جانور

2019-08-23 15:03:42 Written by اعتزاز سلیم وصلی

جانور

 

 

لاہور کے ایک ویران علاقے کا منظر تھا۔رات کی تاریکی میں عجیب طرح کی اداسی تھی۔دور کہیں کسی کتے کے بھونکنے کی آواز کبھی اس خاموشی کو تھوڑی دیر کیلئے توڑ دیتی ۔سڑک ویران پڑی تھی۔یہ گاؤں کو شہر سے ملانے والی سڑک تھی اس لئے رات کے اس وقت یہاں ٹریفک بالکل نہ تھی البتہ ایک دس بارہ سال کا لڑکا تیز قدم اٹھاتا شہر کی طرف جارہا تھا۔تاریکی اسے ڈرا رہی تھی ۔وہ خوف محسوس کررہا تھا مگراس کے قدم واپس گاؤں کی طرف نہ پلٹے تھے۔آج صبح اس کی بڑے بھائی سے لڑائی ہوئی تھی۔باپ نے دونوں کو تھپڑ مارے مگر اسے کچھ زیادہ محسوس ہوئے۔محبت کی محرومی وہ بچپن سے محسوس کر رہا تھا۔اسے نجانے کیوں لگتا تھا کہ اس کے والدین اس سے زیادہ اس کے بڑے بہن بھائیوں سے محبت کرتے ہیں۔یہی احساس آج صبح تھپڑ پڑنے پر ہوا۔۔گاؤں میں مشہور تھا لاہور بہت بڑا شہر ہے۔اس نے دیکھا نہ تھا مگر آج تھپڑ کھانے کے بعد اس نے ماں باپ کو سزا دینے کیلئے گھر سے فرار ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

’’انہیں بھی احساس ہو۔۔میں اہم ہوں یا نہیں‘‘یہ سوچ بار بار اس کے دماغ پر دستک دے رہی تھی۔شام کو کھیل سے فارغ ہونے کے بعد وہ واپس گھر نہ گیا بلکہ سائے گہرے ہوتے ہی وہ گاؤں سے نکلا اور شہر کی سڑک پر آ گیا۔۔لاہور کی طرف سفر کرتے ہوئے رات ہو گئی ۔اندھیرے میں ڈر ضرور لگا لیکن گھر نہ لوٹنے کی ضد برقرار رہی۔پانچ چھ گھنٹے مسلسل چلنے کے بعد وہ کچھ دیر کیلئے رک گیا۔اسی دوران موٹر سائیکل پر سوار ایک شخص اس کے قریب آ کررکا۔ہیڈلائٹ کی چمک اس کی آنکھوں پر پڑی۔اس نے ہاتھ آنکھوں پر رکھ لیا۔کچھ لمحوں بعد جب وہ دیکھنے کے قابل ہوا تو اس نے غور سے اس شخص کی شکل کو دیکھا۔۔آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگائے چہرے سے وہ ایک شریف شخص معلوم ہوتا تھا۔

’’کون ہو؟کدھر جا رہے ہو؟‘‘اس نے نرم لہجے میں لڑکے سے پوچھا۔

’’گھر چھوڑ دیا ہے۔۔شہر جارہا ہوں‘‘اس نے سچ بولا۔

’’کیوں چھوڑا ہے گھر؟‘‘

’’کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا تھا اس لئے‘‘نمی لہجے میں گھل گئی۔

’’کوئی بات نہیں۔۔آؤ میرے ساتھ‘‘نرم اورہمدرد لہجہ اس وقت لڑکے کی ضرورت تھی۔وہ چپ چاپ بائیک پر بیٹھ گیا۔نامعلوم شخص اسے لے کر انجان منزل کی جانب بڑھ گیا۔موٹر بائیک کافی دیر چلتی رہی۔کئی کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد شہر کے ایک نسبتاً کم آباد علاقے میں آ کر رکی۔’’چلو آ جاؤ‘‘اس نے بائیک اسٹینڈ پر لگا کر لڑکے سے کہا۔

’’کدھر؟۔۔یہ آپ کا گھر ہے؟‘‘

’’ہاں‘‘وہ اسے گھر کے اندر لے گیا۔لڑکے کو ایک کرسی پر بٹھا کر اس نے فریج سے پانی نکال کر اسے پلایا۔۔۔اور اس کے بعد اچانک وہ لڑکے پر ٹوٹ پڑا۔وہ معصوم کچھ سمجھ نہ سکا۔۔

