بدلتا وقت

2019-07-25 20:12:26 Written by ثروت نور

"بدلتا وقت" 

از قلم 

"ثروت نور" 

 

                                                              

بات بات پر اپنے زمانے کی مثالیں پیش کرنے والوں کو کون سمجھائے کہ اب آپ کے زمانے نہیں رہے۔۔۔۔آپ کے زمانے میں وہ ہوتا تھا اور یہ نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔۔

یقینا بہت کچھ آج کے زمانے سے مختلف ہوتا ہوگا لیکن اس میں ان تبدیلیوں میں ھم بیچاروں کا 

کیا قصور؟ ؟؟؟

مگر راحیلہ یہ سب صرف سوچ سکتی ساس کے سامنے کہنے کی ہمت اس میں نہیں تھی 

احمر اس بار کراچی سے آئیں گے ان سے بولوں گی کہ گاؤں کے اسکول میں نہیں پڑھاؤں گی میں اپنے بچے وہاں پڑھ کم رہے ہیں بگڑ زیادہ رہے ہیں ۔۔۔

راحیلہ اور احمر آپس میں کزن تھے ۔۔۔

ان کے جوائنٹ فیملی سسٹم تھا ۔۔۔

راحیلہ ایک کمرے سے بیاہ کر دوسرے کمرے میں گئی تھی ۔۔۔

احمر کراچی میں سرکاری ادارے میں اعلی عہدے پر فائز تھا ۔۔۔

وہ تو چاہتا تھا کہ اماں، چھوٹے بھائی کو اور راحیلہ کو اپنے ساتھ کراچی میں رکھے مگر اماں اپنا گھر چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھیں ۔۔۔۔

چھوٹے بھائی کی شادی کے بعد اس نے کوشش کی مگر اماں اس بار بھی راضی نہیں ہوئیں ۔۔۔

گھر میں حکم اماں کا چلتا تھا ۔۔۔

راحیلہ کی چھوٹی بہن شادی ہوکر کراچی گئی تھی ۔۔

وہ جب بھی کراچی سے اپنے میکے آتی تو فیشن کے کپڑے پہنے ہوتی، اسکا ایک ہی بیٹا تھا جسکو 

اسنے کراچی میں ایک اچھے اسکول میں داخل کروا رکھا تھا ۔۔۔

وہ جب بھی گاؤں سے آتی شہر کے اور گاؤں کے اسکول کا فرق بتاتی اور بہن کو سمجھاتی کہ 

اسکو احمر کو سمجھانا چاہئے ۔۔۔۔

احمر کو سمجھانے سے زیادہ اماں کو سمجھانا زیادہ مشکل کام تھا ۔۔۔۔

اور راحیلہ کی ضد اور احمر کے سمجھانے پر بالآخر اماں جان شہر جانے پر راضی ہوگئں ۔۔

وہ لوگ گاؤں سےفقط بچوں کی تعلیم کی غرض سے شہر شفٹ ہوتے تھے ۔۔۔

حافظ ماتقدم کے طور پر اماں جان بھی ساتھ چلی آئیں تھیں کہ شہر میں بچے اکیلے کیسے رہ پائیں گے

جیسے شہر نہ ہوا جنگل ہوگیا ۔۔۔۔

شہر آتے ہی راحیلہ نے اپنے بچوں کو شہر کے نامی گرامی ہائی کلاس کے اسکول میں داخل کروا دیا ۔۔۔

راحیلہ کا خواب تھا کہ اس کے بچے شہر کے ہائی کلاس اسکول میں پڑھیں اور اتنی محنت کے بعد اسکا

یہ خواب پورا ہوا تھا ۔۔۔ وہ بہت خوش تھی ۔۔۔

راحیلہ نے اپنی بہن کے مشورے سے جلد ہی شہر کے رنگ ڈھنگ اپنا لئے تھے ۔۔۔

شوہر اعلی عہدے پر فائز تھا اس لیے پیسے کی تنگی نہیں تھی ۔۔۔

پیسہ خرچ کیسے کرنا ہے وہ راحیلہ نے بہت جلد اپنی بہن سے سیکھ لیا تھا ۔۔۔۔

اماں سب دیکھتی مگر اب زیادہ بولتی نہیں تھیں ۔۔۔ کیونکہ بیٹا اب بیوی کی حمایت میں بول کر انہیں یہ بول کر چپ کروا دیتا تھا کہ اب زمانہ بدل رہا ہے ۔۔۔ اب ترقی کرنے کے لیے اچھے ہائی کلاس اسکول میں پڑھنا ضروری ہے ۔۔۔

بچے اگرچہ زیادہ خوش نہیں تھے ۔۔۔۔

نیا اسکول، نیا ماحول اور ہائی کلاس اسکول میں پڑھایا جانے والا مختلف غیر ملکی یونیورسٹیوں کا سلیبس ۔۔۔۔ بچوں کو کنفیوز کر رہا تھا ۔۔۔۔

