بولتی آنکھیں ساکت لب

2019-07-23 20:25:47 Written by آمنہ شفیق

بولتی آنکھیں اور ساکت لب

از قلم 

آمنہ شفیق 

 

ڈھلتے سورج کے ساتھ میرا دل بھی ڈوب رہا تھا لیکن اسے یہ دلاسہ دیا کہ طلوعِ سحر کا منظر میری روح کو سراب کر ڈالے گا۔ آج میں پھر ایک تلاش میں نکلی تھی۔ اخبار میں میرے معمولی سے کالم چپھتے تھے ، جو حقیقی زندگی پر مبنی ہوتے تھے ۔ نئے آرٹیکل کے لیے میری جدو جہد جاری تھی۔ کچھ نیا، کچھ جذباتی سا۔

سڑک کنارے لڑکھڑاتے قدموں سے چلتے بوڑھے آدمی کو دیکھ کر میں نے گاڑی روکی اور اتر کر ان کی جانب لپکی۔ 

"بابا آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟" 

دوسری جانب بوڑھا رکا۔ اس کے کانوں میں سر ایک لفظ بازگشت کر رہا تھا۔ "بابا۔۔۔بابا" 

مہک نے انہیں پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا ۔ ان کے لب ساکت تھے لیکن آنکھیں کچھ سنا رہی تھیں۔

اور وہیں ۔۔ اسی لمحے اسے لکھنے کے لیے ایک سرا مل گیا تھا۔

-----

"بابا آپ پانی پی لیں۔۔" مہک نے انہیں قریبی دکان سے لی پانی کی بوتل تھمائی تو انہوں نے آنسو پونچھ کر پانی پیا اور اپنی کتھا سنانے لگے۔ مہک ہمہ تن گوش تھی۔

"میں نے انہیں برآمدے میں جمع ہونے کا کہا تھا۔ لیکن وہ تفریق ہونے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ میں نے اس دن جانا کہ صدیوں کی ریاضت لمحوں میں کس طرح ضائع ہوتی ہے، میں نے اس دن جانا کہ دل کرچی کرچی کس طرح ہوتا ہے"۔ آخر میں ان کی آواز رندھ گئی اور قریباً آدھے گھنٹے بعد مہک ان کے ہمراہ "ایدھی ہوم" کی جانب روا ہوئی جہاں کئی کہانیاں اس کی منتظر تھیں۔

----

بچے جوان ہوگئے تھے، بیوی بچوں والے اور ان کے رویّوں میں غرض شامل ہوچکی تھی۔ دولت کی غرض، حصے کی غرض، علیحدہ رہنے کی غرض۔ آئے دن ہوتے لڑائی جگھڑوں سے تنگ آ کر انہوں نے سب کو ایک جگہ جمع کیا۔ بچے تو تھے نہیں کہ انہیں سمجھایا جاتا تو وہ سمجھ جاتے، ذہن پکے ہوجانے کے بعد، غرض وجود میں داخل ہونے کے بعد سمجھ بوجھ رخصت ہوجاتی ہے، جتنی آ گئی بس آ گئی۔ 

"بابا بس۔۔ ہم ساتھ نہیں رہ سکتے ہمارا حصہ الگ کریں "۔ بڑے بیٹے نے کہا۔ وہ سب الگ پورشن میں رہتے تھے۔

"بابا ہم سب میں برابر حصہ آنا چاہئیے ، ہم سب برابر ہیں، یاد رکھیے گا"۔ چھوٹے نے بھی دہائی دی۔ 

بابا نے انہیں حصہ دینے کے لیے ہی بلایا تھا لیکن وہ تو الگ ہونے پر تلے تھے۔ 

"حصہ تو ہو جائے گا، مجھے کون ساتھ رکھے گا؟" بابا نے مسکرا کر کہا۔ اولاد کی محبت کا پیمانہ ناپنا چاہا۔ کہ کون زیادہ محبت کرتا ہے۔ 

بابا نے غلطی کر دی تھی۔ دل پر پھیرنے کے لیے تیز دھار آلہ خود ان کے حوالے کر دیا تھا۔

"بابا آپ تو جانتے ہیں میری نوکری ابھی ابھی لگی ہے، میری آمدن اتنی نہیں ہے"۔ سب سے چھوٹے نے دہائی دی۔ بابا نے نظریں باقی بیٹوں کی طرف پھیریں۔ 

"بابا میرا سارا خرچہ تو بچوں کی فیسوں میں نکل جاتا ہے"۔ منجلے نے بھی صدا لگائی۔ ہاتھ اٹھائے۔

