حسن پرست

2019-08-05 20:09:38 Written by حیا جہان

"حسن پرست"

از قلم 

"حیا جہان "

 

تیز موسلا دھار بارش جاری تھی۔بادلوں سے بارش کا گرتا ہوا پانی ماحول کو بہت پرلطف بنا رہا تھا۔کافی کا مگ کافی دیر سے میز پر رکھا ہوا تھا۔اتنے پرلطف موسم میں بھی وہ اداسی ختم نہیں کر پا رہی تھی۔اس نے ہاتھ بڑھا کر موبائل اٹھایا اور ایک میسج لکھ کر سینڈ کر دیا۔ہاتھ میں نیند کی گولیاں اٹھائے وہ اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔چند ہی لمحوں میں وہ بے قدری کے احساس سے گزرنے والی لڑکی موت کے آغوش میں تھی۔

۔۔۔۔

سلمٰی بیگم گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر عالیان کے پاس بیٹھ گئیں تو عالیان کو گہری سوچ میں گم پایا۔’’کیا ہوا بیٹا کوئی پریشانی ہے؟‘‘اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولیں۔’’کچھ نہیں‘‘عالیان نے جواب دیا۔’’امی آپ منصور چچا کے گھر گئیں تھیں دعا کے رشتے کا کیا بنا؟‘‘عالیان گویا ہوا۔’’کیا مطلب؟‘‘انہوں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔’’امی مطلب کچھ نہیں،بس دعا کے رشتے کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔ویسے بھی اس کے رشتے مشکل سے آتے ہیں اگر آ بھی جائیں تو اس کو دیکھتے ہی انکار کر دیتے ہیں۔چچا کو چاہیے اس کی شادی جلد از جلد کر دیں کہیں ساری عمر بیٹھی نہ رہ جائے‘‘اس نے رائے دی۔’’میں نے منصور سے بات تو کی تھی مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا‘‘وہ کچھ سوچتے ہوئے بولیں۔’’اچھا امی اب مجھے شاہزیب کے ولیمے میں جانا ہے بعد میں بات ہو گی‘‘عالیان نے بتایا۔’’ٹھیک ہے تم سے بعد میں بات کروں گی‘‘وہ اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالیان ولیمے میں پہنچ چکا تھا۔اسٹیج پر جا کر اس نے شاہ زیب اور اس کی بیوی کو سلام کیا اور شادی کی مبارکباد دی۔ایک نظر شاہ زیب کی بیوی پر ڈالی۔سجی سنوری وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔وہ بے حد حسین تھی۔یوں بھی وہ کافی حسن پرست تھا۔سیرت سے زیادہ صورت کو ترجیح دیتا تھا۔وہ خود بھی کافی ہینڈسم تھا۔’’ایکیسکیوزمی‘‘اچانک اس کے کانوں پر ایک نسوانی آواز پڑی۔’’جی‘‘اس نے نظر اٹھا کر اس لڑکی کو دیکھا اور دیکھتا رہ گیاوہ بے حد حسین تھی۔’’آپ کافی دیر سے یہاں بیٹھے ہیں اب ہمیں بھی بیٹھنے دیجئے‘‘لڑکی نے بات مکمل کی۔’’جی جی ضرور‘‘یہ کہتے ہوئے اس نے جگہ دی اور لڑکی پر توجہ مرکوز کر لی۔اس نے اس سے بات کرنے کی ٹھانی۔ باتوں کے درمیان اسے پتہ چلا کہ وہ شاہ زیب کی کزن ہے اور اس کا نام حور عین ہے۔اس نے شاہ زیب سے حورعین کا نمبر لیا اور گھر پہنچتے ہی حورعین کو ’ہیلو‘کا میسج کیا۔’’جی آپ کون؟‘‘حورعین کا میسج آیا۔’’میں عالیان،شاہ زیب کا دوست۔آپ سے دوستی کرنا چاہتا ہوں۔آپ مجھے بے حد اچھی لگی ہیں‘‘اس نے جواب دیا۔’’اوکے لیکن صرف فرینڈشپ،اور کچھ نہیں‘‘حورعین نے جواب دیا۔’’اوکے‘‘یہ کہہ کر شاہ زیب نے باتوں کا سلسلہ شروع کردیا۔کچھ دنوں تک یونہی باتیں ہوتی رہیں۔دونوں کی بہت اچھی دوستی ہو گئی تھی۔ایک دوسرے سے بات کئے بغیر نہ رہتے تھے۔عالیان نے حورعین کو پرپوز کیا جسے حورعین نے فوراً قبول کر لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تھکے ہوئے قدموں سے دعا گھر میں داخل ہوئی۔سامنے تائی پر نظر پڑتے ہی وہ خوش ہو گئی۔’’السلام علیکم‘‘اس نے تائی کو سلام کیا

