ڈریلیز ارتغرل

2019-08-21 14:50:31 Written by عبدالودودعامر

ڈریلز ارتغرل 

 

بالآخر ڈریلز ارتغرل کا پانچواں سیزن بھی ختم ہوا 

پہلے سیزن سے لیکر پانچویں سیزن کی آخری قسط کے آخری لمحات تک اس نے جکڑے رکھا 

نہ کھانے پینے کا ہوش نہ دن رات کی تمیز 

یہ سیریز بنیادی طور پہ سلطنت عثمانیہ کے پس منظر کے حوالے سے بنائی گئی ہے اور پہلے ترک سلطان عثمان اول کے والد ارتغرل غازی کی داستان ہے اور میرے خیال سے سلطنت عثمانیہ کی تاریخ شاید ارتغرل غازی کے بنا ادھوری ہی رہے کیونکہ یہی وہ شخص تھا جس نے اپنی تلوار اور عزم اور حوصلے سے وہ راہیں متعین کردیں جنہوں نے آگے چل کر ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھی جس کا ستارہ آٹھ سو سال تک چمکتا رہا اب آتے ہیں اس ڈرامے کی طرف 

کوشش کروں گا کہ سب سے پہلے سیزن کے حوالے سے ترتیب وار تبصرہ کروں اور پھر آخر میں مجموعی خوبیاں اور خامیاں بھی بیان کردوں 

 

پہلا سیزن:

اس  کے شروع میں ارتغرل ایک لابالی سے نوجوان کی صورت میں نظر آتا ہے جو اپنے دوستوں کے ساتھ ہمہ وقت شکار کی تلاش میں رہتا ہے اس کے تین دوست ہوتے ہیں 

روشان ٫ بامسی (بابر)٫ تورگت (نورگل)

ہم نوالہ و ہم پیالہ ایک دوسرے کے گہرے یار مشترکہ دلچسپیاں  مشق کے میدان میں بھیڑیں اٹھا کر ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرنا کشتی کرنا اور شکار کرنا 

ارتغرل بھی ایسا ہی ہوتا ہے شکار کا شوقین اور قبیلے میں ہو تو دہلی دمیر کے ساتھ اس بھٹی میں تلواریں بنانے میں مصروف جرگے سے بھاگنے کے چکر میں ہوتا ہے اور اکثر جرگے کے معاملات اپنے بھائ گلدارو کے سپرد کرکے غائب ہوجاتا یا پھر شکار پہ نکل جاتا ہے ایسے ہی ایک شکار کے دوران اس وہ صلیبی دستے سے سلجوقی شہزادی حلیمہ سلطان کو چھڑاتا ہے جو اسے اس کے والد اور بھائی سمیت قید کرکے سلجوق سلطنت کے سپرد کردینا چاہتے ہیں اور ارتغرل ان کو چھڑا کر قبیلے کے آتا ہے اور یہیں سے ارتغرل کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ شروع ہوتا ہے 

یہ قائی قبیلہ ہوتا ہے جو ترکوں کا سب سے طاقتور اور بڑا قبیلہ ہے جس کے سربراہ سلیمان شاہ ہیں جو ارتغرل کے والد ہیں 

قبیلے کے معاملات بہت الجھے ہوئے ہیں سلیمان شاہ کا قریبی دوست کرتوغلو ہمہ وقت سازشوں میں مصروف ہوتا ہے اور اس کی ہمنوا شہناز خاتون (گلدرو کی بیوی اور سلیمان شاہ کی بڑی بہو ) ہوتی ہے 

