محبت

2019-08-24 13:13:27 Written by عائشہ ارشد علی

تم پاگل تو نہیں ہو گئی آئرہ، تم اپنے کزن کی شادی میں نقاب کرو گی (فہمیدہ بیگم نے تقریبا چیختے ہوئے کہا)

امی لیکن میں نے بتایا تھا آپکو کہ اب میں شرعی پردہ کرتی ہوں، آپ جانتی ہیں میں ہر جگہ نقاب میں جاتی ہوں، ہاں ہر جگہ نقاب میں جاؤ، سب سے پردہ کرو میں نے کب منع کیا ہے، لیکن بیٹا اپنوں سے پردہ تھوڑی ہوتا ہے-

امی۔۔۔! 

آئرہ نے تاسف سے فہمیدہ بیگم کو دیکھا اور کمرے سے نکل گئی-

آئرہ نقاب میں بے حد حسین لگ رہی تھی، ایک طرف نظریں جھکائے بیٹھی اپنے خیالات میں گم تھی کہ یاور کی آواز نے اسے چونکا دیا-

اوہو یاسین بھائی کی شادی میں ننجا ٹڑٹلز (ninja turtles) کہاں سے آ گئے؟ 

(یاور اور یاسین دونوں آئرہ کے خالہ زاد تھے اور یاور کی نسبت آئرہ سے 4 سال پہلے طے ہو گئ تھی)

آئرہ نے اپنی نظریں دوسری طرف پھیر لیں تو یاور اسکی ہم عمر کزن کی طرف جھک گیا، تابش یار دیکھو لوگ تو مغرور ہو گئے ہیں- ترچھی نگاہوں سے آئرہ کی طرف دیکھتے ہوئے یاور نے کہا اور دونوں مذاق کرنے میں مصروف ہو گئے- 

دونوں کے قہقہے اور تالی مارنے پر آئرہ نے ان کی طرف دیکھا اور پہلی بار اسے یاور انتہائی برا لگا تھا-

گھر آ کر بھی آئرہ کے دماغ سے یاور کا نامحرم لڑکیوں سے بےجھجک رویہ نہیں نکل رہا تھا

جب وہ پردہ نہیں کرتی تھی تب بھی لڑکوں کو ان کی اوقات میں رکھتی تھی، کسی لڑکے سے یہاں تک کہ یاور سے بھی غیر ضروری بات یا ہنسی مذاق نہیں کیا تھا ہاں البتہ اسے یہ معیوب بھی کبھی محسوس نہیں ہوا، وہ لڑکے لڑکیوں کی دوستی کے ماحول کی عادی تھی- 

لیکن اب اسے یہ سب انتہائی برا لگ رہا تھا-

بابا۔۔ ارے آؤ بیٹا دیکھو یاور آیا ہے۔۔ آئرہ نے آواز دی تو جلال صاحب نے کہا

اور آئرہ نے یاور کی اس پر نظر پڑنے سے پہلے ہی اپنا منہ ڈھک لیا تھا

بابا آپ سے کچھ بات۔۔۔ آئرہ زرا یاور کے ساتھ بازار چلی جاؤ (آئرہ کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ فہمیدہ بیگم نے اپنا حکم سنایا تھا)

امی میں نہیں جا سکتی، کیوں نہیں جا سکتی فہمیدہ بیگم نے آنکھیں دکھائیں

ارے بیٹا دراصل کل شادی میں تمہاری خالہ اور ہم دونوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تمہاری باقاعدہ منگنی یاور سے کر دیں اور پھر تمہاری پڑھائی مکمل ہوتے ہی شادی کر دیں گے-

تو یاور کے ساتھ تم جا کر انگوٹھی پسند کر آؤ جلال صاحب نے بات سنبھالتے ہوۓ کہا-

بابا میں پردہ کرتی ہوں میں کسی نامحرم کے ساتھ اکیلے نہیں جاؤں گی اور منگنی کی ویسے بھی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، اسلام میں منگنی کا کوئی تصور نہیں ہے۔۔ مجھے نہیں کرنی منگنی

