سیف الملوک اور افسون شب

2019-10-12 21:56:40 Written by کاشی قاسم

سیف الملوک

اس کو اندھیری راتوں کی تنہائی سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا لیکن یہ کوئی اندھیری رات نہیں تھی ۔ چاند کی دسویں شب تھی ۔ اندھیرے کی جگہ ہر طرف پھیلی نکھری چاندنی کی سرسراہٹ فضا میں خاموش ارتعاش پھیلا رہی تھی ۔ اس کو چاند راتیں کچھ خاص پسند نہ تھیں ۔ ٹھنڈی چاندنی اکثر گئے دنوں کے زخموں پر نمک چھڑکتی اور وہ تڑپ کر رہ جاتا پر آج اسے اپنے زخموں پر ہوتی نمک پاشی بجائے اذیت کے تسکین بخش رہی تھی ۔ 
"یہ چاند بھی کتنا خوش قسمت ہے جسے محبوب بھی ملا تو سورج جیسا ....." اس نے سگریٹ کا ایک کش لگاتے ہوئے سوچا ۔ "جو صدیوں سے خود جل کر اسے ٹھنڈی تابندگی بخشتا ہے اور یہ بے وفا سورج کی جلن سے شب فراق میں خوب چمکتا ہے لیکن سحر ہوتے ہی لجا کر پردہ نشین ہوجاتا ہے ۔ اسے ان شاعروں پر ہنسی آنے لگی جو چاند کو وفا کا استعارہ قرار دیتے تھے ..... دفعتاً کسی کے قدموں کی چاپ نے اسے سوچوں کے سمندر سے گھسیٹ کر حقیقت کی دنیا میں پٹخ ڈالا ۔ صدیوں پر محیط خاموشی کا ساز قدموں کی چاپ نے چپ کرا دیا تھا ۔ اس نے ناگواری سے پلٹ کر دیکھا تو ہوٹل کا ملازم "عابد" اس کا منتظر تھا 

"بھائی کچھ چاہئے.....؟" سگریٹ کی ڈبی کو تکتی للچائی ہوئی نظریں اس کے آنے کا مقصد بیان کررہی تھیں 

"شائد کہ یہ ایک سگریٹ اسے اس سحرانگیز منظر کا رمز آشنا بنا دے ۔ " اس نے عابد کو بغور دیکھتے ہوئے سوچا جو کہ یقیناً سگریٹ کا طالب تھا دفعتاً اس نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا "بھائی ایک سگریٹ ملے گی.....؟"

"ہاں ضرور ...." اس نے سگریٹ کا پیکٹ عابد کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا ۔ "سگریٹ پی کر ایک کپ تیز پتی والا قہوہ لا دینا" 

اب پھر سے وہی مہیب خاموشی کے سائے چاندنی میں چمکتی سیف الملوک پر منڈلا رہے تھے ..... دور پرے سے ہزاروں برس سے برف میں آٹی ملکہ پربت جیسے اس سے سرگوشی کررہی تھی کہ میں صدیوں سے بانہیں کھولے تمہاری راہ تک رہی ہوں ..... آؤ میرے گلے لگ جاؤ" ۔ وہ جانتا تھا یہ فقط ایک سراب ہے ..... صدیوں سے یہ سرگوشی سیف الملوک پر گونجتی ہے اور صدیوں سے ہی اس خاموش ندا کا شکار ہونے والے سرکش عاشقوں کے خون سے خوبصورت پر خون آشام ملکہ غسل کرتی چلی آرہی ہے ..... شائد یہی اس کی ابدی جوانی کا راز تھا ۔ 

اس کی انگلیوں میں پھنسی سگریٹ اس کے ہونٹوں کا لمس پانے کیلئے تڑپ تڑپ کر زندگی کا شعلہ ہار گئی تھی ۔ اس نے بے خیالی میں بجھی ہوئی سگریٹ کا کش لگانے کی کوشش کی اور یکدم جھینپ کر دائیں بائیں دیکھنے لگا لیکن اس منظر کا واحد ناظر تو بس وہ بذات خود ہی تھا ..... چاندنی میں چمکتی سیف الملوک پر جب ہوا کے دوش سے لہریں وجود پاتیں تو یوں لگتا جیسے بیک وقت ہزاروں ناگنیں جھیل کی سطح پر سرسرا رہی ہوں .... جیسے وہ جھیل کی تہہ میں موجود شہزادہ سیف اور بدیع الزماں کو ہر قسم کی بیرونی مداخلت سے محفوظ رکھنے کی زمہ دار ہوں ۔ اسے محسوس ہوا جیسے جھیل کی تہہ سے صدیوں سے امر جوڑا اسے گھور رہا ہو ۔ اسے دیکھ کر بدیع الزماں شہزادے کو گئے دنوں کی یاد دلاتی ہو جب وہ بھی بنجاروں کی طرح اس کی تلاش میں مارا مارا پھرتا تھا اور شہزادہ سیف ، بدیع الزماں کا ہاتھ چوم کر کہے "ہر کوئی میری طرح خوش قسمت نہیں ہوتا ۔ ہر کسی کے خواب پورے نہیں ہوتے"

"بھائی آپ کا قہوہ ۔ " عابد اس بار قدرے آہستگی سے آیا تھا ۔ ایک سگریٹ نے واقعتاً اسے خاموشی سے رمز آشنا بنا دیا تھا 

قہوے کی چسکیاں لیتے ہوئے اس نے سگریٹ سلگائی دو تین گہرے گہرے کش لے کر ہلکی آواز میں موسیقی سے لطف اندوز ہونے لگا ۔ آدھی رات بیت چکی تھی چاند سیف الملوک کے حسن سے شرما کر ایک جانب پہاڑوں کے دامن میں چھپ چکا تھا شائد اسے بھی اپنا سراپا جھیل کی طلسماتی کشش کے آگے ماند لگنے لگا تھا ۔ ہر گزرتے پہر کے ساتھ جھیل پر ٹھنڈ میں اضافہ ہورہا تھا ۔ ٹھنڈ کی مناسبت سے قہوہ اسے نعمت غیر مترقبہ محسوس ہوا۔ کثرت سگریٹ نوشی سے اس کی طبیعت متلانے لگی تھی پر تنہائی کو کوئی سہارا بھی تو فراہم کرنا تھا ۔ ٹھنڈ اب ناقابل  برداشت ہوکر اسے کمرے میں جانے پر اکسا رہی تھی ۔ کرسی سے اٹھ کر اس نے کمرے کا رخ کرتے ہوئے  سگریٹ کے دو تین گہرے گہرے کش لئے اور سیمنٹ کے پکے فرش پر سگریٹ پھینک کر جوتے کے تلوے سے مسل ڈالی کہ اس کی قسمت میں ازل سے مسلا جانا ہی لکھا تھا