نئی تہذیب کے گندے انڈے

2019-10-21 16:51:37 Written by کاشی قاسم

ہمارے دیرینہ دوست خریم انصاری فرماتے ہیں 
"کبھی کبھار کسی موضوع پر قلم اٹھانے کو بہت دل کرتا ہے  لیکن جب پتا چلتا ہے کہ صرف قلم اٹھانا کافی نہیں بلکہ اس سے لکھنا بھی ہوتا ہے تو قلم واپسی رکھ دیتا ہوں " 

یہ اردو ادب پر خریم کا بہت بڑا احسان ہے ۔ کاش کے دور حاضر کے "پھدکتے" ہوئے قلمکار بھی اس فلسفے کو سمجھ سکیں جب قلم اٹھانے سے ہی تشنگی دور ہوسکتی ہے تو لکھ کر اردو ادب کو خوں کے آنسو رلانے کی ضرورت کیونکر پیش آئے ۔ یہ تو خیر تمہید تھی اب آتے ہیں مدعے کی طرف ... جناب #ءلی زریون صاحب بھی چاہتے تو قلم اٹھا کر تشنگی دور کرسکتے تھے لیکن انہوں نے اردو کا خون کرنا زیادہ بہتر سمجھا  .... اپنی ایک تحریر میں رقمطراز ہیں
 
""ایسا کھل کے اظہار خیال آسان نہیں، جبکہ ادبی ٹھیکیداروں اور "مرتے ہوئے افکار و نظریات" کے حامل طالع آزماؤں کی ایک فوج آپ پر طنز کرنے کیلئے موجود ہو ۔ ""

موصوف اس پیرے میں ادبی ٹھیکیداروں کو آڑے ہاتھ لینے کے ساتھ ساتھ اردو ادب کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے "مرتے ہوئے افکار و نظریات" قرار دے دیتے ہیں ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں موصوف سے اختلاف کرنے کی عظیم گستاخی کا ارتکاب کرنے لگا ہوں ۔ جناب مجھے ان کی بات سے قطعاً کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ جب اردو شاعری کے گلستان میں ان جیسے شریر بچے باغباں کی غیر حاضری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نقب زن ہوئے .... اسی دن سے بوستان اردو کی بربادی کا آغاز ہوگیا تھا ۔ وہ محبتوں کا عظیم الشان لالہ زار جسے میر و غالب نے اپنے بے مثال کلام سے سینچا  .... جگر نے جس کو اپنے سوز جگر سے شگفتگی بخشی .... جہاں کے گلوں نے مومن و ذوق کے تخیلات سے شوخ و دھنک رنگ حاصل کئے .... فیض و ناصر  نے جن کو جانفزا خوشبو سے معطر کیا ۔ وہ ست رنگی پھول موصوف اور "کمپنی" کے قدموں تلے روندے گئے .... وہ لازوال گلشن بے تکے قلمکاروں کے باعث زوال پذیر ہونا شروع ہوگیا .... نوبت یہاں تک پہنچ گئی یہ نامعقول قسم کے بچے خود کو "شاعر" اور اس گلزار کو ببانگ دہل افکار و نظریات کا "قبرستان" قرار دینے لگے 

اردو شاعری سے رتی بھر لگاؤ رکھنے والے احباب کو بھی موصوف کی شاعری دل میں پھانس بن کر ضرور چبھتی ہوگی .... ایک صفحے پر دو متوازی لکیریں کھینچ کر چھے سات بے وزن ، بے بحر ، بے جوڑ الفاظ ناپ ناپ کر لکھے اور ہوگیا شعر تیار .... اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں 

"کس نے کری ہے جینز ممنوع ؟؟
پہنو اچھی لگتی ہو  

یا پھر

وہ تو علی زریون ہے بھائی اس کی گلی کا بچہ بھی 
زرا سی غلط بات کرو تو منہ پر مصرعہ مارتا ہے 

یہ لفظوں کا ملغوبہ فیک اکاؤنٹس کو ایزی لوڈ کروانے کے غم میں بننے والے چرسی تو پسند کرلیں گے لیکن آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے کیا یہ ملغوبہ کسی بھی طور شاعری کہلایا جاسکتا ہے ؟  تاہم ان شریر بچوں کی ضد کو مدنظر رکھتے ہوئے اب ایک یہی حل رہ گیا ہے کہ آزاد شاعری کے بعد "مادر پدر آزاد" شاعری کی صنف سے بھی عوام کو روشناس کرایا جائے جس کے تحت کچھ ایسے نایاب اشعار بھی اردو شاعری کے ذخیرے میں شامل ہوں 

"سگریٹ جلائی تھی اس بے وفا کا چہرہ بھلانے کو
ظالم دھواں بھی بے وفا نکلا اسی  کی تصویر بنا گیا "

یا پھر 

"گھر سے نکلا ہی تھا کہ بارش ہوگئی 
گھر میں واپسی گھسا تو پھسل کر گر گیا" 

یہ اشعار پڑھ کر لوگ سر کے بل کھڑے ہوکر داد دیں گے .... تالیاں پیٹیں گے کہ اس مصروف زندگی میں کون میر و غالب کے فلسفے پہ غور و فکر کرے .... شاعر صاحب بھی خوش عوام بھی خوش اور ادبی ٹھیکیدار اس سنہرے دور کو یاد کر کے ٹسوئے بہائیں گے جب مشاعروں میں سڑے ہوئے انڈے ٹماٹر ساتھ لانا اہم فریضہ سمجھا جاتا تھا 

"نامعلوم" زعم میں مبتلا علی زریون صاحب کا کہنا ہے کہ ان کی شاعری کا فیصلہ وقت کرے گا.... اب موصوف کو کون سمجھائے کہ وقت تو تب فیصلہ کرے گا جب وہ اسے شاعری سمجھے گا ۔ سوشل میڈیا پر ہزاروں انگریزی زبان کے لکھاری موجود ہیں لیکن سنا نہیں کہ آج تک انہوں نے "شیکسپیئر یا ولیم ورڈز ورتھ" کے ادب کو مردہ جبکہ خود کو ان سے بہتر قرار دیا ہو ... زریون صاحب اگر آپ بلاجھجک اردو ادب کو "مرتے ہوئے افکار و نظریات" قرار دے سکتے ہیں تو میں بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ہجوم تو ڈگڈگی پہ ناچنے والا بندر بھی اکٹھا کرلیتا ہے لیکن وہ بندر کبھی مائیکل جیکسن نہیں بن سکتا ۔