ڈھیٹ

2019-07-22 19:47:27 Written by فاطمہ زبیر

ڈھیٹ

از قلم 

فاطمہ زبیر 

 

        جاوید بلا کا کام چور اور نکما تھا. ایک دن کام کرتا تو تین دن آرام. بیوی اس کی خالہ کی بیٹی تھی. بے چاری کے نصیب پھوٹے جو جاوید سے بیاہ دی گئی. کم عمر تھی. ایک بچے کو جنم دیا اور حالات کی چکی میں پستے پستے ٹی بی کا شکار ہو گئی. مناسب علاج معالجہ نہ ہونے کی وجہ سے ایک دن یوں ہی کھانستے ، خون اگلتے اگلے جہاں سدھار گئی.

        جاوید کا بیٹا شوکت بھی باپ کے نقش قدم پہ چل رہا تھا. اچھا خاصا ہٹا کٹا جوان تھا. مگر گھر میں اگر مٹھی بھر بھی کھانے پینے کی اشیاء ہوتیں تو وہ سارا سارا دن لیٹ کے چارپائی توڑتا یا آوارہ گردی کرتا رہتا. لیکن جب نوبت فاقوں کی آنے لگتی تو روتا دھوتا زمینداروں کے گھر پہنچ جاتا. یا چھوٹی موٹی چوریاں کر کے گزارا کرتا . چوری کی عادت بد کی وجہ سے بھی اسے زیادہ عرصہ کام پر کوئی نہ رکھتا. قرض کے بوجھ سے لدے دونوں باپ، بیٹا لوگوں کی گالیاں سنتے اور مار کھاتے. مگر انہیں کوئی غم نہ تھا. ماہی گیروں کی بستی میں یہ مراثیوں کا بد حال کنبہ تھا. بستی کے زیادہ تر مرد نشہ کرتے. ان کی خواتین ہی کما کر لاتیں. یہاں عورتوں کی ایک بڑی تعداد طلاق یافتہ عورتوں کی بھی تھی. 

     " ابا! مجھ سے یہ کپڑے نہیں دھلتے اب.. میری شادی کرا دے.دیکھ میری ووہٹی آ جائے گی تو تیری بھی خوب خدمتیں کرے گی." وہ کپڑے رسی پہ پھیلا کے باپ کے پاس آ بیٹھا اور خوشامدی لہجے میں بولا.

        باپ ہنسنے لگا اور اتنا ہنسا کہ کھانسی کا دورہ پڑ گیا..

       " کون شادی کرے گا تم سے یہ سوچا ہے؟ کام دھندہ تیرا ہے کوئی نہیں اسے بھی یہاں فاقوں مروائے گا ؟ "

     " ابا! کام دھندہ تو تو بھی نہیں کرتا تھا تجھے بھی تو مل گئی تھی لڑکی.. " 

    " میری تو خالہ کی دھی تھی. خالہ اکیلی جان کب تک سنبھالتی رہتی . باقی بیٹیاں کب سے باہر بیاہ چکی تھی. زینو رہ گئی تھی مرنے سے پہلے دو جوڑوں میں نکاح کر کے مجھے سونپ گئی " نہ جانے زینو کے تذکرے پر جاوید کی آنکھیں بھرا کیوں گئیں تھیں. کوئی سکھ تو نہ دے سکا تھا وہ اسے. نہ جانے یہ پچھتاوے کے آنسو تھے یا کہ اس کی یاد کے.. 

   " تو بات تو کر ناں ماسی سے. اتنی طلاق یافتہ لڑکیاں ہیں یہاں. ان میں سے ہی کسی کے ساتھ رشتہ کرا دے " 

       ماسی رشیدہ کو دینے کے لیے بھی تو ان کے پاس پیسہ دھیلا نہ تھا. مگر کسی طرح اسے جاوید نے راضی کر ہی لیا. اور آخر ماسی کی کوششوں سے ایک یتیم لڑکی، جس کے دور پار کے رشتہ داروں کے سوا کوئی نہ تھا اس سے بیاہ دی گئی. 

      جب سے وہ جاوید کی بہو بن کے آئی تھی. اس گھر میں تمدن کی بنیاد ڈال دی تھی. زمینداروں کے گھروں میں کام کاج کر کے وہ ان دونوں بے غیرتوں کا پیٹ کا دوزخ بھرتی رہتی تھی. اس کے کام پہ جانے کی وجہ سے دونوں باپ بیٹا مزید سست اور آرام طلب ہو گئے تھے. بلکہ اکڑنے بھی لگے تھے. اور اس بستی میں اسے کبھی کسی نے یہ نہیں کہا تھا کہ ہڈحراموں کو کما کر کھلا رہی ہے. کیونکہ اس بستی کی اکثر لڑکیوں کی قسمت اس جیسی ہی تھی. 

                          ....... 

         وہ امید سے تھی. اور آج صبح سے الٹیاں کر کر کے نڈھال ہو چکی تھی، سر بھی درد سے پھٹنے لگا تھا. اس میں کام پہ جانے کی ہمت نہ تھی. 

