کوئی ایسا اہلِ دل ہو

2019-08-07 20:08:53 Written by انشاء مریم

"کوئی ایسا اہلِ دل ہو" 

از قلم 

"انشاء مریم"

 

جواد، اپنے ماں باپ اور تین بہنوں کی امید کا واحد مرکزتھا۔

ابھی کچھ مہینے پہلے ہی اس کی پندرہویں سالگرہ تھی،یہ الگ بات ہے کہ اس کی سالگرہ یاد کسی کو بھی نہیں تھی کیونکہ ان کہ گھر میں سالگرہ منانے کا رواج نہیں تھا ۔

اس کی بڑی دو بہنیں پچیس کا ہندسہ عبور کر چکی تھیں اور تیسری بہن بھی شادی کے لائق تھی- 

باپ کی مزدوری میں گھر کا نمک مرچ بھی مشکل سے چلتا تھا، ان بھائی بہنوں کا تعلیم حاصل کرنے کا خواب بھی اسی غربت کی نذر ہو گیا۔ بہنوں نے تو پھر بھی قریبی سرکاری سکول سے واجبی تعلیم حاصل کر لی لیکن جواد کو ہوش سنبھالتے ہی ورکشاپ پہ بھیج دیا گیا تاکہ وہ بیمار باپ اور گھر والوں کا سہارا بن سکے۔

اپنی عمر کہ بچوں کو سکول جاتا دیکھ کر اس معصوم کی آنکھوں میں حسرت ناچتی تھی۔ہر شام مٹھی میں پچاس روپے لے کر جب وہ گھر کی طرف جاتا تھا تو کئی بار آستین سے آنکھیں رگڑ کر یقین کر لیتا تھا کہ اس کی آنکھوں کا گیلا پن کوئی اور نہ دیکھ لے۔

اسے بہت پہلے یہ بات سمجھائی گئی کہ مرد روتے نہیں اور نہ ہی کمزور پڑتے ہیں ۔

دن یونہی گزرتے گئے اور جواد ایسے ہی ہرشام پچاس روپے مٹھی میں دبائے گھر لے جاتا تھا۔غربت جب انسان پہ آتی ہے تو اس سے اپنے اور ہمدرد سب ہی چھین لیتی ہے ۔جواد کے والدین کو یہ تو نظر آتا تھا کہ ان کی بیٹیوں کی جوانی ڈھل رہی ہے مگر پتا نہیں کیوں وہ یہ ہمیشہ بھول جاتےتھےکہ جواد کا بچپن برباد ہو رہا ہے اس کے ننھے ہاتھ وقت سے بہت پہلے سخت اور کھردرے ہو گئے تھے۔

گھر والوں نے جب دیکھا کہ باپ بیٹے کی مزدوری سے گزارہ مشکل ہے تو انہوں نے جواد کو غیر قانونی طور پر بیرون ملک بھجوانے کا سوچا۔

جس دن یہ فیصلہ ہوا جواد ساری رات رویا ایک سولہ سال کہ بچے کے لیے ماں باپ سے بچھڑنا آسان نہیں تھا لیکن جواد سے تو کسی نے پوچھا ہی نہیں کہ وہ کیا چاہتا ہے سب کو پہلے ہی پتا تھا جواد ہی وہ جادو کا چراغ ہے جس کو رگڑ کر ان کی تمام خواہشات پوری ہوں گی۔

بہرحال ایک سال میں دہری مزدوری، ماں باپ کی اچھے وقتوں کی بچت سب کچھ جمع کر کہ اسے غیر قانونی طور پر بیرون ملک بھجوا دیا گیا۔

آج جواد کا دل اداس تھا بہت اداس لیکن یہاں کوئی اس کو سمجھنے والا نہیں تھا- غیروں سے کیا شکوہ کہ جب اپنوں نے ہی اسے کبھی سمجھا ہی نہیں ۔

ایک ہفتے بعد اس کی گھر والوں سے بات ہوئی اور اس کی ماں نے چھوٹتے ہی پوچھا کام مل گیا؟

جواد کہ لبوں پہ کئی شکوے مچل گئے کہ پہلے میرا حال پوچھ لیتی۔۔۔۔خیر اس کہ بعد جواد نے اگلے دس سال گھر والوں سے بات نہ کی لیکن اس نے اتنا کمایا کہ واپس ملک میں اس کی تین بہنوں کو جہیز کے لدے ہوئے ٹرکوں کہ ساتھ رخصت کِیا گیا۔اور نیا گھر بھی بن گیا، انتھک محنت نے جواد کو بیمار کر دیا تھا اس کی کمر میں تکلیف تھی۔مگراسے کبھی اپنے علاج کی فرصت نہیں مل سکی ۔ اس کے ماں باپ نے اس کے لیے کوئی لڑکی پسند کی تھی اور اب وہ اسے وطن واپس بلا رہے تھے تاکہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے "اپنے"ارمان پورے کر سکیں۔آخر کو اب بڑھاپا گزارنے کے لیے انھیں کھلونوں کی ضرورت تھی ۔

تیس سال کی عمر میں وہ واپس آیا سر کے بال آگے سے جھڑ چکے تھے۔ سامان میں گھر والوں کے لیے تحائف کے علاوہ اس کی دوائیں بھی تھی جہنیں وہ لمبے عرصے سے استعمال کر رہا تھا اس کی کمر کی تکلیف بڑھ رہی تھی لیکن وہ کسی کو بتا نہیں پایا کیونکہ سنتا ہی کون۔۔۔۔؟

جواد کی شادی کو بمشکل ایک مہینہ ہی گزرا تھا کہ بیوی امید سے ہو گئی مہنگائی بہت تھی ملک میں رہ کر گھر کہ خرچے پورے کرنا نا ممکن تھا۔ لیکن اب کی بار جواد کو گھر سے دور کرنے والی اس کی شریک حیات تھی۔ اب کی بار بھی اس سے نہیں پوچھا گیا کہ وہ کیا چاہتا ہے بس اُسے یاد دلایا گیا کہ وہ مرد ہے اور اس پر اب اس کی بیوی اور اولاد کی ذمہ داری ہے- ایک دفعہ پھر اس نے رختِ سفر باندھ لیا یہ سوچ کر کے اس کے بیٹے کو ایک اور جواد نہ بننا پڑے۔ لیکن اب کی بار اس کے ذہن میں زیادہ سوال تھے۔۔۔۔۔

وہ اپنے والدین سے پوچھنا چاہتا تھا کہ کیوں بیٹوں سے اتنی زیادہ توقعات لگا لی جاتی ہیں کہ ان پر ان کی ذاتی خوشی حرام ہو جائے؟

وہ اپنی نئی نویلی بیوی سے بھی سوال کرنا چاہتا تھا کہ کیوں شوہر کو جیون ساتھی سمجھنے کے بجائے پیسہ کمانے کی مشین سمجھ لیا جاتا ہے؟؟

اس نے کبھی اپنی ذمہ داری سے منہ نہیں موڑا تھا- لیکن آدھی عمر گزارنے کہ بعد بھی اس کہ دل میں یہ حسرت باقی تھی۔۔۔۔۔۔ کاش کوئی ایسا اہلِ دل ہو جو اس کے اندر جھانک کر اس کی ذات کی توڑ پھوڑ دیکھ سکے۔۔۔۔ اس کی وقعت کو صرف پیسے سے نہ تولے!

کیا ہے کوئی ایسا اہلِ دل جو مرد کا درد سمجھ سکے؟؟؟؟