تبصرہ

2019-08-06 20:03:06 Written by رخسانہ جبین

تبصرہ 

از قلم 

رخسانہ جبین

 

’’اے لوگوجوایمان لائے ہو!کوئی قوم کسی دوسرے کا مذاق نہ اُڑائے ہوسکتا ہے کہ وہ اُن سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ایک دوسرے کا مذاق اُڑائیں ہو سکتا ہے کہ وہ اُن سے بہتر ہوں۔‘‘ القرآن۔

 

اریبہ نے فیس بک آن کی ۔تو مزاح سے لے کر سیاست تک ہر قسم کے مواد کا جیسے ایک ریلا سا بہہ نکلا ‘اپنی نیوز فیڈ میں آنے والی پوسٹس کو دلچسپی سے پڑھتی اور کمنٹ کرتی وہ ایک پوسٹ پر رکی ۔جہاں کسی مشہور اداکارہ نے اپنی عمرہ سے واپسی پر حجاب میں تصویر لگائی ہوئی تھی ۔ اس نے کچھ کمنٹس پر نظر دوڑائی جن میں سے کوئی ماشاءاللہ کہہ رہا تھا تو کسی نے لکھا ہوا تھا ’’نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی ۔‘‘اسے پڑھ کر ہنسی آ گئی ۔زیرِ لب کچھ سوچ کے مسکراتے ہوئے اس نے بھی اسی سے ملتا جلتا کمنٹ پوسٹ کر دیا۔وہ محفوظ ہوتے ہوئے اپنے کمنٹ کو اسکرین پہ ابھرتا دیکھ رہی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ رمشہ کے ساتھ آج مارکیٹ میں آئی تھی ۔رمشہ کو اپنے بھائی کی شادی کے لئے شاپنگ کرنی تھی ۔ اور اسے بھی کچھ میک اپ کا سامان خریدنا تھا ۔

ابھی وہ ایک شاپ سے کچھ خریداری کر کے نکلی ہی تھیں کہ اس کے کانوں میں کسی لڑکے کے ریمارکس پڑے۔

’’کالی کالی صورت تیری‘ کسی کی نظر نہ لگے چشم بددور۔‘‘آخر میں لہک کے گنگنایا تھا ۔

شدتِ ضبط سے اس کی رنگت متغیر ہوئی ۔اس نے رمشہ کی طرف دیکھا جو اپنے پرس سے پیسے نکالنے میں مصروف تھی ۔ اس کا دھیان نہیں تھا ۔رمشہ کی رنگت گوری تھی ۔اس کی رنگت کالی نہیں تھی ‘ صاف تھی۔مگر جملہ کسنے والے نے بے رحمانہ تبصرہ کیا تھا۔اسے لگا جیسے ہجوم بھی ٹھہر کے اسے سر تا پیر گھور رہا تھا۔ ان کی نظروں میں اس کے لئے تمسخر تھا ۔سبکی سی سبکی تھی ۔ اس کے لئے وہاں مزید رکنا محال تھا ۔

گھر آ کر بھی اس کا موڈ بگڑا رہا ۔کافی دیر آئینہ کے سامنے کھڑی وہ اپنی رنگت کو جانچتی رہی تھی ۔کیا اتنی کالی تھی وہ ؟کہ کسی نے سرِ راہ اس پہ ایسا جملہ کس دیا۔اس نے رگڑ رگڑ کے دو بار منہ دھویا۔ اسے وہ ہتک نہیں بھول رہی تھی ۔

دوپہر میں ناجیہ اسے کھانے کے لئے بلانے آئی ‘ مگر اس کا دل کچھ کھانے کو نہیں چاہ رہا تھا ۔ اس لئے وہ سر منہ لپیٹ کے بستر پہ پڑی رہی ۔

دادی ہاتھ میں تسبیح لئے اس کے کمرے میں آئیں ‘ تو اسے بے وقت لیٹا دیکھ کے انہیں تشویش ہوئی ۔ کیونکہ وہ پورے گھر کی رونق تھی ۔اور آج تو وہ دوپہر کے کھانے میں بھی سب کے ساتھ موجود نہ تھی ۔

’’میری پیاری ریبہ کو کیا ہوا ہے آج ؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا بچے ۔‘‘ انہوں نے چادر اس کے سر سے ہٹاتے ہوئے محبت و شفقت سے پوچھا۔

