قفس شکن

2019-08-03 20:06:51 Written by سعدیہ نوشین نثار

قفس شکن 

از قلم 

سعدیہ نوشین نثار

 

زندگی دھوپ اور چھاؤں کی چھپن چھپائی کھیلتی ہوئی اپنی ہی ڈگر پر تیزی سے رواں دواں رہتی ہے۔ابو کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد اس بات کا اندازہ اس کو بخوبی ہو گیا تھا۔زندگی کی کتاب میں ایک نیا باب کھلنے کو بے تاب تھا اور کیسے نہ کھلتا زندگی تو آگے بڑھنے کا ہی نام ہے۔

امی کی جدوجہد سے بھری زندگی اس سے پوشیدہ نہ تھی۔اسے اور اس کے بھائی کو بہتر زندگی دینا ہی اب ان کا مقصد حیات تھا۔’’مہرالنسا اب اٹھ بھی جاؤ،کیا دن بھر سوتی رہو گی؟‘‘امی جب غصے میں ہوتی تھیں تو مہرو کو مہرالنسا کہہ کر بلاتیں۔شرمندگی کے احساس نے اسے گھیر لیا۔چھٹی کے دن تو مجھے امی کا ہاتھ بٹانا چاہیےکس طرح ہر وقت کاموں میں جتی رہتی ہیں۔اور وہ چھلانگ مار کر بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔دن تو جیسے پر لگا کر گزرتے جاتے ہیں۔

اور آخر وہ دن بھی آ گیا جس کا انتظار ہر لڑکی کو ہوتا ہے۔دلہن کے روپ میں سجی سنوری مہرالنسا کسی شہزادی سے کم نہیں لگ رہی تھی۔’’رضوان بھائی بہت لکی ہیں جن کو تم جیسی بیوی ملی۔موصوف دیکھتے ہی شاعری نہ کرنے لگیں اور ساری رات مشاعرے میں گزر جائے‘‘فائزہ جو اس کی سب سے قریبی سہیلی تھی اس نے چھیڑا تو سب لڑکیاں ہنسنے لگیں۔وہ شرما گئی۔امی نے رخصت ہوتے ہوئے یہ بات گرہ سے باندھ دی کہ’’اچھے خاندانوں کی لڑکیاں شکایت کا موقع نہیں دیتیں۔ہر حال میں گزارا کرتی ہیں‘‘مہرو نے اثبات میں سرہلاتے ہوئے یہ بات گرہ سے باندھ لی اور نئے سفر پر گامزن ہو گئی۔

 

پھولوں،تتلیوں اور رنگوں کی باتیں کرنے والی مہرو اپنے خوابوں کو شہزادے کو سمجھ ہی نہیں پاتی تھی کہ کب ان کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ جائے۔’’تمہیں اپنی مرضی سے زندگی گزارنی ہے تو تم چلی جاؤ اپنی ماں کے پاس۔اس گھر میں میری ہی مرضی چلے گی‘‘رضوان غصے سے چیخ رہے تھے اور وہ سوچ رہی تھی کہ کونسا کام اپنی مرضی سے کرتی ہوں۔وہ سہم کر سوچنے لگی کہ امی کے گھر واپس جانے کا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتی۔’’رضوان مجھ سے غلطی ہو گئی مجھے معاف کر دیں‘‘-

بےقصور ہوتے ہوئے بھی وہ اکثررضوان کی عدالت میں مجرم بن کر کھڑی ہوتی۔وقت گزرتا گیا۔امی کو سب اچھا کی رپورٹ دیتے وہ بھی اب تھکنے لگی تھی۔اب تو بچے بھی سمجھدار ہو گئے تھے۔سب حالات سمجھنے لگے تھے بہت حساس ہو گئے تھے۔اس دن بھی ایسا ہی ایک دن تھا۔’’تم نے مجھے دیا ہی کیا ہے۔پتہ نہیں کس خاندان میں پھنس گیا ہوں۔تم بس میرے کمرے میں مت آیا کرو۔بچوں کے پاس سویا کرو اور یہ جو تم دو چار برتن دھو کر،کھانا بنا کر سمجھتی ہو بہت احسان کر دیا مجھ پر،مت کیا کرو یہ کام۔میں خود کر لوں گا‘‘رضوان کا غصے سے بھرا لیکچر سن کر(جو کہ بہت اونچی آواز میں تھا)عمر اور عمارہ بھی کمرے سے نکل آئے اور سہم کر کھڑے ہو گئے۔مہرو کا دل غم وغصے پھٹنے لگا۔بچوں کو سلاتے ہوئے وہ سوچنے لگی کہ ایک بیوی کا آخر کیا فرض ہوتا ہے؟-