بچے دن بہ دن نفسیاتی الجھن کا شکار ہوتے جارہے تھے ۔۔۔۔۔۔ مگر راحیلہ کو کچھ نظر نہیں آرہا تھا ۔۔۔۔۔

بچوں کے لیے ٹیوشن اب لازمی تھا کیونکہ شہر میں سب اپنے بچوں کو پڑھاتے تھے ۔۔۔۔ یہ پتے کی بات بھی راحیلہ کو اسکی بہن نے سمجھائی تھی ۔۔۔۔

راحیلہ نے احمر کو بچوں کے لیے ٹیوشن کا انتظام کرنے کو بولا ۔۔۔۔

احمر نے جلد ٹیوٹر کا انتظام کرنے کا وعدہ کرلیا ۔۔۔۔

ساس اس نئی فرمائیش پر اچھی خاصی ناراض ہو گئیں اور راحیلہ سے بولیں ۔۔۔۔

تم خود پڑھی لکھی ہو بچوں کو خود پڑھا سکتی ہو ۔۔۔۔ انھوں نے راحیلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا 

میں کیسے پڑھا سکتی ہوں اماں جان ۔۔۔۔۔ راحیلہ نے حیرانگی سے کہا 

کیوں ۔۔۔کیوں نہیں پڑھا سکتیں ۔۔۔۔ پوری چودہ جماعت پاس ہو ۔۔۔ پھر ابتدائی کلاس کے بچوں کو سبق دینا کون سا مشکل کام ہے ؟؟؟؟

اف توبہ ۔۔۔۔ امی کو تو بس بولنے کا موقع چاہئے ۔۔۔۔ راحیلہ نے نہایت کوفت سے سوچا ۔۔۔ اور اماں کو جواب دیئے بغیر وہاں سے اٹھ گئی ۔۔۔۔۔ 

کچھ دن کی بھاگ دوڑ کے بعد احمر کو متعلقہ اسکول کے اسٹاف میں سے ہی ایک ٹیوٹر مل گیا ۔۔۔

پھر ایک اور مسئلہ ھوا جس پر اماں جان نے اچھا خاصا ھنگامہ کردیا ۔۔۔

وہ تھا ٹیوٹر کے ٹائم کا مسئلہ ۔۔۔۔ کیونکہ ٹیوٹر کے بتائے ہوئے ٹائم کے عین وقت قاری صاحب آتے تھے 

اور ان کے پاس بھی راحیلہ کے بچوں کو قرآن پڑھانے کا یہ ہی ٹائم تھا ۔۔۔۔

اس بار بھی جیت راحیلہ کی ہوئی ۔۔۔ اور قاری صاحب کی چھٹی کر وا دی گئی ۔۔۔

ظاہر ہے قاری صاحب سے زیادہ ضروری ٹیوٹر تھا ۔۔۔۔ 

اور ساس صاحبہ کانوں کو ہاتھ لگا کر قیامت کے قریب آنے کی پیشن گوئیاں کرتی رہیں۔۔۔

اف ۔۔۔۔ پرانے زمانے کے پرانے لوگ ۔۔۔۔

ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوتے ہیں ۔۔۔۔ قاری صاحب سے سے تو کبھی بھی پڑھایا جاسکتا ہے ۔۔۔

گرمیوں کی چھٹیوں میں دوبارہ لگوا لوں گی ۔۔۔۔۔ مگر ابھی تو بچوں کے امتحانات قریب ہیں ۔۔۔۔

بچے دن بہ دن پڑھائی سے بھاگنے لگے ۔۔ مہنگا اسکول، مہنگا ٹیوٹر اور نتیجہ کچھ بھی نہیں ۔۔۔

وقت گزر نے لگا ۔۔۔

اسکا بڑا بیٹا میٹرک میں آگیا تھا ۔۔۔ میٹرک کا رزلٹ آیا تو وہ تین پیپروں میں فیل تھا ۔۔۔۔

بیٹی پہلے ہی اسکول کے نام سے گھبرانے لگی تھی۔۔۔۔

قدرت بھی کیسے کیسے رنگ دکھاتی ہے اور کس کس طرح سے سمجھاتی ہے ۔۔۔۔

دنیاوی تعلیم دلانے کی فکر میں دنیوی تعلیم ضروری نہیں سمجھی تو بچے دنیاوی تعلیم سے بھی محروم رہے ۔۔۔۔

پرانے زمانے کی روایات کو توڑیں گے تو نئے زمانے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتے ۔۔۔۔۔

یہ بات راحیلہ کی سمجھ میں بہت دیر سے آئی تھی ۔۔۔۔۔