اریبہ منہ بسور کے سیدھی ہوئی ۔دادی اس کے پاس جگہ بنا کے بیٹھ گئیں۔

’’کچھ نہیں دادی ۔ ‘‘ وہ ان کو بتا نہیں پائی کہ اس کا کسی سے سامنا کرنے کو فی الحال دل نہیں چاہ رہا تھا ۔

’’تم اس طرح بنا کچھ کہے ‘ بنا کچھ کھائے لیٹو گی تو پریشانی تو ہو گی نا۔‘‘

’’دادی لوگ اتنے بے رحم کیوں ہوتے ہیں؟‘‘ اپنی انگلیوں کو مروڑتے ہوئے اس نے دل گرفتگی سے پوچھا۔

’’کسی نے کچھ کہا ہے کیا؟‘‘ وہ اس کے انداز پر چونکیں۔

’’دادی مجھے آج کسی نے سب کے سامنے کالی رنگت کا طعنہ دیا ۔مجھے بہت برا لگا ۔اتنا برا کہ میں ‘‘اس کے گلے میں آنسوؤں کا گولہ سا اٹکا۔

’’اوہ میری بچی یہ کالی گوری رنگت کے چکر یہ سب فضول میں بنائے ہوئے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جو کسی کی ذات میں کئی طرح کے نقص نکال لیتے ہیں۔ کیونکہ ان کی آنکھیں اچھا دیکھنے کی عادی نہیں ہوتیں۔ ان کی زبان سے بھی لوگوں کے لئے طنزیہ اور ہتک آمیز جملے ہی نکلتے ہیں۔ کسی کی اچھائی پر بھی یہ لوگ اس کا تمسخر اڑانے سے باز نہیں آتے ۔‘‘ ان کی بات پہ وہ بے ساختہ چونکی ۔

وہ بھی اکثر و بیشتر اپنی خود اعتمادی کے زعم میں لوگوں کے منہ پر بہت سے تبصرے کر جایا کرتی تھی ۔اور جب سے سوشل سائٹ پر وہ ایکٹو ہوئی تھی دوسروں کی دیکھا دیکھی وہ صاف گوئی میں تلخ باتیں کہہ دیا کرتی تھی ۔اسے ایسا لگا جیسے دادی اسے آئینہ دکھا رہی ہوں۔مگر وہ اپنی ہی رو میں بولے جا رہی تھیں۔’’بھلا ایسے لوگوں کی باتوں کو کیا سننا۔ ان پر دل کیوں دُکھانا۔‘‘

’’اب تم دل برا مت کرو ۔ اور اٹھو ‘ کھانا کھاؤ شاباش۔‘‘ اس کے گال کو پیار سے تھپک کے وہ اٹھ گئیں۔ 

موبائل کی بپ پہ وہ چونک کے متوجہ ہوئی ۔ اس نے موبائل دیکھا تو صبح سے اب تک اس کے کمنٹس پر اب تک دو سو سے زائد لائکس آ چکے تھے ۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اپنے ان لائکس اور کمنٹس کی چمک دمک سے شاید خوشی سے جھوم رہی ہوتی ۔ مگر آج کے واقعے نے جیسے اس کا دماغ جھنجھوڑا تھا ۔اسے آج سمجھ آیا تھا کہ چند ہنسی مذاق میں کہے گئے جملے کسی کے لئے ذہنی اذیت کا باعث بھی بنتے ہوں گے ۔

چند لمحے اس نے کچھ سوچا اور پھردل ہی دل میں کچھ تہیہ کر کے اپنے کمنٹ کو پریس کر کے ڈیلیٹ کر دیا۔اور کچھ اچھا لکھ کر سینڈ کر دیا۔

کیونکہ وہ نہیں جانتی تھی کہ انسان کا ظاہر باطن کیسا ہے ۔ یہ صرف اﷲ جانتا ہے ۔تو وہ کیسے لوگوں کی ذات پر کوئی بات کر سکتی تھی ۔ پھر فون کو سائیڈ ٹیبل پہ رکھ کے اس نے طمانیت بھری سانس خارج کی ۔وہ خود کو پرسکون محسوس کر رہی تھی ۔ کیونکہ غلطی سدھارنے کا آپشن کبھی ایکسپائر نہیں ہوتا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