دی فائیو

2019-08-01 20:28:36 Written by ارسلان بٹ

دی فائیو(The five)

از قلم 

ارسلان بٹ

               وہ پانچوں ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھی ایک دوسرے سے بے نیاز اپنے اپنے موبائلوں میں غرق تھیں - درمیان میں وقفے وقفے سے وہ اپنی اپنی کافی کا ایک گھونٹ لیتی اور پھر موبائلز میں ڈوب جاتیں-

ان کی یہ گول میز کانفرنس ہفتہ وار منعقد ہوتی تھی

لیکن اس دفعہ خلاف معمول وہ پورے ایک مہینے کہ بعد مل رہیں تھیں- کوئی تو وجہ تھی لیکن تبدیلی تو ایک اور بھی تھی پہلے جب وہ ملا کرتی تھی تو ایسے کوئی بھی پُر سکون نہ بیٹھ پاتی تھیں-

ان پانچوں کہ علاوہ تین لوگ اور بھی آج اس گول میز کانفرنس میں شریک تھے - جن میں سے ایک موٹی کالی بھاری بھرم کم عورت اور افریقن چڑیل زیادہ لگتی تھی مسلسل پیزا کاٹ کاٹ کہ کھائیں جارہی تھی - باقی دو جن میں سے ایک چھوٹی اور دوسری اس سے بھی چھوٹی تھی .کم چھوٹی لڑکی نے آنکھوں پہ موٹے موٹے شیشوں والی عینک ٹکائی تھی اور زیادہ چھوٹی لڑکی کہ ماتھے پر کٹے بال تھے دونوں خوب خوب پریشان,

ایسے میں کٹے بالوں والی لڑکی نے عینک والی لڑکی کو غور کے دیکھا گویا کہہ رہی ہو ادھر کیا چُپ کا روزہ رکھنے آئی ہو بک بھی چکو اب کچھ-

 

 عینک والی لڑکی گڑبڑا کہ اٹھی اور ان پانچوں میں سے ایک کہ پاس جا کر بیٹھ گئی اور بولنے لگی-

"حیا یار بتاو تو ہوا کیا ہے اب اس بار؟" 

 

حیا نے لفظ"اس بار" پہ پلکے اٹھا کہ دیکھا- موبائل ابھی بھی نہ چھوڑا - 

 

باقی چاروں بھی موبائل میں ہی گُھسی ہوئی تھیں-

اور افریقن چڑیل بھی اپنے پیزے میں مگن تھی- 

 

"حیا پلیز بتاؤ کیا کیا بھائی جہان نے"! (بھائی کہنا تو نہیں چاہتی تھی لیکن چلو)عینک والی لڑکی نے مِنت کی-

تنگ آ کر حیا بولی-

"میری پیاری دوست خدیجہ رانا عرف ڈی جے چونکہ ابھی تک تمہاری شادی نہیں ہوئی اسلیےتمہیں شوہروں کا نہیں پتہ خاص کر 

تمہارے' بھائی' جہان کا"۔۔. لفظ بھائی پہ زور دے کر کہا- 

"اور اگر تمیں واقعی ہی جاننے میں زیادہ دلچسبی ہو رہی ہے تو سنو" - 

 

حیا سمیت باقی چاروں نے بھی موبائل کو میز پہ پھینکا اب وہ چاروں بھی حیا کو سننے لگیں تھیں - 

" تمہارے بھائی جہاں نے کہا تو مجھے یہ تھا کہ میں ایک یونیورسٹی میں (سینے پہ اُنگلی رکھی )پروفیسر ہوں گی اور وہ میرا اسٹوڈنٹ لیکن نہیں انہوں نے مجھے گھر جا پٹکا چلو یہ سب تو ٹھیک لیکن مجھے بھی وقت نہ دے سکتے ہیں اب" - 

حیا نے کرسی کی ٹیک چھوڑتے ہوئے آگے ہو کہ بھرائی ہوئی آواز میں کہا - 

 

" ہر وقت میری جاب میری جاب کی گردان لگائے رکھتا ہے-

اور اب میں نے بھی اس جاسوس کہ پیچھے اپنے جاسوس چھوڑے تو پتہ میرے سورسز نے مجھے کیا بتایا تھا-

ڈی جے نے جلدی جلدی اپنی انکھیں مٹکاتے ہو پوچھا - 

" کیا؟"

 

" کہ وہ ایک بھگوڑی اور پاگل لڑکی کہ ساتھ ہے اور وہ لڑکی اپنے اپ کو کسی سلطنت کی شہزادی بتاتی ہے لیکن... 

