وقت

2019-08-19 16:17:10 Written by سیدہ نایاب

اس شیشے کی بوتل کے دو حصے ہیں،اوپری حصے میں ریت بھری ہوئی ہے۔پھر ایک باریک سا سوراخ ہے جس میں سے تھوڑی تھوڑی ریت نچلے حصے میں گر رہی ہے۔کتنا خاموش کام ہے یہ،ریت اپنے گرنے کی ذرا بھی آواز نہیں پیدا ہونے دے رہی۔ہاں مگر اردگرد ایک بھاینک خاموشی ہو تو تم اس ریت کے لحظہ لحظہ گرنے کو محسوس کر سکتے ہو۔یہ وقت ہے،جو لمحہ بہ لمحہ پھسلتا جا رہا ہے۔

آؤ دنیا کے شور سے دور لے چلوں تم کو،تمہیں وقت کا گزرنا،اس کا پھسلنا اور چلے جانا دکھاؤں۔تمہیں دنیا کی سیر کرواؤں۔

وہ دیکھو،وہ دور ماضی کھڑا مسکرا رہا ہے۔اس کے چہرے پر ایک تلخ،طنزیہ مسکراہٹ ہے۔اور یہ لوگ اسکو کتنی وحشت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔یہ ماضی سے خوف کھاتے ہیں۔مگر ان کی زبان پر ماضی کی تعریف بھی ہوگی،ماضی کے گریبان میں جھانکو!

وہ دیکھو کچی مٹی سے برتن بنائے جا رہے ہیں،ارے نظر گھماؤ،وہ دیکھو چند بے فکر معصوم بچے زمین پر کھیل رہے ہیں۔یہ مٹی انکو آلودہ نہیں کر رہی،یہ تو انکو فرحت دے رہی ہے۔

ارے نظر گھماؤ تو،وہ دیکھو کسی نے کف لگے کپڑے پہنے ہیں،کیسا غرور ہے اس کی چال میں،اور وہ بانکا سجیلا جوان جس کی چال میں شوخی ہے۔

اس الہڑ سی حسینہ کو دیکھو تو کیسے کھیت میں لہرا رہی ہے۔

یہ دیکھو تمہارے بالکل قریب ہی خون پڑا ہے۔کسی جاگیردار نے مزارع کی زندگی کی لکیر کو چاقو سے کاٹا ہے،اسی کی پھوار ہے یہ!

ارے ڈرو مت،ماضی ہی تو ہے۔

وہ دیکھو ایک بچے کی کلکاری پہلی بار اس گھر میں گونجی ہے،دیکھو تو کیسی خوشی ہے ان کے چہروں پر،اور یہ لڑکی کو دیکھو اس ویران گھر میں وحشت زدہ سی بیٹھی ہے جیسے شوہر کے مرجانے سے زندگی ختم ہو گئی ہو۔۔۔۔پاگل!!!

ماضی ابھی بھی مسکرا رہا ہے،وہی سرد،طنزیہ مسکراہٹ!

وہ ایک موٹر آ رہی ہے،جس کا دھواں مرغولوں کی صورت فضا کو آلودہ کر رہا ہے۔اس کی سینے سے کیسی عجیب آوازیں نکل رہی ہیں جیسے کسی بلی کے معصوم بچے نے وحشی بھیڑیا دیکھ لیا ہو اور ڈر کے مارے گھگھی بندھی ہو!

آواز تو اس چکی میں سے بھی آتی ہے جو کسان کی محنت کو اپنے دو جبڑوں کے درمیان کچل کر کسان ہی کے ہاتھ میں تھما دیتی ہے،اور وہ جھلا مسکرا کر تھام بھی لیتا ہے۔۔۔پاگل کہیں کا!!

سر کو جھکا لو،وہ دیکھو وقت کی آندھی آ رہی ہے۔

ہائےےےے وہ دیکھو اس آندھی کی لپیٹ میں کتنا کچھ آگیا۔ریت کی یہ ظالم آندھی سب کچھ ڈھانپتی چلی جا رہی ہے۔اچھا ہی ہوا نا،اب وہ خون کی لکیر،وہ کف لگے کپڑوں کا غرور،اور ویران گھر کی اداس لڑکی کا چہرہ بھی دیکھنے کو نہیں ملے گا۔چلو اب آنکھیں کھولو،ارے حیران کیوں ہوتے ہو؟ جو سب تم دیکھ رہے تھے وہ تو تہہ در تہہ نیچے چلا گیا۔وقت نے اسے ماضی کے حوالے کردیا۔اب وہ سب لوٹ کر نہیں آئے گا۔

ہاں یہ سب کچھ ایسا نہیں رہے گا۔وہ دیکھو دور سے ایک قافلہ آرہا ہے۔وہ لوگ دوبارہ سے یہاں زندگی شروع کردیں گے۔یہ انسان وقت سے مقابلہ لگاتے ہیں۔بھلا وقت سے کون جیت پایا ہے؟

ریت لمحہ بہ لمحہ پھسلتی جا رہی ہے!!!

