خانہ بدوشوں کے دیس میں

2019-09-12 11:32:13 Written by عبدالودودعامر

خانہ بدوشوں کے دیس میں
قسط نمبر 4

عبدالودودعامر

اس سے یہ اندازہ ہوا کہ جب بھی ملک میں اس طرح کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو یہ توڑ پھوڑ کرنے والے کہاں سے آتے ہیں-  اس حوالے سے مزید میں نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ سوشل سکیورٹی ہسپتال کے سامنے جو پرانا ٹول پلازہ ہے وہ بھی ان جھگی بستی کے ان جرائم پیشہ افراد نے توڑا تھا جب محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی شہادت کے بعد ملک میں افراتفری کے حالات پیدا ہوئے تھے-
 یہ لوگ ان حالات کا فائدہ اٹھاتے تھے اور باہر نکل کر توڑ پھوڑ اور لوٹ مار شروع کر دیتے تھے- پولیس کے ساتھ ویسے بھی ان کا مک مکا چلتا رہتا تھا ظاہر ہے کہ جس بندے کی جھگی کے سامنے سرشام ہی پولیس کی  گاڑیاں کھڑی ہوں اور وہ ان کو عیاشی کے سارے مواقع فراہم کرے وقت آنے پہ پولیس نے اس کو بچانا تو تھا ہی نا-
اس کے علاوہ ان کے نوجوان مختلف قسم کے نشوں کی عادی تھی ہیروئن سے لیکر گانجا اور چرس تک  بکتی  تھی- اور یہ لوگ خود بھی نشئی تھے بھنگ تو خیر یہ پانی کے طور پہ استعمال کرتے تھے- سر شام ہی ان کے لڑکے باہر سڑک پہ گھات لگا کر بیٹھ جاتے تھے اور جو اکا دکا شکار اکیلا آدمی ان کے ہاتھ لگتا اس کو لوٹ لیتے تھے- 
یہ عجیب مذاق بلکہ المیہ تھا کہ دارلحکومت کے مین روڈ پہ یہ کاروائیاں ہوتی تھیں اور کچھ ہی گز کے فاصلے پہ اندر پولیس کے افسران داد عیش دینے میں مصروف ہوتے تھے-
 ان لوگوں کی جھگیوں سے تھوڑا سا اندر کی جانب چالیس پچاس جھگیاں اور تھیں یاد رہے کہ یہ فی الحال ایک سائیڈ کا تعارف ہے ابھی آدھی بستی رہتی ہے 

۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے اکثر دیکھا ہوگا بلکہ واسطہ بھی پڑا ہوگا کہ آپ راستے میں کہیں جا رہے ہیں دو خواتین آپ کو ملتی ہیں باقاعدہ برقعے میں ہوتی ہیں ایک نوجوان اور ایک ادھیڑ عمر وہ آپ کو روک کر رونا روتی ہیں کہ انہوں نے فلاں جگہ جانا تھا لیکن ان کے پیسے گم ہو گئے ہیں او وہ اپنی بچی کے ہمراہ بے یار و مددگار یہاں کھڑی ہیں اور وہ سو پچاس روپے کرایہ مانگیں گی آپ سے 
اور اکثر لوگ ترس کھا کر ان کو دے دیتے ہیں یہ بھی فراڈ ہے یہ پروفیشنل ہوتی ہیں اور ان کا کام ہی یہی ہے تو جو پہلے زکر کیا کہ پچاس ساٹھ جھگیاں تھیں وہ یہی لوگ تھے - 

یہ لوگ نسبتاً صاف رنگت کے ہوتے ہیں کسی حد تک خوبصورت بھی کہا جاسکتا ہے ان کی خواتین روزانہ کی بنیاد پہ صبح برقعے پہن کر نکل جاتیں اور شام گئے واپس آتیں اور یہ صرف مانگنے کا کام ہی نہیں کرتی تھیں ظاہر ہے کہ ہر فرد اتنا خدا ترس نہیں ہوتا کہ فری میں کرایہ دے دے بلکہ کچھ پانی گاڑی میں لفٹ بھی دیتے ہیں اور گاڑی پھر  سودے بازی اور لین دین ہونے کے بعد ہی رکتی ہے اور ان خواتین کو اتنا ڈر ہوتا بھی نہیں کیونکہ ان کے مرد جہاں یہ مانگ رہی ہوتی ہیں کچھ دور کھڑے ان کی نگرانی کررہے ہوتے ہیں اور باقاعدہ ان کا تعاقب کرتے ہیں-
 
