ایک دریا دل اور فیاض شخص کی یاد میں

2019-08-24 20:32:07 Written by ندیم رزاق کھوہارا

ایک دریا دل اور فیاض شخص کی یاد میں۔۔۔

 

 

تحریر: ندیم رزاق کھوہارا

 

کہتے ہیں کہ ایک بار شاہ عنایت رح اپنے حجرہ میں تشریف فرما تھے کہ ایک مرید کچھ شیرینی لے کر آیا۔ شاہ عنایت نے وہیں موجود اپنے مرید بابا بلھے شاہ کو کہا کہ یہ شیرینی تمام مریدوں میں بانٹ دو۔ بابا بلھے شاہ نے سوال کیا۔۔۔

 

"حضرت اللہ کے طریقہ سے تقسیم کروں یا رسول اللہ صہ کے طریقہ کے مطابق؟"

 

سوال اتنا عجیب تھا کہ ہر کوئی حیران رہ گیا۔ شاہ صاحب نے فرمایا کہ بھلا اللہ اور اس کے رسول کے طریقہ میں کیا فرق ہو سکتا ہے۔ خیر انہوں نے فرمایا کہ تم اللہ کے طریقہ کے مطابق بانٹ دو۔

 

بابا بلھے شاہ نے شیرینی کا ڈبہ ہاتھ میں پکڑا اور مریدوں میں بانٹنا شروع کر دیا۔ کسی کو جھولی بھر کر دیتے جاتے تو کسی کو چند ہاتھ، جبکہ کسی کو خالی ہاتھ ہی چھوڑ دیتے۔ الغرض جب ساری شیرینی بانٹ چکے تو مرشد نے سوال کیا کہ۔۔۔

"بلھیا۔۔۔ یہ کیا کیا؟ کسی کو جھولی بھر کر تو کسی کو خالی ہاتھ؟"

جواب میں بابا بلھے شاہ نے فرمایا۔۔۔

"حضرت آپ نے ہی تو حکم دیا تھا کہ اللہ کے طریقے کے مطابق بانٹو۔ تو اللہ یونہی اپنی مخلوق میں تقسیم کرتا ہے۔ کسی کو سب کچھ دے دیتا ہے تو کسی کو تہی دست رکھتا ہے۔ جبکہ نبی پاک صہ کی نظر تو ہر امتی پر ہے اور ان کی فیاضی سب کے لیے یکساں ہے"

 

اس قصہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ اس دنیا میں کسی انسان کے پاس اتنا رزق ہے کہ اس سے سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ تو کوئی اتنا تہی داماں ہے کہ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلائے رہتا ہے۔۔۔ اللہ جو کہ خیر الرازقین ہے یقیناً اس میں اس کی کوئی بہتر حکمت ہے اور یہ وہی بہتر جانتا ہے کہ کسی کو چھپڑ پھاڑ کر کیوں دیا اور کسی کو محروم کیوں رکھا۔ البتہ یہ ضرور طے ہے کہ اس نے بحیثیت خالق جس کو جتنا دیا اس سے اتنے کا ہی سوال اور بازپرس کرے گا۔ گویا دوسرے الفاظ ہے جس انسان کے پاس جتنا رزق زیادہ ہے اتنا ہی اس کی زمہ داری بھی زیادہ ہے۔

 

اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے ہر انسان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی خیال رکھے۔ اسلام میں اس بات کی سختی سے تاکید کی گئی ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس پیٹ بھر کر کھانا موجود ہے تو اس بات کا خیال رکھے کہ کہیں اس کا پڑوسی بھوکا تو نہیں۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کوئی سائل تمہارے پاس چل کر آئے تو کبھی اسے خالی ہاتھ نا لوٹاؤ۔ مبادا تم سے تمہارا رزق چھین لیا جائے۔ کیونکہ کہ اللہ کی خاص مہربانی اور عنایت ہوتی ہے کہ جب کوئی شخص چل کر تمہارے پاس کسی کام کو آتا ہے۔ ایسے میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والا، دریا دلی اور فیاضی کا مظاہرہ کرنے والا شخص تو فلاح حاصل کر لیتا ہے جبکہ بخیل اور تنگ دل شخص اس نعمت سے محروم رہ جاتا ہے۔

 

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ کسی انسان کی فیاضی اور بخیلی کا تعلق اس کے پاس موجود رزق یعنی اس کے امیر کبیر ہونے سے نہیں بلکہ اس کی کشادہ دلی اور دریا دلی پر متصف طبیعت پر ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر کسی انسان کے پاس کروڑوں کی دولت ہونے کے باوجود وہ کسی محتاج کو ایک دھیلا بھی دینے سے قاصر ہوتا ہے۔ ایسے شخص کو کنجوس اور بخیل کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ جبکہ اس دنیا میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جن کے پاس اپنی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کے وسائل بھی نہیں ہوتے لیکن وہ کشادہ دلی کے باعث اپنے پاس آئے کسی سائل کو واپس نہیں موڑتے۔ ایسی نابغہ روزگار شخصیات کو دنیا دریا دل، فیاض اور سخی کے نام سے جانتی ہے۔

 

