معمہ

2019-10-14 14:36:03 Written by امان سعید خان

سلسلہ: معمہ

کیس نمبر: 2

"طیارے کی گمشدگی"

از قلم 

امان سعید خان 

 

 

 

8 مارچ 2014 رات 12:41 پر جہاز کوالالمپور انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے روانہ ہوا اور طے شدہ روٹ کے مطابق 6:30 بیجنگ کیپٹل انٹرنیشل ایئرپورٹ پر اترنا تھا- MH370 عام طرز کا سفری جہاز تھا اور اس وقت جہاز میں عملے کے 12 افراد سمیت 239 مسافر سوار تھے. جہاز نے معمول کے مطابق اڑان بھری- 35,000 فٹ کی مقررہ کردہ بلندی تک چڑھا اور 471 بحری میل فی گھنٹا پر سفر کر رہا تھا کہ اچانک کنٹرول ٹاور سے جہاز کا سارا رابطہ منقطع ہو گیا اور ٹرانسپونڈر کا سگنل بھی غائب ہو گیا.

کنٹرول روم کے سسٹم میں 

جہاز کا آخری معلوم مقام 1:20 پر "IGARI" نامی وے پوائنٹ پر تھا.

توقع تھی کہ جہاز نے ہوچی مِنھ شہر کے ایئر ٹریفک کنٹرول سے رابطہ قائم کرنا تھا, جیسے ہی وہ ویتنامی فضائی حدود میں داخل ہوا, اس مقام سے تھوڑے ہی شمال کو جہاں رابطہ منقطع ہوا, ایک دیگر جہاز کے پائلٹ نے MH370 کے پائلٹوں سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی, پائلٹ نے کہا کہ رابطہ قائم کیا گیا لیکن بڑبڑاہٹ اور سٹیٹک کے علاوہ کچھ نہ سنائی دیا.

ریڈار سکرین سے غائب ہونے سے ہہلے نہ جہاز کے عملے نے نہ ہی کمیونیکیشن سسٹم نے کوئی ڈسٹریس سگنل بھیجا اور نہ خراب موسم یا تکنیکی گڑبڑ کا کا کوئی اشارہ دیا گیا-

11 مارچ کو فوجی ریڈار کے سابق ڈاٹا کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ شہری ریڈار سے رابطہ منقطع کرنے کے بعد جہاز نے مغرب کو ناک موڑ لی اور آبنائے ملاکا کی طرف سفر کرنے لگا اور مزید ستر منٹ کے لیے جہاز ملیشیائی فوجی ریڈار پر نمودار رہا۔ جہاز نے ملیشیا کی خشکی پار کی اور پولاؤ پیراک کے نزدیک فوجی ریڈار سے غائب ہو گیا۔ یہ مقام شہری ریڈار سے غائب ہونے کے مقام سے 500 کلومیٹر دور تھا۔ نیو یارک ٹائمز اور روٹرز نے بیان کیا کہ راستے میں تبدیلی دلالت کرتی ہے کہ جہاز اس وقت تک پائلٹ کے قابو میں تھا. اور اس کے بعد کسی کو نہیں معلوم کہ جہاز کو زمین نگل گئی یہ آسمان کھا گیا...

ملیشئیا ایئر لائنز کے طیارے کو روپوش ہوئے تقریباً پانچ سال گزر گئے سوائے جہاز کے چند ٹکڑوں کے علاوہ کچھ خاص ہاتھ نہیں آ سکا. ایک پر کا ٹکڑا جو انڈین اوشن کے جزیرے ریونین سے ملا اور کچھ مزید باقیات جن کے مطلق گورنمنٹ اب تک کوئی واضح مستند رپوٹ بھی سامنے نہیں لا سکی کے آیا باقیات واقعی MH370 کی ہی ہے یہ نہیں. کیونکہ سمندر سے اس حادثے سے پہلے بھی پرانے تباہ شدہ جہازوں کے باقیات ملتے رہے ہیں. اسی لیئے ایک آدھ باقیات کے علاوہ تمام باقیات پر یہی کہا ہے کہ "ہو سکتا ہے" گمشدہ جہاز کا حصہ ہو.

اگر مان بھی لیا جائے کہ تمام حصے گمشدہ جہاز کے ہی ہیں تو کیوں اب تک تمام دنیا کے اہم ترین ادارے اور لوگ کوششوں کے باوجود طیارے کے روپوش ہونے کی وجہ معلوم نہ کرسکے.

بتائی گئی تمام وجوہات میں اتنے سوالات ہے کہ اب تک بتائی گئی ممکنہ وجوہات نے معاملہ حل تو نہیں البتہ معاملے کو معمہ ضرور بنا دیا.

آج ہم جاسوسی کے اس سلسلے "معمہ" میں طیارے کے حوالے سے چند ایسے حقائق کا ذکر کریں گے جن سے بیشتر لوگ لاعلم ہیں.

 

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ طیارہ تلاش کرنے والی ٹیمیں پانچ دن تک غلط مقام پر طیارہ تلاش کرتی رہی. کولالمپور سے اڑنے کے بعد ویتنام کے نزدیک طیارے کے ٹرانسپونڈر نے کام کرنا بند کردیا. لیکن پھر بھی طیارہ ریڈار پر انڈونیشیا اور ملائیشیا کے ساحلی علاقے کے درمیان ملاکا کے مقام پر دکھائی دیتا رہا. بجائے اس کے کہ جہاز کو تلاش کرنے والی ٹیمیں اسے ملاکا کے مقام پر ڈھونڈتی وہ جہاز کو اس مقام پر کھوجتی رہیں جہاں صرف ٹرانسپونڈر بند ہوا تھا.

