کاش

2019-07-15 19:55:11 Written by اسد اللہ امجد

"کاش"

از قلم 

"اسداللہ امجد" 

 

"کون آیا تھا باہر۔۔؟؟؟"

ہاشم نذیر کی بیوی نے اپنی بنارسی ساڑھی کے پلو کو درست کرتے ہوئے اپنے خاوند ہاشم نذیر سے پوچھا۔تو ہاشم نذیر کے چہرے پر ناگواری کی سی کیفیت ابھری کہنے لگے "وہ ہی میرے بڑے بھائی عاقب نذیر کا بیٹا ارسلان،کہہ رہا تھا ابو نے پیسے مانگے ہیں ان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں۔ انہیں ہسپتال میں داخل کروانا ہے"

یہ سب کہتے ہوئے ہاشم نذیر کا لہجہ ایک دم کرخت ہو گیا اور دوبارہ اپنی بیوی انیسہ ہاشم سے مخاطب ہوئے"بڑے بھائی نے تو حد ہی کر دی ہے۔آئے دن پیسے پیسے وہ تو یہ سوچتے ہیں جیسے میں کوئی فیکٹری لگا رکھی ہے۔آخر میں اپنی ذندگی کے قیمتی پانچ سال بیرون ملک سڑکوں کی خاک چھانتا رہا ہوں۔اور آج تو بس پوچھو مت بیماری کا بہانہ بنا کر پیسے لے گیا ہے ان کا بیٹا آخر کو میں اتنی محنت کر کے یہ کاروبار ان کے لیے کھڑا نہیں کیا"

اپنے خاوند کا یوں شادی کی سالگرہ پر موڈ خراب ہوتا دیکھتے ہوئے انیسہ ہاشم نے اپنے خاوند کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بات کا رخ دوسری طرف بدل دیا۔

"اب لوگوں کو تو خیال نہیں آئندہ پیسے لینے ادھر سے کوئی آئے گا تو میں خود بات کر لوں گی آپ خواہ مخواہ خود کو ہلکان نا کریں۔ اچھا یہ بتائیں آج اپنی شادی کی سالگرہ پر ہم کہاں ڈنر کرنے جا رہے ہیں۔۔؟"

انیسہ کے اس سوال پر ہاشم نذیر کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی اور بڑے موڈ میں کہنے لگے"وہاں ہی جہاں ہماری محبت کا آغاز ہوا تھا ہم دونوں نے پہلی دفعہ ایک دوسرے کو دیکھا تھا پھر اس دیکھنے دیکھنے میں ہی ایک دوسرے کو دلوں میں بسا لیا تھا"

ہاشم نذیر کی اس بات پر انیسہ ہاشم کے چہرے پر شرم و حیا کی ایک لالی سی دوڑ گئی۔۔

--------------------­--

سیاہ رنگ کی نئے ماڈل کی خوبصورت سی کار پر رونق شہر کی پر رونق سڑکوں پر رواں دواں تھی۔کار میں ہلکی موسیقی اور اے سی کی ٹھنڈک اس پر انتہائی قیمتی پرفیوم کی مہک عجب ہی رومانوی سا ماحول بنا رہی تھی۔دو سال پہلے ہی شادی کے بندھن میں بندھنے والے ہاشم نذیر اور ان کی بیوی انیسہ ہاشم اپنی شادی کی دوسری سالگرہ سیلیبریٹ کرنے شہر کے سب سے مہنگے ریسٹورنٹ "دی نائٹ ڈریمز" میں جا رہے تھے۔

کچھ ہی دیر بعد کار ہوٹل کی پارنگ میں داخل ہوئی اور اس کے کچھ لمحات بعد یہ حسین جوڑا اس ریسٹورنٹ کے پر لطف ڈنر سے لطف اٹھا رہا تھا۔تب ہی ہاشم نذیر کے موبائل فون پر کال آئی لیکن اس پر لطف لمحات میں کمی نا آجائے یہ سوچ کر ہاشم نذیر نے بنا یہ دیکھے کال کس کی آ رہی ہے موبائل آف کر دیا۔