ایسے میں ارتغرل حلب کے امیر سے نئی سرزمین کی بات کرنے جاتا ہے اور مختلف سازشوں کا شکار ہوتا ہے دشمن اپنی صفوں کے اندر اتنے ذیادہ گھسے ہوتے ہیں کہ دوست دشمن کی تمیز مشکل ہوتی ہے ایسے میں ارتغرل پہ اپنے سپاہیوں کو قتل کر ے کا الزام لگایا جاتا ہے دوسری طرف کرتوغلو کی سازشوں کی بدولت سلیمان شاہ کو سرداری سے ہٹا کر قبیلہ بدر کردیا جاتا ہے اور عین اسی وقت ارتغرل اپنے باپ کی مدد کو پہنچتا ہے جب کرتوغلو کے سپاہی سلیمان شاہ کی گردن اڑانے والے ہوتے ہیں اور پھر جرگے کے اندر فیصلہ بھی ارتغرل کی تلوار کرتی ہے دوسری جانب صلیبیوں کی سازشیں اور قلعہ نورگل ان کا قیدی بنتا ہے اور پھر اس کا ذہن پلٹ کر اس کو ارتغرل کو قتل کرنے بھیج دیا جاتا ہے اور پھر اس دوست کا خنجر ارتغرل کے جسم میں داخل ہوتا ہے جو ارتغرل کی خاطر اپنی جان ہنس کر قربان کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتا تھا ۔۔

یہاں پہ پانچوں سیزن میں۔ اہم کردار ابن عربی اور سفید داڑھیوں والوں کا بھی ہے اس کا الگ ذکر کروں گا

ان تمام مشکلات سے نمٹنے کے بعد ارتغرل اپنے قبیلے کو نئی سرزمینوں کی تلاش میں ہجرت پہ مجبور کرتا ہے اور بالآخر یہ قبیلہ نئی منزلوں کی تلاش میں چل پڑتا ہے 

 

دوسرا سیزن۔ 

یہ وہ سیزن ہے جس میں ارتغرل غازی بارہا آزمائش کی بھٹیوں میں جل کر کندن بننے  کے عمل سے گزرتا ہے 

اس کے قبیلے پہ حملہ ہوتا ہے اور قائد قبیلہ عظیم الشان۔ قبیلہ سردار خوشنود کے قبیلے میں پناہ لینے پہ مجبور ہوجاتا ہے یہ لٹا پٹا قبیلہ جب بے سروسامانی کی حالت میں ارتغرل کے ماموں خوشنود کے قبیلے پہنچتا ہے تو بیشک وہ ان کو پناہ دیتے ہیں لیکن ساتھ میں ان کی خودی چھیننے کے درپے بھی ہوجاتے ہیں اور 

یہاں پہ ارتغرل اکیلا رہ جاتا ہے بھائی اس کا مخالف ہوتا ہے قبیلہ بدر کردیا جاتا ہے ایک طرف منگول اس کے درپے ہوتے ہیں تو دوسری جانب اپنے خون کے پیاسے ہوتے ایک منگولوں کی قید میں وہ تشدد کے مراحل سے گزرتا ہے تو اپنوں کے قتل کا الزام لگ جاتا ہے اور ایک ایسا وقت بھی آتا ہے جب قبیلے میں داخل ہوتا ہے تو ہر جانب قاتل قاتل کی صدائیں گونج رہی ہوتی ہیں جرگہ سزائے موت کا فیصلہ سناتا ہے اور عین مرکزی خیمے کے سامنے ارتغرل کی گردن پہ تلوار رکھی ہوتی ہے  مگر یہاں بھی اس کی امید رنگ لاتی ہے اور اس کے دوست اور اس کا عزم اور خدا پہ غیر متزلزل یقین اس کو بچا لیتا ہے اور یہی وہ سیزن ہے جس میں دو اہم کرادر داخل ہوتے ہیں 

امیر سعدالدین کوپیک اور نویان 

ایک سلجوقی سلطنت کا سلطنت کا بااختیار امیر اوردوسرا طاقتور منگول 

 

سالار اور ان دونوں کے راستے کی واحد رکاوٹ ارتغرل ہوتا ہے 

بالآخر یہاں بھی ہجرت کا فیصلہ ہوتا ہے مگر حالات یہ ہوتے ہیں ارتغرل کے شانہ بشانہ لڑنے ولا تورگت ناراض ہوکر پہاڑوں پہ چلا جاتا ہے اس کے دونوں بھائی ہجرت کی مخالفت کرتے ہیں اور یہی مخالفت قبیلے کو تقسیم کردیتی ہے اور بالآخر ارتغرل اپنے چار سو وفادار خاندانوں کے ساتھ نئی منزلوں کی جانب چل پڑتا ہے اس سیزن میں ارتغرل کو اس کے استاد دہلی دمیر کی شہادت کا سانحہ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے 