کیا گھر کا کام اور گھر میں رہ کر بچوں کی پرورش کوئی کام نہیں؟۔عورت کو ہمارے دین اسلام میں کیا حکم دیا گیا ہے؟اس کو درس میں آنے والی ایک عالمہ کے الفاظ یاد آئے جنہوں نے سوال پوچھنے پر یہ جواب دیا تھا کہ اگر گھر میں مالی آسودگی ہو تو عورت گھر پر رہ کر گھر کو سنبھالے۔اپنے بچوں کی بہترین پرورش اور شوہر کے حقوق و فرائض پورے کرے۔مہرو یہ سوچ سوچ کر پاگل ہو رہی تھی کہ کمی آخر کہاں ہے؟بچے اس سے بہت پیار کرتے تھے۔اس کے ہاتھ کا بنایا ہوا کھانا ان کو بہت پسند تھا۔’’ماما آپ بیسٹ ہیں‘‘عمر کھانا کھاتے ہوئے نعرہ لگاتا۔اور رضوان کا منہ بن جاتا۔

مہرو کی عاجزی کا یہ عالم تھا کہ وہ آج بھی اپنی ہی ذات کی خامیاں ڈھونڈ رہی تھی۔’’شاید میں ہی سمجھ نہیں پاتی رضوان کو اور ان کو غصہ آ جاتا ہے،کس سے پوچھوں کیا صیحح ہے اور کیا غلط ہے۔کس کا قصور ہے؟‘‘زندگی اس کیلئے سوالنامہ بن گئی تھی اور جوابات ندارد۔

مگر اس دن تو جیسے مہرو ٹوٹ سی گئی تھی۔

’’تمہارا میرا مزاج ہی نہیں ملتا۔بہتر ہے کہ ہم کوئی فیصلہ کر لیں‘‘رضوان کی کاٹ دار آواز نے مانو اس کے پیروں کے نیچے سے زمین ہی نکال دی۔’’رضوان آپ کیا کہہ رہے ہیں؟مجھے معاف کردیں مجھ سے غلطی ہو گئی‘‘مہرو نے روتے ہوئے ہاتھ جوڑ دئیے۔یہ جملہ تو دس سالوں میں اسے ازبر ہو گیا تھا۔ناکردہ گناہوں کی معافی پیروں پر گر کر بھی نہیں مل پاتی تھی۔آج تو مہرو کی دل کی زمین جیسے بنجر ہو گئی تھی۔

 

 

’’یا اللہ اس انسان کی خاطر میں نے تجھ کو فراموش کر دیا۔اپنا تن من دھن نچھاور کرنے کے باوجود کچھ حاصل نہ ہوا۔اے میرے مالک مجھے معاف کر دے۔یا رحمٰن یا رحیم تیری ہستی کتنی عظیم ہے جو بن مانگے ہی دیے جاتا ہے‘‘کاش اتنے سال زندگی کے اس کے پیروں کی خاک نہ چھانی ہوتی۔جائے نماز پر سجدے میں گری مہرو روتے روتے نڈھال ہو گئی۔اس نے بدلے میں بے رخی اور بے اعتنائی کے سوا کچھ نہ دیا۔

حقیقی عشق کو فراموش کرکے سراب کے پیچھے بھاگتے رہی یہاں تک کہ پاؤں لہولہان ہو گئے مگر مرہم تو اس پاک ذات کے تصور نے ہی دیا۔آج مہرو کا دل پرسکون تھا۔اب وہ سوال نہیں کرتی اپنے آپ سے۔جس محبت کو وہ دائمی تصور کرکے اصل سکون کو بھلا بیٹھی تھی وہ اس کو مل گیا تھاوہ پتھر کے بت کے آگے گڑگڑا کر معافی نہیں مانگتی بلکہ اپنے خالق و مالک سے اپنے دل کا ہر درد بانٹ کر اوپر والے کے کرشمے کا انتظار کرتی ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو کبھی مایوس نہیں لوٹایا۔۔۔