پرتو

2019-08-08 20:31:34 Written by نصیر احمد چوہدری

"پرتو "

 از قلم 

"نصیر احمد چوہدری" 

 

وہ اس وقت بہت ابتر حلیے میں تھا... اس حالت میں اگر کوئی جاننے والا اسے دیکھ لیتا تو شاید ہی پہچان پاتا.. وہ شدید بے چینی اور کشمکش کا شکار تھا اور اسی وجہ سے اس کی قوت فیصلہ شدید متاثر ہونے لگی تھی... دو دن گزرنے کے باوجود بھی وہ کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر تھا.

--------------------­------------------

فرحان ایک ذہین طالب علم تھا تعلیمی میدان کے علاوہ دوسری سرگرمیوں میں بھی وہ بھرپور حصہ لیتا تھا...

سکول، کالج اور یونیورسٹی ہر جگہ وہ ایک مہذب، خوش لباس اور خوش گفتار ہستی مانا جاتا تھا. چند حاسدین کو چھوڑ کر تمام طلبہ اس پر رشک کرتے تھے وہ اساتذہ اور طلبہ میں یکساں مقبول تھا.اپنی ظاہری خوبیوں کی وجہ سے عام شکل و صورت کے باوجود وہ یونیورسٹی میں جلد ہی مقبول ہوگیا اس کے بنائے ہوئے نوٹس لڑکوں اور لڑکیوں دونوں میں گردش کرتے رہتے ان نوٹس پر فرحان کا نام اور نمبر ضرور ھوتا اور یہ نمبر ان لڑکیوں کے لیے ایک تحفہ ھوتا جو اس سے بات تو کرنا چاہتیں لیکن اپنی فطری جھجک کی وجہ سے نہ کر سکتیں یہ سلسلہ میسجز سے شروع ھوتا آپ جناب کہہ کر پکارا جاتا اور آخر کار بے تکلفی بڑھتے بڑھتے ساری حدود پار کر جاتی خفیہ ملاقاتیں ہوتیں اور باہمی رضامندی سے ہوس کا کھیل رچایا جاتا. یہ اس کی شخصیت کا ایک تاریک پہلو تھا جسے اس نے اپنے سائے سے بھی پوشیدہ رکھا ہوا تھا اور یونورسٹی میں اس نے اپنا مثبت تاثر ہمیشہ برقرار رکھا.

 

ایک کے بعد دوسری لڑکی اس کی زندگی میں آتی رہی... وقت پر لگا کر اڑتا رہا.. پڑھائی کے بعد اس نے عملی زندگی میں قدم رکھا اور ایک دفتر میں اچھی پوسٹ ملنے کے بعد بھی اس کی رابطے اسی طرح بڑھتے رہے.. اور کئی شادی شدہ عورتوں سے بھی تعلق جڑ گیا-

 

جاب ملنے کے کچھ عرصہ بعد ہی اس کے والدین اس کی شادی کے لیے بضد ہو گئے تو اس نے چند شرائط پر شادی کرنے کی حامی بھر لی اس نے ماں سے کہا کہ لڑکی ایسی ہو جو نہ صرف خود اکلوتی ہو بلکہ اس کے والدین کا بھی کوئی رشتہ دار اس شہر میں نہ رہتا ہو ماں کے لیے یہ شرط حیرت کا سبب تھی تاہم وہ اس مہم میں جت گئی جلد ہی اس نے مطلوبہ گھرانہ ڈھونڈ لیا- فرحان نے اس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنے کے بعد اس پروپوزل کو او کے کر دیا لیکن دو دن پہلے جب وہ ماں کے کہنے پر کچھ سامان لینے... ہونے والی سسرال گیا تو ایک ماڈرن سے نوجوان کو اس گھر سے نکلتے دیکھا تھوڑی دیر بعد جب وہ گھر کے اندر بیٹھا ساس کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہا تھا تو اس نے سرسری انداز اختیار کرتے ہوئے کہا، "آنٹی! یہ لڑکا کون تھا جو ابھی یہاں سے گیا ہے؟"

ساس نے کہا "کون؟ فراز؟"

"یہ ہمارے پڑوسیوں کا لڑکا ہے بچپن سے ہی اس کا ہمارے گھر آنا جانا ہے ہمارا بیٹا بنا ہوا ہے."

اور فرحان اپنے اندرونی اضطراب کو چھپائے جبرا مسکرا کے سر ہلا کر رہ گیا.

 

گھر واپسی پر اس نے سامان ماں کے حوالے کیا اور خود کمرے میں بند ہو گیا کافی سوچ بچار کے بعد اس نے ماں سے بات کرنے کا فیصلہ کیا کچھ دیر بعد وہ ماں کے سامنے تھا .

"ماں! مجھے یہ شادی نہیں کرنی آپ ان لوگوں کو منع کر دیں" 

ماں پہلے تو ہکابکا رہ گئی... چند لمحے بعد ہوش آیا تو سخت لہجے میں فرحان سے بولی...

