نبھاہ

2019-07-28 20:19:18 Written by ابراہیم احمد

"نبھاہ"

از قلم

"ابراہیم احمد" 

سیاہ رات کا جوبن۔

ہر سو سیاہ بادلوں کا گھیراؤ ۔

اور کھلے سیاہ آسماں کو تکتیں تھکن زدہ دو سیاہ آنکھیں۔ایسا گماں ہوتا تھا کہ زندگی کی لو ان بے نور آنکھوں سے آسمان پہ پھیلی گھنور سیاہی نے بجھانے کی سر توڑ کوشس کی ہو۔ان آنکھوں سے زرا دور چلو تو، کئی ہزار کوس دور۔ کئی نہروں کے پار۔

ریل گاڑی کے آخری پڑاو سے پچھلے اسٹیشن پہ رکو اور چٹیل سبزے سے عاری پگڈنڈی پہ چلتے ہوئے گاوں کے داہنے رخ مڑ جاؤ اور آخری گھر کے سرمئی گیٹ سے اندر جھانکو۔

تو دو ہاتھ بڑی اجلت میں پیٹی کا کنڈا کھولنے میں مصروف دکھائی دیتے تھے۔خود کو کمر تک پیٹی کے اندر جھکائے کمر وہ بھاری وجود پاوں کے تلوں تک پسینے سے شرابور تھا۔ 

ساتھ کھڑی ملازمہ اپنی سلوٹ زدہ چادر کے پلو سے ماتھے پہ آیا پسینہ صاف کرتی اور ایڑیاں اٹھا اٹھا ایک کونے سے پیٹی کے اندر جھانکنے کی کوشش میں ہلکان ہوتی دکھائی دیتی تھی اور پھر بے زاری سے سر جھٹک کر سیدھی ہوتی ہوئی داہنے پاوں کا وزن بائیں طرف ڈالتی۔

"سیما اے سمو ذرا پچھلے صحن تو منجی(چارپائی) تے لے آ ۔آج یہ کم(کام) میرا دل اے مکا(ختم) ای چھوڑیں"۔تازہ لال مہندی لگے بالوں سے کمر پہ گرتا پسینہ مہتاب بیگم کی موتیے کی خوبصورت کلیوں سے سجے ڈیزائن والی لان کی سفید قمیض پر نارنجی دھبے چھوڑتا جا رہا تھا۔

کب سے کھڑی بے زار سمو کوفت زدہ سے انداز میں منہ کے زاویے بگاڑتی مڑی اور بڑبڑاتی ہوئی پچھلے صحن طرف چلی آئی۔

الگنی سے سوکھے کپڑے اتارتی سمو کی بڑبڑاہٹیں بھی صاف سنائی دیتی تھیں۔

اف اوہ اللہ میری تووا(توبہ) بی بی جی نوں تے اللہ دا خوف ہی نی رہیا۔وچاری وڈی(بڑی) نوں(بہو) اپنیاں(اپنوں) دی سی اونوں ساڑھ ساڑھ بیمار کر چھوڑیاں تے ہون نکی(چھوٹی) وچاری دی سختی آئی اے۔مینوں تے لگدا اے اس واری(دفعہ) گل(بات) ود(بڑھ) جانی اے۔

"نی سموں ککھ نہ روے تیرا کتھے موت پے گئ تینوں"۔(سمو کہاں مر گئی)۔

سمو کی بے لحاظ بربراہٹوں کو مہتاب بیگم کی للکار نے دبوچا تھا۔

آئی بی بی جی۔

سمو کمر پہ جلدی سے چارپائی لادے واپس کمرے طرف دوڑی تھی۔

"نا مینوں آ دس اک کم نوں تو دس ورے لا دیندی ایں۔کی بیماری پے گئی اے تینوں۔(مجھے یہ بتاو ایک کام دس سال میں کرتی ہو کیا مسئلہ ہے تمہیں)۔

