خانہ بدوشوں کے دیس میں

2019-08-28 20:08:46 Written by عبدالودودعامر

تحریر: #عبدالودودعامر

 

یہ دوہزار دس کی بات ہے ان دنوں میٹرک کا امتحان دینے کے بعد فارغ تھے بلکہ تھیوری کے پیپر ہونے کے بعد پریکٹیکل کے عرصہ کے دوران سارا وقت کتب بینی میں گزرتا یہ وہ چیز تھی جس میں مذہب٫ تاریخ ٫افسانہ جاول٫شاعری ہر صنف کو بلا امتیاز پڑھنے کی کوشش کی یعنی جو ہاتھ لگا وہ پڑھ لیا گھر کی لائبریری مکمل ہوئی تو سکول کی لائبریری کا رخ بھی کیا اور پریکٹیکل ختم ہو جانے کے بعد میرے پاس کچھ بھی نہیں بچا ہوا تھا۔۔

میرے والد صاحب ان دنوں ایمز فاؤنڈیشن کے ایک پروجیکٹ کے انچارج تھے جس کے تحت جھگیوں والے بچوں کو سکول اور قرآن کی تعلیم دی جاتی تھی اب مجھے یہ دنیا دیکھنے کا شوق پیدا ہوا ۔میں نے ضد پکڑ لی کہ میں نے آپ کے پاس آنا ہے اور پھر انہوں نے بلوا لیا ۔۔ ایک دن شام کے وقت ان کے پاس جا پہنچا رات گزری تو صبح کی روشنی میں دیکھا کہ تاحد نگاہ جھگیاں پھیلی ہوئی تھیں ۔

پیرودھائی  منڈی موڑ سے پشاور موڑ کی طرف جائیں تو کیرج فیکٹری والا ٹول پلازہ (اب ختم ہوگیا) کراس کرنے کے بعد آگے ایک بڑا ٹیکنیکل کالج ہے

 CTTI 

 کے نام سے اس کے سامنے کچا سٹاپ ہے اور آگے سلیمان آباد اور ان کے بالکل سامنے یہ جھگی بستی تھی دو ہزار تیرہ تک یہاں ایک بڑی بستی تھی اب وہاں تاحد نگاہ کچرے کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں اور باہر سے گاڑی پہ گزرتے ہوئے بھی بے اختیار ناک بند کرنا اور سانس روکنا پڑتی ہے یہ الگ کہانی ہے آگے اس کا ذکر بھی آئے گا-

 

 خیر یہ جھگی بستی کم وبیش پانچ ہزار نفوس پہ مشتمل تھی اور اس چیز کا اندازہ دھیرے دھیرے وہاں رہنے کے بعد ہوا- 

 صبح ہوتے ہی وہاں جھگیوں والے بچوں کے لیے بنے ہوئے سکول کا نظارہ دیکھا- 

یہ ایک کنال کے لگ بھک کھلی جگہ کے ارد گرد کوئی تین فٹ کی چار دیواری بنا کر اس کے اوپر لوہے کا جنگلا بنا کر اوپر کپڑے سے ڈھکا ہوا سکول تھا-

 وہاں کوئی پندرہ بیس بچے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے بیٹھے ہوئے تھے کچھ دیر بعد ان کی اسمبلی شروع ہوئی ایک قاری صاحب جو کہ بیک وقت قاری بھی تھے اور سکول ٹیچر بھی انہوں نے اسمبلی کروائی ۔۔

 میں سمجھا کہ شاید ابھی مزید بچے بھی آئیں گے لیکن پورا دن گزر گیا بچے اتنے ہی رہے بلکہ ان میں سے بھی کچھ درمیانہ وقفے میں سکول سے نکل گئے -

 بارہ بجے تقریباً چھٹی ہوئی اور سارے بچے چلے گئے- 

 میں نے والد صاحب اور قاری صاحب سے پوچھنا شروع کردیا کہ یہ کیا صورتحال ہے 

 کیونکہ یہاں ہر فرد کے کم از کم سات آٹھ بچے ہوتے ہیں اور اس حساب سے سکول کی عمر کے بچوں کی تعداد اس بستی میں سات آٹھ سو تک ہونی چاہیے تھی جبکہ سکول میں ٹوٹل بیس سے پچیس بچے تھے- 

