خواب

2019-11-12 20:53:58 Written by امان سعید خان

سلسلہ "معمہ"

کیس نمبر: 11

"خواب"

 

               کچھ لوگوں کو یہ یاد رکھنے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے کہ انہوں نے خواب میں کیا دیکھا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہر انسان خواب ضرور دیکھتا ہے۔

جس کا مطلب ہے کہ ان کی ہماری زندگی میں ضرور کوئی اہمیت ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں خواب صرف اس لیے دکھائی دیتے ہیں کہ ہمارے پاس دماغ ہے؟ جس میں بہت کچھ محفوظ ہوتا ہے اور جب ہم سوتے ہیں تو وہ سب کچھ جو دماغ میں موجود ہوتا ہے وہ بے ترتیبی سے ہمارے دماغ میں گھوم رہا ہوتا ہے؟

نہیں شاید ایسا نہیں ہے۔ بلکہ خواب ایک پورا فلسفہ ہے جو ہمیشہ سے نیند سے متعلق تحقیق کرنے والے محققین اور سائنسدانوں کے لئے دلچسپی کا باعث رہا ہے۔ ایک دنیا تو وہ ہے جسے ہم آنکھیں کھول کر دیکھتے ہیں مگر ایک دنیا ایسی بھی ہے جو ہماری آنکھیں بند ہوتے ہی ہماری منتظر ہوتی ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں ہماری روح ہماری اجازت کے بغیر جو چاہے کرتی ہے۔

عالم بیداری یا شعوری زندگی کی اپنی مشکلات ہیں مگر عالم خواب اپنے اندر ایک اور پیچیدہ دنیا لئے ہوئے ہیں مگر سائنس دان اب تک واضح طور پر کسی ایسے حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ خواب اصل میں ہیں کیا اور ان کے حقیقی محرکات کیا ہوتے ہیں۔ اور جب بھی ہم کسی چیز کو سائنسی طور پر سمجھنے سے قاصر ہوں تو دیگر صورت میں ہم نظریات پر اکتفاء کرتے ہیں۔

خوابوں کے متعلق بھی مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔

 

خوابوں کے متعلق کچھ نظریات:

خواب کے متعلق سب سے عام نظریہ یہ ہے کہ خوابوں کا تعلق خواہش، خوف اور یادداشتیں مرتب کرنے کے عمل سے ہے یعنی ہماری وہ بہت سی خواہشات جو ہمیں خوابوں کی صورت میں دکھائی دیتی ہیں اور ہمارے اندر موجود مختلف خوف، اندیشے واہمے، وسوسے، بے یقینی کی کیفیات ڈپریشن وغیرہ جو ہماری دیکھی ہوئی اشیاء کی تماثیل بن کر خوابوں کی صورت میں ڈھل جاتے ہیں اور نیند کے دوران جب ہمارا دماغ مختلف نوعیت کی یادداشتوں کی درجہ بندی کر کے انہیں اپنے اپنے مخصوص مقامات پر محفوظ کر رہا ہوتا ہے تو اس پیچیدہ عمل کے دوران بعض چیزیں خواب کی صورت میں ہمارے تصور میں آجاتی ہیں. اس نظریے کہ ہامی کہتے ہیں ہم جو بھی خواب میں دیکھتے ہیں وہ سب کچھ ہمارے دل و دماغ میں ہوتا ہیں وہ ہمارے اندر کی چھپی ہوئی خواہشات، وہم اور ہمارے اندر کا ڈر ہوتا ہے جو خواب میں کھل کر سامنے آتا ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ ہم تو خواب میں ایسے لوگوں سے بھی ملتے ہیں جنہیں ہم نے کبھی دیکھا نہیں ہوتا اور اکثر تو ایسی صورتحال کا بھی سامنا کرتے ہیں جن کا ہماری زندگی سے ایک فیصد تعلق بھی نہیں ہوتا۔ اور ایسے لوگ بھی ڈراؤنے خواب دیکھتے ہیں جو کسی قسم کے خوف کا شکار نہیں ہوتیں۔