 

 

تیسرا سیزن:

 

اس سیزن میں ارتغرل ایک ایسے سردار کے روپ میں نظر آتا ہے جو اکیلا اپنے قبیلے کی بقا میں مصروف ہوتا ہے ایک جانب قبیلے کے اندر لوگ بھوک اور افلاس سے تڑپ رہے ہوتے دوسری جانب ارتغرل کو تجارتی میدان میں اپنے قدم جمانے کے لیے محنت کرنا پڑ رہی ہوتی ہے ایسے میں ہانلی بازار جہاں وہ تجارت کرنا چاہتا ہے اس کا مالک بازنطینی جاسوس ہوتا ہے اور بازار کی تجارت مکمل طور پہ اس کے کنٹرول میں ہوتی ہے اور اس کا اتحاد وہاں کے سب سے بڑے قبیلے جاودار قبیلے کے سردار جاندار بے کے بیٹے اورال بے سے ہوتا ہے جو اپنی جگہ خود سازشی کردار ہوتا ہے ایسے میں جب ارتغرل تجارت کے میدان میں 

اس سے ٹکراتا ہے تو ایک نئی دشمنی جنم لیتی ہے سعدالدین کوپیک ٫اورال بے اور بازنطینیوں کا اتحاد ایک جانب سے اور دوسری جانب اورال کا والد اپنی بیٹی کی شادی ارتغرل سے کرنا چاہتا ہے تو وہاں ارتغرل کا انکار اسے بھی آگ بگولا کردیتا ہے البتہ یہاں ایک نیا دوست ارتغرل کو ملتا ہے آلیار بے 

اور ان حالات میں ارتغرل کو زہر دیا جاتا ہے ایک جانب ارتغرل موت کے منہ میں ہوتا ہے بلکہ پورا قبیلہ یقین کرلیتا ہے ارتغرل مر گیا

ان حالات میں ارتغرل کو مجبوراً ہانلی بازار پہ قبضہ کرنا پڑتا ہے اور پھر سازشوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے سعدتین کوپیک کے ساتھ سلطان علاؤالدین ارتغرل کو علاقے کا سعادت اعلی بنادیتا ہے اور یہی چیز سعدالدین کوپیک کو ہضم نہیں ہوتی 

 

چوتھا سیزن 

اس میں تیسرے سیزن کا ہی تسلسل جاری رکھا گیا ہے ہانلی بازار 

کارا چائیسار قلعہ اور ارتغرل کی کوششیں لیکن یہاں ارتغرل ایک طاقتور سردار اعلی کی صورت میں ابھرتا ہے 

سعدالدین کوپیک کی سازشیں یہاں نیا رنگ لاتی ہیں سلطان علاؤالدین کو قتل کر  کے اس کے کم سن بیٹے کو سلجوقی سلطنت کا تخت سونپ دیا جاتا ہے اور عملی طور پہ ریاست کے سیاہ و سفید پہ سعدالدین کوپیک کا قبضہ ہوجاتا ہے اور اگلے مرحلے پہ وہ خود تخت کا خواب دیکھنا شروع ہوجاتا ہے ارتغرل جو سردار اعلی ہوتا ہے ایک بار پھر اپنی جان بچانے کو پہاڑوں میں چلا جاتا ہے گرفتار ہوتا ہے اور یہ لڑائی بالآخر سعدالدین کوپیک کی گردن اڑا کر ہی ختم ہوتی ہے کاراچائیسار قلعہ فتح ہوجاتا ہے لیکن اب ارتغرل کا ایک پرانا دشمن دوبارہ نمودار ہوتا ہے نویان  

اب یہ لڑائی ایک جانب منگولوں تک پھیل جاتی ہے اور دوسری جانب عیسائی سلطنت کے ساتھ 

اور ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ منگول خیمے میں اوکتائ خان کے زمانے میں ارتغرل ان کی ہر شرط ماننے پہ مجبور ہوجاتا ہے یہاں تک کہ اپنا ایک بیٹا بھی بطور یرغمال رکھنے کا وعدہ بھی کرلیتا ہے اور ایک بڑا سانحہ بھی ارتغرل کو سہنا پڑتا ہے 

