ماضی سے حال تک

2019-10-07 13:05:40 Written by شبیر علوی

ایک دوست سے بائیسکل مانگ کر ابامیاں شام کو ہی گھر لے آئے اور طے پایا کہ صبح سویرے بوقتِ نمازِ فجر روانگی ہے ۔۔ 
منہ اندھیرے ہی ہمیں 
نیند سے جگادیاگیا 
جبکہ ہم غنودگی کے
عالم میں تھے
بائیسکل کے اگلے راڈ پہ موٹا کپڑا لپیٹ کر دونوں طرف پاؤں پھیلاکر بٹھا دیا گیا اور ساتھ میں نصیحت کی گئی کہ اپنا پاؤں پہیے سے بچاکر رکھنا امی کو پچھلی سیٹ پہ بٹھا کر ابا جی نے ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھ کر پاؤں سے پیڈل کو زور دیتے ہوئے ساتھ میں بسم اللہ پڑھتے ہوئے بائیسکل 
چلانا شروع کردی ۔۔ ۔۔۔۔۔
صبح سویرے کی ٹھنڈی گیت گنگناتی تازہ ہوا سے جھولتی لہلہاتی درختوں کی شاخیں چہچہاتے چھوٹے چھوٹے پرندوں کی آوزیں کہیں دور ابھرتے سورج کی ہلکی ہلکی لالی سے یقیناََ ہم لطف اندوز ہوتے اگر پاؤں تھکنے کےساتھ ساتھ نیندکے جھٹکوں کے سبب ابا میاں کی ہلکی سی چماٹ اور صحیح ہوکر بیٹھ پہیے میں پاؤں نا دینے کی نصیحت کی اذیت نا ہوتی۔۔۔ ۔۔ 
ابھی سورج مکمل طور پہ نہیں ابھراتھا کہ ہم پگڈنڈی اور کچی سڑک کے راستے سے ہوتے ہوئے ایک بڑی پکی سڑک کنارے پہنچ گئے 
وہاں بنے ایک ڈھابے سے ہمیں ابامیاں نے چائے پلائی بسکٹ لےکر دیے 
ہم بہت خوش ہوئے ۔۔ 
ہماری امی ابھی چائے پی رہی تھیں کہ لاری آگئی لاری آگئی کی گردان شروع ہوگئی اتنے میں لاری آ پہنچی اور ہم اس میں سوار ہوگئے 
بائیسکل لاری کی چھت پہ رکھوا کر ابا بھی ہمارے ساتھ آ کر بیٹھ گئے ۔۔ 
تھکان بھری نیند کا غلبہ ہی تھا جس کے سبب ہم کسی بھی دیگر منظر کو بیاں کرنے سے قاصر ہیں ۔۔ ۔۔ 
ایک دم ہماری آنکھ تب کھلی جب ہماری امی ہمیں ایک بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑ رہی تھیں کہ جاگو ہم اترنے لگے ہیں ۔۔۔ 
لاری سے اترتے وقت ہماری حالت ایسی تھی جیسے کبھی ہم نے اپنے گاؤں کے بابے سبحان کے بڑے بیٹے کو دیکھا تھا جس کے متعلق مشہور تھا کہ پاؤڈر پیندا اے ۔۔۔۔۔۔۔۔ 
لاری سے اتر کر ہماری امی ہمیں ساتھ لےکر ایک طرف کھڑی ہوگئیں ۔۔۔ 
مکمل طلوعِ افتاب کے سبب روشنی بڑھ چکی تھی شور غل غپاڑہ بھی عروج پہ تھا 
تانگے والے اپنااپنا تانگہ لے کر ہماری طرف یوں بڑھ رہے تھے جیسے کہ ہم کوئی سونے کی چڑیاہوں یا پھر ان کے 
گھوڑوں کی خوراک ۔۔۔۔ 
کہاں جانا آجاو جی ایک تو ان کی بےہنگم آوازیں دوسرا جگالی کرتے منہ سے جھاگ نکالتے گھوڑوں سے ویسے ہی خوفزدہ تھے 
اور ڈر
کےمارے اپنی ماں 
کی
