خانہ بدوشوں کے دیس میں

2019-09-05 16:43:52 Written by عبدالودودعامر

خانہ بدوشوں کے دیس میں
 

جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ یہ ایک بڑی بستی تھی اور رفتہ رفتہ پتا چلا کہ یہاں مختلف قومیں ہیں-
 اگرچہ ہمیں باہر سے سب ایسے ہی لگتے تھے اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو بھکاری نہیں بلکہ محنت مزدوری کرتے تھے اور کچھ ایسے بھی تھے جو بھکاری نہیں تھے لیکن محنت مزدوری بھی نہیں کرتے تھے لیکن  جو کرتے تھے وہ بعد میں پتا چلا- 
بستی میں داخل ہوتے وقت شروع میں کچھ جھونپڑ بنے ہوئے تھے یہ باہر سے بظاہر جھونپڑ تھے مگر ان کے اندر کی سیٹنگ کسی اچھے ہوٹلز جیسی تھی- 
یہ جو بیس پچیس گھر تھے ان کا ایک سربراہ بھی تھا جس کو نمبردار کہا کرتے تھے- 
یہ ایک بڑی بڑی مونچھوں والا قوی ہیکل بوڑھا تھا جو سارا دن اپنی جھونپڑی کے باہر بیٹھا حقہ گڑگڑاتا رہتا سر شام ہی یہاں گاڑیوں کی لائنیں لگ جاتی- 
پولیس آفیسرز سے لے کر ویگو گاڑیاں تک یہاں کھڑی ہوتیں- 
پہلے تو میں سمجھا کہ یہ بندہ شاید یہاں کوئی مشہور نشہ وغیرہ مہیا کرتا ہے اس لیے پولیس والے اس سے اپنا حصہ لینے آتے ہیں لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ نشہ مہیا تو کرتا تھا مگر ہیروئین چرس والا نہیں بلکہ جنس کا نشہ۔۔
یہ بندہ اپنے تئیں خود کو بڑا بدمعاش سمجھتا تھا اور یہاں سکول کھولنے کا سب سے بڑا مخالف یہی تھا آئے روز اس کا کوئی نہ کوئی پھڈا یہاں چل رہا ہوتا تھا- خیر جن لوگوں نے سکول کھولا تھا وہ بھی کوئی اتنے ترنوالہ نہیں تھے کہ ایک جھگی بستی میں بیٹھا ہوا دلال ان کو شکست دے دیتا- 
لیکن یہ اکثر پنگا لیتا رہتا تھا اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ یاد آ گیا کہ ان دنوں میں نے اصغر مال کالج میں داخلہ لے لیا تھا ایک دن کالج سے جلدی واپس آ گیا جیسے سکول کے قریب پہنچا تو شور شرابے کی آواز آئی- نزدیک آنے پر عجب صورتحال دیکھنے کو ملی اسی نمبردار کی  دو  لڑکیاں (بظاہر اس کی بیٹیاں )
وہاں پانی کے برتن اٹھائے کھڑی جھگڑا کر رہی ہیں اور قاری صاحب آستینیں چڑھائے ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں- لیکن قاری صاحب کا کہاں ان سے مقابلہ تو صورتحال یہ تھی کہ سارے بچے سکول کی دیواروں سے کھڑے تماشا دیکھ کر ہنس رہے تھے اور قاری صاحب لال بھبوکا چہرے کے ساتھ جھگڑ رہے تھے اور وہ لڑکیاں قاری صاحب کو مسلسل غصہ دلا رہی تھیں-
میں نے  جا کر ساری صورتحال پوچھی تو پتہ چلا کہ جو پانی آتا ہے اس کا کچھ حصہ سکول کے پڑھنے والے بچوں کے لیے مختص کر دیا جاتا ہے اور وہاں جو قاری صاحب وغیرہ رہتے ہیں وہ اپنے وضو کے لیے بھی رکھتے ہیں اب بقایا پانی ختم ہوگیا تھا اور یہ لڑکیاں وہی پانی مانگ رہی تھیں قاری صاحب کے انکار پہ بات بڑھ گئی ۔۔
خیر میں نے قاری صاحب کو ٹھنڈا کیا اور بچوں کو ڈانٹ کر سکول میں بٹھایا-
 اس کے بعد ان خواتین کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا کہ مسئلہ کیا ہے انہوں نے کہا کہ ان کے گھر میں پانی ختم ہوگیا ہے اور یہ موا مولبی ان کو پانی نہیں دے رہا ہے- 
ان کو ساری صورتحال بتائی لیکن وہ ماننے کو تیار نہیں تھیں بمشکل ان کو ٹالا کہ شام کو پانی لے جانا میں قاری صاحب سے لے دوں گا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ شام تک پانی کا ٹینکر آجائے گا-
ان کو ٹال کر اندر واپس گیا تو قاری صاحب متحیر لہجے میں بولے کہ ان کو کیسے بھیجا واپس میں تو ایک گھنٹہ سے لڑ رہا ہوں یہ ڈھیٹ عورتیں (اصل لفظ کچھ استعمال کیا تھا انہوں نے )
مان ہی نہیں رہی تھیں-
میں ہنسا اور کہا آپ کا مسئلہ یہی ہے کہ آپ ان کو عام خواتین سمجھ رہے تھے لیکن یہ آپ کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیتیں میں نے ان کو نرمی سے قائل کیا ان کی ہر تلخ اور تندو تیز بات کو سنتا رہا جب یہ اپنی بات پوری کرچکیں تو ان کو آرام سے سمجھایا کہ شام کو پانی لے جانا بس اتنا سا مسئلہ تھا-
تھوڑی دیر گزری تو وہی نمبردار آن پہنچا اب کی بار میں خود اس سے ملا وہ جھگڑا کرنے کی نیت سے ہی آیا تھا میں نے پوچھا کہ معاملہ کیا ہے- اس نے آگے سے وہی بدتمیزی شروع کردی خیر یہاں مجھے نرمی دکھانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اسے میں نے ڈائریکٹ کہا کہ دفع ہو جائے کوئی پانی نہیں ملے گا اور جو کرنا ہے کر لے-
 جب اس نے یہ تیور دیکھے تو فوراً نرم پڑگیا کیونکہ سکول کھولنے والوں سے پہلے بھی پنگا لے کر ان کی اپرووچ وہ دیکھ چکا تھا جانتا تھا کہ یہ چنے اس سے چبائے نہیں جائیں گے-
 اب اس نے دیکھا کہ یہ لڑکا سیدھا سیدھا جواب دے رہا ہے تو فورا اس نے پالیسی بدلی اور میرے گھٹنوں کو چھونے لگ گیا کہ استاد جی مہربانی کرو ہمارے بچے پیاسے 
ہیں-میں نے دیکھا کہ اب وہ لائن پہ آ گیا ہے تو اسے بھی کہا کہ ڈھائی تین بجے تک پانی لینے آجانا ۔۔
بعد ازاں غالباً کسی ایشو پہ مظاہرے شروع ہوئے تو یہ لوگ جھگیوں سے نکل کر توڑ پھوڑ کرنے لگے- 
 اپنے گروپ کے ساتھ اسی نمبردار نے ٹول پلازہ پہ حملہ کیا اور سی سی ٹی وی کیمرہ کے سامنے دھوتی اٹھا اٹھا کر اس نے للکارے مارے- 
پھر ایک دن پتہ چلا کہ اسے پولیس اٹھا کے لے گئی ہے کچھ دن بعد وہ واپس آیا تو کچھ دن کے لیے صحیح طریقے سے بیٹھ نہیں پاتا تھا-

جاری ہے۔۔۔۔۔۔