زہر قاتل

2019-07-31 20:14:39 Written by لائبہ علی

"زہر قاتل" 

از قلم

 

" لائبہ علی"      

فتح محمد اپنے سامنے بوسیدہ چارپائی  پر لیٹے ہوئے اقبال دین کی بات سن کر دو قدم پیچھے اچھلا۔ اس کے چہرے پہ یکدم وحشت کے آثار نمودار ہوئے.-"تت ۔۔۔تیرا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا! بالے پوری  زندگی تو خدا کی نافرمانی کی ہے اب کیا زندگی سےبھی منہ موڑے گا  خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے ۔"یہ کہتے ہوئے فتح دین کی نظریں اقبال دین کے پیروں کی طرف تھیں ۔"میری طرف دیکھ فتح محمد ۔۔رحم کھا میری حالت پہ ۔۔لوگ مجھے دیکھ کے منہ موڑ لیتے ہیں ۔خدا کا عذاب کہتے ہیں مجھے"- وہ سسک  اٹھا۔ "رحم مانگنا ہی ہے تو خدا سے مانگ بالے فتح نےاب بھی اس کی طرف دیکھے بغیر کہا ۔"

"کس منہ سے جاؤں  خدا کے سامنے ۔ساری زندگی میرے لفظوں میں غرور چھلکا ہے ۔کہاں سے لاؤں وہ لفظ جن میں عاجزی ہو ۔۔۔وہ زبان جو انہیں ادا کر سکے-"  فتح محمد نے کچے کمرے میں ٹوٹی چارپائی پہ لیٹے اس لاغر  شخص کو دیکھا جس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے کبھی ان آنکھوں میں تکبر نظر آتا تھا جو ابھی تک کہہ رہا تھا کہ کیسے جاؤں خدا کے سامنے پتہ نہیں وہ رحم کی امید چاہتا تھا یا معافی کی نوید -" وہ رحمان ہے بالے ۔اسکے رحم کا کوئی پیمانہ نہیں ۔تو بس معافی مانگتا رہ ۔" 

فتح نے اسے امید دلائی ۔جب لوگوں  نے یہ کہہ کہ  تعلق توڑ لیا کہ اس پہ  تو اپنے گناہوں کا عذاب نازل ہوا ہے یہ اکیلے ہی اپنی سزا بھگتے ۔جب اولاد نے ملازموں  کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا تو ایک فتح محمد ہی تھا جو اس کے پاس آتا تھا اس کا دل بہلانے ۔اسے خدا کے رحم کا یقین دلانے ۔اسکے جسم پر بنے زخموں میں پیپ پڑ گئی تھی اس کی وجہ سے اس کے پاس بیٹھنا محال تھا- پہلے پہل تو بول سکتا تھا مگر آہستہ آہستہ قوت گویائی بھی چھن گئی ۔پہلے فتح محمد کے ساتھ باتیں کرتا تھا اب بس اسے سنتا تھا کبھی اس کی امید بھری باتیں ۔۔کبھی یقین سے بھری کہانیاں ۔۔

  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  

فتح محمد مر گیا اقبال دین  کا اکلوتا یار ۔۔مگر جاتے جاتے اقبال دین کی زندگی بدل گیا اسے سکھا گیا ہر نئی روشنی کے ساتھ نئی امید بندھ جاتی ہے 

  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  

 

"تجھے اتنی  بار کہا ہے اس بڈھے کے پاس نہ جایا کر" ۔شیداں چلائی۔

"اپنی خوشی سے نہیں جاتا ۔چھوٹا چودھری پیسے دیتا ہے مجھے -" جواب میں فضلو نے بھی چلا کر کہا ۔ہونہہ ۔۔"وہ خود تو اپنے باپ کو پوچھ نہیں سکتے۔بات سن اس کی بیماری تجھے بھی لگ جائے گی۔زندگی سے پیار ہے یا نہیں ۔کچھ اپنے بچوں کا ہی سوچ-"

یہ آج کی بات نہیں تھی روز فضلو کو یاد دلاتی تھی کہ اقبال دین پر خدا کا عذاب نازل ہوا ہے ۔اور جس کو  خدا چھوڑ دے تو کوئی پاگل ہی ہوگا جو ایسے شخص کے پاس جائے۔ فضلو نے ایک نظر اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور بولا بات تو تیری صحیح  ہے اچھا میں بات کرتا ہوں چھوٹے چودھری سے ۔۔

  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  . 

عجیب بات تھی اپنی پوری زندگی اقبال دین نے کسی کمی کمین کے ہاتھ سے لے کے پانی تک نہیں پیا اور قسمت نے انہیں کمی کمینوں کے درپہ  پھینک دیا پہلے تو فضلو پیسے کے لالچ میں اقبال دین کی تھوڑی بہت دیکھ بھال کردیا کرتا تھا مگر اب سوچ رہا تھا کہ شیداں کی بات مان لینی چاہیے۔فضلو صرف نےصرف سوچا ہی نہیں بلکہ اگلے دن چھوٹے چوہدری سے جا کے بات بھی کر لی۔

  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  . 

