محبت کا فاتح

2019-08-04 19:03:08 Written by سدرہ صنم

"محبت کا فاتح" 

از قلم 

"سدرہ صنم"

 

آج اپنی شادی کی بائیسویں سالگرہ کے دن بھی وہ دونوں وہی تھے جو بائیس سال پہلے ہوا کرتے تھے۔ وہی چھا جانے والی شخصیتیں، وہی وجاہت و جمال کی دو پیکریں، وہی ان کے ساتھ کا جادو، اور وہی بائیس سال پہلے والی محبت۔

اور ان سب پہ بھاری ایک بات۔۔۔ ایک تحیر ۔۔۔۔ایک عظمت- 

وہ یہ کہ فائق آج بھی اس سے وہی محبت کرتا تھا جو اس نے بائیس سال پہلے پہلی نظر میں کیا تھا۔۔۔۔

وہاں وہ دونوں تھے اور ان کے بیچ تیسری محبت تھی، ایک میز پہ دھرا جلتی شمعوں تلے رکھا کیک تھا اور ارد گرد بے تحاشا بکھرے پھول تھے۔ 

لمبے ہال نما کمرے پہ نظر دوڑاتے نورینہ نے ہر شے سے لپٹی ہر چیز سے گلے ملتے اور ہر مقام پہ بکھرے پھول ہی پھول دیکھے تھے، یہ پھول وہ اس کے لئے لایا تھا وہ ہمیشہ ایسے کرتا تھا اس کی نورینہ کو پھول بہت پسند تھے اور اس کو نورینہ اور اس کی خوشی۔

یہ سب دیکھ کر محسوس کرتے نورینہ کے دل میں بائیس سال سے پنپنے والا وہ زہریلا خیال پھر در آیا تھا۔ "کچھ پھول تو اسے بھی بہت پسند تھے جو صرف میری دسترس میں تھے اور اس کی پوری زندگی تھے میں نے اس کی زندگی سے اسے نوچ کر اتار پھینکا تھا اسے ہمیشہ کیلئے خالی دل کر دیا تھا، لیکن خالی ہاتھ تو میں خود بھی رہی تھی فرق صرف یہ ہے کہ وہ جیت گیا تھا اور میں ہار گئی تھی"- 

                               ☆☆☆☆☆☆

ان دونوں کا ڈیپارٹمنٹ الگ تھا دونوں کو محبت نے ملا دیا تھا۔ وہ بزنس کا سٹوڈنٹ تھا یہ ادب کی طالبہ تھی۔ وہ ملے، ان کو محبت ہوئی اور شدت کی ہوئی ،ان کو محسوس ہوا کہ وہ الگ نہیں رہ سکتے تو یونیورسٹی کے جلد بعد ہی نکاح جیسے مضبوط گرہ سے ایک دوسرے کی روحوں کو ہمیشہ کیلئے باندھ دیا.  

فائق کی شخصیت میں کمال تھا تو وہ حسن میں بہت سو میں یکتا۔ فائق ویل اسٹیبلیشڈ بیک گراونڈ رکھتا تھا، اور وہ یونیورسٹی کی مشہور شاعرہ تھی۔ ایک محبت اسے شعر سے تھا دوسری فائق سے ہو گئی تھی ۔

شادی کے بعد وہ مختلف پروگراموں میں، مشاعروں میں جا کر اپنے فن کی داد وصول کرتی تھی۔ اردو ادب اس کا شوق تھا اور وہ اسی میں ہی اپنا کیرئر بنانا چاہ رہی تھی۔ 

 فائق اس کے ہر بڑھتے قدم تلے اپنا ہاتھ رکھتا اس کی راہیں ہموار کر رہا تھا۔ 

 نورینہ نے بارہا خدا کا شکر ادا کیا تھا ۔ 

 اس دن جب ان کی زندگی میں ایک نئے مہمان کی آمد کی نوید آئی تھی،تو فائق پاگلوں کی طرح خوش ہوا تھا اتنا کہ وہ حیران رہ گئی تھی۔ 

      ☆☆☆☆☆☆                        

وہ دونوں بہت خوش تھے نعمتیں بے حساب تھی اور اسکا حساب لگانا مشکل۔ اس وقت جب نورینہ کو زندگی سے عشق ہونے لگا تھا تب زندگی نے اپنا ایک اور روپ اسے دکھایا تھا- نہایت بد صورت اور کریہہ روپ۔

 فائق کو ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں لوئر ورٹبرل کالم کی سخت قسم کی انجری آئی تھی اور اس کی دونوں ٹانگیں مفلوج ہو گئی تھی ۔وہ مضبوط، وجیہہ، ناقابل شکست شخص چلنے پھرنے سے معذور ہو کر ایک بیڈ تک رہ گیا تھا۔

یہ نہ تھا کہ ملازموں کی کمی تھی لیکن اس وقت اسے سب سے زیادہ ضرورت نورینہ کی ساتھ کا تھا۔ اس کے ہاتھوں کی خدمت، اس کے وقت اور اس کی محبت کا۔