 تو صورتحال کچھ یوں بتائی کہ چونکہ یہ لوگ مانگنے والے ہیں اور اس لیے بھی ذیادہ بچے پیدا کرتے ہیں کہ جس کے بچے ذیادہ ہونگے اس کی آمدن ذیادہ ہوگی اور سکول میں اگر بچوں کو بھیجتے ہیں تو ظاہر ہے اس سے ان کی آمدن پہ فرق پڑتا ہے - 

 "تو کیا آپ لوگوں نے تعلیم کی اہمیت پہ ان لوگوں کو سمجھایا نہیں"؟ 

 میں نے سوال اٹھایا - 

 سمجھایا... لیکن یہ لوگ بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں- 

 میں نے پوچھا کہ فاؤنڈیشن اس کے علاوہ ان کے لیے کیا کچھ کر رہی ہے پتہ چلا کہ ان کو کپڑے اور راشن وغیرہ بھی کبھی کبھار مہیا کرتی ہے لیکن چونکہ پانی کا فقدان ہے اس لیے ایک بڑا ٹینکر پانی کا ہر ہفتے یہاں تقسیم کیا جاتا ہے اس مقصد کے لیے یہاں دو بڑی لوہے کی ٹینکیاں تھیں جن میں پانی ڈال دیا جاتا اور بستی کے لوگ حسب ضرورت وہاں سے پانی بھر کے لے جاتے- ان ٹینکی کے والو کے ساتھ تالا بھی لگتا تھا اور اس کی چابی ہمارے پاس ہوتی تھی تاکہ لوگ پانی ضائع نہ کریں اور جس کو جتنا ضروت ہو وہ لے جائے اور اس مقصد کے لیے صبح اور شام کے مقررہ اوقات تھے جن میں پانی تقسیم کیا جاتا تھا- 

 خیر اس ساری صورتحال میں مجھے ایک آئیڈیا سوجھا جس سے بستی کے بچے وافر تعداد میں سکول پڑھنے کے لیے آ سکتے تھے لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ یہ آئیڈیا ماننے میں میرے والد صاحب سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ۔۔

 خیر ایک دن موقع ملتے ہی میں نے اپنی تجویز ان کے زمانے رکھی جس کو سنتے ہی انہوں نے رد کر دیا-

میں نے بھی عارضی طور پر چپ سادھ لی-

 

اسی دوران میں باقاعدہ سکول جانے لگ گیا اور جو بچے میسر تھے ان کو پڑھانا شروع کردیا مگر کم تعداد پہ میں کڑھتا رہتا- 

اس عمر میں اکثر جذبے جوان ہوتے ہیں اور انسان جو ایک بار دماغ میں سوچ لے وہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور اگر کوئی منع کرے بھی تو کوئی نہ کوئی جگاڑ کر ہی لیتا ہے تو میں بھی موقع کے انتظار میں تھا اور یہ موقع مجھے کوئی ایک ڈیڑھ ہفتے بعد مل ہی گیا-

والد صاحب کو چند دنوں کے لیے گاؤں جانا پڑ گیا اور پیچھے موجود قاری صاحب کو قابو کرنا میرے لیے چنداں مشکل نہ تھا۔۔لہذا میں نے اپنا مشن شروع کردیا پہلے مرحلے پہ ہم نے جو چوکیدار رکھا ہوا ت

 

تھا اس سے ایک میٹنگ ارینج کی اور اس کو ڈھب پہ لے آئے ۔۔ 

اب اگلے روز جب پانی کھولا گیا تو میں وہاں جا کر کھڑا ہوگیا اور ساتھ میں چوکیدار کو کھڑا کرلیا - 

