آزمائش

2019-07-18 20:18:08 Written by اقراء راشد

*آزمائش *

از قلم 

اقراء راشد

 

"مما میرے لیے حجاب کیپ لے آئیے گا پلیز" وہ کچن میں کھڑی برتن دھو رہی تھی جب اس نے بازار جانے کے لیے تیار کھڑی ماں سے کہا!

"اتنی گرمی میں آپ کو حجاب کا شوق کہاں سے آ گیا ہے آپی"

ماریہ کی چھوٹی بہن نمرہ پیچھے سے چہکی تھی۔۔۔

وہ مسکرا کر مڑی اور پھر برتن دھونے میں مصروف ہو گئی ۔۔۔

گھر میں نسیم بیگم کی چھوٹی بہن کی شادی کی تیاریاں عروج پہ تھیں اور ان کی بڑی صاحبزادی ماریہ بضد تھی کہ وہ شادی پہ نقاب کرے گی۔۔۔۔۔

گھر میں ہر روز نت نئے ملبوسات آتے تھے لیکن ماریہ کی اک ہی ڈیمانڈ تھی "حجاب کیپ"

جس نے سب گھر والوں کو حیرت میں ڈال رکھا تھا۔۔۔

آج شام میں مہندی کا فنکشن تھا اور ساری تیاریاں مکمل تھیں۔۔۔اس کی حجاب کیپ آج بھی نہی آئی تھی۔۔۔۔۔

"مما آپ نے میری حجاب کیپ نہی لائی "

"ماریہ ہوش کے ناخن لو اس گرمی میں سب پاگل سمجھیں گے تمھیں کوئی نقاب نہی کرنا آپکا ڈریس بہت پیارا ہے وہ پہن لینا" ماریہ ماں کے اس رویے پہ پریشان ہوئی لیکن پردہ تو اس نے کرنا تھا۔۔۔

"آپی آپکا رنگیں دوپٹہ بہت جچے گا آپ پہ۔۔۔ چھوڑیں نقاب کو" نمرہ اسکا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر بولی تھی۔۔۔

لیکن نمرہ "اللہ کے رنگ سے خوبصورت کوئی رنگ نہیں۔۔۔اور میں اللہ کے رنگ کو چھوڑ کر دنیاوی رنگ اپنا لوں یہ ناممکن ہے"۔۔۔وہ بے بسی سے نمرہ کو جواب دے رہی تھی۔۔۔

"آپی آپ کیا 90's والی سوچ لے کے بیٹھی ہیں" 

اب کی بار حسن برہم ہوا۔۔۔!

"کوئی کچھ بھی کہے میں نقاب کیے بغیر شادی پہ نہیں جاؤں گی"

وہ اٹھ کر کمرے میں چلی گئی ۔۔۔    

"بیٹا گاوں کی عورتیں باتیں کرتی ہیں آپ سمجھ کیوں نہی رہی"

ماں ماریہ کو سمجھانے کے لیے کمرے میں اس کے پیچھے آئی تھیں۔۔۔۔

"مما جب اللہ نے مجھے پردے کی توفیق دی ہے تو میں پردہ کیوں چھوڑوں۔۔۔مما اللہ کی محبت کے دعوے تو ہم سب کرتے ہیں لیکن ایسے موقعوں پر ہمارے دعوے دعوے کیوں رہ جاتے ہیں۔۔۔کیا ہم فانی دنیا کی باتوں کے پیچھے اپنی ترجیحات بدل لیں؟؟؟۔۔۔مما اللہ کی محبت جس دل میں ہو انہیں دنیا کی باتوں کی کیا پرواہ"

نسیم بیگم کو اسے سمجھانا بے معنی سا لگا...!

ابھی پچھلے سال کی ہی بات ہے جب ماریہ کا یونیورسٹی داخلہ ہوا تھا لیکن تب تو اس کی سوچ ایسی نہیں تھی۔۔۔خود ماریہ کو بھی اندازا نہں تھا وہ اس قدر بدل جائے گی۔۔۔۔

"ماریہ کو صحبت نے بدلا تھا" اللہ جسے چاہے کھینچ کر اپنے راستے پہ لے آئیں اور اللہ نے ماریہ کو ہدایت کا راستہ عطا فرمایا تھا جس کی دعا وہ کبھی کبھی کرتی تھی۔۔۔۔

وہ قرآن کھولتی اور آیتوں کو عمل کی نیت سے پڑھتی تھی۔۔۔ 

مارچ کی ایک صبح اس کی نظر سورہ نور کی آیت پر پڑھی

 ترجمہ؛-

"مومن عورتوں سے کہہ دو اپنی نگاہیں نیچی رکھیں"

وہ لرز اٹھی تھی۔۔۔وہ تو اپنی نگاھیں نیچی نہیں رکھتی تھی اس نے فیصلہ کیا وہ نظر کا پردہ کرے گی۔۔۔۔

صبغتہ اللہ(اللہ کا رنگ) یہ لفظ تو اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ سنا تھا۔۔۔