حلیمہ سلطان کی موت کا ۔۔

اور یہاں بھی بالآخر ایک نئی ہجرت ارتغرل کی منتظر ہوتی ہے سوگوت کی جانب

 

 

پانچواں سیزن :

پانچویں سیزن میں ارتغرل ایک ایسے سردار کے روپ میں نظر آتا ہے جو آزمائش کی بھٹیوں میں تپ کر مکمل کندن بن چکا ہوتا ہے بارعب ارتغرل 

سیاست دان ارتغرل اور سردار ارتغرل اب اس کی تلوار کی دھار جتنی تیز ہے اس کا دماغ اس کی نسبت زیادہ تیز ہوتا ہے صورتحال یہ ہوتی ہے کہ سلجوقی سلطنت منگولوں کے قبضے میں ہوتی ہے اور منگول ہرجانب  دندناتے پھر رہے ہوتے ہیں وہ جس قبیلے کو چاہیں تاراج کردیتے ہیں  اور ان کو ترکوں میں سے ہی ایک شخص اپنا ہمنوا مل جاتا ہے الباسطی 

دہشت کا دوسرا نام 

الباسطی جب اپنے اصل رنگ میں ہوتا ہے تو ارتغرل کا انتہائی وفادار سردار ہوتا ہے لیکن جب وہ الباسطی بنتا ہے تو معصوموں کا خون پانی کی طرح بہاتا ہے ارتغرل کے خیمے پہ منگول یلغار کرتے ہیں اور وٹامن اول کو اٹھا کے لے جاتے ہیں خواتین تلوار کے سائے میں سانس بھی نہیں لے پارہی ہوتیں اور یہی وہ سیزن ہے جو ارتغرل کے دماغ کی تیزی کو ظاہر کرتا ہے دشمن کی ہرچال پہ نظر ہر حرکت پہ نظر اور پھر منگولوں کے خلاف عالم اسلام کے اتحاد کے لیے کوشاں ارتغرل یہاں پہ ایک کردار کا ذکر نہ کرنا ذیادتی ہوگی 

برکہ خان یہ وہ شخص کی جس کی شخصیت شاید ارتغرل سے بھی ذیادہ بارعب لگی مجھے

منگول تھا لیکن اسلام قبول کرکے مسلمان بنا اور پھر ارتغرل کا بازو بنا ۔۔

پانچویں سیزن پہ داستان ختم نہیں ہوتی بلکہ ایک نیا سفر شروع ہوتا ہے جو بالآخر ایک نئی سلطنت کی بنیاد رکھتا ہے 

اب اس ڈرامے کا اور آل تجزیہ کرتے ہیں

اس میں کچھ چیزیں ہیں 

جیسے سفید داڑھی والوں کا کردار

ایسا لگتا ہے کہ شاید ترک تاریخ میں تصوف کو خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ پہلے سیزن میں ہی ابن عربی کی ملاقات ارتغرل سے ہوتی ہے اور پھر ان کی ہی ہدایات پہ ارتغرل مختلف ہجرتیں کرتا ہے ارتغرل کو خواب آنا اور پھر سفید داڑھی والوں کے حلقے میں اس کو متعارف کروانا ایک مبارک بچے (عثمان) کی خوشخبری مختلف خوابوں کے ذریعے ملنا ارتغرل پہ برا وقت آنا اور ہر مشکل وقت میں ابن عربی کا مدد کو پہنچ جانا بعض اوقات یہ چیز غیر ضروری بھی معلوم ہوتی ہے لیکن بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ترکوں کے نزدیک یہ چیز بہت اہمیت کی حامل ہے 

ایک اور چیز بہت اہم ہے اس کے مکالمے اور اداکاروں کی اداکاری

ہر اداکار اپنی جگہ پرفیکٹ تھا اور بعض مکالمے تو مشہور بھی ہوئے جیسے 

ارتغرل کا ارے ماشاءاللہ کہنا یا پھر بین سلمان شاہ ارتغرل (سلیمان شاہ کا بیٹا ارتغرل)