ہاشم نذیر اپنی شادی کی سالگرہ کے ان لمحوں کو یادگار بنانا چاہتا تھا اور اسی خوشی میں ریسٹورنٹ کے اس حصہ میں موجود لوگوں کو سویٹ ڈش اپنی طرف سے پیش کی۔ تمام لوگ اس جوڑے پر رشک کر رہے تھے اور کچھ شائد حسد کی نگاہ سے دیکھنے والے بھی تھے۔۔۔

 

ایک دفعہ منظر پھر اسی کار کا ہی تھا وہ خوبصورت کار جسے ہاشم نذیر آج خود ڈرائیو کر رہا تھا ۔اس کا کہنا تھا آج ہم دونوں کے بیچ کوئی نہیں آئے گا ڈرائیور بھی نہیں اسی لیے ہی تو ہاشم نذیر نے اپنا موبائل فون بھی آف کر دیا تھا۔

شادی کی سالگرہ کا پر لطف ڈنر اور لونگ ڈرائیو کے بعد ہاشم نذیر اور انیسہ اپنی دو کنال پر پھیلی ہوئی کوٹھی میں واپس آگئے۔

گھر آ کر ہاشم نذیر نے اپنا موبائل فون آن کیا تو متعدد کالز ان کے بھتیجے ارسلان کی آئی ہوئی تھیں۔ جسے دیکھ کر ہاشم نذیر کو تھوڑی سی پریشانی ہوئی لیکن پھر وہ ہی مردہ ضمیر کی آواز "ضرور بھیک منگوں کو پیسے مانگنے ہوں گے"۔ یہ سوچ کر ہاشم نذیر نے موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہی تھا کے ایک دفعہ پھر ہاشم نذیر کے بڑے بھائی عاقب نذیر کے بیٹے ارسلان کی کال آ گئی۔۔

پہلے تو ہاشم نذیر نے سوچا کال نا اٹھاؤں لیکن پھر کچھ سوچ کر کال ریسیو کر ہی لی۔

دوسری طرف ارسلان تھا لیکن اس کا لہجہ اور اس کی آنسوں میں رندھی ہوئی آواز نے جو الفاظ کہے وہ ہاشم نذیر کی ذندگی میں سنے جانے والے بد ترین الفاظ تھے۔۔۔

ہاشم نذیر کے بڑے بھائی عاقب نذیر اس دنیا میں نہیں رہے تھے۔۔

--------------------­-

عاقب نذیر کا جسد خاکی منوں مٹی تلے دبایا جا رہا تھا لیکن ہاشم نذیر کا ذہن بس ایک ہی بات سوچے جا رہا تھا کاش آہ کاش اس نے فون کال ریسیو کر لی ہوتی۔ اس کے بڑے بھائی کا آپریشن ہو گیا ہوتا۔ اس بھائی کا جس نے ماں اور باپ دونوں بن کر پالا تھا آہ کاش میں یہ سب جھوٹ نا سمجھا ہوتا۔آج ہزاروں کی سویٹ ڈش ان لوگوں کو پیش کر دی جنہیں میں جانتا تک نا تھا اور جس بھائی نے مجھے میرے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا اسے ہی میں آج نا بچا سکا۔۔

آنسوں کا ایک ریلا پھر ہاشم نذیر کی آنکھوں میں رواں ہو گیا۔دل سے پھر درد بھری آہ کاش بن کر نکلی۔۔۔

کاش مجھے دولت نے یوں اندھا نا کر دیا ہوتا۔

ایک کاش کے سوا اب ہاشم نذیر کے پاس کچھ نا رہا تھا ہاں اس دولت کے سوا جو اس کے بھائی کی زندگی تک بچانے کے کام نا آ سکی تھی۔۔۔۔