"منزہ، وردہ اور مبرہ کی صحبت نے اسے بتایا تھا کے یہ ہے اللہ کا رنگ"۔۔۔"با پردہ،صبر،برداشت،اللہ سے محبت،اللہ کے لیے تڑپ، تحمل مزاجی، علم کا نور،معرفت کا نور۔۔۔کیا کیا نہں دیکھا تھا اس نے اس صحبت میں"

ماریہ کو یہ رنگ دنیا کے ہر رنگ سے خوبصورت لگا تھا۔۔۔وہ اس رنگ میں ڈھلنا چاہتی تھی اور وہ ڈھل رہی تھی۔۔۔  

ایک صبح وہ قرآن کھولے بیٹھی تھی کہ اس کے وجود کا انگ انگ کانپ اٹھا۔۔۔ترجمہ؛-

*مومن عورتوں سے کہہ دو کے گھروں سے نکلتے ہوے اپنے مونہوں کو ڈھانپ لیا کریں تا کہ نا پہچانی جائیں نہ ستائی جائیں*

اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔۔۔وہ تو مومن سمجھتی تھی خود کو۔۔! لیکن اللہ نے جو حکم دیا تھا پھر وہ اسے کیوں نہیں مانتی تھی۔۔کیا وہ واقعی مومن تھی۔۔۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔۔وہ فیصلہ کر چکی تھی کے اب وہ پردہ کیا کرے گی وہ اپنے فیصلے پہ ڈٹ گئی تھی اس نے دنیا کے ہر رنگ کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا اور وہ *صبغتہ اللہ* میں رنگ رہی تھی۔۔۔ماریہ کا ہر روپ اس کی فیملی کے لیے حیران کن تھا۔۔۔ہر کسی نے ماریہ میں تبدیلی محسوس کی تھی۔۔۔

 

وہ سکارف سے نقاب کیے شادی پہ جانے کےلیے تیار کھڑی تھی جب نسیم بیگم نے اسے گھورا ۔۔لیکن وہ مسکرا دی تھی۔۔

"مما چلیں" اس نے سب کی تلخ نظروں کی پرواہ کیے بغیر نسیم بیگم سے کہا ۔۔۔!

آپ حافظہ ہیں؟ نقاب کیے کھڑی ماریہ کو اپنے پشت سے آواز سنائ دی ۔۔۔

"نہیں "۔۔ وہ جواب دے کر آگے بڑھ گئی 

ایہہ کوئی بوتی سوہنی اے( یہ کوئی زیادہ پیاری ہے) اک اور جملہ ماریہ کی سماعت سے ٹکرایا۔۔۔

اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ آواز اسکی نانو کی بہن کی تھی جو عمر کے آخری حصے میں ہونے کے باوجود خاموش نہی رہیں تھیں۔۔

وہ مسکرا کر آگے بڑھنے والی تھی کے نسیم بیگم نے اسے نقاب اتارنے کا اشارہ کیا۔۔

وہ خاموشی سے اک طرف ہو گئی اس نے نقاب نہیں اتارا تھا۔۔۔۔

وہ سارا دن برائیڈل کے پاس بیٹھی رہی 

"

"کچھ لوگوں کو نیک دکھنے کا شوق ہوتا"

جب وہ ظہر کی نماز پڑھنے کے لیے وضو کر کے واپس پلٹی تو شمائلہ اسکی کزن بشری کے ساتھ باتیں کر رہی تھی تبھی ماریہ کو دیکھ کر جملہ اچھالا تھا۔۔۔

ماریہ کو بہت برا لگا تھا لیکن اسے صبر کرنے کا سبق سکھایا گیا تھا۔وہ برداشت کرے گی یہ سب۔۔۔۔

مما!۔۔"میں کمفرٹیبل ہوں نقاب میں"

کھانا کھاتے ہوے جب وہ نقاب کے اندر سے کھا رہی تھی تب نسیم بیگم نے اسکا نقاب کھینچ کر اتار دیا تھا اور وہ دوبارا نقاب چڑھاتےہوےبولی تھی۔۔۔

"آئندہ میں تمھیں اپنے ساتھ کہیں نہی لے کے جاوں گی تم گھر ہی رہا کرو کم از کم اتنی باتیں تو نا سننی پڑیں "نسیم بیگم تیوری چڑھاتی ہوئی بولیں ۔۔۔

ماریہ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔۔۔۔

*لیکن میں اللہ کے رنگ کو چھوڑ کر اور کوئی رنگ نہں اپناؤں گی* ماریہ نے دل میں فیصلہ کیا اور دوسری طرف مڑ گئی ۔۔۔

:میری استقامت کے لیے دعا کیجئے گا آپی جی"ماریہ نے آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے اک میسج منزہ ،وردہ اور مبرہ کو سینڈ کیا۔۔۔۔

جی انشاءاللہ کا ریپلائی آیا تھا اور وہ مطمئن ہو گئی تھی___

                     ختم شد