 

حیا میری بات۔۔۔۔۔۔۔ 

چاروں لڑکیوں میں سے ایک لڑکی نے حیا کو مخاطب کرنا چاہا لکین وہ حیا ہی کیا جو اپنی بات پوری کرنے سے پہلے کسی اور کی بات سن لے-

اس لڑکی کی بات کاٹ کے دوبارہ شروع ہوگئی 

لیکن میں جانتی ہو وہ لڑکی کوئی شہزادی نہیں فراڈ ہے فراڈ......."-

لیکن جہاں کدھر ہے؟ ڈی جے نے تشویش سے پوچھا - 

حیا نے ڈی جے کو غورا اور پھر سے اپنی بات شروع کی -

 

 

" کدھر سے آ رہے ہیں جہان ۔۔"؟ 

حیا نے جہان کو لاؤنج میں ہی روک لیا میں نے تمہیں بتایا تو تھا- 

جہان نے ازلی بے بیازی سے کہا-

 

" لیکن ایک پورے ماہ کا نہیں کہا تھا" - 

حیا نے جواب دیا - 

"تمہیں پتا تو ہے حیا دِس از مائی جاب" - 

حیا نے دانت پیسے... 

"اوہ... یور جاب؟"

 

اور جو اپنی کمر کے پیچھے ہاتھ میں پکڑا فرائنگ پن نکالا تو جہان کہ اوساں خطا ہوگئے - 

اس سے پہلے کہ جہان کچھ کرتا حیا اپنا فرائینگ پن لے کر جہان کے سر پر نازل ہوگئی اور دھرا دھر جہان کی کمر پہ گھما گُھما کر مارنے لگی-

 

جہان چونکہ اس انہونے وار کہ لیے تیار نہ تھا (حیا کو جاننے کہ باوجود) اسلے نیچے ہی لیٹتا چلا گیا - 

 حیا جب جی بھر کہ مار چکی تو فرائینگ پن کو ایک طرف پھینکا اور خود صوفے پے ڈھے گئی اور بولی تو صرف یہ 

"دِس آز مائی جاب جہان" - 

      ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔   

حیا کہ ساتھ بیٹھی ڈی جے نے تھوک نِگلا اور واپس اپنی کرسی پہ بیٹھ گئی کہ شاید اب واپس بیٹھ جانے میں ہی عافیت تھی- 

لیکن ساتھ بیٹھی کٹے بالوں والی لڑکی نے ہمت جمع کی اور چہک کہ بولی - 

" لیکن پھو پھو آپ نے ماموں کیساتھ کیا کیا-" 

سامنے بیٹھی زمر نے کٹے بالوں والی لڑکی خنین کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور بولی 

اس دو نمبر جیسا چھچھورا انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا- 

"بندہ پوچھے اب اسے اس سرخ سکارف والی آبدار سے کسی مدد کی کیا توقع ہے -؟ "

 

لیکن جب پوچھو تو نہیں بس وہ ہمارے بہت کام آئے گی - 

لیکن میں نے بھی اب پتہ کیا کیا! - 

 

کیا؟ 

خنین نے اپنی انکھوں سے بال پرے کرتے ہوئے پوچھا؟ 

"میں نے اس دو نمبر آدمی پہ 420 کا کیس دائر کر کہ اس کو اندر کروا دیا ہے -"

زمر نے گنگھریالے بال کمر کہ پیجھے پھینکتے ہوئے فخر سے کہا اور پیچھے کُرسی پہ ٹیک لگا لی-

اب لے جتنی مدد لینی ہے اس ابدار سے-

خنین ہکا بکا اپنی جلاد نما پھوپھو کو دیکھتی رہ گئی-

ایسے میں ڈی جے نے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان میی سے تیسری کو مخاطب کیا اور بولی- 

"لیکن امامہ آپ کو تو سالار بہت پیار کرتے ہیں کسی اور کی طرف تو جاتے ہی نہیں آپ کی اتنی کئیر کرتے ہیں-

" کیئر کا ہی تو سارا مسئلہ ہے "امامہ نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا- 

" امامہ تم یہ مت کھانا بیمار ہو جاؤ گی- 

امامہ تم کچن میں نہ جاو گرمی لگ جائے گی-

امامہ چھت پہ مت جاؤ دھوپ میں رنگ خراب ہو گا-

امامہ گھر کہ باہر مت جاؤ تمہیں کوئی مجھ سے چرا کہ لے جائے گا- 

مطلب ایسا بھی ہوتا؟"-

 