    " یہ نامراد آج کام پہ نہیں گئی؟" جاوید کھانستا ہوا اندر آیا اور اسے بستر پر پڑا دیکھ کے جہالت سے بولا ایک جاہل انسان اخلاقی اقدار اور اس کی افادیت سمجھنے کے قابل کہاں ہوتا ہے! 

   " مجھے آج بخار ہے، سر پھٹا جا رہا ہے..." اس نے اپنی کمزور کلائی آگے کی. 

       "کچھ نہیں ہو گا.عورت ذات بڑی ڈھیٹ ہوتی ہے اتنی جلدی نہیں مرتی.جسم حرکت کرے گا تو بخار کم ہو جائے گا. " بے حسی سے اپنی منطق پیش کر کے شوکت نے اسے زبردستی پکڑ کر کھڑا کر دیا. وہ لڑکھڑائی . ناقدری کے احساس اور مسلسل ڈانٹ ڈپٹ نے اسے مزید نڈھال کر دیا. 

     وہ گرتی پڑتی کام پہ چلی گئی. زمیندار کی بیوی رحم دل خاتون تھی. اس کی حالت دیکھ کے اسے واپس چلے جانے کا بولا.. 

    " بیگم صاب! ایک بات کہوں؟" ہمدردی پا کے وہ وہی بیٹھ گئی. 

     " ہاں بولو رخسانہ! کیا کہنا چاہتی ہو؟" 

      "مجھے ناں لاوارث ہو کے مرنے سے بہت ڈر لگتا ہے." اسکی آواز کانپ رہی تھی. 

     "میں مر گئی تو وہ جی وہ.. شوکت اور اس کا باپ..." آواز رندھ گئی .

    " پتا نہیں مجھے مسنون غسل اور کفن بھی نصیب ہو گا کہ نہیں .." آنسو بہنے لگے. 

    " تم پریشان ہو، بیمار ہو اس لیے ایسے خیالات آ رہے ہیں. تم گھر چل کے آرام کرو.ٹھیک ہو جاؤ گی." 

    " نسیم اسے دوائی کھلا دو اور گھر تک چھوڑ دو.. " بیگم صاحبہ نے دوسری ملازمہ کو ہدایت کی 

      نسیم نے اسے پیناڈول کھلا دی اور گھر چھوڑ آئی-

      وہ آتے ہی بے سدھ ہو کے بستر پر پڑ گئی. رات گئے اسے پیڑو اور کمر  میں شدید درد اٹھا. وہ کراہنے لگی. دونوں باپ بیٹا مکئی کےبھٹے بھون بھون کے کھا رہے تھے. 

   " جا کے دیکھو اسے وہ درد سے کراہ رہی ہے. اور گردن بھی ٹیڑھی ہو رہی ہے. کہیں مر نہ جائے." باپ کمرے سے ہی جھانک کر آ گیا. 

    " عورت ذات بڑی ڈھیٹ ہوتی ہے آسانی سے نہیں مرتی.." شوکت کمینگی سے بولا..  حقیقت میں اسے یہ ڈر تھا کہ وہ اٹھ کر گیا تو باپ مکئی کا بڑا حصہ کھا جائے گا. 

       " میں اپنی گھر والی کی بیماری میں سارا وقت اس کے پاس سے ہلتا بھی نہ تھا." 

     "ابا اماں کو ٹی. بی تھی یہ معمولی سر درد ہے ٹھیک ہو جائے گی. "

    وہ تکلیف سے کراہتی رہی اور وہ دونوں بھٹے کھاتے کھاتے  وہیں آگ کے پاس ہی لیٹے لیٹے غافل ہو گئے. ایسے جیسے دو زہریلے اژدھے کنڈلی مار کے  پڑے ہوں. اور سامنے ان کا شکار ایک ادھ موا وجود بے بسی سے کراہ رہا ہو. 

       صبح کے وقت اس نے جا کے دیکھا تو رخسانہ ٹھنڈی ہو چکی تھی. پتھرائی ہوئی آنکھیں اوپر ٹنگی تھیں. اس کا بچہ ضائع ہوا تھا اور خون بڑی مقدار میں ضائع ہو چکا تھا. 

     دونوں زور زور سے ہائے ہائے کرنے لگے.  آس پڑوس کی خواتین آئیں اور اس کی بے بسی پر دو بوند آنسو گرا کے چلی گئیں.  زمینداروں کے گھر خبر پہنچی. تو بیگم صاحبہ کو رخسانہ کی بات یاد آئی. 

       " مجھے پتا نہیں مسنون کفن دفن بھی نصیب ہو گا!" 

         انہوں نے خادم کے ہاتھ تگڑی رقم کفن دفن کے لیے  بھجوا دی. 

      رقم دیکھ کے دونوں کی ٹون بدلی 

     "جس کی کمائی تھی وہ تو مر گئی.  بڑے دکھ جھیل کے مری. جنت میں جائے گی." 

    "  ہاں بڑی اچھی تھی بے چاری، جنتی عورت مری بھی تو ہمیں خوب کھلا پلا کر. " 

     مگر آج سب سے بے نیاز چادر سے ڈھکا اس کا لاشہ نوحہ کناں تھا. 

      " عورت ذات بڑی ڈھیٹ ہوتی ہے آسانی سے نہیں مرتی!  "