۔’’وعلیکم السلام،کیسی ہو بیٹا؟‘‘۔انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا۔

۔’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘ایک نظر عالیان پر ڈال کر وہ تائی سے باتوں میں مشغول ہو گئی۔کچھ دیر بعد وہ اٹھ کر کچن میں آ گئی۔آج سلمٰی بیگم عالیان کے ہمراہ دعا اور عالیان کا رشتہ منظور کرنے آئیں تھیں۔منصور اور عذرا بھی اس رشتے پر راضی تھے۔خود دعا بھی عالیان کو اپنے دل میں جگہ دے چکی تھی۔

دوپہر کے کھانے سے فارغ ہو کر دعا سب کیلئے چائے بنا لائی تھی۔اس نے باری باری سب کو چائے دی۔عالیان نے ایک نظر دعا کی طرف ڈالی۔ہمیشہ کی طرح اسے دعا میں کوئی خوبصورتی نظر نہ آئی۔سلمٰی بیگم اپنے بیٹے کی اس فطرت سے بخوبی واقف تھیں لیکن وہ جانتی تھیں انسان کی اصل خوبصورتی اس کا اچھا اخلاق ہے اور دعا کو پسند کرنے کی وجہ بھی اس کی خوشی اخلاقی اور سلیقہ شعاری تھی۔دعا نے عالیان کی طرف ہلکی سی مسکراہٹ لئے چائے پیش کی۔’’اب موبائل سائیڈ پر رکھ کر سکون سے چائے پی لیجئے۔جب سے آئے ہیں موبائل میں ہی مصروف ہیں‘‘اتنا کہہ کر اس نے اس کے ہاتھ سے موبائل لے کر ٹیبل پر رکھ دیا۔

۔’’تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے ہاتھ سے موبائل چھیننے کی؟‘‘اس نے چائے میز پر پٹختے ہوئے غصے سے کہا۔’’عالیان یہ کس طرح بات کررہے ہو دعا سے؟‘‘سلمٰی بیگم نے اسے ڈانٹا۔

۔’’تو پھر کیسے بات کروں اس سے؟اور میں کیوں اس سے بات کروں؟اس میں کیا خاص ہے؟‘‘اس نے دعا کی طرف حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا۔منصور اور عذرا بیگم اپنی بیٹی کی حمایت میں کچھ بولتے،اس سے پہلے سلمٰی بیگم نے کہا۔’’دعا تمہاری ہونے والی بیوی ہے یہ اس کا حق ہے کہ تم اسے عزت دو‘‘۔یہ سن کر عالیان کو حیرت کا جھٹکا لگا۔وہ کسی صورت بھی حورعین کی جگہ کسی اور کو دینے کیلئے تیار نہ تھا ا

اور دعا کو تو ہرگز نہیں’’تو آپ میری شادی اس سے کرنا چاہتی ہیں جو خوبصورتی میں ذرا بھی میرے برابر نہیں۔میرے لئے میرے معیار کی لڑکی ہونی چاہئے جو میری طرح ہو‘‘اس نے نہایت حقارت آمیز لہجے میں کہا۔

