خانہ بدوشوں کے دیس میں

2019-09-25 16:15:26 Written by عبدالودودعامر

خانہ بدوشوں کے دیس میں
قسط نمبر 5
#عبدالودودعامر 

جیسا کہ پچھلی قسط میں ذکر کیا تھا کہ ابھی آدھی بستی کا ذکر باقی ہے یہ سکول کے بائیں جانب جھگیوں کا ایک طویل سلسلہ تھا جو مین روڈ تک پھیلا ہوا تھا- 
یہ لوگ مور کہلواتے تھے اور رحیم یار خان٫ علی پور٫ صادق آباد اور سندھ کے لوگ بھی شامل تھے-
 ذیادہ تر کی زبان سندھی، سرائیکی تھی- 
یہ لوگ پروفیشنل بھکاری تھے لیکن جسم فروشی والا دھندہ ان میں نہیں تھا۔
جیسا کہ پہلے سینما اور سنوکر وغیرہ کا ذکر ہوا تو وہ ذیادہ ان میں ہی تھا ان کی بستی میں تین چار سینما جھونپڑیاں بنی ہوئی  تھیں جہاں رات گئے تک شو چلتے اور دن کو یہ لوگ سنوکر کھیلتے - 
ان کے ذیادہ تر مرد منہ اندھیرے ٹوکرے اٹھا کر سبزی منڈی نکل جاتے اور وہاں یہ لوگ سبزی اور فروٹس اٹھا کر گاڑیوں میں لوڈ کرتے اور تین چار گھنٹے میں پانچ سو ہزار کی مزدوری کرکے اور فروٹ وغیرہ پار کرکے لے آتے- 
مردوں کا پہناوا ذیادہ تر کرتا اور تہبند ہوتا تھا شلوار یہ نہیں پہنتے تھے لیکن سبزی منڈی میں کچھ واقعات ایسے ہوئے کہ ان کو مجبوراً شلوار پہننا پڑی ۔۔
سبزی منڈی موڑ کے ساتھ ہی ایک پٹھانوں کی کچی بستی تھی یہ افغانی پٹھان تھے اور فطری طور یہ لوگ محنت کش ہوتے ہیں دلیر ہوتے ہیں اور طاقتور بھی تو سبزی منڈی میں ان کی طاقت کا پلڑا بھاری تھا-
 اب پٹھانوں کو ایک تفریح ہاتھ  آ گئی تھی جیسے ہی یہ لوگ منڈی پہنچتے پٹھانوں کے لڑکے بالے گھات لگا کر بیٹھ جاتے- 
اب کوئی تہبند باندھے بندہ نظر آتا تو اس کا تعاقب شروع ہوجاتا ۔۔۔
جیسے ہی وہ وزن سے بھرا ٹوکرا اٹھاتا اور دونوں ہاتھوں سے سر پہ اٹھا کر روانہ ہوتا یہ لوگ چپکے سے نکلتے اور اس کی دھوتی اٹھا کر اوپر اس کی کمر سے باندھ دیتے 
اب وہ بندہ نہ تو ہاتھ نیچے لے جا سکتا اور نہ ہی ٹوکرا نیچے اتار سکتا ۔۔۔
اور جتنی دیر میں سنبھلتا یہ لڑکے بالے وہاں سے رفو چکر ہوجاتے اور پوری سبزی منڈی کے قہقہے گونج رہے ہوتے ۔
آہستہ آہستہ انہوں نے تنگ آکر شلوار پہننا شروع کردی جو صرف سبزی منڈی کی حد تک ہوتی واپس آکر یہ اسے اتار کر پھر سے اپنے روایتی جامے میں آ جاتے ۔
اسی طرح یہ جھگیوں والے روزے نہیں رکھتے تھے لیکن منڈی میں پٹھان لوگوں کا روزہ ہوتا تھا جب یہ لوگ وہاں کچھ کھاتے پیتے تو افغانی ان کو مارنا شروع کر دیتے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان لوگوں نے وہاں کھانا پینا بند کردیا۔۔
بہرحال یہ لوگ اپنی مزدوری کرکے فجر کی نماز تک واپس اپنی جھگیوں میں آ جاتے اور اس کے بعد یہ "بوٹی" تیار کرتے۔۔۔
اس کو تیار کرنے کا جو طریقہ تھا وہ بھی بڑا ہی ماہرانہ تھا۔۔
یہ لوگ بھنگ کاٹتے اور اسے خشک کرکے اس کی پتیاں الگ کر لیتے اور ان پتیوں کو ذخیرہ  کر لیتے-
بعد ازاں یہ جب بوٹی تیار کرتے تو اس میں کالی مرچ ٫ بادام ٫خشخاش اور چند اور چیزیں ڈال کر ان کو پیستے اور پھر اس میں پانی ملا لیتے اور اس طرح ان کا مشروب تیار ہو جاتا-
 
