معصوم دعا

2019-11-10 16:12:13 Written by سدرہ اصغر

معصوم دعا ۔۔۔۔

راہ زیست کا ہر گوشہ نور سے پر نور ہے۔۔۔

آدھی رات کا وقت تھا ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا شام ڈھل چکی تھی ستار ے آسمان پہ آ چکے تھے ۔۔۔  خلوت سے جلوت تک ہر منظر سیاہی کا لبادہ اوڑھے سو رہا تھا ۔۔۔وہ اک دم گھبرا کر اٹھی پسینے سے بھیگتی ہوئی اسکے ہاتھ  کانپ رہے تھے ۔۔۔وہی خواب وہی منظر ۔۔۔وہی احساس لیے اس کی آنکھوں کو نم کیے ہوئے تھا۔۔۔

 آج تیسری بار وہ نار اور نور کے بیچ میں پھنس گی تھی ۔۔۔"نور "کیسی روشنی  ہے یہ روشنی ہی روشنی ہے اور" نار "نار کیا ہے روشنی کی شدت ایسی شدت جو حد سے بڑھ گئی ہو جو آنکھوں کےمہ کدے میں ٹھہر ہی نہ پا ئے جس کو آنکھ کا کوئی حصہ جذب نہ کر پا ئے اسکی تاثیر آنکھ کےکسی ر ٹینا میں سما نہ سکے ۔۔۔۔   نار کیسے جلا کر  

را کھ کر دیتا ہے ۔۔۔۔ اسے سمجھ نہیں  آرہا تھا بس اتنی  سی بات زہن پہ چھائی تھی وہ محسوس کر رہی تھی اسکا دل الگ ہی دنیا میں ہو جیسے ۔۔۔اس فا نی دنیا کی فنا ہو نےوا لی لز توں سے انجان ۔۔۔وہ تھی ہی الگ ، منفرد ۔۔۔جدا  سب سے مختلف ۔۔۔۔خالص اور پاک ۔۔۔

آج پھر وہی  سات پردوں میں چھپا خواب وہی خلاوہی آسمان وہی ریگستان کی یخ ٹھنڈی  زمین وہی  ننگے  پاوں  ۔۔۔وہ اسی اثنا میں تھی آج تیسری بار ایک ہی خواب نظر آیا افف !کیا ہے اس میں ۔۔۔صدیوں کی مسافت لئے  اک لمحہ جس میں ہر  سفر کی منزل ہے ۔۔۔یا ایک لمحہ جس میں صدیو ں کا سفر چھپا ہے ۔۔۔۔بہت وقت تک بستر پر بیٹھے منتہی  یہی سو چتی رہی۔۔۔۔

سات آسمانوں سے دور بہت دور خلا وں میں وقت کی ہر گھڑی تھامے اک دعا کب سے دوا بننے کا انتظار کر رہی تھی بس وقت کو تھما کر اپنے تمام احساس وہ اک خوبصورت اور منفرد مقام تک لے جا کر مقبول ہونے  کا انتظار کر رہی تھی تھام کے  جسے چلنا تھا اس سے بچھڑ کر بھی اپنی ہر معصوم دوا اسکی وجہ تسکین بنانے کے لئے وہ لمحہ لمحہ انتظار کے گھونٹ  پی رہی تھی  ساون کی  ہر رت صنم کی یاد سے بھری جا رہی تھی وہ انتظار بس انتظار میں مبتلا مرض سے ہر لمحہ لڑ رہی تھی ۔۔۔