وہ بی بی جی بس دھیان نی ریاں۔

اک سوٹا سر چے پیا نا تے ساری عقل ٹکانے آ جانی تیری۔ہڈ ہرام نا ہوے تے۔(ایک ڈندا سر میں پڑا تو ساری عقل ٹھکانے آ جائیگی۔)

"لے پھڑ( پکڑ )یہ رضاعیاں میری پیٹی چے رکھ آ۔"

مہتاب بیگم کی لتاڑ نے سموں میں بجلی سی بھر دی تھی۔وہ گھوڑے کی طرح بھاگم بھاگ کام نبٹاتی پھر رہی تھی۔

"آ پھڑ دو شنیل دیاں، دو بوروکیٹ دیاں تے دو ریشمی دیاں رضاعیاں تے تیان(دھیان) نال میری پیٹی چے سوہنی تہے لا کے سانبھ(سنبھال) چھوڑیں۔"

سموں جانتی تھی یہ معمول اب کئی کئی دن جاری رہے گا۔بی بی جی ایسے ہی چھوٹی بہو کی دھیج کی چیزیں آہستہ آہستہ اپنے صندوقوں میں منتقل کرتی جائیگیں اور پھر۔۔۔

"دلاور پتر میں تے کہنی(کہتی) آں آج ہی بلا اس سدھاڑ(پاگل) دے گھر والیاں نو۔اور لاد اے بالن(ایندھن)(فرنیچر) کسے ریڑھی تے، چلتا کر اناں نو۔

ہائے مولا اے دماغ تو خالی خولی ساڈھے(ہمارے) لئ رکھی سی۔نہ کوئی عقل نہ کو ڈھنگ۔

نرا سیاپا۔"

 دیسی مرغی کے شوربے سے لتھڑی انگلیوں سے نوالہ منہ میں لے جاتے دلاور نے ہوں کرنے پہ ہی اکتفا کیا تھا۔اور پھر انگلیاں جھاڑی تھیں جیسے کوئی شے خود سے اتار پھینکنا چاہی ہو اور مہتاب بیگم کا واویلا اپنی عروج پہ تھا۔

اور سب جانتے تھے اب چھوٹی بہو کا نبھا نہی ہو سکے گا۔اسکی ہر شے پہ یہ سمجھدار عقلمند کنبہ قابض ہو جائیگا۔زیورات اور قیمتی کپڑے لتے تو پہلے ہی ساس لے چکی تھی۔رہی سہی کسر اسے واپس میکے بھیج کے پوری کر لی گئ تھی۔اک اک چیز کھنگال ماری تھی۔

"بس کوئی کم دی شے رہ نہ جائے"۔مہتاب بیگم جھلاتی پھرتی تھیں۔

اور پھر اس ڈاڈھے نصیب والی چھوٹی بہو کا بھائی آیا تھا۔

ویران، اجڑا ہوا سا۔ہاتھ باندھ کے منت سماجت پہ بھی خالی جھولی لیے خالی ہاتھ لوٹ گیا تھا۔ادھر پروین اپنے ویر کی کھنڈر آنکھوں سے ہی سب جواب جان گئی تھی۔

قصور تو بس یہ تھا۔وہ دل کی کوری تھی۔مکر نہی جانتی تھی۔نہی جانتی تھی کے شوہر کا دل کیسے موہ لیتے ہیں۔شوہر بھی وہ جسکی رنگین مزاجیاں زبان زد عام تھیں۔خالی آسماں نیچے لیٹے اسکی سیاہی جیسے پروین کے وجود کے پور پور میں اتر رہی تھی۔وہ تو کورا کاغذ تھی۔پھر زہر رنگ پھول بوٹے کیوں کاڑھے گئے۔

اسکا جواب سیاہ بادلوں کی اوڑھ میں چھپے آخری دنوں کے چاند پاس بھی شاید نہیں تھا-