سعدالدین کوپیک کا "اعلی" بولنا اور بامسی کا توبہ توبہ 

ان کا ایک اپنا ہی لطف تھا 

نویان کا کردار یا سعدالدین کوپیک کا کردار جنہوں نے ادا کیا انہوں نے بھی حق ادا کردیا ۔۔

تورگت کا کلہاڑا چلانے کا انداز اور دھیما انداز بولنے کا 

بامسی کی جلدبازیاں اور سادگی اور مکالموں میں بے ساختگی اور جنگ کے میدان میں دونوں ہاتھوں تلوار تھام کر اتر جانا اور دونوں ہاتھوں میں تلوار ہونے کے باوجود دشمن کو لات مار کر گرانا یا تلوار زمین دھنسا کر تھپڑ مار کر گرانا یہ صرف بامسی ہی ہوسکتا ہے۔  

روشان کی تلوار اور ڈھال کے ساتھ لڑائی اور پھر اس کی شہادت اور پھر دہلی دمیر کی شہادت نے تو رلا ہی دیا ۔۔

باچھو کا ڈھول بجانا اور نویان کا زمین میں دفن ہوکر یکدم زمین سے نکلنا اکثر اوقات تو" تراہ" ہی نکل جاتا تھا

اسی طرح اکثر لوگوں نے تبصرہ کرتے وقت ارتغرل کے تین دوستوں کا ذکر تو کیا مگر باقی سپاہیوں کو بھول گئے 

گنگوت٫ دومرل سپاہی ٫ ملک شاہ ٫ اوغوز باقر یہ لوگ اپنی جگہ کمال تھے اور عبدالرحمن سب سے اہم کردار تھا وفا کا پتلا اور اطاعت امیر سے لبریز کردار۔

 

اسی طرح بعض کرداروں کو اگر ساتھ لیکر چال جاتا لیکن وہ یکدم غائب ہوتے چلے گئے جیسے روشان کی بیوی گل بانو خاتون ٫ نہایت بہادر اور دلیر خاتون لیکن چوتھے سیزن میں وہ یکدم غائب  ہو گئی اور اس کا کردار پھر نظر نہیں آیا ۔۔

اسی طرح نویان 

جتنی کھلبلی اس نے مچائی تھی اس لحاظ سے اس کو چوتھے سیزن کے بعد ایک دم ختم کردیا گیا اور دو کرداروں کے درمیان کچھ مکالموں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مارا گیا کس نے مارا کیسے مارا کیوں مارا اس کا کوئی ذکر نہیں اس کی تشنگی بہرحال

محسوس کی گئی 

 

اور پھر سفید داڑھی والوں کی طرف سے بعض اوقات مکالمے بہت ذیادہ طویل ہوتے جس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں کے واقعات اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات پانچویں سیزن کی ہر قسط میں موجود ہیں ایک طرح سے اس پہ تنقید بھی نہیں کی جا سکتی لیکن بعض جگہ وہ ڈرامے میں غیر ضروری بھی محسوس ہوئے 

 

اور سب سے اہم اور مثبت چیز اس کی یہ ہے کہ اس نے ہماری نئی نسل کی ترجیحات تبدیل کردی ہیں جن بچوں کے ہیروز سپائڈر مین وغیرہ تھے  اب ان کا ہیرو ارتغرل ہے خود میرے بھتیجے لکڑی کی تلواریں بنا کر ارتغرل ارتغرل کھیلتے ہیں اور ان کے لبوں پہ اکثر یہ نعرے ہیں "الحی اللہ" اور اللہ اکبر 

ساری چیزیں نظر انداز بھی کردیں تو یہ چیز بہت اہم ہے اور میرے خیال سے اس ڈرامے نے اپنا مقصد حاصل کرلیا ہے 

اور ایک نئی راہ بھی متعین کردی ہے کہ اگر میڈیا کا استعمال بھرپور اور موثر کیا جائے تو نئی نسل آپ سے ایک قدم آگے بڑھ کر عملی مسلمان بننے کو تیار بیٹھی ہے

 

عبدالودود عامر