اسے یقین تھا دعا کے دیپ جب جلتے ہیں تو انتظار پھر انتظار نہیں رہتا وہ دلوں  کا مالک  رب دل کی ہر آتی جاتی دھڑکنوں کی پکار سننے والا ہے ۔۔۔وہ بہترین عطا سے جب نوازتا ہے تب ہر قسم کے امتحان  میں پڑکھ کر پاس سے بھی زیادہ نمبر دیتا ہے اتنی خوشی سے دامن بھر دیتا ہے کہ دامن پھر کبھی خالی نہیں ہوتے لیکن اس سے پہلے دل کو پڑکھا جاتا ہے مستقل مزاجی دیکھی جاتی ہے خالی کر دیا جاتا ہے اتنا کہ پھر کوئی طلب باقی نہیں رہتی ہر طلب مٹ جاتی ہے جب دل کا ہر گوشہ خالی ہو جاتا ہے  تب اس میں بھر دیا جاتا ہے

" نور " سب سے بڑی عطا ۔۔۔سب سے بڑےاور  مہربان رب کی طرف سے۔۔۔

اور نور ملنے سے پہلے منجمند ہونا پڑتا ہے میلوں کا سفر صدیوں سے ہٹا کر اک لمحے کی آغوش میں پرونا پڑ تا ہے۔۔۔

آج بہت عرصے بعد اس نے  ایک سرگوشی محسوس کی ﻣﺼﻠﮯ ﭘﺮ ﺩﮬﺮﯼ معصوم  ﺩﻋﺎﺅﮞ ﮐﯽ ﺗﺎﺛﯿﺮ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮯ ﭘﺎﻧﯽ  ﺳﮯ ﺟُﮍﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ۔۔۔۔ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﺮ ﺟﺎﺋﮯ ۔۔۔۔ ﺗﻮ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ  ﺑﮭﭩﮏ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔۔۔وہ بھٹکی تھی مگر گری نہیں تھی اسے تھام لیا گیا تھا کس نے تھاما تھا ابھی اس کا فیصلہ اس کے دل نے نہیں کیا تھا۔۔۔ابھی سو چیں منتشر تھیں ۔۔۔ابھی  اس کا دل حاصل لا حاصل میں تمیز نہیں کر پایا تھا۔۔۔

اسے چنا جا رہا تھا۔۔۔وہ انجان تھی۔۔۔اسے بس اتنا یاد تھا ۔۔۔ یار کی اک جھلک سمندر میں آنے والے طوفان کے بعد کی تسکین سموے ہوئے اب اس کی منتظر تھی ۔۔۔اسے سات پردوں میں سمیٹ لیا گیا تھا ۔۔۔اب وہ تنہا نہیں رہی تھی تنہائی میں اسے نور سے ملوانے کے تمام راستے اللہ کی طرف سے کھلنے لگے تھے وہ روشنی کی منتظر تھی اب نور کی چھاپ سے نوازی جا رہی تھی وہ اسی اثنا میں دھڑ کتے دل کو تھامے سوچوں میں نکھرنے لگی تھی ۔۔۔سوچیں پاک ہو رہی تھیں ۔۔۔۔

۔۔۔۔

"اور وہ رب جسے چاہتا ہے اسے خود تھام لیتا ہے"۔۔۔

اور جب  انسان خالی بہت خالی ہو جاتا ہے ۔۔۔۔تب ہی تو بھر دیا جاتا ہے۔۔۔بہت عرصہ پہلے 

اس نے دعائیں  مانگنی ترک کی تھیں۔۔۔

دعا کی قبولیت کا تو وعدہ ہے۔۔۔ دعا تو ہمیشہ سنی ہی جاتی ہے۔۔۔ مگر بہت سے انسان دعا کی قبولیت کے معنی نہیں جانتے۔۔۔

قبولیت کے چار انداز ہیں

جو مانگے وہی ملے۔۔

 اس سے بہتر ملے۔۔

یا پھر صدقہ بن کر ردِ بلا ٹھہرے۔۔۔ 

 یا آخرت کا اجر بنا دی جائے ۔۔۔۔

اس نے آج اللہ سے  اللہ کو بہت مانگا تھا ہر لمحہ لمحے کے ہزارویں حصے میں بھی اس نے اپنی روح کے مالک سے اپنے وجود سے جڑے اہم حصے کی طلب کی تھی ۔۔۔۔ وہ رب کی تھی اور رب اس کا ۔۔۔