بس پھر میں نے پتہ کیا کیا- 

کیا؟ 

ڈی جے نے موٹی عینک کہ پیچھے سے آنکھوں کو رگڑتے ہوے پوچھا- 

" بس میں نے سالار کو کمرے میں بند کر کہ باہر سے تالا لگا دیا دس دن سے کمرے میں بند ہے- لیکن پھر بھی اندر سے آواز آرہی ہوتی ہے 

امامہ کھانا کھا لیا ؟

امامہ رات کو ٹائم سے سونا-" 

 

امامہ نے بے بسی سے کہا- 

خنین اور ڈی جے نے دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور چوتھی لڑکی سے مخاطب ہوئی 

اّور آپ؟ ؟

امرحہ نے اپنی ہنسی بمشکل روکتے ہوئے کہا - 

" دیکھو... پہلے تو ٹھیک تھا لیکن جب سے عالیان نے اپنی سائیکل بیچ کر بائیک لی ہے نہ میں تو اسے نظر ہی نہیں آتی - 

اب کل ہی کی بات ہے مجھے صبح اٹھنے میں دیر ہوگئی لیکن وہ لارڈ صاحب مجھے اٹھائے بغیر ہی اپنی پھٹ پھٹی سٹارٹ کی اور یہ جا اور وہ جا- 

میں نے سوچا چلو بھاڑ میں جائے- 

لیکن جب میں دوپہر کو اپنی سائیکل پر گروسری کرنے گئی تو جناب ویرا کو اپنی پھٹ پھٹی پہ بیٹھائے مانچسٹر کی سڑکوں کی خاک چھان رہے تھے- 

بس مییں شام کو سیڑیوں پہ کھڑی تھی جب عالیان آیا - 

کدھر تھے عالیان ؟ ویرا کہ ساتھ؟ - "

امرحہ نے کسی استانی کی طرح پوچھا- 

میں۔۔۔۔۔۔۔وہ۔ ۔۔۔۔۔۔

عالیان منمنایا-

" بولو بھی کہاں تھے "- 

امرحہ گرجی- 

" وہ ویرا یونی ورسٹی میں گِر گئی تھی تو اسے گھر۔ ۔۔۔۔"

 

تو میں نے بھی بس عالیان کو گِرا دیا - 

ایں... ؟ کدھر سے؟ 

ڈی جے اور خنین بیک وقت چلائی-

" سیڑھیوں سے" 

امرحہ نے ہنسی روکنے کی ناکام کوشش کی- 

ڈی جے نے اپنے ماتھے پہ افسوس مارے زور سے ہاتھ مارا- 

اور خنین اب اس پانچویں لڑکی کو دیکھ رہی تھی جو ابھی تک موبائل پہ مصروف تھی- 

ایک دم دونوں کی نظریں ملی اور 

تالیہ نے موبائل میز پہ رکھا اور کہنیاں بھی

میز پہ ٹکائی اور بولی- 

"سنو چھوٹی لڑکی میں نہیں چاہتی کہ تم مجھ سے کچھ پوچھو اور تمہارے لفظ ضائع ہو تو میں خود ہی بتا دیتی ہو سب کچھ-" 

 

چونکہ میں قدیم ملاکہ سے واپس نہیں آنا چاہتی تھی اور وہاں اپنے بابا کہ پاس ہی رہنا چاہتی تھی لیکن فاتح کو وزیراعظم بننے کی پڑی تھی تو میں نی اپنے بابا کو حکم دیا کہ مجھے ایک نیا محل بنوا دیں- چونکہ غلام فاتح پہلے بھی ایک مستری کا کام بہت احسن طریقے سے نبھا چکے ہیں تو بس میرے محل بنانے کا ٹھیکہ بھی غلام فاتح کو ہی دیا جا ئے- 

"میں اور ایڈم واپس  آ گئے ہیں امید ہے واپس جانے تک عقل آجائے گی-" 

 

ایک ادا سے کہتے ہوئے شہزادی دوبارہ موبائل پہ لگ گئی- 

افریقن چڑیل بولی بھی تو صرف یہ کہ 

"وہ آدمی اسی چیز کا حق دار ہے  اور دوبارہ کھانے میں مشغول ہو گئی - 

خنین اور ڈی جے نے لمبی سانس لی اور خنین بولنے لگی - 

"دیکھو لیڈیز جو بھی کہو آپ کہ شوہر آپ کو بہت پیار کرتے ہیں - "