اس دن بارش بہت زورسے برس رہی تھی اور بجلی تو ایسے کڑک رہی تھی جیسے کسی کا آشیانہ جلا کر خاکستر کر دے گی ۔ اقبال دین کا کچا  کمرہ جگہ جگہ سے ٹپک رہا تھا ۔جیسے ہی بارش کا کوئی قطرہ زمین پر ٹپکتا اقبال دین  کے چہرے پہ ایک خوبصورت مسکان آجاتی۔جب اس نے اپنی زندگی سے تنگ آکر فتح محمد کو زہر  لانے کا کہا اس دن کے بعد سےفتح محمد اسے  ہر روز  یقین کے جام کا قطرہ قطرہ پلاتا رہا اور کب اس قطرےنے دریا کی صورت اختیار کرلی پتہ ہی نہیں چلا ۔وہ نماز ادا نہیں کرسکتا تھا ۔۔اپنا جسم نہیں ہلا سکتا تھا  پاک نہیں رہ سکتا تھا ۔مگر شکرگزار رہتا تھا ۔معافی مانگتا رہتا تھا ۔گوکہ اس کی بیماری بڑھتی جا رہی تھی مگر  وہ جانتا تھا اس کی وجہ مناسب دیکھ بھال نہ ہونا ہے ۔اس سترسال کے بوڑھے نے زندگی کے ہر رنگ کو ان پانچ سالوں میں دیکھا تھا ۔   اور جو رنگ اس کے اندر بس گیا تھا وہ خدا کا رنگ تھا۔ 

  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  . 

کچھ دنوں سے سب کچھ بہت بدل گیا تھا۔اس کے بیٹے پوتے پوتیاں سب اس کے پاس آ کے بیٹھنے لگے تھے ۔ایسا لگتا تھا خدا نے اس کے پانچ سال کے صبر کو آخر کار پھل لگا ہی دیا تھا اب تو ڈاکٹر بھی باقاعدہ چیک اپ کرنے کے لیے آتا تھا جس کی وجہ سے اس کی حالت میں خاصی بہتری آ چکی تھی اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ۔

  آج پھربارش کھل کے برس رہی تھی ۔جیسے کچھ دن پہلے برسی تھی بجلی اب بھی ویسے ہی کڑک رہی تھی جیسے پہلے کڑکی تھی۔ڈاکٹر آنے والا تھا ۔مگر عجیب بات ہے تھی کہ ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ اس کے بیٹے اور پوتیاں بھی آئے تھے جیسے اس کا آخری دیدار کرنے آئے ہوں ۔ڈاکٹر صاحب ٹیکہ اثر تو کرے گا نا ۔۔ہاں بالکل کرے گا ۔اس کے منجھلے بیٹے کے سوال کا جواب دیا ۔اپنے بیٹے کی اس قدر فکر پر اقبال دین ہلکا سا مسکرایا ۔ڈاکٹر نے ٹیکہ اٹھاتے وقت ایک نظر اقبال دین کو دیکھااور ٹیکہ اٹھاتا اس کا ہاتھ کانپا  ۔ڈاکٹر کے ٹیکہ لگانے کی دیر تھی کہ اقبال دین کی آنکھیں بند ہونے لگی۔ان سب کے چہروں پر عجیب قسم کی بے چینی تھی ۔ایک دم سے بجلی کڑکی ایسے لگا جیسے کسی کے آشیانہ پہ گری ہے۔بارش تیز ہوگئی ۔ 

"ڈاکٹر صاحب یہ زہر کتنی دیر تک اثر کرے گا-" 

 

ہچکچا کر سوال پوچھتے یہ آواز اس کے چھوٹے بیٹے کی تھی۔بارش کے ساتھ چلتی تیز ہوائیں اقبال دین کو اپنی موت کا پیام لگی ۔ بیٹے کی آواز اس کے کانوں میں زہریلے تیر کی طرح  گھستی ہوئی محسوس ہوئی - ایکدم  سے اقبال دین کو اپنے دل میں درد اٹھتا ہوا محسوس ہوا ۔ ڈاکٹر اقبال دین کے چھوٹے بیٹے سے کچھ کہے بغیر ہی لڑکھڑاتے قدموں سے باہر  کی جانب بڑھا ۔اب کے بڑے بیٹے نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا وہ سمجھ سکتا تھا ۔کسی کی جان لینا اتنا آسان نہیں  ہوتا-

 

بارش اس دن بھی بہت برسی تھی کیونکہ اس دن اقبال دین کو موت کے گھاٹ اتارنے کی تجویز پیش کی گئی تھی اور آج بھی بارش کھل کے برسی تھی   کیونکہ آج اس تجویز پر عمل کیا گیا تھا ۔ اور کتنی آسانی سے انہوں نے یہ کہہ کر خود کو مطمئن کر لیا کہ وہ تو بس اپنے باپ کو خدا کے عذاب سے نجات دلانا چاہتے ہیں کتنے  بے وقوف تھے  نا وہ کہ جس شخص پہ خدا کا قہر نازل ہو اسے کون بچا سکتا ہے  اور جسے خدا ہدایت دے اسے کون بھٹکا سکتا  ہے۔۔۔۔

  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .  .    قبرستان کی اک کچی قبر پر ایک شخص کافی دیر سے کھڑا تھا ۔اس کی آنکھوں کے سامنے ایک منظر آرہا تھا ۔کہ ایک شخص اپنے میڈیکل بیگ میں سے ٹیکہ نکالنے لگتا ہے  مگر ایک دم اس کا ہاتھ کانپ  جاتا ہے وہ ایک نظر اپنے سامنے لیٹے ہوئے بوڑھے پر ڈالتا ہے اور ایک اور ٹیکہ اٹھا لیتا ہے ۔ ایکدم سے منظر اس کی آنکھوں سے غائب ہوگیا اس نے  سامنے کچی قبر کو دیکھا اور کہا مجھے سمجھ نہیں آتا اقبال دین کہ جب میں نے تمہیں زہر کا ٹیکہ لگایا ہی نہیں تو وہ کونسا زہر تھا جس نےاس دن تمہاری جان لے لی ۔