مگر فاصلہ آ گیا تھا ۔۔۔ محبت خاموش ہوئی ضرور تھی مگر سانس لے رہی تھی ۔۔۔ اورہر  سانس میں دھڑ کتی سانسیں اپنے وجود کی اصل پانے کو بے تاب اس کی روح میں مقید ہوتی جا رہی تھیں  ۔۔۔۔ سانس  سے سانس ملتی ہے اور اک نئی سانس جنم لیتی ہے ۔۔۔

جیسے چرا غ سے چراغ جلتے ہیں تو روشنی ہر سو پھیلنے لگتی ہے۔۔۔

اس کی کیفیت کچھ یوں تھی ۔۔۔

 

 نہیں مانگا تو کچھ نہیں مانگا خداسے

 اب جو مانگ رہی ہوں تو خدا مانگ رہی ہوں 

 

اور سانس کہاں سے آتی ہے۔۔۔۔

دو نور ہے ۔۔۔

نور کے اوپر نورہے ۔۔۔

آسمانو ں سے اتارا نور ۔۔۔۔

زمین کی آغوش میں پنہاں نور ۔۔۔۔

ستارو ں کی جنبش سے بپھرتا نور ۔۔۔۔

مہتاب کی لو سے ٹپکتا نور ۔۔۔۔

آفتاب کے انگاروں سے رستا نور ۔۔۔۔

ہوا کے شوخ پروں پہ رقص کرتا نور ۔۔۔۔

صحراؤں کی تپش سے پگھلتا نور ۔۔۔۔

ساغر کی کوملتا میں نکھرتا نور ۔۔۔۔

ساحل کے آنچل سے لپٹا نور ۔۔۔۔

سحر کے دامن سے ابھرتا نور ۔۔۔۔۔

شام کی سیاہی تلے ڈھلتا نور ۔۔۔۔۔

دل کی دھڑکن میں سنورتا نور ۔۔۔۔

دھڑکن سے ہر سانس میں اترتا نور ۔۔۔۔۔

نور ہی نور ہے ۔۔۔۔۔

نور کے اوپر نور ہے ۔۔۔۔

———————————-

آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق کے بعد جب نور کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا تو عالم ارواح میں موجود ہرذی نفس کی کوشش ٹھہری نور کے ٹکڑے جب بارش کی بوندو ں کی طرح برسنے لگیں تو ان کا دامن نور حق سے بھر جائے ان کے دل کھل جائیں ۔۔۔۔اور کوشش کے مطابق سب کو ملا ،اللّه کی عطا سب پہ برابر ٹھہری ۔وہ رب ہے اسے خبر ہے، سب کا حصہ رکھنا ہے، وہ تب بھی نوازتا ہے جب اسی کا بندہ اسی کے سامنے اسی کی زمین میں انا کی بھینٹ چڑھ کر انا کے سا رے تقاضے پورے کر کے اسی کے مقابل آ جاتا ہے۔ خدائی کا دعوی کر تا ہے،  نمرود بن جاتا ہے اور کبھی فرعون۔۔۔۔اور اس بات کو فراموش کر دیتا ہے جو اللّه نے قرآن میں ارشاد فرمائی ۔۔۔۔

 

انَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ

“دنیا کی زندگی تو محض کھیل اور تماشا ہے ۔۔۔”

 