۔’’عالیان بس کرو۔اپنی اس چند دن کی خوبصورتی پر کسی کا مذاق مت اڑاؤ۔خدا نے حسن دیا ہے تو اپنے حسن پر غرور مت کرو‘‘دعا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔’’ٹھیک ہے اب تم بھی اپنی یہ کالی شکل میرے سامنے سے لے کر چلی جاؤ‘‘عالیان نے بے حد غصے میں کہا۔دعا سے اپنی ذلت اور برداشت کرنے کی ہمت نہ تھی۔وہ روتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ دن خاموشی سے گزر گئے۔سلمٰی بیگم نے دعا کے بارے میں عالیان سے کوئی بات نہ کی۔عالیان کا یوں دعا کو رد کرنا ان کیلئے بہت دکھ کی بات تھی۔منصور صاحب اور عذرا نے بھی یہ سوچ کر صبر کر لیا کہ شاید ان کی قسمت میں یہ خوشی نہ تھی۔عالیان ہر طرح سے مطمئن تھا۔حورعین نے اپنے گھر والوں سے عالیان کا تذکرہ کیا جسے اس کے ماں باپ نے رد کر دیا۔دراصل حورعین ایک امیر لڑکی تھی اور عالیان ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتا تھااس لئے یہ رشتہ ہونا ناممکن نظر آتا تھا لیکن حورعین کی ضد اور آنسوؤں کے آگے سب نے ہار مان لی۔ادھر عالیان نے بھی سلمٰی بیگم کو منا لیا اور ملاقات کے بعد دونوں کی شادی کر دی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت گزرتا گیا۔اس دوران دعا کے کئی رشتے آئے لیکن اس نے منع کر دیا۔منصور صاحب نے بھی مجبور نہ کیا۔عالیان اور حورعین بے حد اچھی ازدواجی زندگی گزار رہے تھے۔حورعین نے خود کو عالیان کی پسند کے مطابق ڈھال لیا تھا۔سلمٰی بیگم بھی اب کچھ مطمئن تھیں۔لیکن کس کو خبر تھی کہ یہ سکون ختم ہونے والا ہے۔

دونوں کی شادی کو پانچ سال گزر چکے تھے کہ اچانک اس کی زندگی میں ماہ رخ آ گئی۔یہ ملاقات ایک دوست کے گھر ہوئی۔وہ بے حد دلکش تھی۔عالیان بس اسے دیکھتا رہ گیا۔موقع پاتے ہی دوستی کی۔کچھ دنوں بعد دوست سے ماہ رخ سے شادی کی خواہش ظاہر کی۔’’یار تم کیوں ایسا سوچ رہے ہو؟دو بچے ہیں تمہارے؟تمہیں کیا پڑی ہے دوسری شادی کی اور ویسے بھی ماہ رخ تم سے شادی نہیں کرے گی‘‘۔دوست نے جواب دیا۔’’مجھے نہیں پتہ۔۔میں ماہ رخ کے بغیر نہیں رہ سکتا‘‘اس نے کہا۔

۔’’اچھا ٹھیک ہے میں کچھ کرتا ہوں‘‘دوست نے کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہ رخ خزاں کے جھونکے کی طرح ان دونوں کی زندگی میں آ گئی تھی۔حورعین عالیان کی بے وفائی کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔اسے عالیان پر اندھا اعتماد تھا۔ماہ رخ کی محبت نے عالیان کو حورعین اور بچوں سے بہت دور کر دیا تھا۔وہ حورعین کو اپنے اور ماہ رخ کے درمیان کانٹا سمجھنے لگ گیا تھا۔یہ تمام عرصہ دونوں نے شدید کشمکش میں گزار دیا۔آخر حورعین کو اندازہ ہو گیا کہ ضرور کوئی کہانی پوشیدہ ہے

کچھ دنوں بعد جب حورعین اپنے میکے گئی ہوئی تھی عالیان کورٹ میرج کرکے ماہ رخ کو گھر لے کر آ گیا۔دونوں نے وقت ساتھ گزارا۔دونوں بہت خوش تھے کچھ دیر وقت ساتھ گزارنے کے بعد اچانک بیل بجی۔عالیان نے دروازہ کھولا۔سامنے حورعین کو دیکھ کر ایک دم بوکھلا گیا - پیچھے سے ماہ رخ بھی دروازے پر پہنچ چکی تھی۔’’یہ کون ہے؟‘‘ماہ رخ نے پوچھا۔

۔’’میں عالیان کی بیوی ہوں تم کون ہو؟‘‘حورعین نے پوچھا۔

۔’’ایکسکیوزمی میں عالیان کی بیوی ہوں‘‘ماہ رخ نے جواب دیا۔یہ سن کر حورعین غصے سے ماہ رخ پر جھپٹ پڑی۔بڑی مشکل سے عالیان نے ماہ رخ کو چھڑوایا اور حورعین کو صاف صاف بتا دیا کہ وہ ماہ رخ سے محبت کرتا ہے اور اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔حورعین سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ اس کا شوہر دوسری عورت کی محبت میں گرفتار ہو چکا ہے۔حورعین نے عالیان کو صرف دلی سکون ہی نہیں دیا تھا بلکہ مالی مدد بھی کی تھی۔اس کا قرض اپنے پیسوں سے اتارا تھا۔اس کے والد نے داماد کو اعلیٰ عہدے پر فائز کروایا تھا لیکن عالیان یہ سب بھول چکا تھا۔اسے حورعین کی ذہنی اذیت اور بچوں کی کوئی پرواہ نہ تھی-