دو مہینے تک اس نے دن رات کی پرواہ کئے بغیر اس کی خدمت کی تھی۔ اس کی زندگی کی اپنی کیا مصروفیات کیا ترجیحات تھی وہ بھول گئی تھی۔

دو مہینے کے عرصے میں پہلی دفعہ یونیورسٹی کے کسی بڑی سطح پہ منعقد کئے پروگرام کیلئے اپنے پرانے ٹیچرز کی پر زور فرمائش پر فائق ہی کے اصرار پہ وہ چلی گئی تھی۔ 

اس دن جب اس نے کچھ نئے اشعار پڑھے تو وہ پہلے سے زیادہ سرائی گئی تھی وہاں بہت سے لوگ جمع تھے، اس کے پرانے دوست بہت سے نئے مہمان ،نئے چہرے۔۔۔ سب نے اسے بہت سراہا تھا اس کے کچھ نئے فینز بن گئے تھے اور اس کے لئے ڈھیر ساری تالیاں بجی تھی۔ 

 پروگرام کے اختتام پر اس کے پروفیسر نے اسے بلا کر ڈیپارٹمنٹ میں ایک اچھی جاب کی آفر کی تھی وہ سب جو وہ ہمیشہ چاہتی تھی اس کے خواب اس کا کیرئر وہ مل رہا تھا بہت آسانی سے لیکن اس نے انکار کیا تھا کس دل سے یہ صرف وہ جانتی تھی۔

فائق ٹھیک ہوتا تو آج اسے اپنے خوابوں کو خود اپنے ہاتھوں یوں نہ روندنا پڑتا گھر آتے ہوئے اسی خیال نے اسے سانپ بن کر ڈسا تھا۔

  ☆☆☆☆☆☆                          

اس دن جب وہ گھر آئی تو وہ بدلی ہوئی نورینہ تھی۔ فائق کی خدمت اور اس کے ساتھ سے پہلی دفعہ اسےگھٹن محسوس ہوئی تھی۔ وہ محبت جو پہلے اس کے لئے آزادی کا پیامبر رہی تھی آج اس کی قید، اس کا سانس بند کرنے لگی تھی۔

ہر اچھے سے اچھے انسان میں بھی اس کا ایک برا ہمزاد ضرور ہوتا ہے، جو اسے ہر لمحہ بھٹکاتا ہے ، اس کی راہ میں روڑے اٹکاتا ہے اور اسے ڈانواں ڈول کرتا رہتا ہے۔ اسے بھی کیا تھا اور باوجود یہ کہ وہ فائق سے محبت کرتی تھی اس کے دل نے سرگوشی میں چپکے سے ایک فیصلہ کیا تھا۔

اور وہ یہ کہ وہ اس محبت کیلئے ساری زندگی کا سودا نہیں کرے گی جس سے اب ہی اس کی سانس رکنے لگی ہے۔  

ساری زندگی بہت بڑی ہوتی ہے۔۔۔

اسی رات اس نے ایک خواب دیکھا اس نے دیکھا ایک ہنستی مسکراتی نورینہ روشنیوں میں نہائی لوگوں کی ایک بھیڑ سے گزر رہی ہے وہاں اسکے لئے تالیاں بج رہی ہے اس کا نام ایک عزت کے ساتھ لیا جا رہا ہے وہ مضبوط ہے، وہ پر امید ہے، وہ خوش ہے، وہ آزاد پرندے کی مانند ایک اونچے مقام کی طرف محو پرواز ہے کہ اچانک ۔۔۔ اچانک اس کے پاوں میں کوئی زنجیر آ پڑتی ہے۔ وہ زنجیر اسکے بلبلانے اسکے چیخنے اسکے پکارنے کے باوجود اسے کھینچتی ہی جا رہی ہے۔ اور جب وہ گرتے پڑتے گھسٹتے ہوئے روشنی سے اندھیرے میں پہنچ جاتی ہے تو وہ دیکھتی ہے کہ وہ زنجیر ایک بچے کے ہاتھ میں ہے۔ جو اسے کھینچ کے وہ ایک کرسی کے قریب لایا ہے وہ حیرانی سے دیکھتی ہے کرسی پہ فائق بیٹھا ہوتا ہے۔ بے پروائی سے سر اٹھا کہ کہتا ہے۔ 

 "نور! تمہاری منزل سے تمہیں میں نے نہیں تمہارے بچے نے روکا ہے تمہیں باندھا ہے میرے ساتھ اور تم باندھی چلی آئی۔ مجھے الزام مت دینا میری طرف سے تو تم آزاد تھی" ۔ 