" ہم کسی کی عزت اچھالنے کی اجازت ہر گز نہیں دے سکتے اس لیے اس بات کو یہیں ختم سمجھو اور شادی کی تیاری کرو" یہ کہنے کے بعد وہ اپنے کام میں مصروف ہو گئیں.

 

پتہ نہیں کیوں اسے انکار کرنے کی مزید ہمت نہیں ہوئی.. لیکن اس کا دل ضرور کھٹک رہا تھا.. اسی کشمکش میں شادی کا دن آپہنچا شازیہ دلہن بن کر بہت پیاری لگ رہی تھی فرحان بھی دوستوں کے اصرار پر پارلر سے تیار ہو کے آیا تھا سب ہی دلہا دلہن کو سراہا رہے تھے تاہم فرحان کے چہرے پہ چھائی سنجیدگی دیکھ کر اس کی والدہ کو فنکشن کے دوران ہول آتے رہے.

 

فنکشن اختتام کو پہنچا تو انہوں نے بھی سکھ کا سانس لیا . رات گئے شازیہ سب رسموں کے بعد کمرے میں پہنچا دی گئی تو دلہا کی رشتہ دار خواتین نے کمرہ جلد ہی عورتوں سے خالی کرا لیا- تھوڑی دیر بعد فرحان کمرے میں داخل ہوا کچھ لمحے خاموشی سے گزر گئے آخر کار اس سکوت کو فرحان کی آواز نے توڑا "تمہارے پاس موبائل تو ہو گا؟ " شازیہ یہ سوال سن کر حیران رہ گئی تاہم سر اثبات ہلا دیا دوسرا سوال اس سے بھی حیران کن تھا .فراز کے علاوہ کس سے بات ہوتی تھی؟ شازیہ نے اس سوال پر چونک کر سر اٹھایا. 

 لمحاتی توقف کے بعد شازیہ نے پوچھا "ان سوالات کا کیا مقصد ہے؟" فرحان نے جواب دیا " میں جاننا چاہتا ہوں کہ شادی سے پہلے تم نے کیسی زندگی گزاری؟". شازیہ اسرار بھرے لہجے میں بولی" جیسی آپ نے گزاری ہے." اب چونکنے کی باری فرحان کی تھی... " کیا مطلب ہے تمہارا؟" شازیہ مطمئن لہجے میں بولی "یہ میں نہیں قرآن کہہ رہا ہے."

 

 فرحان کچھ نہیں بولا لیکن اس کی سوالیہ نظریں شازیہ پر ہی جمی تھیں... "آپ نے شاید سورہ نور کی تلاوت نہیں کی؟".... فرحان نے نفی میں سر ہلایا تو شازیہ بولی" قرآن میں ارشاد ہے

 

"الزانی لا ینکح الا زانیتہ او مشر کتہ والزانیتہ لا ینکحھا الا زان او مشرک."

 

"زانی نکاح بھی کسی کے ساتھ نہیں کرتا بجز زانیہ یا مشرکہ کے زانیہ کے ساتھ بھی اور کوئی نکاح نہیں کرتا بجز زانی یا مشرک کے "

 

فرحان یہ سن کر گنگ رہ گیا اس کے ذہن میں اپنی سابقہ زندگی گھوم گئی چند لمحے بعد وہ اٹھا اور مردہ قدموں سے اندرونی دروازے سے گزر کر سائیڈ روم میں چلا گیا اگلے چند دن تک اس کی یہی روٹین رہی پورا دن گھر سے باہر گزار کر رات کو سائیڈ روم میں چلا جاتا-

 

--------------------­--------------------­-----------

 

.وہ اس وقت بہت ابتر حلیے میں تھا... اس حالت میں اگر کوئی جاننے والا اسے دیکھ لیتا تو شاید ہی پہچان پاتا.. وہ شدید بے چینی اور کشمکش کا شکار تھا اور اسی وجہ سے اس کی قوت فیصلہ شدید متاثر ہونے لگی تھی... دو دن گزرنے کے باوجود بھی وہ کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر تھا-

ملجگے کپڑوں میں ملبوس باتھ میں سگریٹ لیے وہ کسی فیصلہ پر پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا آخر کار وہ ایک فیصلہ پر پہنچ ہی گیا.... صبح چار بجے وہ ائیر پورٹ پر تھا- دو دن کی بھاگ دوڑ کے بعد اس نے انگلینڈ کا ویزہ حاصل کر لیا تھا - گھر میں بغیر کسی کو بتائے وہ انگلینڈ کے لیے محو پرواز تھا ہاں! شازیہ کے لیے اس نے ایک خط اور طلاق نامہ ضرور چھوڑا تھا. خط محض اس عمل کی معذرت کے لیے تھا-

 

چھے ماہ بعد دولہا ندیم اپنی دلہن سے کہہ رہا تھا "شازیہ میں نے بہت صاف ستھری زندگی گزاری ہے اور مجھے یقین ہے کہ اللہ نے مجھے ایسی ہی شریک حیات سے نوازا ہوگا"

اور شازیہ دل میں بولی "میں تو آپ کا ہی پرتو تھی فرحان تو بس ایک پرچھائی تھا جو کہ آیا اور چلا گیا"-