اور اسے کھیل اور تماشا خدائی کرنے والوں نے بنا دیا ۔۔۔حالا نکہ اللّه نے انسان کو اپنے سے آشناس کر وا نے کے لئے یہ خوبصورت میلہ لگایا، جہاں ہر طرف پیار، انس، محبت، چاہت، اخلا ص اور الفت کے پودے لگا ئے ۔ان پو دوں کی مہک سے جب دنیا مہکنے لگی تب ہر طرف روشنی ہی روشنی ہو گئی ہر طرف نور بکھرنے لگا ۔۔۔یہی نور اللّه نے مٹی کے مجسمو ں میں بھی بھرا اور انہیں خوب صورت دل تحفے میں عطا کئے ۔۔۔تا کہ دل طاق پہ رکھے چراغ کی طرح جسم میں جل اٹھے اور ہر اندھیرا ہٹ جائے ہر ظلمت مٹ جائے اور ہر طرف چراغا ں ہو نور کا ۔۔۔۔

اور دل بھٹکنے نا پا ئے صحیح راستے کا فیصلہ کر سکے اس راستے کا جو نور کا راستہ ہے۔اسی کا اظہار ہماری دھڑ کنیں کرتی ہیں ۔ہماری ہر دھڑ کن دل سے ہم تک پہنچنے سے پہلے ایک طویل  سفر طے کرتی ہے۔۔۔۔کیا زندگی کا بھرو سہ کب ساتھ چھوڑ جا ئے ۔۔۔

یہ دھڑکن ہمارے وجود سے ملن سے قبل اللّه رب العزت کے دامن عرش سے روانہ ہوتی ہے، تب یہ پاکیزہ ہوتی ہے اور پاک کر دینے وا لی ہوتی ہے ۔۔۔۔کیوں کہ اللّه کی ذات پاک ہے اور وہ پاک دھڑکنو ں کو عطا کرکے دلو ں کو نور بخشتا ہے ۔۔۔تا کہ اسکے بنائے انسان کا دل روشن رہے اور

دل کی اصلاح سے ہی سیرت وکردار کے گلشن مہکتے ہیں ۔۔۔زیاں اترتا ہے ،ایسا زیاں کہ کائنات کا ہر ذرہ افشاں کے در سے لپٹ کر چمک اٹھے اور تب دھڑکنو ں کی روانگی کا سفر شروع ہوتا ہے ۔۔۔۔

اس سفر میں بلند پایہ استقامت اور استحکام در کار ہوتا ہے، جو دھڑکن خدا کے دامن سے لیتی ہے، مستقل مزاجی چاہیے ہوتی ہے ،ٹھہراو چاہیے ہوتا ہے جو منزل کے ملنے سے قبل کی سعی ہوتی ہے یہ سب دھڑکن خدا کے آنچل سے وابستہ ہو کر وہا ں سے لیتی ہے۔ اب وہ جب آسمانو ں کی بلندیو ں سے لی ہوئی خود اعتمادی اور پوری الوالعزمی سے دل کے بند تا لے کو کھولتی ہے تو اندر جانے کے لئے راہ ہموار ہو جاتی ہے ۔۔۔

دل کی دھڑکن  کا راستہ خدا تعالیٰ کے در سے بنی نوع انسان کے دل اور جان کی دہلیز تک ہوتا ہے ۔۔۔وہ دہلیز جہاں ہر راستہ طے کیا جاتا ہے، خرد و ادراک کی تمام وسعتوں سے آگے ذہن کی گرہیں کھول کر، دل و دماغ کی سر زمین پہ جو فیصلے کئے جاتے ہیں، وہ فیصلے جن کی منزل اللّه ہے ۔۔۔وہ راستے جو ہزارو ں راستو ں اور تنگ و تاریک گلیوں سے ہو کر بھی ایک راستہ بناتے ہیں، وہ راستہ جواللّه کا راستہ ہے ۔۔اللّه کی ہی عطا ہے ۔۔۔

مگر ابھی تو سفر جا ری ہوتا ہے، دھڑکن جوں جوں بڑھتی ہے، سفر کی تلخیاں اور مصائب بھرتے جاتے ہیں ۔مگر صبر کی عطائے خاص سے دامن تر رہتا ہے، اور تر دامن جلدی بھر دئے جاتے ہیں ۔۔۔

