میں اور سوشل میڈیا

2019-08-09 20:25:28 Written by قصہِ زہرا

*میں اور سوشل میڈیا*

از قلم 

*قصہ زہرا *

 

 

میری اماں کے دو ہی بڑے سپنے تھے۔

ایک بابا آدم کے زمانے کے گھر کی تعمیر نو اور دوسرا میری شادی۔

اللہ کے فضل و کرم, اماں کی دعاوں اور میری محنت سے گھر تو بن گیا اب باری تھی میری شادی کی۔ ان دنوں میں بڑا خوش باش سا رہنے لگا تھا۔

گھر نیا تھا اور فرنیچر پرانا۔

اس لیے اماں کو میری شادی کی ذیادہ جلدی تھی تاکہ بہو آئے اور نیا سامان لائے۔

ریت رواج تھا، صدیوں سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اسی لیے میں بھی من میں سوچتا کہ رشتہ طے ہوجائے تو ہونے والی بیوی سے اپنی من پسند کے فرنیچر کا مطالبہ کروں گا۔

صبح آفیس جانے سے پہلے اماں نے پاس بیٹھا کر کہا

"واشنگ مشین خراب ہوگئی ہے اور میں اس بار ٹھیک کروانے کے حق میں نہیں ہوں۔ ان پیسوں میں چار پیسے اور ڈال کر تیری مہندی کی رسم ادا کی جاسکتی ہے۔

بیوی تمہاری نئی واشنگ مشین تو لائے گی ہی۔ "

واشنگ مشین خراب ہو گئی اور اماں نے رشتہ ڈھونڈنے کا عمل اور تیز کردیا۔ میں تو اب دل ہی دل میں دعا کرتا تھا کہ ٹی وی بھی خراب ہوجائے کیونکہ وہ میرے بغیر تو رہ سکتی تھیں مگر ٹی وی کے بغیر نہیں۔

اماں ہر روز بن ٹھن کر رشتہ کرانے والی آنٹی سعدیہ کے ساتھ صبح گھر سے نکلتیں اور شام گئے منہ لٹکائے واپس لوٹتیں۔

گھر آکر تفصیل سے بتاتیں کہ لڑکی کی ناک طوطے جیسی تھی، قد ٹھگنہ سا تھا، رنگت تو رات کی مانند تاریک تھی یا پھر کبھی دانت اونچے نکل آتے کبھی کان بڑے لگتے۔

گو کہ میں ان سب چیزوں کے خلاف تھا، سوشل میڈیا پر اگر کوئی ایسی پوسٹ سامنے آ جاتی جس میں لڑکے والوں کی سنگ دلی کا تذکرہ ہوتا کہ کس طرح لڑکی کو سانولی کہہ کر انکار کر گئے ہیں۔

میں بھی دو چار لعنتیں ریپلائے میں ایسے لوگوں پر ڈال ہی دیتا تھا۔ اماں کو دو چار بار میں نے یہ کہنے کی بھی کوشش کی کہ ظاہری حسن کی مجھے پرواہ نہیں ہے پر جب وہ لڑکی کہ نقائص گنوانے کے بعد کہتیں "اپنے بیٹے کے لیے تو چاند سی بہو لاوں گی" میں بھی لالچ میں آجاتا اور اخلاقیات کو تھپکی دے کر گہری نیند سلا دیتا۔

ایک دن میری منتیں پوری ہوئیں اور دعائیں رنگ لے آئیں۔ 

اماں کو لڑکی پسند آ گئی تھی۔

تصویر مجھے دیکھائی گئی تو میں نے خود کو سفید نرم بادلوں کے درمیان دھنک کے ست رنگے جھولے میں بارش کی پھوار میں جھولتے دیکھا۔

اس دن مجھ پر عیاں ہوا کہ پہلی نظر کی محبت کسے کہتے ہیں۔

نایاب نام تھا اسکا۔ اپنے نام کی طرح وہ بھی نایاب ہی تھی۔

میں نے بھی جلدی مچا دی اور اماں بھی ہاتھ سے کپڑے دھو دھو کر تنگ آ گئی تھیں۔ تبھی تو سب کچھ بڑی جلدی میں طے ہوا۔

میں بھی خوش شکل نوجوان تھا، نوکری بھی اچھی تھی۔ لڑکی والوں کو بھلا کیا اعتراض ہونا تھا۔

ہمیں گھر بلایا گیا۔ نایاب چائے لیکر آئی۔ ہلکے گلابی رنگ کے سوٹ میں وہ گلابی گڑیا ہی معلوم ہوتی تھی۔