آئرہ نے اپنا فیصلہ ایک سانس میں سنایا تھا-

"بکواس مت کرو تم آئرہ، کون سی دقیانوسی باتیں کر رہی ہو، کس نے تمہیں پٹی پڑھائی ہے؟ یہ۔۔ پہلے تو تم ایسی نہیں تھی اب تم خود کو بہت پارسا سمجھ رہی ہو، تمہارے خیال میں ایک تم ہی نیک ہو؟ - 

فہمیدہ بیگم کا ہر لفظ آئرہ کے دل کے ہزار ٹکڑے کر رہا تھا-

ارے خالہ جان، چھوڑیں آپ اسکی انگوٹھی کا ناپ مجھے دے دیں میں کل آرڈر دے دوں گا یاور کی مداخلت کے بعد فہمیدہ بیگم خاموش ہوئیں-

یاور کے جانے کے بعد آئرہ نے آنسوؤں کی روانی میں کہنا شروع کیا-

"امی میں جانتی ہوں میں پہلے پردہ نہیں کرتی تھی، میں گناہگار تھی اور گناہگار ہوں لیکن الله کی توفیق سے اگر میں کوئی ایک گناہ چھوڑ پائی ہوں تو آپ میری حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے میری حوصلہ شکنی کیوں کر رہی ہیں۔۔ میں کسی کو گناہگار سمجھتی ہوں اسلئے پردہ نہیں کر رہی، نہ ہی میں کسی پر یہ جتلانا چاہتی ہوں کہ میں زیادہ نیک ہوں، میں بس اتنا جانتی ہوں کہ پردہ کرنا ایک نیک عمل ہے، اور بےپردگی برا عمل ہے۔۔ اور شاید مجھ گناہگار انسان کو الله اس نیکی کی وجہ سے بخش دے۔۔ روز محشر جب انسان ایک ایک نیکی کے لئے ترسے گا تو شاید یہ ایک نیکی میرے کام آ جائے- 

فہمیدہ بیگم اس بار خاموش رہیں تو آئرہ اپنے کمرے میں آ گئی ، فجر میں اس کی آنکھ کھلی تو فہمیدہ بیگم کو اپنے پاس بیٹھا دیکھ کر وہ چونک گئی ۔۔ تمہاری آنکھیں کیوں سرخ ہو رہی ہیں فہمیدہ بیگم کے سوال پر اسے یاد آیا کہ وہ پوری رات روتی رہی تھی-

کچھ نہیں امی سر میں درد ہے، وہ اپنا سر پکڑتے ہوئے اٹھی واقعی اسکا سر درد سے پھٹ رہا تھا۔۔ فہمیدہ بیگم نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا اور ماتھا چوما، بیٹا میں بھی حجاب کرنا چاہتی ہوں الله نے مجھے توفیق دی تو نقاب بھی إن شاء الله جلد شروع کروں گی۔۔ کیا پتہ میرا یہ نیک عمل آخرت میں میری نجات کا باعث بن جائے۔۔ فہمیدہ بیگم کی آنکھوں میں آنسو تھے-

آئرہ خوشی سے سے فہمیدہ بیگم کے گلے لگ گئی۔۔

 

تقریبا عصر کے وقت دروازہ پر دستک ہوئی،

کون؟ آئرہ نے سخت لہجے میں پوچھا-

ارے یار اتنے غصہ میں کیوں ہو، میں یاور ہوں دروازہ تو کھولو-

واپس لوٹ جاؤ، گھر میں امی بابا نہیں ہیں ان کی موجودگی میں آنا - 

لیکن۔۔۔ یاور کی بات سنے بغیر وہ اپنے کمرے میں آ گئی 

کچھ دیر بعد دوبارہ دستک ہوئی_+-

تم اب تک گئے نہیں۔۔فہمیدہ بیگم اور جلال صاحب کے ساتھ یاور کو دیکھ کر بے ساختہ آئرہ نے کہا-