اب جب دھڑکن اپنا رستہ طے کر کے اپنی خاص منزل تک پہنچ کر دل کے دربان سے اجازت لے کر اپنی جگہ پہ پہنچتی ہے، تب اللّه رب العزت کا شکر ادا کرتی ہے، اور شکریے کے اس دورانیے میں وہ سکھ کی آہ بھرتی ہے، یہ جو آہ شکر خدا وندی ہوتی ہے ،اسکے آنچل سے ایک معصوم سانس خوش نما کلی کی طرح جنم لیتی ہے، دراصل یہ سانس کی معصومیت ہوتی ہے، جو ہر طرف سکھ کی لہر دوڑ جاتی ہے، سانس اور دل کی دھڑکن دل میں بڑ ی گہری دوستی ہوتی ہے ،اور یہ مستقل تب تک ہوتی ہے

جب تک زندگی کا وجود قائم و دائم ہے۔

اب سانس کی پیدائش کے دوران دل کی دھڑکن جو آواز پیدا کرتی ہے، وہ در حقیقت خدا کی بے پناہ یاد کے سبب ہوتی ہے ۔ وہ خوشنما آواز

۔”رب رب” ہے   ۔۔۔

اور انسان کے وجود سے جسم و جان کو اس آواز نے سنبھالا ہوتا ہے جو اسکے تنہا تن کو اندھیری رات میں بھی منور  رکھتاہے اور نور  عطا کرتا ہے اور نور کیا ہے ۔۔۔؟؟؟

 

۞ اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ ۖ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُورٌ عَلَىٰ نُورٍ ۗ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ۔۔۔۔

 

خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ ہے۔ اور چراغ ایک قندیل میں ہے۔ اور قندیل گویا موتی کا سا چمکتا ہوا تارہ ہے۔ اس میں ایک مبارک درخت کا تیل جلایا جاتا ہے زیتون کہ نہ مشرق کی طرف ہے نہ مغرب کی طرف۔ اس کا تیل خواہ آگ اسے نہ بھی چھوئے جلنے کو تیار ہے۔ روشنی پر روشنی ۔خدا اپنے نور سے جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ اور خدا بیان فرماتا ہے لوگوں کے لئے۔ اور خدا ہر چیز سے واقف ہے  ﴿۳۵﴾

 

یہی وہ نور ہے جو خدا کی ذات سے ملتا ہے جو سراپا نور ہے ۔سانس سے سانس ملتی ہے تو وجود جانا ں چودھو یں کے چاند سا خوشنما جگمگا جاتا ہے ،اور پھر کیا ہوتا ہے ۔۔۔؟؟؟

 

پھر حیات کا تسلسل کھلتے ہوۓ گلاب کی طرح رواں نور دل سے نور زندگی بخش کر ہر طرف سکون ہی سکون بھر دیتا ہے۔ وہ سکون جو صرف اللّه سے قرب میں ملتا ہے۔ اللّه نے دل بنایا اور دھڑکنوں کے اندر سانس لینے والا سکون اپنے ذکر میں رکھ دیا ۔جتنا ذکر کرو گے اتنا دل معطر ہو گا اور اتنا سکون دل میں اترے گا۔ جو پھر نور کا راستہ بنائے گا، اور نور اسی راستے سے ہوتا ہوا دل کے زنگ دھو دے گا۔ وہ زنگ جو دنیا وی خواہشا ت کے سبب دل میں بھر نے لگتے ہیں وہ اب مٹنے لگتے ہیں ۔۔۔۔

اور دھندلا منظر بھی وا ضح ہونے لگتا ہے، اور اللّه کے بناے ہوۓ خالص دل میں کی گئی ملا وٹ دھلنے لگتی ہے اور دل پاک ہونے لگتا ہے ۔۔۔کیوں کہ اس دل کو بنانے والا رب پاک ہے ۔وہ جسے چاہتا ہے خاص کر لیتا ہے اور جسے خاص کر لیتا ہے اسے پاک کر لیتا ہے ۔۔۔اور پھر سا رے وجود میں بس نور ہی نور بھر جاتا ہے وہ نور پر نور ہے۔۔۔۔