ٹانگوں سے لپٹ گئے ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ 
اتنے میں لاری سے بائیسکل اتروا کر ابا آگئے گوکہ اب جگالی کرتے گھوڑوں کا خوف جاچکاتھا لیکن بائیسکل 
کی اگلی سیٹ والی اذیت ہماری منتظر تھی ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ 
اب کی بار تھوڑا سا فاصلہ ہی طے ہوا تھا کہ ایک بڑے سے سبز رنگ کے گنبد اور اس کے گرد کھلے میدان جہاں کئی برگد اور شیشم کے درخت لگے ہوئے تھے کے عین قریب ایک بڑے سے برآمدے کے پاس ابا نے بائیسکل روک کر 
ہمیں اتارا بائیسکل ایک
طرف کہیں محفوظ جگہ رکھ کر وہاں موجود ایک سفید داڑھی والے 
بابا جی جنہوں نے سر پہ زرد رنگ کی پگڑی باندھ رکھی تھی سے کچھ بات کی تو انہوں نے ہمیں ایک دوسرے برآمدے کی طرف اشارہ کرکے وہاں بھجوا دیا ساتھ میں کہا کہ وہاں بیٹھتے ہیں بڑے سرکار ۔۔۔ 
سبز و زرد رنگ کی پگڑیاں ہی پگڑیاں یہاں نظر آئیں 
یوں لگتا تھا جیسے سبھی ایک ہی خاندان سے ہوں ۔۔ 
وہاں برآمدے کے اندر سے ہوتے ہوئے ہم ایک بڑے سے ہال نما کمرے میں پہنچ گئے جہاں ایک خوبصورت پلنگ پڑا تھا جس کے چاروں اطراف گلاب و چنبیلی کے تازہ پھولوں بنی لڑیاں لٹک رہی تھیں اور پلنگ کے اردگرد صفیں بچھی ہوئی تھیں جن پہ الگ الگ حصوں میں مرد و خواتین بیٹھے تھے امی خواتین والے حصہ میں جاکر صف پہ بیٹھ گئیں اور ہم ابا کے ساتھ ۔۔۔ 
پھر کبھی امی کی طرف جاتے تو کبھی ابا کی طرف 
آخر ہمیں وہاں ابا نے دبوچ کر ایک جگہ ٹک کر بیٹھنے کی تلقین کی ۔۔۔ 
اسی اثناء میں جسم پہ سفید سوٹ گوری رنگت والے چہرے پہ لال رنگ کی درمیانی سی داڑھی سر پہ سبز رنگ کی دستار گلے میں زرد رنگ کا بڑا سا کپڑا اور ہاتھ میں ہلکے آسمانی رنگ کے چھوٹے چھوٹے منکوں والی تسبیح لیے بڑے سرکار جن کے پیچھے پیچھے دوعددخدمت گزار جن میں ایک نے حقہ تو دوسرے نے ہاتھ والا پنکھا اٹھا رکھاتھا
نمودار ہوئے تو سب لوگ احتراماً کھڑے ہوگئے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے
بڑےسرکار پلنگ پہ آکر تشریف فرما ہوئے تو سبھی لوگ قطاردرقطار پیر صاحب سے مصافہ کرتے اور ان کے انگوٹھی 
پہنے ہاتھ کا بوسہ لیتے رش زیادہ نا ہونے کے سبب جلد ہی سلام کا یہ دور ختم ہوا تو پیر صاحب نے اپنے خدمت گار کی طرف دیکھا تو وہ حقہ لیے حاضرِ خدمت ہوا پلنگ کی ایک طرف حقہ رکھ دیاگیا ۔۔۔۔
اب لوگ ایک ایک کرکے پیرصاحب کے قریب آتے اپنے مسائل بیان کرتے وہ انہیں اپنے قریب پڑے تعویزوں والے بیگ سے تعویذ دیتے اور وہ کچھ نقدی رقم ان کے پیروں میں رکھ کر پہلے کی طرح الوداعی سلام کرتے اور الٹے قدم واپس ہولیتے 