’’مجھے چھوڑ دو‘‘وہ چیخا۔مگر یہاں چھڑانے والا کوئی نہیں تھا۔تھا تو بس ایک وہ جانور جس کی ہوس اس معصوم کو اپنا نشانہ بنا رہی تھی۔چیخیں گھر میں گونج رہیں تھیں۔۔قیامت کی یہ گھڑیاں گزر گئیں۔لڑکا ایک سائیڈ پر نیم بے ہوش پڑا تھا۔ہانپتا ہوا وہ شیطان اٹھا اور ایک زنجیر اٹھا لایا۔لڑکے کے گلے میں ڈال کر اس نے چند منٹ میں ہی اسے زندگی کی قید سے آزاد کر دیا تھا۔اس کے بعد تیزاب کے ڈرم سے تیزاب نکال کر اس کی لاش پر پھینکا اورکچھ دیر بعد ایک کیمرے سے لڑکے کی تصویر بنائی۔۔

تقریباً ایک گھنٹے بعد تیزاب زدہ وہ جسم راوی کے پانیوں میں بہہ رہا تھا۔

                                  ٭٭٭

1999 کی ایک سرد شام کو لاہور کے علاقے شاد باغ کے پولیس اسٹیشن میں پولیس کو ایک خط ملا۔اس خط نے پورے پولیس کے محکمے کو ہلا کر رکھ دیا۔خط میں ایک جاوید اقبال نامی قاتل نے سو بچوں کے قتل کا اعتراف کیا تھا۔

’’میں سو بچوں کا قاتل جاوید اقبال آپ لوگوں سے مخاطب ہوں۔جب تک میرا خط آپ لوگوں تک پہنچے گا تب تک میں بہت دور جا چکا ہوں اتنا دور کہ کوئی بھی مجھ تک نہ پہنچ سکے گا۔میں نے آج یہ اعتراف کرنے کیلئے خط لکھا ہے کہ میں نے سڑکوں پر گھومنے والے سو لاوارث بچوں کو قتل کیا ۔میں نے انہیں زیادتی کا نشانہ بنایا اور زنجیر سے گلا گھونٹ کر مار دیا۔ان کی لاشوں کو تیزاب میں جلا کر راوی میں بہا دی ہیں۔مجھے اس دنیا سے نفرت ہے اور مجھے اپنے کئے پر کوئی شرمندگی نہیں۔میں اسی راوی میں کود کر خودکشی کر رہا ہوں جہاں ان بچوں کو بہایا تھا‘‘خط کے ساتھ جاوید اقبال کا ایڈریس بھی تھا جو شاد باغ میں ایک حویلی کا تھا۔جس وقت یہ خط پولیس اسٹیشن میں پہنچا ٹھیک اسی وقت ایک اخباری مدیر خاور نعیم ہاشمی تک بھی وہی خط پہنچا دیا گیا۔

خط ملنے کے بعد پولیس نے لاہور کی تاریخ کے سب سے زیادہ چھاپے مارے۔ہر جگہ جاوید اور اس کے ساتھیوں کو تلاش کیا۔شادباغ کی حویلی میں پہنچ کرپولیس والے لرز کر رہ گئے۔

یہاں دیواریں جگہ جگہ خون سے رنگی ہوئی تھیں۔

تیزاب کے ڈرم موجود تھے۔۔

قاتل زنجیریں موجود تھیں جو جاوید اقبال استعمال کیا کرتا تھا۔

کئی بچوں کی باقیات اور تصویریں تھیں

-۔تصویروں کے اوپر ان کے متعلق تفصیل درج تھی۔لکھا تھا۔

’’میں یہ سب چیزیں اس لئے چھوڑ رہا ہوں تاکہ حکام کو ثبوت مل سکے۔‘‘

جاوید کے ساتھ اس حویلی پر رہنے والے اس کے دوستوں کو گرفتار کرلیا گیا۔جاوید اقبال نے اگرچہ خط میں لکھا تھا کہ خودکشی کر چکا ہے مگر اس بات کی تصدیق نہ ہو سکی۔تفتیش کے دوران جاوید کو تیزاب فراہم کرنے والے اسحاق نے کھڑکی سے کود کر خودکشی کرلی۔اس خودکشی کی بھی کبھی تصدیق نہ ہو سکی کیونکہ اکثر رپورٹس کے مطابق پولیس نے خود اسے نیچے پھینکا تھا۔

