نہیں رہا۔وہ کملا تو مٹی اوڑھ کر سو گیا۔۔" ماسی یہ کہتے رو دی۔اور شمی کے باپ نے آگے بڑھ کر کہا۔

"وے امتیاز صبح تیرے لیے نئی چارپائی نکال دیں گی۔وہ بے چاریاں کچھ دیر پہلے بھائی بشیرے کے گھر سے آئی ہیں۔آہ ۔۔آج اس کملے کو مرے تیسرا دن بھی گزر گیا۔اور چلم اٹھا کر اپنی چارپائی پر جا بیٹھا۔

"اوئے گوگی تو اب کیوں مر گیا۔۔اس وقت کیوں نہیں مرا جب میں نے تجھے مرونڈے میں چوہے مار دوا ملا کر کھلانے کی کوشش کی تھی۔۔"

وہ دیر تک کروٹ بدل کر سوچتا رہا۔کبھی اسے تکیہ گیلا لگتا جیسے گوگی کے منہ سے ابھی ابھی رال گری ہو۔یا پھر چادر میں گوگی کی ٹیڑھی میڑھی ٹانگیں گھس آئی ہوں۔

وہ کروٹ بدلتا تو پیٹھ پر یوں محسوس ہوتا جیسے گوگی کی کبڑی کمر اس کے ساتھ جڑ گئی ہو۔

"کمبخت مرنا تھا تو پانچ سال پہلے مر جاتا۔"۔وہ غصے سے آسمان کے تاروں کو انگلی کے گرد دوڑاتا رہا۔

صبح جب چاچا بشیرے نے اسے گوگی کے بستر سے نکلتے دیکھا تو پاس پڑا گھاس کاٹنے والا ٹوکا اٹھا لیا۔

" شمی کی شادی صرف میرے گوگی سے ہو گئی ورنہ میں امتیاز کے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔"

چاچے کی آواز میں اب بھی پانچ سال پہلے والی کڑک تھی۔پہلے تو اسے ماسی نے دیوار پر چڑھا کر بھگا دیا تھا۔مگر اب چاچے نے بڑی بے رحمی سے پہلا وار اس کی ٹانگ پر کیا۔اور پھر واقعی اس کی بوٹی بوٹی کر ڈالی۔

وہ ہڑبڑا کر اٹھا تو صحن میں دھوپ چڑھ آئی تھی۔اور وہ پسینے سے شرابور تھا۔

سہہ پہر کو جب ان دونوں کا نکاح ہوا تو اسے دو مرتبہ شک ہوا کہ جیسے چاچا بشرے نے دروازے سے جھانک دیکھا ہو۔مگر گاٶں کے لوگ کہنے لگے۔

"بیٹے کے جانے کے بعد بشیرے کی نوکدار مونچھیں تک جھڑ گئی ہیں۔جن پر وہ دیسی گھی لگایا کرتا۔"

نجانے یہ سن کر اس کے دل میں کیا سمائی کہ وہ شمی کے بازو پر چٹکی کاٹ کر ہنسنے لگا۔

شادی کے دوسرے روز وہ کام سے واپس آیا تو شمی چائے لے کر اس کے پاس بیٹھ گئی۔

اس نے خلاف معمول منہ پر بے ڈھنگے پن سے بہت سا سرخی پاورڈ تھوپا ہوا تھا۔اور سستے قسم کے شوخ اور چمکیلے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔

"تم نے ابھی تک بتایا نہیں ۔"

"کیا۔۔۔۔؟ " 

"کہ تم نے مجھے وہ خط کس کے زریعے بھیجا تھا۔۔۔؟"

کون سا خط۔۔۔؟ 

"وہی جس میں تم نے مجھے واپس بلایا تھا۔"

"مگر میں نے تمہیں کوئی خط نہیں لکھا تھا۔" 

شمی کی سنجیدہ صورت دیکھ کر وہ خاموش ہو گیا۔اور پھر چائے میں چمچ ہلاتے ہوئے پوچھا۔

"اور گوگی کیسے مرا تھا۔" 

"تمہیں پتہ تو ہے کہ وہ پیدائشی معذور تھا۔نہ ڈھنگ کا بولتا نہ چلتا اور نہ ہی کھا پی سکتا۔۔یہ تو ماما ضد پر اڑ گیا کہ میری بہن کے بدلے میں اپنی بیٹی میرے بیٹے سے بیاہ دو۔۔ورنہ وہ بیچارہ تو بس دن پورے کررہا تھا۔" شمی نے اداسی سے بتایا تو اس نے چائے کی پیالی اٹھا لی۔

"پتہ ہے شودا آخری دنوں میں مجھ سے پڑھنا لکھنا سیکھ رہا تھا۔شمی نے یہ کہتے ہوئے اپنا پرس کھولا اور چند کاغذ اس کے سامنے رکھ دیے۔

لکھائی پر نظر پڑتے ہی اس نے چائے کا گھونٹ الٹ دیا۔چائے کا ذائقہ ایسا تھا جیسے اس میں چوہے مار دوائی ملی ہو۔

وہ سینہ پکڑ کر بے تحاشا کھانسنے لگا۔۔۔