مجھے دیکھ کر وہ شرمائی تھی پھر مسکرائی بھی تھی۔ اسکی مسکراہٹ میں ، میں ایسا کھویا کہ دو دن بعد اماں نے جھنجھوڑ کر ہلایا اور بتایا کہ لڑکی والوں نے ہاں کردی ہے۔ شادی کی تیاری پکڑو۔

میں ساتویں آسمان پر تھا۔ خوش باش۔

اماں نے سعدیہ آنٹی کو بلایا اور جہیز کی لسٹ پکڑا دی۔

اماں میرا ہاتھ تھام کر مجھے پورے گھر میں لیے لیے پھرتی رہیں۔

"یہاں صوفہ سیٹ رکھیں گے ، یہاں نیا ریفریجریٹر اور یہاں نیا ٹی وی۔

اماں کو خیالی سامان نظر آرہا تھا لیکن میرا معاملہ الٹا تھا۔

مجھے خیالی صوفے پر بیٹھی نایاب نظر آتی، فریج سے کیک نکال کر میرے منہ میں ڈالتی اور ٹی وی پر کوئی مدھر سی دھن سن کر میری طرف شرما کر پھر مسکرا کر دیکھتی۔ جیسے پہلی بار دیکھ کر مسکرائی تھی۔

دن ڈھلا، شام باسی ہوکر رخصت ہوئی اور رات گہری ہوئی۔

رات کا کھانا کھا کر میں جب سونے کے لیے لیٹا تو اجنبی نمبر سے کال آنے لگی۔

میں نے فون اٹھایا تو لڑکی کی آواز سن کر حیران رہ گیا۔

"اسلام علیکم! میں نایاب بات کر رہی ہوں۔"

پھر میں تھا اور جنت کی حسین وادیاں۔

"وا۔۔ وا علیکم اسلام!"

 

میں ہکلانے بھی لگا تھا۔

 

"کک۔۔ کیسی ہیں آپ؟"

 

"میں ٹھیک ہوں۔ مجھے ضروری بات کرنا تھی آپ سے۔

"جی فرمائیں۔"

میں نے اعلی قسم کی اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔

"جہیز ایک لعنت ہے اور میں اس لعنتی کام کا حصہ نہیں بننا چاہتی۔

اگر آپ جہیز کے بغیر مجھے قبول کرلیں گے تو بتا دیں ورنہ آپکو اور مجھے رشتوں کی کمی نہیں ہے۔"

بات سادہ سی تھی پر مجھے کیمسٹری کے فارمولے سے بھی زیادہ مشکل لگی۔

"میں سمجھا نہیں۔"

"آپ سوشل میڈیا استعمال نہیں کرتے؟ آپ نے دیکھا نہیں جہیز کے خلاف کتنے ٹرینڈز چل رہے ہیں؟

میں سوشل میڈیا بھی استعمال کرتا تھا اور ان ٹرینڈز کے حوالے سے پوسٹ بھی کرچکا تھا کہ جہیز لینے والا مرد بے غیرت ہوتا ہے۔

میری طویل خاموشی کے جواب میں اس نے

"آپ کے پاس کچھ دن ہیں اچھی طرح سوچ کر جواب دے دیں۔"

کہہ کر کال کاٹ دی۔

اب میں بڑی مصیبت میں پھنس گیا تھا۔

دل دہائیاں دیتا تو دل کے اوپر لگی جیب واویلا کرتی۔

کس کی سنتا؟ میں کوئی بڑا دل پھینک قسم کا انسان واقعہ نہیں ہوا تھا۔ بڑی مشکل سے ہی کوئی چیز میرے من کو بھاتی تھی یا یہ کہہ لیں سولی پر چڑھاتی تھی۔

مجھے پتہ تھا اگر میں اس سے ہاتھ دھو بیٹھا تو دل سے بھی ہاتھ دھو بیٹھوں گا۔

آخر کار تین دن شدید سوچ بچار کرکے جیب کو تھپکی دے کر تسلی دی کہ تمہارا مقدمہ لڑنے کی کوشش کروں گا ورنہ میرا فیصلہ تو دل کے ساتھ ہی ہے۔

میں نے رات کو چھت پر ٹہلتے ہوئے چاند کی روشنی اور ٹھنڈی پر مسرت ہوا کو لہجے میں سمو کر کال ملائی جو دوسری ہی بیل ہر اٹھا لی گئی۔

"اسلام علیکم! کیا فیصلہ کیا آپ نے؟"

اسکی بے چینی بتا رہی تھی اس نے بڑی شدت سے میری کال کا انتظار کیا تھا۔

"دیکھیں نایاب! یہ تو ایک رسم ہے۔ یہ تو والدین کو ادا کرنا ہی پڑتی ہے اور پھر وہ چیزیں انکی بیٹی ہی تو استعمال کرتی ہے۔"

میں نے بھی جھٹ سے جواب دے ڈالا۔

کچھ لمحے خاموشی کی نظر کرنے کے بعد وہ بولی.. 

