میری جان محمد صلی اللہ علیہ وسلم

2019-11-09 11:21:27 Written by محمد شاہد

تحریر میں کیا کروں شانِ محمدﷺ
خدا خود ہے ثنا خوانِ محمدﷺ
یہ میرا دل یہ میری روح صدقے
یہ میری جان ہے قربانِ محمدﷺ
اور 
کتابِ فطرت کے سرِورق پر جو نام احمدﷺ نہ ہوتا 
نقشِ ہستی ابھر نہ سکتی وجودِ لوح قلم نہ ہوتا 
تیرے غلاموں میں بھی نمایاں جو تیرا عکسِ کرم نہ ہوتا تو بارگاہِ ازل سے خطاب یوں خیرالامم نہ ہوتا۔

برادرانِ اسلام 
میرے آقا حضور مدنی کریمﷺ 
 کی تعریف و توصیف ایک ایسا مبارک ،باسعادت اور مشکبار موضوع ہے جو ایمان افروزبھی ہے اور دلآویز بھی،جس کی وسعت فرش زمین پر ہی نہیں آسمان کی بلندیوں سے بھی ماوراءہے۔
ہر دور میں ان گنت انسانوں نے دربار رسالت میں پوری محبت و خلوص سے اپنی عقیدت کے گلدستے پیش کیے۔
ان کی مدح سرائی کا غلغلہ بحر و بر میں بلند ہوا اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ بلند تر ہوتا چلا گیا 
تاریخ عالم شاہد ہے کہ یہ نام صبح و شام چہار دانگ عالم میں پھیلے عقیدت مندوں کے دلوں کی دھڑکن بن کر ان کےلئے باعث حیات بنا ہوا ہے۔ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق اپنے اپنے اسلوب میں عقیدت و محبت کے پھول ”دربار رسالت “کی نذر کر رہا ہے۔ ہمارے آقا ﷺ حسن و جمال کا ایسا پیکر ہیں کہ جب سورج ان پر نظر ڈالتا تو حسرت بھری نگاہوں سے کہتا اے کاش!یہ حسن مجھے عطا ہوتا۔​
دست قدرت نے ایسا بنایا تجھے جملہ اوصاف سے خود سجایا تجھے
اے ازل کے حسیں ،اے ابد کے حسیں تجھ سا کوئی نہیں ،تجھ سا کوئی نہیں​
محترم قارٸین
بزم ہستی میں محبتِ مصطفیٰ کا چراغ فروزاں کرنے سے ہی نخل ایمان پھلے پھولے گا اور نظریاتی و فکری پراگندگی کی فضا چھٹےگی۔
 میرے آقاﷺکی زندگی جتنی خوبصورت اور دلکش ہے، اسی قدر وسیع اور کشادہ بھی ہے۔ آپ ﷺ کی تعلیمات زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کرتی ہیں۔
 عقائد، عبادات، معاملات، اخلاقیات، معاشیات، تہذیب و تمدن، سیاسیات الغرض وہ سب کچھ جس کا انسان کی انفرادی یا اجتماعی، روحانی و مادی زندگی سے تعلق ہے،
اسوۂ حسنہ کا ابرِ رحمت ان سب پر سایۂ فگن ہوتا ہے۔
قارٸین کرام
ذرا غور فرمایئے جس ذات ِ اقدس کی تعریف و ثنا خود ربِ ذوالجلال نے کی ہو‘
 کلام اللہ جس کے اوصاف و محاسن پر بولتا ہو‘
 فرشتے صبح و شام جس پر درود بھیجتے ہوں اور جس کا نام لے لے کر ہر دور میں ہزاروں انسان زندگی کے مختلف گوشوں میں زندہ و جاوید ہوگئے ہوں‘
 اس رحمۃ للعالمین کے بارے میں کوئی شخص اپنے قلم و زبان کی تمام فصاحتیں اور بلاغتیں بھی یکجا کرلے اور ممکن ہو تو آفتاب کے اوراق پر کرنوں کے الفاظ سے مدح و ثنا کی عبارتیں بھی لکھتا رہے‘ 
یا ماہتاب کی لوح پر ستاروں سے عقیدت و ارادت کے نگینے جڑتا رہے‘
 تب بھی حق ادا نہ کرسکے گا 

حضور کی سیرت کو کسی بھی انسانی سند کی ضرورت نہیں حقیقت ِ یہ ہے کہ سرور کائنات کے ذکر سے انسان اپنے ہی لیے کچھ حاصل کرتا ہے۔ جس نسبت سے تعلقِ خاطر ہوگا اسی نسبت سے حضور کا ذکر ایک ایسی متاع بنتا چلا جائے گا کہ زبان و بیان کی دنیا اس کی تصویریں بنا ہی نہیں سکتی۔
آپ کی شانِ جامعیت یہ ہے کہ آپ کی ذاتِ اقدس تمام انبیائے کرام اور تمام رسولانِ عظام کے اوصاف و محاسن، فضائل و شمائل اور کمالات و معجزات کا بھرپور اور حسین مجموعہ ہے ۔
 اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں، رسولوں اور ساری اولاد آدم کے اوصاف حمیدہ اور خصائل عالیہ حضور کی ذات میں جمع کر دیے تھے تو گویا آپ تمام ذریت آدم کے حسن و جمال، اوصاف و خصائل، تعریفوں، خوبیوں، صفتوں، بھلائیوں، نیکیوں، کمالوں، ہنروں، خلقوں اور پاکیزہ سیرتوں کا مجموعہ ہیں۔ چنانچہ آپ کی شخصیت میں
 آدم کا خلق،
 شیث کی معرفت، 
نوح کا جوشِ تبلیغ،
 لوط کی حکمت، 
صالح کی فصاحت، 
ابراہیم کا ولولہٴ توحید، اسماعیل کی جاں نثاری،  اسحاق کی رضا، 
یعقوب کا گریہ و بکا،
 ایوب کا صبر، 
لقمان کا شکر،
 یونس کی انابت، 
دانیال کی محبت، 
یوسف کا حسن،
 موسیٰ کی کلیمی، 
یوشع کی سالاری،
داؤد کا ترنم، 
سلیمان کا اقتدار، 
الیاس کا وقار، 
زکریا کی مناجات،
 یحییٰ کی پاک دامنی اور عیسیٰ کا زہد و اعجازِ مسیحائی آپ کی صفات ظاہری میں شامل تھی ہے، بلکہ یوں کہیے کہ پوری کائنات کی ہمہ گیر سچائی اور ہر ہر خوبی آپ کی ذاتِ اقدس میں سمائی ہوئی ہے
گویا کہ اللہ نے آپکو مجمہ محاسن بنایا دیا ہے 
صداقت نبی کے قدموں میں عدالت نبی کے قدموں میں سخاوت نبی کے قدموں میں 
شجاعت نبی کے قدموں میں بلکہ
میں جملہ بدل کر یوں کہوں گا ان خوبیوں کو گلدستے کی شکل میں دیکھنا ہوتو 
محمد کی ذات کو دیکھ لو 
پھولوں کی شکل میں دیکھنا ہو تو نبی کی جماعت کو دیکھ لو 
تو پھر میں کیوں نہ کہوں 
حضور کی ذات بھی سب سے اعلی جماعت بھی ۔۔۔۔۔              میرے محترم قارٸین                لکھنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے سیرت کے عنوان پر مگر میں یہیں پر اکتفا کرتا ہوں              

تحریر:محمد شاہد