پھر فہمیدہ بیگم کی ڈانٹ سے خوفزدہ ہو کر فورا کمرے میں چلی گئی۔۔

آئرہ۔۔ دروازہ کے باہر سے یاور کے آواز دینے پر اسنے کتاب سے سر اٹھایا،

ٹی وی لاؤنج میں جاؤ میں آتی ہوں آئرہ نے کہا

کچھ دیر بعد آئرہ بڑی سی چادر میں اور نقاب میں ٹی وی لاؤنج میں کھڑی تھی، فہمیدہ بیگم یاور کے لئے چاۓ بنا رہی تھیں-

آئرہ یہ منگنی کی انگوٹھی پہن کر دیکھ لو، یاور نے بولنا شروع کیا ہی تھا کہ آئرہ نے اسکی بات کاٹ دی

یاور میں منگنی نہیں کرنا چاہتی، اسکی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، تم سے میرا پردہ منگنی کے بعد بھی ایسے ہی رہے گا، تم تب بھی میرے لیے نامحرم ہو گے تو پھر یہ فضول خرچی اور یہ غیر شرعی رسم کو ترک کر دینا بہتر ہے-

اور یاور منگنی کیا بہتر ہے ہماری شادی بھی نہ ہو، تمہاری اور میری سوچ مختلف ہے میں کبھی بھی پردہ نہیں چھوڑ سکتی یاور اور مجھے اندازہ ہے کہ تم مجھے پردے کے ساتھ قبول نہیں کرو گے-

یاور میں الله سے دور نہیں جانا چاہتی۔۔

یاور خاموشی سے سر جھکائے ہر بات سنتا رہا اور جب اسنے سر اٹھایا تو آئرہ جا چکی تھی-

 

آئرہ کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسے کیا ہوا ہے، اسکے آنسو نہیں رک رہے تھے-

آج اس واقعہ کو تین دن ہو گئے تھے

پتہ نہیں اچانک کیا ہوا ہے کہ یاور نے منگنی سے منع کردیا فہمیدہ بیگم کے کمرے کے پاس سے گزرتے ہوئے آئرہ نے سنا تھا اور وہ پوری بات نہ سن سکی، اسکی آنکھوں سے آنسو نہیں رک رہے تھے۔۔ چار سال یاور سے منسوب رہنے کے بعد وہ یاور کے علاوہ اور کسی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی، اسے بہت پہلے ہی یاور سے محبت ہو گئی تھی لیکن آج اس سے دور جانے کا احساس اس کے لیے موت جیسا تکلیف دہ تھا۔۔

آئرہ نے نماز پڑھ کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنسوؤں کی شدت میں اضافہ ہوگیا-

اسے احساس نہیں ہوا کہ وہ آواز سے رو رو کر دعا کر رہی تھی۔۔ یا الله میں یاور سے محبت کرتی ہوں لیکن میں تجھ سے سب سے زیادہ محبت کرتی ہوں، یا الله میں یاور سے دور نہیں جانا چاہتی لیکن اگر وہ مجھے تجھ سے دور کرنے والا ہے تو میں اسے تیری رضا کے لئے چھوڑتی ہوں میرے الله۔۔ یا الله جو میرے نصیب میں ہے اسے میرے لیے آسان بنا دے اور جو میرے نصیب میں نہیں اسکی محبت میرے دل سے نکال دے۔۔

دروازہ پر دستک ہوئی تو آئرہ نے فورا اپنے آنسو صاف کئے اور پھر اسے یاور کی بھرائی ہوئی آواز سنائی دی-

"آئرہ میں اس لڑکی کو الله سے کیسے دور سکتا ہوں جسکی وجہ سے میں الله کے قریب ہوا۔۔ آئرہ میں نہیں جانتا مجھے کب سے محبت ہے تم سے لیکن ہر دن اس محبت میں اضافہ ہوا، اسکول میں تم کبھی کسی لڑکے کے ساتھ نہیں بیٹھی، تم ہمیشہ ہی سر پہ دوپٹہ رکھتی تھی، تمہاری حیا، تمہاری معصومیت ہر دن میرے دل میں تمہاری عزت اور محبت میں اضافہ کرتی رہی۔۔ ایک دن میں تمہارے گھر آیا آج سے چار سال پہلے، جمعہ کا دن تھا۔۔ تم سورہ کہف کی تلاوت کر رہی تھی آئرہ تم جانتی ہو اس کے اگلے دن ہی میں نے امی سے کہہ کر تمہارا رشتہ مانگ لیا اور چار سال سے ہر جمعہ کو تمہارے گھر آنے کا معمول صرف اسی وجہ سے کہ تمہاری تلاوت سن سکوں، اور تمہیں پتہ ہے آئرہ مجھے سورۃ کہف حفظ ہو گئی ہے، آئرہ کو محسوس ہوا جیسے وہ مسکرایا تھا-