نور کے اوپر نور ہے ۔۔۔۔

یہی وہ سانس ہے۔۔۔۔

جس میں نور ہے ۔۔۔۔

جو نور ہی نور ہے ۔۔۔۔

اور سب سے خوبصورت بات پتہ ہے کیا ہے؟؟؟۔۔۔

دل کی رسائی خدا تک ہو جانا ۔۔۔

اس کے بعد دل دل نہیں رہتا عاجزی کا وہ ٹکڑا بن جاتا ہے جس کی آغوش میں دھڑ کتی ہوئی دھڑکنیں ہر پل بس  ایک ہی مالا جپتی ہیں اللہ اللہ ۔۔۔اس سے اوپر انہیں کچھ ہوش نہیں رہتا ۔۔۔ ہوش احوال سب مفلوج سے ہوئے جاتے ہیں اللہ کی دھن ساز بن کر جسم کے ہر  دھاگے میں اپنا اثر چھوڑ نے لگتی ہے ۔۔۔۔

مگر سانس کے سمندر میں آنے والے طوفان کے بعد دل تک لہریں رسائی پاتی ہیں ۔۔۔۔ اللہ یونہی کب ملتا ہے اللہ کی محبت اس کی تڑپ کے بعد ملتی ہے۔۔۔

خداڈھونڈنے سے واقعی مل جاتاہے مگراس وقت جب آپکی تلاش سچی اورپکی ہوتی ہے۔۔۔

اور جس تلاش کے کشکول میں کھوٹ کے سکے شامل ہوں پھر ان کو 'اللہ' نہیں ملتا۔۔۔

وہ جو وجود کا حاضرنہیں تو لاوجود بھی نہیں۔۔۔

وہ جو ہمارارب ہےہمارا مددگار۔۔۔

وہ چنے ہوئے لوگوں سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ وہ تو سب کاہےتمہارامیراسب کا۔۔۔

اسکو آپکی غفلت سے فرق نہیں پڑتاکیونکہ غفلتوں کے فرق تو ذاتی ہوتے ہیں۔۔۔۔

آپکی ریاضتوں کو مٹی کرنیوالے۔۔

سکون چھین لینے والے۔۔

غافل نہ بننا کبھی۔۔۔

اور وہ جو ہمارارب ہے ناں سب کا سانجھاہے

بشرساتھ چھوڑدیں مگروہ کڑکتی بجلی،طوفانی بارشوں میں بھی آپکو اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتاہے۔۔۔

ہر پہر ،چاہے پہرفجر ہو یا شام ڈھلے وہ آپکے ساتھ ہے۔۔۔

ہرراستے،ہرسفر پر وہ آپکاہمسفرہے۔۔۔کیوں کہ

وہ اپنی مخلوق کو تنہانہیں چھوڑتا۔۔۔

جب ہر طرف تاریکی ہو اور آپ اندھے کی طرح بھٹک رہے ہوں تو وہ آپکو تھام لیتاہے۔۔۔اپنے یقین سےاپنی آس سے۔۔وہ نور ہے وہ روشنی ہی روشنی ہے ۔۔۔

جب اللہ کو مشکل میں یاد کیاجائے تو وہ راضی ہوتاہے کیونکہ یہ اسی کا حق ہے کہ اسے مشکل میں یاد کیاجائے۔۔۔

اور جب اسے بغیر کسی غرض کے یاد کیاجائے تو وہ خوش ہوتاہےاور خوشی یقینا رضاسے بہتردرجہ ہے

اور اللہ کو یاد کرنا بغیرکسی غرض کےشکر کو ہرپہرکاحصہ بنالینا ہی اصل ہے زندگی کا ۔۔۔