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالیان ماہ رخ کے ساتھ علیحدہ گھر لے کر رہنے لگا-

ایک دن عالیان کو کسی غرض سے حورعین کی طرف آنا پڑا۔تب وہ گھر آیا اور بیل بجائی لیکن کوئی دروازہ کھولنے نہ آیا۔اسے لگا حورعین دروازہ نہ کھول کر اپنی ناراضگی جتا رہی ہے۔

                                ****

حورعین اپنی آنکھوں سے عالیان کی بے وفائی دیکھ چکی تھی۔اس نے دل سے عالیان سے محبت کی تھی-مگر عالیان کی بے وفائی نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا- وہ لاڈلی اور ضدی ہمیشہ اپنی بات منوا لیتی تھی۔آخر کار وہ ایک فیصلے پر پہنچ گئی - 

دونوں بچے اس کے ساتھ سو رہے تھے۔اپنی ایک دوست کو اس نے میسج کیا کہ صبح آ کر ضرور ملے۔میسج کے بعد اس نے ساری نیند کی گولیاں کھا لیں اور عالیان کی زندگی سے چلی گئی۔

 ادھر جب کافی دیر تک دروازہ نہ کھلا تو عالیان کو تشویش ہوئی۔وہ گیٹ پھلانگ کر اندر پہنچا۔حورعین اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔شاید سو رہی تھی۔۔عالیان نے اسے جگانے کی کوشش کی مگر وہ نہ اٹھی۔عالیان سکتے میں کھڑا دیکھ رہا تھا۔حورعین کی دوست بھی پہنچ گئی۔کچھ دیر میں اس کے گھر والے بھی آ گئے۔سب ہی حیران تھے کہ اس نے یہ قدم کیوں اٹھایا لیکن عالیان جانتا تھا کہ اس کی حد سے زیادہ بے وفائی اور نظرانداز کرنے کی وجہ سے وہ مایوس ہو چکی تھی۔حورعین کی موت نے عالیان کو ہلا کر رکھ دیا۔بچوں کی ماں کے بغیر بے زار حالت نے اس کا سکون برباد کر دیا تھا اور باقی کی زندگی بھی ماہ رخ کے ساتھ نہ گزار سکا۔ماہ رخ اس سے ہر دم بیزار رہنے لگی تھی اور اس سے علیحدگی اختیار کر لی جبکہ ماہ رخ کو عالیان کی پہلی شادی کے بارے میں علم ہی نہ تھا۔اس نے دو لڑکیوں سے بے وفائی کی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالیان نے دعا کو اس کی کم خوبصورتی کی وجہ سے رد کیا دعا اللہ کا شکر ادا کرتی کہ اس کی عالیان سے شادی نہ ہوئی۔عالیان کی جب ماہ رخ سے علیحدگی ہوئی تو بچے دعا کے ساتھ رہنے لگے۔یہ دیکھ کر عالیان نے دعا کی جانب قدم بڑھا دئیے مگر اسے اس کا ذلت آمیز رویہ یاد تھا انہی دنوں اس کیلئے مناسب رشتہ آیا اور جس کیلئے دعا نے حامی بھر لی۔

خوبصورت صرف ظاہری تو نہیں ہوتی انسان کے اندر کی خوبصورتی بھی کچھ قدر و قیمت رکھتی ہے۔دعا کو رد کرنے کے بعد سلمٰی بیگم نے عالیان کو یہ بات سمجھائی تھی مگر اس نے ان کی بات نہ مانی۔

عالیان روز کی طرح اس وقت بھی قبرستان میں حورعین کی قبر کے سامنے بیٹھا اپنی بے وفائی یاد کرکے رو رہا تھا۔اس نے باتیں کیں مگر اپنی باتوں کا جواب نہ ملنے پر بے حد مایوس ہوا۔۔کچھ دیر بعد بوجھل قدموں سے گھر کی طرف لوٹ گیا۔۔

ختم شد