راقم الحروف کے والد محترم عبدالرزاق کھوہارا شہید کا تعلق بھی مؤخر الذکر یعنی دریا دل اور فیاض شخصیات میں شمار ہوتا ہے۔ ان کی دریا دلی اور سخاوت کے چرچے زبان زد عام ہیں۔ پوری برادری اور اہل علاقہ میں وہ ایک کھلے دل کے مالک سخی انسان کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اوائل زندگی سے ہی مالی تنگدستی اور مشکلات کا شکار ہونے کے باوجود انہوں اپنی مالی تنگی کو اپنی فیاضانہ طبیعت کے آڑے نہیں آنے دیا۔ پوری زندگی ہر کسی کی مدد و اعانت کے لیے ہمیشہ تیار و مستعد رہے۔ اپنا پیٹ کاٹ کر بھی دوسروں کی بھلائی کا سوچا۔

 

عبدالرزاق کھوہارا شہید ایک کھلے دل کے مالک تھے۔ اور اپنی فیاضانہ طبیعت کے باعث اکثر مسائل کا شکار بھی رہتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ کسی شخص کی مدد کرنے کے بعد خود تہی داماں ہو جاتے لیکن انہوں نے کبھی ماتھے پر سلوٹ نہیں ڈالی۔ بلکہ ہمیشہ اس بات کو اپنے لیے اعزاز سمجھا کہ وہ کسی کے کام آئے۔ ان کی دریا دلی اور فیاضانہ طبیعت سے مستفید ہونے والوں میں ان کے اہل و عیال، ہمسایے، عزیز و اقارب، میل ملاپ رکھنے والے احباب حتی کہ اہل علاقہ اور اجنبی لوگ بھی شامل تھے۔

 

ابتدائے زندگی سے ہی ان کے فیاضانہ سلوک کی مثال یوں لی جا سکتی ہے۔ کہ ان کی وفات کے بعد ایک روز ساہیوال کے معروف کالج کے پروفیسر صاحب میرے پاس تعزیت کے لیے تشریف لائے۔ رسمی کلام کے بعد کہنے لگے۔۔۔ 

"آج میں جو کچھ بھی ہوں تمہارے والد صاحب کی وجہ سے ہوں۔ مجھے بچپن سے ہی پڑھایا لکھایا۔ میرے والدین میرے تعلیمی اخراجات اٹھانے سے قاصر تھے اس لیے تمام اخراجات حتی کہ جیب خرچ بھی تمہارے والد صاحب مجھے دیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ میں اعلی تعلیم حاصل کر کے آج ایک باعزت عہدے اور مقام پر موجود ہوں۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں انہی کے طفیل ہوں"

 

میں نے عمر کے حساب سے اندازہ لگایا۔ جن دنوں والد صاحب اس ہستی کے اخراجات کا بوجھ اٹھا رہے تھے ان دنوں وہ خود غالباً میٹرک میں پڑھتے تھے۔ تنگی و عسرت کا یہ عالم تھا کہ ننگے پاؤں کئی کلومیٹر پیدل چل کر اسکول پڑھنے جایا کرتے تھے۔ تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ایک اور طالب علم کے اخراجات اٹھا لیتے۔ یقیناً وہ اپنا جیب خرچ بچا کر۔۔۔ اپنا پیٹ کاٹ کر۔۔۔ اپنی خوشیوں کی قربانی دے کر ایک اور انسان کی مدد کر رہے تھے۔ جس کی بعد میں تصدیق بھی ہوئی۔ اس سے بڑھ کر فیاضی اور دریا دلی کی مثال اور کیا ہو سکتی ہے؟

 

صرف ابتدائے عمر ہی نہیں بلکہ زندگی کی بقیہ منازل طے کرتے دوران بھی عبدالرزاق کھوہارا شہید کا یہ شیوہ رہا کہ وہ اچھے سے اچھا پہنتے۔۔۔ اچھا کھاتے۔۔۔ اور سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے اپنی اور اپنے خاندان کی تمام ضروریات و آسائشاتِ زندگی کو احسن طریقے سے پورا کرتے رہے۔ اس دوران انہوں نے کبھی بھی بخیلی اور تنگ دلی کا مظاہرہ نا کیا۔ وہ بے جا اصراف کو پسند نہیں کرتے تھے لیکن ہاتھ روک کر پیسہ خرچ کرنے کے قائل بھی نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بحیثیت اولاد ہمیں دنیا جہاں کی نعمتوں سے روشناس کروایا۔ پاکستان کا کوئی پھل ایسا نہیں ہو گا جس کا ذائقہ ہم نے نا چکھا ہو۔ ہر قسم کی بے موسمی سبزی کے ذائقے سے آشنا تھے۔

 

عبدالرزاق کھوہارا شہید اپنے در پر آنے والے سائل کو کبھی واپس نا موڑتے تھے۔ خاص طور پر پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھتے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ وہ کھانا کھا رہے ہوتے دفعتاً اڑوس پڑوس سے کوئی بچہ کھانا مانگنے آ جاتا تو اپنے سامنے سے پڑا ہوا اٹھا کر دے دیتے۔ خود بھوکے رہ لیتے لیکن خالی ہاتھ نا جانے دیتے۔

 

والد صاحب کی دریا دلی اور فیاضی کی عکاسی کرتی بے شمار مثالیں ہیں جنہیں ایک تحریر میں سمویا نہیں جا سکتا۔ مختصراً یہ دعا ہے کہ اللہ پاک ایسی عظیم مثالی اور فیاض ہستی کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ اپنے خصوصی فضل اور کرم کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنت کے باغوں کا امین بنائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فیاضانہ طبیعت کا مالک بنائے۔ آمین