ان کو پہچاننا مشکل ہوتا ہے کیونکہ عام طور پہ یہ بڑی بہترین شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اور لباس اور تراش خراش میں کہیں سے بھی جھگیوں والے نہیں لگتے 
اور ان کے لڑکے بالے شام کے وقت ٹریفک سگنلز وغیرہ پہ اکثر پھولوں کے گجرے بیچتے پائے جاتے ہیں- 
یہ لوگ بھی کافی مالدار ہوتے ہیں بلکہ وہاں اسی جھگی بستی میں ایک بندے کو خود میں نے دیکھا کہ اس نے ٹیکسی رکھی ہوئی تھی وہ اکثر کہتا کہ وہ محنت مزدوری کرتا ہے اور مانگنے والوں سے سخت نفرت کا اظہار کرتا اس کی بات چیت سے کہیں بھی نہ لگتا کہ وہ ان پڑھ ہے لیکن کچھ عرصہ بعد پتہ چلا اور حیرت ہوئی کہ اس کی پھولوں کی تین دکانیں ہیں اسلام آباد میں ہیں-
 اس کے علاوہ اس کی تین چار ٹیکسیاں چل رہی ہیں اس کے باوجود وہ جھگی میں رہتا تھا اور جہاں تک مانگنے کی بات ہے تو اس کی بیٹی کو پشاور موڑ میں نے خود دیکھا کہ مانگ رہی تھی مجھ پہ نظر پڑتے ہی رفو چکر ہو گئی اسی طرح خیابان سر سید میں اس کی بیوی کو ایک بار مانگتے ہوئے دیکھا ۔۔۔اس نے اپنے بیٹے اور بیٹی کی شادی کروائی تو وہ بھی دیکھنے کے لائق تھی پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا ایک ماہ تک مسلسل ان کا ہلہ گلہ چلتا رہا ۔۔
جیسا کہ پہلے کہا گیا یہ ایک بڑی بستی تھی اور جس کا میں ذکر کر رہا ہوں یہ ایک سائیڈ ہے ان لوگوں کا تعلق فیصل آباد ٫ ملتان وغیرہ سے تھا اور یہ اپنے بچوں کو پڑھنے بھی نہیں بھیجتے تھے ان کا سارا سسٹم پراسرار سا تھا اور یہ باقی جھگیوں والوں سے الگ تھلگ بھی تھے ۔
یہ سب جھگیاں یہاں سی ڈی اے کے ایک فرد کے تعاون سے چل رہی تھیں جو کہ ایک ہٹا کٹا پٹھان تھا اور وہ اس سرکاری زمین سے ماہانہ لاکھوں کما رہا تھا کیونکہ کوئی بھی نئی جھگی لگانے سے پہلے وہ ان سے بھتہ وصول کرتا جو ایک ہزار سے لیکر پانچ ہزار کے درمیان ہوتا اس کے علاوہ وہ ہر جھگی والے سے ماہانہ پانچ سو ہزار کے درمیان کرایہ وصول کرتا-

دیگر "عیاشیاں" اس کے علاوہ تھیں بعد ازاں اس نے اس قیمتی زمین کو کچرے والوں کے حوالے کر دیا اب صورتحال یہ ہے وہاں باہر سے گاڑی گزرے وقت سانس روکنا پڑتی ہے اسلام آباد کے رہائشیوں کو یہ معلوم ہو گا-

خیر ان جھگیوں کے آخر میں ہمارا سکول تھا اور اس کے ساتھ چند شلٹر بنے ہوئے تھے جن میں سکول سے متعلق سٹاف وغیرہ کی رہائش اور گودام وغیرہ تھے-
 سکول کے بائیں ہاتھ پہ جھگیوں کا ایک اور طویل سلسلہ تھا جن کے بارے میں ان شاءاللہ اگلی قسط میں ذکر ہو گا_____
جاری ہے ۔۔۔