یہ سارا کام یہ آٹھ دس بندوں کا گروپ بنا کر کرتے تھے جب یہ مشروب تیار ہوجاتا تو بلند آہنگ "یاعلی" یا پھر اسی ٹائپ کے دوچار نعرے لگتے اور مشروب غٹا غٹ چڑھا کر یہ لوگ سو جاتے پھر پورا دن بےسدھ ہوکر سوئے رہتے اس مشروب کی خاصیت تھی کہ یہ گرمی کو زائل کردیتا ہے یہی وجہ ہے کہ تپتی دھوپ میں جھگی کے اندر یہ لوگ بے فکری سے پورا دن سوئے رہتے اور گرمی کا نام و نشان تک نہ ملتا۔
جب جاگ جاتے تو تاش کھیلتے ٫سنوکر کھیلتے٫ یا پھر اجتماعی رقص ہوتا یہ بڑا بے ہنگم سا ہوتا تھا-
 جس میں جو گانا گایا جاتا وہ شاہد سندھی زبان کا ہوتا اور باقی ان کے نوجوان لڑکے اور مرد اس پہ اچھل کود کر رہے ہوتے اور باقی لوگ دائرے میں کھڑے ہو کر تماشا دیکھتے اور اگر کسی کو جوش آتا تو وہ بھی رقص میں شامل ہوجاتا ۔محرم میں یہ لوگ ماتم کرنے کے لیے کرایے پہ دستیاب ہوتے فی بندہ پانچ سو روپے دیہاڑی پہ با آسانی دستیاب ہوتا تھا ماتم کے لیے یہ لوگ چھوٹے چھوٹے چاقو استعمال کیا کرتے تھے جن سے ہلکے پھلکے زخم ہوتے اور خون رسنا شروع ہوجاتا لیکن بڑا زخم نہ ہوتا بھنگ کے نشے میں ان کا دیوانہ وار ماتم قابل دید ہوتا تھا بعض اوقات یہ واپس بستی میں آ کر بھی ایک کھلے میدان میں کھڑے ہو کر ماتم کرتے تھے اور ان کی جنونیت وہاں  میں نے کئی بار دیکھی-
  
اس کے علاؤہ جیسے پہلے بھی کہا گیا کہ یہ لوگ کرائے پہ مختلف جرائم میں استعمال ہونے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوتے تھے کہیں توڑ پھوڑ کروانی ہے جلسوں میں نعرے لگوانے ہوں یا حاضری بڑھانی ہو یہ تھوک کے حساب سے دستیاب ہوتے تھے-
 علاؤہ ازیں یہ خود بھی ان موقعوں کی تلاش میں رہتے تھے اور جہاں کہیں موقع ملا یہ اپنی کاروائی کر گزرتے تھے کیونکہ ان میں سے ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی تھی جو سندھ کے دوردراز علاقوں میں مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب تھے ان میں سندھ کے نامی گرامی ڈاکو بھی ہوتے تھے اور ان ڈاکوؤں کے گماشتے بھی جو فرار ہوکر یہاں چلے آتے تھے-
 اب جھگیوں میں کسی کو کیا پتہ کہ فلاں شخص جو ہر وقت مسکین سا بنا رہتا ہے وہ کئی لوگوں کا قاتل یا لوٹ مار کی ورادتوں میں قانون کو مطلوب ہے ۔
البتہ جو لوگ مفرور ہوکر یہاں رہنے آتے تھے وہ بہت کم عرصہ ایک جگہ ٹکتے تھے کیونکہ عادت سے مجبور ہوکر وہ یہاں بھی کوئی نہ کوئی کاروائی ڈالتے اور پھر آگے بھاگ جاتے ۔۔
یہ نچلی سطح کے جرائم پیشہ لوگ ہوتے تھے بڑا ڈاکو ایک بار ہی وہاں آیا تھا اور وہ مسجد میں پانچ وقت کی نماز پڑھنے آتا ماتھے پہ اس کے محراب کا نشان موجود تھا- خوبصورت ترشی ہوئی داڑھی جس میں ہلکی ہلکی سفیدی تھی وہ موجود تھی-
نماز میں کھڑا ہوتا تو عاجزی اس کے اندر عود کر آتی ملنے میں انتہائی ملنسار تھا میں بہت متاثر ہوا اور ایک بار وہاں کے چوکیدار کو کہہ بیٹھا کہ "تم سب بگڑے لوگوں میں ایک یہی مومن ہے" تب چوکیدار نے کہا کہ یہ سندھ کا سابقہ ڈاکو ہے اور پولیس کو درجنوں مقدمات میں مطلوب بھی ہے-  اس کا کہنا ہے کہ اس نے ڈکیتیاں چھوڑ دی ہیں اور اب توبہ تائب ہو گیا ہے اور اس کی عبادات کو دیکھ لگتا بھی ایسا ہی تھا 
پھر ایک دن وہ اچانک غائب ہو گیا ۔۔۔۔
(جاری ہے)