کچھ وقت بعد ہمارے ابا بھی ہمیں ساتھ لےکر انکے پاس ہوگئے اور ہمارے متعلق سب کچھ بیاں کردیا 
یوں ہماری شکائیت لگانا ہمیں ناگوار گزررہاتھا 
پیرصاحب کی طرف دیکھتے ہوئے ہمیں برےبرے خیالات آرہے تھے کہ کہیں عینک والاجن والے ہامون جادوگر کی طرح ہمیں کچھ کر ہی نا دیں ۔۔۔۔۔ 
لیکن ہمارا خوف اس وقت اڑن چھو ہوگیا جب پیرصاحب ہمارے والد کی روداد سن کر ہماری طرف متوجہ ہوکر مسکرائے اور پیار سے ہماری کمر تھپتھپائی اور نہائیت شگفتہ لہجے میں بولے 
ہمیں تو آپ بہت سمجھ دار زہین سیانے لگ رہے ہیں اور ہم یہ کیا سن رہے ہیں ؟؟ 
پیرصاحب کے یوں پیار سے تھپتھپانے اور مشفقانہ انداز میں سیانا کہنے پہ ہمیں اپنی عزت محسوس ہوئی اور بغیر کچھ بولے محض ان کی نگاہوں سے اپنی نگاہیں ملائے دیکھے جارہے تھے 
جیسے ہم کہہ رہے ہوں کہ ہم شرمندہ ہیں 
زرا دیکھو تو آنکھیں کتنی پیاری ہیں ایک جہان ہے اس کی آنکھوں میں بہت باصلاحیت بیٹا ہے آپ کا 
یہ بات پیرصاحب نے ہمارے ابا کی طرف متوجہ ہوکر کہی تو وہاں موجود سبھی سائل یک زبان بولے ماشاءاللہ ماشاءاللہ ۔۔۔۔۔ 
اس تعریف سے ہم دل ہی دل میں خوش تھے جس کا اظہار ہمارے چہرے پہ پھیلی مسکراہٹ تھی جسے ہمارے ابا بھی 
دیکھ کر خوش ہوئے
۔۔ ۔۔۔۔
پیرصاحب نے اپنے ایک خاص خدمت گار کو بلوا بھیجا 
کچھ لمحات بعد دونوں ہاتھ باندھے بادب حاضر ہوا پیرصاحب کے قدموں کا بوسہ لےکر 
خاموش کھڑا ہوگیا ۔۔ 
پیرصاحب نے آنکھوں ہی آنکھوں میں انہیں ناجانے کیا کہا کہ وہ خدمت گار ہمیں اور اباجی کو چلنے کا کہہ کر اپنے ساتھ اس ہال سے کچھ دور دوسری طرف ایک کمرے میں لے گیا 
وہاں اس نے ابا جی کو بتایا کہ آپ کے بیٹے پہ اثرات ہیں وہ نہایت گہرے اور بھیانک ہیں یہ تو آپ کی خوش قسمتی ہے آپ یہاں لے آئے اپنے بیٹے کو 
مکمل ٹھیک کروائیے اس کے لیے آپ کو اسے دوسال تک یہاں چھوڑنا ہوگا 
پیرصاحب کی خاص نگرانی میں رہےگا تو بعداز کبھی کوئی جادوٹونہ اس پہ اثر نہیں کرسکےگا ۔۔۔ 
آپ خود ہی دیکھ لیں جب آئے تھے تب اور اب پیرصاحب کی نگاہِ خاص کے بعد کا اثر ۔۔۔۔ 
آپ کے بیٹے کی خوش بختی ہے کہ پیرصاحب نے اپنے پاس رکھنے کو ترجیح دی وگرنہ تعویذ یا کوئی رکھ دےکر چلتا کرتے آپ کو ہفتہ بھر ٹھیک رہنے کے بعد پھر ویسے ہی اثرات کی زد میں آجاتا ۔۔۔۔ 
اب آپ اپنے بیٹےکو
بچائیں یا یونہی گنوائیں
آپ کی اپنی مرضی ۔۔۔ 
اتنی مدلل آگاہی جان کر ابا میاں جواب میں صرف یہی کہہ پائے کہ زنان خانے سے اس کی والدہ کو بلوادیں تاکہ اس کو خبر کرسکوں ۔۔۔۔ 