اب جو جو بندہ پانی کا برتن لے کر آتا میرا سوال ہوتا کہ بچے سکول آتے ہیں یا نہیں اگر کوئی جھوٹ بولتا تو پاس کھڑا چوکیدار مجھے بتا دیتا اور میں کہتا کہ کل سے بچے سکول آئیں ورنہ پانی نہیں ملے گا (درحقیقت یہ صرف دھمکی تھی ورنہ پانی بند کرنے کا کوئی پروگرام نہ تھا)

اسی طرح اس دن سب کو وارننگ دے دی اگلے دن سکول کھلا تو وہی تعداد تھی مجھے سخت مایوسی ہوئی اور غصہ بھی آیا اسی وقت پانی پہ جا پہنچا اور بند کروا دیا کہ ابھی بچوں کو بھیجو پڑھنے کے لیے ورنہ پانی نہیں ملے گا- لوگوں نے شور ڈالنا شروع کردیا مگر میں ڈٹ گیا اور کہا کہ جو کرنا ہے کر لو ایسے پانی نہیں ملے گا ۔۔ لوگ واپس چلے گئے شاید دل ہی دل میں گالیاں بھی دی ہوں کچھ دیر گزری تو ان کا ایک "بڑا" آگیا -

کہ جی آپ پانی کیوں نہیں دے رہے تب بٹھا کر اسے سمجھایا کہ ہمارا اصل مقصد ان بچوں کو پڑھانا ہے نا کہ آپ کو کھانا کپڑے اور پانی دینا اور یہ ساری چیزیں اس لیے مہیا کر رہے ہیں تاکہ آپ کے بچے پڑھیں-

 اگر بچے نہیں پڑھیں تو اس سب کو بھی بھول جائیں میں کل ہی این جی او سے بات کرکے یہ پانی کی ٹینکی وغیرہ یہاں سے اٹھوا دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یہ لوگ اپنے بچوں کو پڑھانا نہیں چاہتے لہذا آپ کسی اور جگہ کا رخ کریں- اس نے کافی زور لگایا لیکن میں ڈٹا رہا آخر وہ مان گیا اور اس نے وعدہ کیا کہ آج وہ سب کو خود قائل کرے گا اور کل سارے بچے سکول میں آئیں گے ۔۔ جب وہ اٹھنے لگا تو میں نے کہا کہ لوگوں کو بتا دو کہ آ کر اب پانی لے جائیں لیکن اگر کل بچے نہ آئے تو وہی ہوگا جو میں نے کہا ہے 

۔۔

یہ دوسرے دن کی بات ہے میں ابھی سکول نہیں پہنچا تھا لیکن سکول سے بہت ذیادہ شور کی آواز آ رہی تھی جلدی سے سکول پہنچا کہ شاید کوئی مسلہ ہو گیا ہو ۔۔

وہاں جا کر دیکھا تو سکول میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی اتنے ذیادہ بچے ۔۔۔

ننگ دھڑنگ بچے چہروں پہ بیزاری لیے ہوئے بیٹھے تھے اور کچھ تو ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے ۔۔

قاری صاحب بیچارے ایک کونے میں پریشان سے کھڑے سارا تماشا دیکھ رہے تھے میں سکول کے اندر چلا گیا اور ان سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے ۔

قاری صاحب ایک بار تو پھٹ پڑے کہ یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے سکون سے نوکری کررہے تھے تمہیں ہی بخار چڑھا تھا کہ بچے ذیادہ ہوں اب سنبھالو ان کو ۔۔

خیر سب سے پہلے تو دم دلاسا دے کر میں نے قاری صاحب کو سنبھالا اور اس کے بعد بچوں کو سنبھالنے کے مشن پہ لگ گیا-

 اب صورتحال یہ تھی یہ نارمل معاشرے کے بچے تو تھے نہیں کہ جن کو ایک آواز سے خاموش کروا دیا جاتا یہ مانگنے والے بچے تھے جو دن کو لوگوں کی جھڑکیں اور گالیاں سن سن کر اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ ان پہ کوئی بات اثر نہیں کرتی ان کو قابو کرنے کے لیے مجھے کچھ اور سوچنا تھا اور تب وہی حل میرے زہن میں آیا جو ہر جگہ آزمودہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

 

جاری ہے