"بابا میری بچیاں ہیں آگے ان کا گھر بار دیکھنا ہے، میں اتنا خرچہ کیسے کروں گا"۔ بڑے بیٹے نے اداسی سے کہا۔ 

بابا کے دل پر جو زلزلے نازل ہو رہے تھے اس کا اندازہ کوئی نہ لگا سکتا تھا۔ 

"تو میں کہاں رہوں گا؟" ان کی کمزور سی آواز سنائی دی تو ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ وہ ان کے چہرے تکتے رہے۔ چہ مگیوں کے بعد منجلی بہو بولی 

"بابا آج کل تو بہت سے ادارے خوشی سے بزرگوں کو شیلٹر (پناہ) دیتی ہے"۔ 

اور یہی ان کے دل کا بچا کچا حصہ ریزہ ریزہ ہوگیا۔

------

بستر پر لیٹے ان کی آنکھوں سے بہتے آنسو تکیے میں جذب ہورہے تھے۔ انہیں آج بھی یاد تھا وہ دن۔۔ 

ان کی چنچل سی بیٹی جو گھر کی رونق تھی۔ ان کا ہاتھ بٹاتی تھی لیکن ایک دن طبیعت خرابی کے باعث اس کے گال پر پڑھنے والے تھپڑ نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا۔

"اماں یہ دہشت تب مانوں جب یہ باتیں اور یہ جھاڑ آپ بہو کو پلا سکیں، یہ رعب صرف ہم بیٹیوں پر ہی چلتا ہے آپ کا"۔ وہ تو چلی گئی ایک دن سسرال، روٹھی روٹھی سی۔ لیکن اس کی آواز آج بھی سماعتوں میں گونجتی ہے۔

ان سماعتوں کو چیر کر ایک دوسری آواز جو ان کے کانوں سے ٹکراتی ہے وہ ان کی بہو کا چیخنا چلانا تھا۔ جسے یہ راس نہیں آتا تھا کہ وہ کام کیوں کرے، اس کی ساس کرے نا کام، وہ کیوں فارغ بیٹھتی ہے۔ باہر کی چِخ چِخ اور اندر کے طوفان سے تنگ آکر وہ ٹوٹنے لگی اور ان کا وجود انہی کے گھر میں کسی پر ناگوار گزرتا تھا۔ دو جوڑے میں گھر سے بے دخل ہونا انہیں بھولا نہیں تھا۔

------

وہ گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی تو نہیں تھی، وہ اپنی جنت کو ٹھوکر مار کر نکلنے والی نافرمان اولاد تھی۔ اس کے خیال میں اسے جینے کا کوئی حق نہیں تھا کیونکہ اس نے اپنے پیاروں کی جان لی تھی۔ اپنی سرابی دنیا کے پیچھے بھاگنے کے چکر میں وہ حقیقی رشتوں کو روند کر چلی گئی تھی، اس کے گھر سے بھاگتے ہی باپ کو ہارٹ اٹیک آگیا تھا اور وہ چل بسے۔ ماں صدمے سے ادھ موئی ہوگئی اور سمجھنے بوجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھی۔ 

تو اب اس کے جینے کا کیا فائدہ تھا؟ اس جیسی نافرمان اولاد کا جینے کا کیا فائدہ؟ جن کے جینے سے ، جن کے رویوں سے ان کے ماں باپ کو دکھ پہنچتا ہے۔ 

ایسی اولاد کے ہونے کا کیا فائدہ؟

------

وہاں سے نکلتی مہک نے کئے دل برداشتہ واقعات سنے تھے۔ اس نے کئی لب دیکھے جنہوں نے چپ سادھ لی تھی، لیکن ان کی آنکھیں سب کتھا سناتی چلی گئی تھیں۔ 

مہک نے اس پل جانا کہ گھر میں موجود والدین اس کے لیے رحمت و برکت کا باعث تھے۔ بلکہ ہر گھر میں رحمت و برکت والدین کے ہونے سے ہی ہوتی ہے۔ کامیابی ، سکون، جنت ۔۔۔ ہر راستہ والدین سے ہوکر گزرتا ہے۔

لیکن کچھ نا قدرے لوگ یہ انمول موتی اپنی ہاتھوں سے ہی گنوا دیتے ہیں۔ پھر انہیں نہ تو سکون ملتا ہے اور نہ ہی کامیابی۔ 

بس ایک کسک دل میں رہ جاتی ہے۔ ایک اداسی جو دل سے چمٹ کر رہ جاتی ہے اور زندگی کو دیمک کی طرح چاٹتی رہتی ہے۔