ماضی نے اسی مسکراہٹ سمیت اب منہ موڑ لیا ہے۔شاید اسے زیادہ دیر اپنے آپ میں جھانکنے والے لوگ پسند نہیں ہیں۔وہ اب دور جا رہا ہے۔مسکرا رہا ہے!!

تھک گئے کیا؟

چلو اب حال میں لوٹ آؤ۔

یہ دیکھو،بازار میں بھیڑ کو چیرتا ہوا وہ نوجوان جو بھاگ کر گاڑی پکڑ لینا چاہتا ہے۔اسے پہچانا؟

بڑے مورکھ ہو،یہ وہی بچہ ہے جس کی کلکاری نے گھر والوں کو خوشیاں دی تھیں۔جگہ اجنبی ہے نا؟مگر زمین کو دیکھو،شاید شناسائی نظر آجائے۔۔۔۔۔۔

یہاں بازار میں نظر آنے والا ہر انسان ایک ماضی اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ہے۔وہی سرد مسکراہٹ والا ماضی!

ماضی اس میں سے نکل کر آزاد ہونا چاہتا ہے،مگر یہ اسے چھوڑنے کو تیار نہیں۔

یہ دو لوگ،جو ایک دوسرے سے بات کر رہے ہیں ایک الگ الگ دنیا کے باسی ہیں۔مگریہاں ایک دوجے کی زندگیاں چھاننے نہیں بلکہ حال کے معاملے پر گفتگو کرنے کو کھڑے ہیں۔بازار میں موجود ایک بھی شخص نے کسی دوسرے کی زندگی جی کر نہیں دیکھی۔سب الگ الگ پس منظر رکھتے ہیں۔

وہ دیکھو دو لوگ جھگڑ رہے ہیں،ان کا اختلاف ہو گیا ہے۔اختلاف تبھی ہوتا ہے جب کوئی یہ خواہش کرتا کہ سامنے والا بھی میری بات ویسے ہی سمجھے جیسے میں نے سمجھی۔کیا وہ سمجھ سکتا ہے؟

کیسے سمجھے؟کیا اس کا ماضی اس نے جھانک کر دیکھ لیا؟

ان میں سے بہتیرے تو دوسرے کے حال سے بھی واقف نہیں۔

اگر یہ سب ایک دوسرے سے واقف ہو جائیں،تو یہ جو شوخی اور رنگینی تمہیں نظر آرہی ہے،یہ بالکل ختم ہو جائے۔ان سب کی زبانیں گنگ ہو جائیں،یہ سب بولنا بھول جائیں۔

مگر یہی تو غنیمت ہے،یہاں موجود ہر ایک صرف اپنی زندگی جیتا ہے،اور اسی میں فخر محسوس کرتا ہے۔

کیا تمہیں آندھی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں؟

یہاں موجود سب انسان یہ جانتے ہیں کہ وقت کی آندھی آئے گی،یہ سب کچھ بہا کر لے جائے گی،مگر وہ پھر بھی اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔

یہ زندگی ہے جو مزے سے جھوم رہی ہے،ہر بار وقت کے جھکڑ سے یہ لڑکھڑا کر گر پڑتی ہے،اور پھر دوبارہ سے اٹھ کھڑی ہوتی ہے،آنکھوں میں آنکھٰیں ڈال کر مسکرانے لگتی ہے جیسے اسے اس ٹھوکر کی پرواہ ہی نہ ہو۔مگر وقت تو اسے ہر بار ہی ٹھوکر مارے گا۔

ریت لمحہ بہ لمحہ پھسل کر نیچے گرتی جارہی ہے۔

اکتاؤ مت!

صحیح کہتے ہیں۔انسان جلدباز ہے۔تم یہ خواہش رکھتے ہو کہ یہ سارا کھیل ختم ہو جائے۔تم یہ سب دیکھ کر اکتا رہے ہو۔مگر یہ ابھی ختم نہیں ہوگا۔یہ سب تو چلتا آرہا ہے،ہوتا آرہا ہے اور ہوتا رہے گا۔سر جھٹک کر حال میں مشغول ہو جاؤ۔

تم اس پھسلتی ہوئی ریت کو نہیں روک سکتے۔ایک اور حال کو ماضی بنتے دیکھنا ہی پڑے گا۔

ریت ختم ہونے میں نہیں آئے گی،پھسلتی جائے گی پھسلتی جائے گی۔قدرت چپکے سے بوتل کے اوپر والے حصے میں مزید ریت کا اضافہ کردیتی ہے،شاید یہ مہلت ہے

مگر انسان کہاں سمجھتا ہے؟

وقت کی تہہ اسے لپیٹنے،اور ڈھانپ دینے کی تاک میں ہے۔اور یہ چلتا رہے گا۔

سیدہ نایاب