 

ماضی میں دیکھا گیا ہے جب جہاز کریش ہو کر سمندر میں جا گرتا ہے تو اس کے متعدد حصے ڈوبنے کے بجائے سمندر کی سطح پر تیرتے رہتے ہیں. لیکن مذکورہ لاپتہ طیارے کا کوئی واضح ملبہ سمندر کے کسی حصے میں تیرتا ہوا نہیں پایا گیا- اگر طیارے کو ہوا میں بھی تباہی کا سامنا کرنا پڑتا تو تب بھی اس کے کئی حصے سمندر سے مل جاتے جن سے وجہ معلوم کی جا سکتی تھی.

 

بلیک باکس کو اس طرح ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ طیارے کی تباہی کی صورت میں بھی بلیک باکس کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا. بلیک باکس کے اندر جہاز کے کاک پٹ میں ہونے والی گفتگو اور فلائٹ کی تفصیلات 30 دنوں تک محفوظ رہتی ہیں. یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ کیوں 30 دن تک تفتیش کاروں کو بلیک باکس کے کوئی سگنلز موصول نہیں ہوسکے. عام طور پر بلیک باکس سے ملنے والے سگنلز خود اس مقام کی نشاندہی کرتے ہیں. لیکن کسی بھی سگنل کے نہ ملنے کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ بلیک باکس کو ناکارہ بنا دیا یہ تباہ کردیا گیا ہوگا. اور ایسا کرنے کے لیے کسی ماہر سخص کا موجود ہونا ضروری ہے.

 

 یہ بات بھی انتہائی عجیب ہے کہ جہاز میں سوار ہونے والے 239 مسافروں میں سے بعض کے موبائل فون پر کچھ دنوں تک یکطرفہ رابطہ ممکن تھا. یعنی چند مسافروں کے موبائل پر بیل تو جاتی رہی لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوتا تھا. جن میں سے ایک چینی خاتون نے لائیو پروگرام میں میڈیا کے سامنے 2 بار کال لگائی اور دونوں بار بیل بجتی رہی.

 

ائیر ٹریفک کنٹرولرز کو فضائی حادثات کا تجربہ ہوتا ہے اور ان کے پاس طیارے کے غائب ہونے سے پہلے کا تمام فضائی ریکارڈ موجود ہوتا ہے اور وہ اس ریکارڈ کی مدد سے معلوم کر سکتے ہیں کہ جہاز کا ملبہ انہیں کس مقام پر ملے گا یا پھر جہاز کہاں اترا ہوگا مگر اس جدید ٹکنالوجی کے باوجود ناکامی کیوں.

 

کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ طیارہ ہائی جیک ہوا ہے اور مستقبل میں کسی دہشت گردی کے منصوبے میں استعمال کیا جا سکتا ہے.

اگر اس بات کو درست مان بھی لیا جائے تو پھر بھی ریڈار سے اس کا رابطہ منقطع نہیں ہوسکتا تھا حتیٰ کہ ٹرانسپورنڈ بند ہی کیوں نہ کر دیا جائے. ریڈار سے ملنے والے سگنلز کے ذریعے اس کو تلاش کیا جا سکتا تھا.

 

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جہاز کو میزائل سے تباہ کردیا گیا ہے لیکن اگر ان افواہوں کو سچ مان لیا جائے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ تباہ شدہ جہاز کا ملبہ ریڈار پر ضرور دکھائی دینا چاہئے تھا. اس وقت تک جب تک کہ کوئی ایسا میزائل جہاز پر نہ داغا جائے جس سے جہاز بہت چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم نہ ہوجائے. لیکن اب تک ایسا کوئی میزائل ایجاد نہیں کیا گیا جو جہاز کو اس بری طرح تباہ کرسکے.

 

ایک اور موصول تفصیلات کے مطابق جہاز نے راستہ تبدیل کرتے ہوئے اپنا رخ جزیرہ انڈمان کی جانب موڑ لیا تھا. اس تھیوری کی تصدیق ملائیشیا کی آرمی نے کی ہے کیونکہ کنٹرول ٹاور سے رابطہ منقطع ہونے کے باوجود جہاز ملٹری کے ریڈار پر دکھائی دیتا رہا.

 

مزید تحقیقات کے مطابق رابطہ منقطع ہونے کے بعد بھی طیارے نے پانچ گھنٹے تک اپنی پرواز جاری رکھی.

 اگر ان پانچ گھنٹوں کو مدنظر رکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ طیارے کو بھارت کی سرحد پر یا پھر پاکستان کے کسی علاقے میں ملنا چاہیے تھا.

 

پانچ سال بعد آج بھی آخر کیوں اس جدید دور کے پاس کوئی جواب نہیں. جس دور میں ہمیں ٹی وی پہ سمندر کی آخری گہرائی میں پلتے جاندار کی زندگی دکھائی جا سکتی ہے پر بدقسمت طیارے کے باقیات نہیں. اسی لیئے کہانی مندرجہ ذیل الفاظ کے گرد گھومتی نظر آتی ہے.

-شیطان امریکا.

-طالبان.

-اگلا سپر پاور چین.

-بلیک ہول.

-خلائی مخلوق 

-ہائی جیک

-خودکشی....

آپ کے نزدیک کونسی وجہ ہو سکتی ہے اس طیارے کے غائب ہونے میں!؟