خدمت گار نے زنان خانے کی طرف جاکر وہاں ہمارے والد کاپیغام پہنچایا ہماری والدہ پیغام پاکر ہمارے پاس آگئیں 
ہمارے ابا نے وہی ساری داستاں اور ہمارے خوش رہنے کو لے کر امی کو مطمعن بھی کیا اور کچھ ڈرایابھی کہ دیکھ بھلی لوک 
ہم اپنا بیٹا ہی گنوا لیں اس سے کہیں بہتر ہے کہ ہم دوسال کی قربانی ہی دے لیں ۔۔۔ 
یوں ہماری والدہ نے بھی ہاں میں ہاں ملاکر یہی آمادگی ظاہر کی کہ ہم اپنا بیٹا نہیں گنوائیں گے 
بلکہ دل پہ پتھر رکھ کر دوسال کی دوری سہہ لیں گے۔ ۔ 
ہمارے والدصاحب نے خدمت گار کو فیصلہ سے آگاہ کردیا وہ ہمیں اور ابا کو لے کر پھر پیرصاحب کے پاس گئے اور نگاہوں نگاہوں میں ہمارے والدین کے راضی نامہ کی خبر دے دی ۔۔۔ 
پیرصاحب کے چہرے پہ پھر ہلکی سی مسکراہٹ آئی اور ہماری طرف پیار 
سے 
دیکھ کر ایک ہاتھ سے ہماری گردن کے پچھلے حصے کو سہلانے لگے اور دوسرے ہاتھ سے ہمارے چہرے کو پلوستے ہوئے بولے کیوں بھئی میرے سوہنے بیٹے رہے گا ناں
ہمارے پاس ۔۔ ۔۔ ؟۔ 
تب ہمارے زہن میں یہی بات گردش کررہی تھی کہ سبزی والے چاچے کی نسبت یہاں بہتری ہے جہاں سبھی چپیڑیں مارتے ہیں وہاں پیار سے مرہم رکھا جارہا ہے تاہم ہمارا بھی ہاں کہنا ہی بنتاتھا ۔۔۔ ۔۔ 
خدمت گار کو اشارہ دیا گیا وہ ہمیں وہاں سے لےکر باہر کھلے میدان میں جہاں برگد کے درخت سائے میں بچھی صفوں پہ ڈھول چمٹا بین کنگ کے سازندے سریلے پرکیف ساز بجارہے تھے تو کچھ لوگ اس ساز کی مستی میں مختلف انداز میں رقص نما وجد میں مست تھے ۔۔۔ 
ہمیں بھی وہاں بٹھا دیاگیا 
ہم وہاں بیٹھے دور سے اپنی امی اور ابا کو واپسی کے لیے جاتا ہوا دیکھ رہے تھے 
******
۔۔۔۔۔ 
کچھ دیربعد والدین کے جانے کے سبب ہونیوالی افسردگی ختم ہوچکی تھی اور ہم سازندوں کے ساز پر کیے جانے والے
رقص سے لطف اندوز 
ہوتےرہے
وہاں موجود ایک بزرگ سے ہم نے پوچھا بابا یہ کیا کررہے ہیں ؟
یہ لوگ ناچ رہے ہیں یا جھوم جھوم کر 
گر رہے ہیں کچھ
سمجھ نہیں آرہا
؟؟
بابا ہماری طرف ایک گہری نظر دیکھ کر ذرہ توقف سے بولے یہ عبادت کر رہے ہیں 
یہ اللہ کے عشق میں مست ہیں یہ ناچ نہیں رہے پتر اوئے ۔۔ 
اس سے پہلے کہ ہم کچھ اور پوچھتے 
سبھی ساز بند کردیے گئے مستی میں مست افراد بھی ایک ایک کرکے اس کیفیت سے باہر آنے لگے اور ایک طرف کو چل دیے تب ہی وہ بابا جی نے لنگر کھلنے کا
بتایا اور ہم
کو ساتھ چلنے کا کہا ۔۔ 
ہم بھی بھوکے تو تھے ہی ساتھ ہولیے ۔۔ 
لنگر خانے میں بچھی ہوئی صفوں پہ سبھی ایک قطار میں بیٹھے جارہے تھے 