آئرہ ایک مرتبہ پھوپھی کے گھر پہ کنزہ کی مہندی پہ ناچ گانا اور ہلا گلا کرنے کے بعد جب میں کچھ کھانے کے لیے کچن میں جا رہا تھا تو تمہیں ایک کونے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تم تہجد پڑھ رہی تھی۔۔ آئرہ میں اس دن بہت رویا تھا مجھے احساس ہوا تھا کہ میں تمہارے قابل نہیں ہوں اور میں تمھیں کھونا نہیں چاہتا تھا، آئرہ آج 3 سال سے زیادہ ہو گئے نہ میری کوئی نماز قضا ہوئی نہ تہجد"-

آئرہ بھی رو رہی تھی اور

یاور بھی۔۔ آئرہ میں سمجھتا تھا کہ میں نے خود کو تمہارے قابل بنا لیا میں غلط تھا۔۔ تم نے ہر نیک عمل الله کی رضا کے لئے اپنایا اور میں نے تمہیں کھو دینے کے ڈر سے خود کو تمہارے قابل بنانے کے لئے، شاید یہ ہی وجہ ہے کہ میری نماز میرے اخلاق و کردار میں تبدیلی نہ لا سکی

تمہارے شرعی پردہ کرنے نے مجھے احساس ندامت میں مبتلا کیا اور

تمہارے مجھ سے شادی سے انکار نے مجھے احساس دلایا کہ میں تو اب بھی وہیں کھڑا ہوں تمہارے قابل نہ بن سکا۔۔

آئرہ مجھے دو سال کا وقت دو، میں اس بار خالص الله کی رضا کے لیے خود کو تبدیل کروں گا، اور إن شاء الله تم مجھے اب سے بہت مختلف پاؤ گی۔۔ صرف دو سال میرا انتظار کرنا۔۔

یاور جانے لگا کہ اسے آئرہ کی آواز سنائی دی- "میں انتظار کروں گی یاور لیکن اگر میں تمہارے نصیب میں نہیں ہوئی تب بھی ہدایت کے راستے پر چلتے رہنا، خود کو اس قابل بنانے کی کوشش میں لگے رہنا کہ روز محشر تم پر الله اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم فخر کریں" - 

 

آج دو سال بعد یاور اور آئرہ کا نکاح یاور کی خواہش کے مطابق مدینہ منورہ میں ہو رہا تھا، نکاح کے بعد دونوں نے عمرہ ادا کیا اور یاور نے اسے بتایا کہ

الله کے فضل سے وہ حافظ قرآن بن گیا ہے۔۔

آئرہ نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ یاور کو دیکھا، سفید قبا اور دستار میں چہرے پر سنت رسول اور اطمینان وہ کسی شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔۔ آج آئرہ سوچ رہی تھی کہ کیا وہ اس شخص کے قابل ہے۔۔

یاور نے آئرہ کا ہاتھ تھاما تو آئرہ چونک گئ۔۔ آئرہ تمہاری محبت میں مبتلا ہو کر میں نے الله کو پایا ہے، مجھ سے وعدہ کرو اگر کبھی میں الله کے راستے سے بھٹکنے لگوں تو مجھے واپس الله کے راستے پر لے آنا۔۔ آئرہ نے یاور کے ہاتھوں کو مزید مضبوطی سے تھام لیا، یاور صراط مستقیم پر چلتے ہوئے ہم دونوں میں سے جو بھی لڑکھڑائے ہمیں ایک دوسرے کو سہارا دینا ہے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر رکھنا ہے-

اور دونوں نے یک زبان ہو کر کہا تھا "إن شاء الله"______

 

از قلم عائشہ ارشد علی