چلو پھر زندہ رہتے ہیں

2019-07-17 20:05:10 Written by سحرش بخت ملغانی

"چلو پھر زندہ رہتے ہیں" 

از قلم

"سحرش بخت ملغانی" 

 

اس کی زندگی کے تین حصے تھے اور ان تین حصوں کے درمیان دو رپورٹس تھیں۔

پہلا حصہ،پہلی رپورٹ سے پہلے تک کا حصہ ہے جس میں وہ تنک مزاج اور سڑیل سی ڈاکٹر زندگی سے سخت نالاں نظر آتی ہے۔کینسر کے مریضوں کا علاج کرتے کرتے اسے زندگی کے اس ٹام اینڈ جیری شو سے سخت چڑ ہوچکی تھی۔’’ لوگوں کو ایسی بیماریاں کیوں ہوتی ہیں؟‘‘۔’’بھلا مریضوں کو اپنے کینسر کا ہی پتہ کیوں نہیں چلتا؟آخری اسٹیج پر آ کر وہ ڈاکٹرز کے پاس کیوں آتے ہیں؟‘‘’’پھر بھلا وہ مر کیوں جاتے ہیں؟‘‘۔’’آخر یہ موت کی مصیبت بنائی ہی کیوں گئی؟‘‘۔’’اور اگر مرنا ہی ہوتا ہے تو پہلے پیدا کیوں ہوتے ہیں؟‘‘۔

قدرت سے ناراض رہتے رہتے اب وہ زندگی سے بھی ناراض رہتی تھی۔’’بھلا لوگ ہنستے کیوں ہیں؟‘‘۔’’اچھا چلو ہنسنے مسکرانے تک تو سمجھ آتی ہے یہ قہقہے کس خوشی میں ایجاد کیے گئے؟‘‘۔

اسے قہقہوں سے،خوش گپیوں سے(فضول میں وقت برباد کرنے سے)گھومنے پھرنے سے(لوفری کرنے سے)سخت الرجی تھی۔

اور پھر۔۔۔

ایک دفعہ اسے بخار ہو گیا۔پھر بخار بڑھتا گیا،پھر ہلکا ہو گیا اور پھر ہلکا ہلکا بخار اس کے ساتھ ساتھ رہنے لگا۔کیونکہ وہ ڈاکٹر تھی سو اس نے ایویں ہی کچھ ٹیسٹ کروا لئے اور پھر رپورٹ آ گئی۔

پھر رپورٹ آ گئی اور اس کی زندگی کو کسی نے اٹھا کر پلٹ دیا۔یہ وہ رپورٹ تھی جس کے بعد اس کی زندگی کا دوسرا حصہ شروع ہوا۔اس کی زندگی کا یہ دوسرا حصہ کسی بھی ناگہانی مرض کے تین ادوار پر مشتمل تھا۔

اسے کینسر تھا اور مریض کی پہلی زہنی اسٹیج کے مطابق’’شاک پیریڈ‘‘شروع ہو چکا تھا۔

اسے کینسر تھا اور آخری اسٹیج پر تھا بھلا ایسے کیسے ہو سکتا ہے؟۔وہ مضبوط ترین اعصاب کی لڑکی ذرہ ذرہ ٹوٹی تھی۔

کیا واقعی ایسا ہو گیا ہے؟

شدید ترین شاک کے بعد پھر دوسری منزل۔جب ہر مریض یہ سمجھتا ہے کہ یہ کوئی عذاب ہے جس میں وہ مبتلا ہے۔

یہ کوئی سزا ہے ان نافرمانیوں کی جو وہ زندگی بھر کرتا رہا ہے۔

یہ سزا میرے گناہوں نے میرے سر پر آ گرائی ہے۔

پھر اس فیز سے نکلنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آسمان سے صرف عذاب نہیں آتے،رحم بھی آتا ہے۔آزمائشیں تو نبیوں پر بھی آتی رہی ہیں اور بندہ ٹھان لیتا ہے کہ اب اسے لڑنا ہے۔

آزمائش پر پورا اترنا ہے اپنا آپ منوانا ہے۔۔تب اکثر مریض علاج کیلئے تیار ہو بھی جاتے ہیں۔