"کیا لڑکی کے سسرال میں اس کے استعمال کے لیے کوئی چیز نہیں ہوتی؟

اس نے بھی مقدمہ لڑنے کی سعی کی۔

"لڑکیوں کے سسرال کا تو پتہ نہیں پر آپکے سسرال میں آپ کے استعمال کے لیے کوئی چیز نہیں ہے۔

ابو کے انتقال کے بعد ہم نے بمشکل گزارا کیا ہے اور پائی پائی جوڑ کر گھر تعمیر کیا ہے۔ اس دوران ہم نے نہ تو کوئی خاص برتن جمع کیے ہیں اور نہ ہی فرنیچر۔

اب میری جمع پونجی بس اتنی ہی ہے کہ یا تو شادی ہوسکے یا پھر فرنیچر وغیرہ۔

اور اگر فرنیچر لے لیا تو دو، تین سال شادی نہیں کر پاؤں گا۔

میری بھی مجبوری ہے آپ سمجھنے کی کوشش کریں۔"

دل کی بات سنا کر میں نے اطمینان کا سانس لیا۔

"آپ ایسا کریں کہ فرنیچر لے لیں"

"اور شادی؟"

"آپ کچھ سال صبر نہیں کرسکتے کیا؟"

"میں تو صبر کر لوں گا کیا آپ اور آپ کے گھر والے اتنا انتظار کرلیں گے؟

اگر آپ جہیز نہ لینے کا وعدہ کرتے ہیں تو اتنا تو انتظار کر ہی لیں گے۔

جی میاں بیوی تو راضی ہوگئے لیکن قاضی کو منانا کافی مشکل تھا۔

قاضی یعنی اماں۔

اماں چاول چننے میں مصروف تھیں جب میں ان کے پاس جا کر بیٹھا۔

وہ آنکھوں پر نظر کا چشمہ چڑھائے مجھے مشکوک نظروں سے دیکھنے لگیں۔

"انگلیاں چٹخا رہے ہو اسکا مطلب ہے کچھ مانگنے آئے ہو۔ مانگو کیا مانگتے ہو؟"

انداز حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے والا تھا۔

"اماں! کچھ کہنے آیا ہوں۔ آپکو نہیں لگتا جہیز لینا بے شرمی کی بات ہے؟"

میری بات سن کر اماں نے چاول چارپائی پر رکھ دیے اور عینکیں چاولوں کے اوپر۔

پھر گھور کر پوچھا گیا 

"جہیز تو میں بھی لائی تھی تو کیا تمہارا باپ بے شرم تھا؟"

"نہیں اماں۔۔ میرا مطلب وہ۔۔ نہیں تھا"

تو پھر کیا مطلب تھا تمہارا؟ تمہارے سب دوستوں نے جہیز نہیں لیا کیا؟

یہ تو ایسے ہی ہوتا ہے۔

اور ہاں عثمان کی بہن کی بارات جہیز کی پوری چیزیں نہ ہونے پر لوٹ نہیں گئی تھی کیا؟"

 

"جانتا ہوں اماں! تب ہی تو کہہ رہا ہوں۔ یہ روایت کسی کو تو توڑنا ہوگی تاکہ کسی لڑکی کی بارات جہیز کی وجہ سے دروازے سے نہ لوٹے اور نہ ہی وہ بیٹھی بیٹھی اپنے باپ کے گھر بوڑھی ہوجائے۔"

اماں کا چند لمحے کے لئے دل تو پسیجا تھا مگر پھر وہ مجھے سمجھانے لگیں۔ پیار سے۔ پھر غصے سے۔ پھر بلیک میل کرنے لگیں، پھر اس سے ذیادہ بلیک میل اور پھر اس سے ذیادہ۔"

میں نے نہ ماننا تھا اور نہ ہی مانا۔

پھر اماں کا بیٹا ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے میں نے اماں کو بلیک میل کیا۔

اماں کو ہتھیار ڈالنا ہی پڑے جب میں نے بھی صاف صاف کہہ دیا تھا کہ میں شادی سے انکار کردوں گا اور زندگی میں کبھی شادی نہیں کروں گا۔