سجدوں میں کی گئی ملاقاتوں کالطف بہت اعلی ہے سجدہ نور ہے اور بےشک ساری دنیاکی لذت سجدے میں سمٹ آتی ہے۔۔۔

لوگ،جذبے،موسم،وقت بڑی بے وفاچیزیں ہیں۔۔۔

یہ تو آوارہ ہواکی مثل ہیں ۔۔آج مشرق تو کل مغرب اور وہ جو ہمارا اللہ ہے ناں ۔۔۔وہ ہمارے  ساتھ کبھی لہجے نہیں بدلتا اکیلانہیں چھوڑتا وہ تو بس جاوداں ہے۔۔۔

سجدہ،ذکر،شکر اللہ سے ملاقات کے رستے ہیں ۔۔۔آپ ایک قدم بڑھاکردیکھیں وہ سارے فاصلے ختم کردے گا۔۔

وہ جو اللہ ہےہمارا خالق

یقین  ہی یقین ہے ہمیشہ مل جاتا ہے 

"ڈھونڈنے سے واقعی اللہ مل جاتا ہے۔۔۔۔"

اوراب  مل رہا تھا سب کھلنے لگے تھے سات پردے ۔۔۔ساتھ  نور کے سمجھ آ رہا تھا سب۔۔۔

پہلا پردہ پہلا راز کھول دیا گیا تھا ۔۔۔

اس میں مقید ایک ہی دیپ صدیوں سے روشن ہے بس اسے جلایا جاتا ہے با لکل ذیتون کے تیل کی طرح ۔۔۔ ایک بار جلایا جاتا ہے اور پھر ممکن ہے اپنے آپ ہی جلے۔۔۔۔

"یقین "

یقین کا دیا ۔۔۔

ایسا چراغ جو بس ایک بار جلایا جاتا ہے جس کی روح تک کٹ جاتی ہے مگر سانس اپنی انتہاوں پہ اس کے سانچے میں جلتی ہے ۔۔۔اسے نوازا جاتا ہے اور  پتہ ہے یقین کی ہر ہر کرن روشن ہے اللہ سے جوڑ کر اکیلا رہنے ہی نہیں دیتی اس میں  سکون ہی سکون ہے ۔۔۔۔نور ہی نور ہے جب یقین کے سفر میں پختگی آتی ہے تو راہ زیست کا ہر گوشہ گوشہ بکھرنے سے پہلے نکھرنے کی طرف سماں ڈھونڈنے لگتا ہے ۔۔۔۔

نور کے اوپر نور ہے ۔۔۔

اک نور اللہ ہے

اک نور یقین ہے 

اک نور وہ سب کو دیتا ہے 

اک نور وہ  خاص کو نوازتا ہے 

اک نور عطا ہے 

آک نور التجا ہے 

اک نور دعا ہے 

اک نور صدا ہے 

نور پر نور ہے 

نور کے اوپر نور ہے 

یقین نور ہے 

اللہ نور ہے 

پر نور ہے 

 ایسا یقین جس کی ہر گرہ کھلنے پر آسمانوں کی جانب سے راحتوں کی بارش نور کے قطروں کی ما نند زمین پہ برستی ہے ۔۔۔۔اور وجود کی تلخیاں مٹنے لگتی ہیں وجود پاک ہونے لگتا ہے راہیں کھلنے لگتیں ہیں اور منظر سنورنے لگتا ہے ۔۔۔بس اک یقین کا چراغ روشن کرنے کی دیر ہوتی ہے رب رستے خور بنا دیتا ہے اور وہ رب جسے چاہتا ہے اسے خود تھام لیتا ہے اللہ کی محبت اس کی تڑپ کے بعد دل تک لہروں کی مانند  رسائی پاتی ہیں اور وہ نوازتا ہے پختہ یقین کے سفر میں ۔۔۔۔سات کےسات پردے نور ہے  پہلا نور یقین ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

رائٹر:سدرہ اصغر۔۔۔۔

ایس ایس نور ۔۔۔۔