لوگوں میں خوف پھیل گیا تھا۔جاوید اقبال غائب تھا یا مر چکا۔۔کچھ علم نہ تھا۔۔

                                  ٭٭٭

آٹھ اکتوبر 1956 کو پیدا ہونے والے جاوید اقبال کا اپنے بہن بھائیوں میں چھٹا نمبر تھا۔اس کا باپ ایک تاجر تھا۔گورنمنٹ اسلامیہ کالج لاہور سے انٹر کرنے کے بعد جاوید نے 1978 میں اسٹیل کا کاروبار شروع کیا۔وہ اپنے گھر کی بجائے دوستوں کے ساتھ شاد باغ کی حویلی میں رہا کرتا تھا ۔

جاوید کے ماضی کو کھنگالیں تو اس کی نفسیاتی الجھن اور بچوں کے خلاف نفرت کی کوئی خاص وجہ معلوم نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ وہ انسان کے روپ میں ایک جانور تھا۔ 

عین ممکن ہے گھر سے دوری یا آزادی نے اس کا دماغ خراب کردیا ہو۔۔یا پھر جس طرح اس نے اخبار کو خط لکھ کر جرم کا اعتراف کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ شہرت کی طلب بھی رکھتا تھا۔

سو بچوں کے قاتل نے راوی میں چھلانگ لگا کر خودکشی کی یا پھر اس خوفناک کہانی کا انجام ابھی باقی تھا۔۔؟؟

                              ٭٭٭

تیس دسمبر 1999 کے دن اردو اخبار کے دفتر میں چہرے پر نظرکا چشمہ لگائے ایک شخص داخل ہوا۔اپنی آمد کے ساتھ ہی اس نے اعلان کیا۔۔

’’میرا نام جاویداقبال ہے۔میں سو بچوں کاقاتل ہوں۔مجھے نفرت ہے دنیا سے اور مجھے اپنے کئے پر کوئی شرمندگی نہیں‘‘۔اس کے ساتھ ہی اخبار کے دفتر میں ہلچل مچ گئی۔لوگ اس سے خوفزدہ تھے۔تھوڑی دیر بعد ہی وہاں پولیس کی بھاری نفری تھی۔انہوں نے جاوید اقبال کو گرفتار کرلیا۔جاوید کو خوف تھا کہ پولیس اسے گرفتاری کے موقع پر ہی مار دے گی اس لئے اس نے میڈیا کے سامنے گرفتاری دی تھی۔

اپنے اعترافی بیان میں جاوید اقبال نے بچوں کو مارنے کی وجہ عجیب بیان کی۔اس کے مطابق بہت پہلے اسے پولیس نے گرفتار کرکے خوفناک تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس کا بدلہ اس نے سو بچوں کو مار کرلیا۔

عدالت میں جاوید نے ایک اور ڈرامہ کیا۔اس نے اچانک بیان بدلا اور کہا۔’’یہ ساری کہانی میں نے لاوارث بچوں کے مسائل سامنے لانے کیلئے گھڑی ہے‘‘لیکن ناقابل تردید ثبوت ملنے کی وجہ سے جج نے جاوید اقبال کو جو سزا سنائی اس نے بھی پورے پاکستان میں تہلکہ مچادیا۔سزا کے مطابق جاوید کو بچوں کے والدین کے سامنے بالکل اسی طرح مارا جانا تھا جس طرح اس نے بچوں کو مارا تھا۔اس کے جسم کے ٹکڑے کرکے انہیں تیزاب میں جلایا جانا تھا۔اس بات پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے احتجاج بھی کیا لیکن اس چیز کی نوبت نہیں آئی۔

آٹھ اکتوبر 2001 کو اپنی سالگرہ والے دن جاوید نے بستر کا پھندا بنا کر کوٹ لکھپت جیل میں خودکشی کرلی۔اس کے دوست ساجد نے بھی اسی دن خودکشی کی تھی۔تاریخ کا یہ بدترین قاتل اپنے انجام کو پہنچ گیا لیکن کیا وہ خودکشی تھی؟

اس نے بچوں کو کیوں مارا تھا؟

کیا وہ واقعی ان لاوارث بچوں کے مسائل سامنے لانا چاہتا تھا؟

وقت گزر گیا اور ان سوالوں کے جواب نہ مل سکے۔2007 میں جاوید کے باقی دو ساتھیوں کو رہا کر دیا گیا۔۔

                                                                                                        ٭٭٭٭