تو ایک بندے کے سرپہ مٹی کے پیالوں کا ٹوکرا تھا اس کے ساتھ والا سبھی بیٹھنے والوں کے سامنے مٹی کے پیالے رکھے جارھاتھا ۔۔۔۔۔ 
اسکے پیچھے پیچھے بالٹی میں دال کا سالن لیے ایک بندہ سالن ڈالے جارہاتھا 
ایک بندہ سر پہ روٹیوں کا ٹوکرا لیے ساتھ ساتھ تھا جو روٹیاں بھی پکڑائے جارھا تھا ۔۔۔۔۔ 
سب کے سامنے سالن بھی موجود تھا 
روٹیاں بھی ہاتھ میں تھیں لیکن کھا کوئی بھی نہیں رہاتھا 
جس وجہ سے ہم متجسس ہوئے کہ ایک دوازے سے بڑے شاہ صاحب نمودار ہوئے اور سب کی طرف دیکھ کر پیار سے بولے 
لنگر شروع کرو تو سبھی نے بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کردیا 
جس کو جتنی تمنا تھی اس نے اتنا ہی کھایا نا کسی نے پانی گرایا اور نا ہی سالن ضائع ہوا 
کھانے کے بعد سبھی کی زبان پہ ایک ہی ورد تھا 
الحمداللہ ۔۔۔۔۔۔۔ 
کھانے کا منظم انداز دیکھ کر ہم بہت متاثر ہوئے 
شادی میں خود پر گرنے والا سالن اور وہ منظر یاد کرنے لگے ۔۔۔۔ 
ہمارا وہاں یہی معمول تھا کہ روزانہ برگد کے درخت کے نیچے ساز اور پڑھےجانے والے کلام سے لطف اندوز ہوتے یا کبھی کبھی زنان خانے میں موجود خواتین
کو پانی پلانا یا انہیں جس شے کی طلب ہوتی وہ پیسے دےکر ہم سے 
منگواتیں ۔۔۔۔ 
کبھی ہمیں خدمت گار اپنے ساتھ لے جاتے جب لنگرخانے کے لیے سامان لینے جاتے ۔۔۔۔۔۔
سازندوں سے کبھی کبھار ہم کہتے کہ آپ جو پڑھتے ہیں ہمیں اس کی
سمجھ نہیں آتی
آپ لوگ عطاء اللہ خان نیازی کا گانا 
قمیض تیری کالی سوہنے پھولاں والی بھی پڑھا کریں 
تو وہ سازندے ہماری طرف ایک نگاہ ڈال دیکھ لیتے اور ہنس دیتے ہمیں یہی بات اچھی لگتی تھی کہ یہاں ہمیں کوئی مارتا نہیں ۔۔۔۔۔۔ 
دن ہفتہ مہینے گزر رہے تھے کئی جمعراتیں جمعہ آئے گزر گئے قوالی کی محفلیں لگتیں رقص ہوتے 
ہم بہت لطف اندوز ہوتے 
۔۔۔ 
پھر ایک دن اچانک سبھی سازندے کلاکار قوال اپنے اپنے ساز و سامان سمیت غیرحاضر پائے گئے 
کوئی بھی تو نہیں تھا وہاں 
سوائے اکیلے درخت کے آج صفائی بھی نہیں صفیں بھی نہیں بچھیں ۔۔۔۔۔ 
ہم دکھی سے ہوکر برگد کے درخت کو اکیلا چھوڑ کر بڑے برآمدے کی طرف چلے آئے جہاں بڑے سرکار اپنے پلنگ پہ براجمان تھے اور کچھ مرید یا سائل نیچے وہیں صفوں پہ بیٹھے تھے ۔۔ 
ہم کچھ پریشاں سے تھے سازندوں کی عدم موجودگی کے سبب تاہم یہ بھی بھول گئے کہ پہلے انہیں سلام کرنا ہے ۔۔۔ ہماری اس بھول کا ہمیں وہاں موجود افراد نے عجب نظروں سے دیکھ کر احساس دلایا ۔۔۔۔ 
باباجی باباجی وہاں درخت کےپاس آج کوئی بھی نہیں ہے کہاں گئے ڈھول کنگ قوال سب کے سب ۔۔۔ ؟