وہ بھی تیار ہو گئی۔آخری سٹیج ہے تو کیا ہوا۔اب وہ کوشش کرے گی اور اپنی ول پاور سے اس موت کو ہرا دے گی۔وہ جیت جائے گی۔

وہ ابا،اماں،بھائیوں،بہنوں اور دوستوں کے دیے گئے حوصلے کے ٹاور سے ٹیک لگائے ہسپتال پہنچ چکی تھی۔ایک دفعہ پھر ٹیسٹ کروائے۔۔اور پھر ایک دفعہ پھر۔۔اس کی زندگی کو اٹھا کے اس کی سمت کسی نے بدل دی۔لیب ٹیکنیشن کہہ رہا تھا۔’’آپ کی رپورٹس کلئیر ہیں ہو سکتا ہے پہلے غلط فہمی ہو گئی ہو آپ کو ٹائیفائیڈ ضرور ہے پر الحمداللہ کینسر وغیرہ کچھ نہیں‘‘۔

چند لمحے اسے کچھ سمجھ نہ آیا کہ ہو کیا رہا ہے۔وہ پھر سے شاکڈ کنڈیشن میں چلی گئی۔

وہ تو موت سے لڑنے آئی تھی۔اب اسے کوئی موذی مرض نہیں تھا۔کیا اب وہ کبھی نہیں مرے گی؟۔

اور پھر اس سوال نے اس کی روح کو جھنجھوڑ کر ضمیر پر جمی گرد جھاڑی تھی۔تب وہ روئی تھی۔زار زار روئی تھی۔پہلے شاک کے بعد اس نے بیماری کو آزمائش سمجھا تھا۔دوسرے شاک میں اللہ نے اسے آزمائش سے باہر نکال دیا تھا۔سرخرو کردیا تھا۔اور اب اسے یہ بات سمجھ آئی تھی کہ زندگی کا مقدر موت ہی ہے۔اگر اسے کینسر نہیں ہے تب بھی اسے آخر ایک دن مرنا ہی ہے۔

تب وہ سوچا کرتی تھی بھلا کیسے لوگ ہوتے ہیں جو پھولوں کو توڑ کر ان کی تجارت کرتے ہیں۔ان سے سوئیاں گزار کر اپنے لئے زیور بناتے ہیں۔اور اب اس نے جان لیا تھا پھولوں کو نہ بھی توڑا جائے ان میں سے سوئی نہ بھی گزاری جائے تب بھی انہوں نے مرجھانا ضرور ہے۔ایک ہی جگہ پر مایوس ہو کر،سہم کر مرجھانے سے بہتر ہے کہ سوئیاں سہی جائیں،کسی جیت کیلئے ہار بنا جائے،کسی سیج کی تزئین کی جائے،کسی جنازے کو خوشبو بخشی جائے۔جب مرنا مقدر ہے تو کیوں ناں محبت کا اظہار بنا جائے،سکون کی وجہ بنا جائے،کسی کے آنسو پونچھے جائیں۔

جب مرنا لازم ہے تو کیوں ناں کھل کر جیا جائے۔جو زندگی ہے جتنی ہے اسے کل کے اندیشوں میں جھونکنے سے بہتر ہے آج ایک تازہ ہوا کے جھونکے کو پناہ دی جائے۔تو پھر اس نے سوچ لیا کہ جب بلآخر یہاں سے رخصت لکھی ہے تو پھر آج سے زندہ رہتے ہیں۔کھل کے سانس لیتے ہیں۔کھلتے گلابوں کو جی بھر کے تکتے ہیں۔

چلو پھر زندہ رہتے ہیں۔

کسی لوڈو کے چھکے پر پوری جان لگاتے ہیں۔

کسی قلفی کو تیلی پر سے گرنے سے بچاتے ہیں۔

کسی چائے کے کپ کے گرد منجمند ہو جاتے ہیں۔

مسکراہٹوں کو خوشیوں کو،ہر گلی کوچے میں بانٹتے ہیں

خود کو وقت دیتے ہیں۔

ہم اپنا ہاتھ تھام کے پھر زندہ رہتے ہیں۔

چلئے آئیے پھر آپ اور میں بھی مسکراتے ہیں اور زندہ رہتے ہیں____