اپنے پیسوں سے گھر کے لیے ضروری چیزیں لیکر آیا تھا۔ اماں کو ذرا خوشی نہیں ہوئی۔

مفت کی چیزیں میرا مطلب جہیز کی چیزیں ہوتی تو اماں نے کتنا خوش ہونا تھا۔

وقت ہوا کے پروں پر سوار ہوکر بیتتا ہی چلا گیا اور ایک سال گزر گیا۔

میری بات نایاب سے کبھی کبھار ہوجاتی تھی۔

ابھی ایک سال اور لگنا تھا پورے پیسے جمع کرنے کے لیے۔

انہی دنوں دنیا جہان کے سارے ایکٹر، ایکٹریسز شادی رچانے لگے تھے۔

جنکی شادیاں ایک ایک ماہ چلتیں۔ ایک آدھ کی تو اس سے بھی زیادہ عرصہ چلی تھی۔

مجھے ان دنوں نایاب کی بڑی فکر رہنے لگی تھی۔ وہ سوشل میڈیا سے بہت جلد اثر قبول کرتی تھی۔ اسی بات کا ڈر تھا کہ اب کہیں وہ اتنے زیادہ فنکشنز کی فرمائش ہی نہ کرڈالے۔

سردی اپنے عروج پر تھی۔ رات کا وقت تھا اور میں اپنی رضائی میں دبک کر بیٹھا، ٹی وی دیکھ رہا تھا جب میرا موبائل بجا۔

نایاب کالنگ موبائل کی سکرین پر جگمگا رہا تھا۔

آج پہلی بار خوشی کی جگہ ڈر نے لے لی تھی۔ دل خاموش تھا اور دل پر لگی جیب چلا اٹھی تھی۔

میں نے فون اٹھایا ، سلام دعا کے بعد وہ ہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ وہ بولی۔

"آجکل شادی سیزن ہے۔ سارے ایکٹرز شادی کر رہے ہیں۔ آپ نے انکی شادی کی تقریبات دیکھی ہیں؟"

 

آج مجھے اپنے لیے کچھ کرنا ہی تھا ورنہ شادی پانچ چھ سال اور پیچھے چلی جاتی اور پتہ نہیں سوشل میڈیا پر تب کیا ٹرینڈ میں ہوتا۔

"جی دیکھی ہیں۔ لیکن مجھے یہ سب بالکل بھی اچھا نہیں لگتا۔ شادی تو سادگی سے ہی ہونی چاہیے۔ اسلام بھی سادگی ہی پسند کرتا ہے اور ان ایکٹرز کے پاس اتنا پیسا ہے تو انہیں چاہیے کسی غریب کی مدد کردیں۔ کوئی ہاسپیٹل بنا کر صدقہ جاریہ کریں۔ انکی وجہ سے لڑکیوں کی شادیاں اب مزید تاخیر سے ہوا کریں گی۔ یہ غلط ٹرینڈ سیٹ کر رہے ہیں۔ لوگ ان کو فالو کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ لوگوں کے لیے مثال بنیں۔"

میں خاموش ہوا، وہ بھی چپ رہی۔ ایک منٹ۔ دو منٹ۔ اسکی سانس کے چلنے کی آواز آرہی تھی بس۔ میرا تو دل ہی بیٹھ گیا۔ وہ ناراض ہو کر کہیں شادی سے انکار نہ کردے۔

خود پر اور اپنے خیالات پر لعنت بھیج کر میں نے جلدی سے کہا

"لیکن آپ کے لیے دس ، گیارہ فنکشنز کا انتظام تو میں کر ہی لوں گا۔"

میری بات سن کر وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔

"میں آپکی ہر بات سے متفق ہوں۔ سوشل میڈیا پر بھی لوگ آپ جیسے ہی خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ شادی سادگی سے ہی ہونی چاہیے۔ کل ایک مشہور ایکٹر نے پول بھی کیا تھا اور سب نے سادگی سے شادی کو ہی ووٹ دیا تھا۔

میں نے بھی آپکو فون اسی لیے کیا تھا کہ میری خواہش ہے کہ ہم سادگی سے ہی شادی کریں۔"

 

اللہ کے فضل و کرم اور سوشل میڈیا کے تعاون سے ہماری شادی سادگی سے ہونے جارہی ہے۔

میں آج جب دلہا بن کر اپنی دلہن لینے جارہا ہوں تو سوچ رہا ہوں کہ لوگ سوشل میڈیا سے بہت اثر قبول کرتے ہیں تو کیوں نہ ہم فحاشی اور غلط روایات پھیلانے کی بجائے کچھ اچھی مثالیں دوسروں کے لیے قائم کریں اور لوگوں کی زندگیاں جہنم بنانے کی بجائے اسے جنت کا ایک گوشہ بنانے کی کوشش کریں؟

جیسے سوشل میڈیا کی بدولت میں انتظار کے جہنم سے نکل کر قرار کی جنت میں داخل ہورہا ہوں۔