ہمارے اس سوال پہ سبھی کے ساتھ ساتھ بڑے شاہ صاحب کے چہرے کے تاثرات بھی ہمیں اچھے نہیں لگے ۔۔۔ 
لیکن جلد ہی بڑے شاہ صاحب نے خود ہی پیار سے دیکھ کر ہمیں بتایا کہ 
میرے سوہنے بیٹے رات محرم الحرام کا چاند نظر آگیا ہے ۔۔ 
محرم میں نہیں بجاتے یہ سب ۔۔ 
لیکن ہم نا جانے کیوں سوال کیے بنا رہ نہیں پائے 
پھر سوال داغ دیا کہ 
محرم میں عبادت نہیں کرتے کیا؟؟؟
ساز بجانا
کلام پڑھنے
وجد میں آنا عبادت ہے تو پھر محرم میں کیوں نہیں ۔۔ 
ہم یہ پوچھتے جارہے تھے اور بڑے شاہ صاحب ہماری آنکھوں میں دیکھے جارہے تھے 
ہم نے پھر پوچھا بتائیے نا بابا جی محرم کا چاند کیوں روکتاہے عبادت سے 
کیا ہوا ہے محرم کے چاند کو ۔۔۔؟
ہماری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے شاہ صاحب بڑے مشفقانہ انداز میں دھیرے سے بولے 
آنکھیں بہت پیاری ہیں تمہاری ۔۔۔۔ 
یہ کہہ کر انہوں نے خدمت گار خاص کی طرف 
دیکھا تو 
وہ ہمیں وہاں سے لے کر 
آج ایک نئے راستے سے کسی انجان جگہ کی طرف چل پڑا
ہم کئی ہفتے
یہاں رہ کر
بھی ان
راستوں سے ناآشنا تھے
مختلف گلیوں اور
بازاروں سے جب
ہم گزر رہے تھے
تو لوگوں کے گھروں کی چھتوں پہ لگے ٹی وی انٹینا دیکھ کر
جی چاہ رہاتھا کہ
خدمت گار
سے بولیں کسی
سے واقفیت ہے
تو کیوں نا
ان گھروں میں
سے کسی سے دھواں ڈرامہ کے متعلق ہی
پوچھ لیں کہ اسکا کیا بنا ؟؟ 
اس سے پہلے کہ ہم یہ کہتے خدمت گار
لکڑی سے بنے
ایک بڑے دروازے
کے سامنے رکے
اور آرام آرام سے
دستک دینے لگے تو ہم سمجھےکہ ہمآرےدل کی بات وہ سمجھ چکے ہیں جیساکہ وہ بڑےسرکار کی بات محض آنکھ سے آنکھ ملا کر جان جاتےہیں ہم بہت
خوش ہورہےتھے کہ 
چند لمحوں بعد دروازہ کھلا اندر سے ایک 
خاتون نکلیں سلام
دعا کے بعد خدمت
گار نے کہا
بڑے سرکار کا
حکم ہے کہ یہ
چھوٹی بی بی
صاحبہ کے
پاس رہیں گے قبول فرمائیں 
خدمت گار یہ کہہ کر وہاں سے چل دیا 
اور خاتون جوکہ چھوٹی بی بی صاحبہ کی خدمت گار تھیں ہمیں گھر کے اندر لے آئیں 
۔۔۔۔۔۔۔ 
چھوٹی بی بی صاحبہ کون ہیں 
؟ 
کیسے خدمت گار اور بڑے سرکار ایک دوسرے کی بات بنا بولے ہی سمجھ اور سمجھا لیتے ہیں ؟
ہم یہی سوچ رہے تھے کہ اچانک ایک خوبصورت حسین و جمیل عورت جو ایک
لمحے کے لے ہمیں ڈرامہ سیریل خواہش
دو دھڑ والے بچے والا تھا کی
ہیروئن اداکارہ رانی
معلوم ہوئیں ہمارے سامنے آکر بیٹھ گئیں ۔ ۔۔۔۔ 
سبھی سوالوں کے جواب اور آگے کا احوال اگلی قسط میں ۔۔ 
آپ سب کی دعاؤں کا طلب گار ۔۔۔۔ 
شبیرعلوی