یکدم اس کی آنکھ کھل گئی تھی اور اسے ایسے لگا تھا جیسے وہ قبر میں سے اٹھ کے کھڑی ہوئی ہو اتنے عرصے میں پہلی دفعہ اسنے اس انداز سے اپنے پیٹ میں تین مہینے سے زندگی جینے والے بچے کے بارے میں سوچھا تھا اور اسے ایسے لگا تھا جیسے وہ بچہ اسکی پیٹ میں سانس نہیں لے رہا اسکی سانس کھینچ رہا ہے۔ زندگی کا وہ مقام جب وہ خود میں ہمت پیدا کرے گی اور وہ ہر زنجیر توڑ کر نکنلے میں کامیاب ہوگی تو یہی بچہ اسکی راہ کا رکاوٹ بنے گا۔ برق رفتاری سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور اس نے ایک فیصلہ کیا تھا۔ سوچنے کیلیے اسنے ایک لمحہ بھی نہیں لگا یا تھا اس لیے کہ وہ جانتی تھی اس نے اگر ایک لمحہ تاخیر کی تو وہ ایسا کبھی نہیں کر سکے گی۔ 

☆☆☆☆☆☆                           

ایک کھیل انسان کھیلتا ہے ایک تدبیر قدرت کی طرف سے ہوتی ہے بچے سے جان چھڑانے کے چکر میں اسے ایسی پیچیدگی آئی تھی کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلیے ماں بننے سے محروم ہو گئی تھی۔

☆☆☆☆☆☆                          

فائق کیلئے وہ صرف ایک حادثہ تھا، جس میں اسکا بچہ ضائع ہوگیا۔ وہ اصل حقیقت سے بے خبر تھا۔ اس لیے جب اپنی ساری تکلیف صرف خود تک محدود رکھتے اسے تسلی دی تھی کہ "ہمیں اس تکلیف پر صبر کرنی چاہیئے اللہ ہمیں اگلی دفعہ نوازے گا اسکے گھر میں کوئی کمی نہیں" تو وہ ٹوٹ کر پارہ پارہ ہوگئی تھی۔ 

وہ نہیں بتا سکی کہ اس کی زندگی میں اب یہ "اگلی دفعہ" کبھی نہیں آئے گی۔ کس چیز کیلئے اس نے وہ سب کیا تھا وہ بھول گئی اسے یاد تھا تو صرف اپنا ادھورا پن اور اسکے ساتھ جو خیال ذہن میں زہر بن کر پنپ رہا تھا، وہ فائق کا بچے کیلئے وہ بے تحاشا محبت جسکی گواہ وہ خود تھی۔

☆☆☆☆☆☆                            

پتہ نہیں وہ معجزہ تھا یا پھر قدرت کا انتقام ۔ فائق کی دونوں ٹانگیں ٹھیک ہو گئیں تھیں ۔ اتنی جلدی کہ جیسے اس نے پلک جھپکی ہو اور اس کا فائق پہلے کی طرح اس کی مضبوطی بنے کھڑا اس کی ساری تکلیفوں کی مداوے کی بات کرتا اسکے سارے خواب لوٹاتا اسکی ہر خوشی کو ڈھیر سارے پھولوں سے مہکاتا امیدوں اور خوابوں کی تعبیروں کی بات کررہا تھا۔ 

 وہ سب بولتے اس کی آنکھوں کی چمک کے سامنے وہ ٹک نہیں پائی تھی اور اپنی خود غرضی کی ساری کہانی سنا کر خود کو ضمیر کی قید سے آزادی دلا کر اس کے سامنے مجرم بنا کے کھڑا کیا تھا۔ وہ رو رہی تھی اور وہ ساکت تھا مکمل خاموش۔ اور جب وہ بہت سارا روئی تو دونوں کے بیچ خاموشی کی ایک صدی گزری۔ آخر کار وہ اٹھی اور دروازے کی طرف مرے قدموں سے جانے لگی۔ فائق کے ساکت جسم میں جنبش ہوئی اور وہ اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔  

خون خون آنکھوں کے ساتھ بہت ضبط سے وہ گویا ہوا تھا۔

 "نور!محبت محض پھولوں کے رستے پہ چلنے کا نام تو نہیں ہے یہاں کانٹے بھی ہوتے ہیں یہاں تکلیف بھی آتے ہیں زخم بھی ملتے ہیں۔۔ خوشی میں محبت کرنا اور تکلیف میں چھوڑ دینا اسے محبت نہیں کھیل کہتے ہیں، تم نے اپنی باری کھیل لی اب میری باری ہے لیکن کاش! کہ میں بھی اسے کھیل سکتا، میں کھیلے بغیر ہار مان رہا ہو، محبت کرنے والے کھیلتے ہی تو نہیں ہیں"

وہ سوجے ہوئے پپوٹے لئے بہت تعظیم کے ساتھ اس ہارے ہوئے فاتح کو دیکھ رہی تھی جس نے خود ہار کر فتح کا ہار محبت کے گلے میں ڈال لیا تھا۔ 

 "اسلئے نور! تم کہیں مت جاؤ تمہارے خواب بھی یہی پورے ہوں گے تمہارے راستے میں اب کوئی امتحان بھی نہیں آئے گا" 

اور اب جب وہ خود اس کے ادھورے وجود کو قبول کر رہا تھا تو وہ کہاں جا سکتی تھی،اس عظیم "محبت کے فاتح" کے قدموں کے علاوہ اب اسکی جگہ کہاں رہی تھی۔ 

 ☆☆☆☆☆☆