اور جہاں تک بات ہے جہاں کی، 

ڈی جے نے پہلے تالیہ کو پھر حیا کو دیکھا اور پھر بات شرو ع  کی- 

"تو وہ تمہاری بیسٹ فرینڈ تالیہ کے ساتھ تھے- چونکہ اسے مدد کی ضرورت تھی اس لیے 

حیا نے گڑبڑا کے ڈی جے کو دیکھا اور تالیہ کو پھر بولی ایم سو سوری ہنی - 

اٹس او کے- 

شہزادی نے ایک ادا سے کہا - 

اور فارس ماموں کو میں نے ہی کہا تھا مدد کے لیے خنین منمنائی آ نکھیں نیچے گِرا لی گویا جیسے بہت شرمندہ ہو-

کیا ؟ 

زمر دونوں ہاتھ میز پے مارتے ہوئے غرائی-

سوری پھو پھو وہ میں آپ کو گھر جا کر بتاؤ گی

 

"اللہ غارت کریں ان جیل والوں کو پتہ نہیں کیا حشر کیا ہو گا فارس کا-

 

تو بات جہاں تک آپ کی ہے امامہ - 

تو بات جہاں تک آپ کی ہے امامہ - 

" سالار آپ سے محبت کرتے ہے اس لیے وہ ایسے ہے ورنہ آجکل کہ شوہر تو بس نام کہ ہی ہیں ڈی جے نے بات جاری رکھتے ہوئے باقی چاروں کو دیکھا- 

"امرحہ... ویرا واقعی ہی گری تھی میرا خیال ہے میں نے ویرا جیسی دوست اپنی پوری زندگی میں کبھی نہیں دیکھی- 

باقی اگر اب بھی تمہیں بھروسہ نہیں ہے تو ہم دونوں بھی ڈی جے نے پہلے خود پہ انگلی رکھی پھر خنین پر - 

مانچسٹر کی اسی یونی میں داخلہ لے رہے ہیں عالیان کہ ساتھ-" 

امرحہ نے ایک زور دار دھمکا ڈی جے کی کمر میں جوڑا اور ہنس پڑی - 

اب کہ خنین تالیہ کی طرف متوجہ ہو نے لگی تو تالیہ پہلے ہی بول اُٹھی - 

" چونکہ تونکو (فاتح)کو واپس لانے کا میرا کوئی ارادہ نہیں، تو تم یہ اپنی تقریر جو مجھ پہ کرنے والی تھی سنبھال کر رکھو" 

اّور ایک ادا سے موبائل پے لگ گئی-

خنین دانت پیس کہ رہ گئی - 

تو ڈی جے جلدی سے بولی تو صرف یہ

"تالیہ آپ یہاں ہے تو پیچھے تو وقت رُک جائے گا- تو محل کیونکر بن پائےگا؟ - 

تالیہ نے سانس روک لیا-

 

اور تالیہ سمیت باقی پانچوں نے گڑ بڑا کہ موبائل اپنے اپبے بیگ یا پرس میں پھینکے-

گویا گول میز کانفرنس پہ کسی نے ہلا بول دیا ہر طرف تھرتھلی مچ گئی-

اور خدا خافظ کہتے ہوئے پانچھوں یہ جا اور وہ جا-

حیا اور امامہ نے اپنی اپنی گاڑی اسٹارٹ کیں- 

امرحہ نے سائیکل جبکہ شہزادی اپنے سفید گھوڑے پہ سوار ہو چلی-

ان کہ جاتے ہی خنین نے اپنا موبائل نکالا اور واٹس اپ پہ ایڈ تمام شوہروں کو پیغام بھیجا-

 

               "بوائز وائفز آر کمنگ" 

جواباً فاتح کہ علاوہ باقی تقریباً سب نے زبان باہر لٹکاتا ایک کارٹون بیھجا-

 

خنین نے ڈی جے کیساتھ ہائی فائیو کہ انداز میں ہاتھ ملایا اور موبائل بیگ میں ڈالے اُٹھ گئی - 

ساتھ ساتھ ڈی جے کچھ گُنگنا رہی تھی-

پیچھے کالی موٹی افریقن چڑیل ہنوز اپنے تیسرے پیزے پہ ہاتھ صاف کر رہی تھی-

شاید یہ لیڈیز سُدھر گئیں 

   لیکن کون جانے۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن کون____