دوسرا طبقہ خواب کی حقیقت کے بارے میں یہ رائے

خواب ایک الگ دنیا ہے ایک ایسی دنیا جہاں ہماری روح تب جاتی ہے جب وہ جسم کی قید سے آزاد ہو۔ وہ صرف ارواح کی دنیا ہے جہاں کے قانون اس دنیا کے قانون سے مختلف ہیں۔ وہاں وقت کا کوئی تصور نہیں اسی لئے اکثر ہم 15 منٹ کی نیند میں بھی ایسے خواب دیکھ لیتے ہیں جو ایک طویل کہانی پر مبنی ہوتے ہیں جبکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک طویل خواب میں بھی کوئی مختصر کہانی پوری نہیں ہو پاتی۔ خوابوں کی دنیا میں آپ کی روح آزاد ہوتی ہے اور وہ ہر طرح کی خواہش پوری کر سکتی ہے۔ آپ پاکستان کی سڑک پر چلتے چلتے جب دل چاہے وہی سے لندن کی طرف نکل جاتے ہیں۔ فاصلے کا تعلق کیونکہ وقت سے ہے میں اکثر ایسے خواب دیکھتا ہوں جس میں کراچی کی کسی گلی میں داخل ہوتا ہوں تو اگلے ہی لمحے اپنے گاؤں مردان میں پایا جاتا ہوں۔ آئین سٹائین کے ایک نظریہ کے مطابق دنیا سے کوئی چیز مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکتی ہاں وہ کسی اور شکل میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ تو جب انسان انتقال کر جاتا ہے تو اس کا جسم مٹی میں تبدیل ہو جاتا ہے اور روح ہوا میں تحلیل ہو کر ارواح کی دنیا میں چلی جاتی ہے اسی لئے ہم خواب میں ایسے لوگوں کی ارواح سے بھی ملاقات کر لیتے جنہیں دنیا سے گزرے ہوئے کئی سال بیت چکے ہوتے ہیں۔

روز مرہ کے خوابوں کے متعلق ایک رائے میری اپنی ہے۔ آپ نے خود بھی محسوس کیا ہوگا کبھی آپ تنہائی میں بیٹھے اور اپنے پاس سے آپ کا دھیان اپنی طرف کھینچنے والی تمام چیزوں کو دور کریں تو آپ سوچوں میں گم ہو جائیں گے پھر آپ کو سوچ پر سوچ آتی جائیں گی آپ بیٹھے بیٹھے سوچ ہی سوچ میں، اپنی سوچ کی طاقت سے، خیالوں میں کسی ایسے شخص سے ملاقات کر لیں گے جس سے آپ کی ملاقات ناممکن ہو، آپ اس دنیا سے گئے ہوئے کسی اپنے دوست سے گفتگو بھی کرلیں گے، آپ اپنے آپ کو قبر میں لیٹا ہوا محسوس کرلیں گے یا کسی ایسے ملک کی سیر کر آئیں گے جس کا وجود ہی دنیا میں نہ ہو۔ جی ہاں میں سپنوں کی بات کر رہا ہوں۔ خواب کی وہ قسم جو ہم جاگتی آنکھوں سے دیکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جب ہم سوتے ہیں تو ہمارا دماغ دنیا کی تمام دھیان بدلنے والی چیزوں سے آزاد ہو جاتا ہے اور وہ اسی طرح گہری سوچ میں ڈوب جاتا ہے اور ہمارے تصور پر ایسی ایسی باتوں کو سامنے لے آتا ہے جسے ہم اگر دیگر اوقات میں سوچیں تو ہمیں بہت عجیب محسوس ہو۔ ایسے خواب ہماری روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات، خواہشات اور جذبات سے تشکیل پاتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ آپ راہ چلتے ہوئے کوئی بہت معمولی کار ایکسیڈنٹ دیکھتے ہیں اور آپ سوچتے ہیں کہ شکر ہے کوئی بڑا ایکسیڈنٹ نہیں تھا اس طرح آپ کے تصور میں ایک بڑے ایکسیڈنٹ کا بہت معمولی سا خیال آجاتا ہے اور پھر جب خواب میں آپ کا دماغ آزاد ہوتا ہے تو آپ کا دماغ اسی معمولی خیال کو سوچتے ہوئے آپ کو خواب میں ایک بڑا ایکسیڈنٹ دکھا دیتا ہے۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ پیدائشی اندھا خواب نہیں دیکھ سکتا کیونکہ اس کے ذہن میں کسی شے کی صورت نہیں ہوتی البتہ وہ آوازوں اور کیفیات و احساسات کی صورت میں خواب کے عمل سے دوچار ہوتا ہے۔

 

سچے خواب:

روز مرہ کے عام خوابوں کے علاوہ خوابوں کی دوسری قسم وہ ہے جس کا تعلق سچے خوابوں سے ہے، اس کے بارے میں سائنس واضح الفاظ میں اعتراف کرتی ہے کہ ہم ابھی تک ایسے خوابوں کو سمجھنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں مثلاً خواب میں دیکھنا کہ فلاں وقت اور فلاں جگہ فلاں شخص سے ملاقات ہوئی اور پھر اگلے ہی روز وہ شخص اسی مقام پر اسی وقت مل گیا یعنی خواب سچ ہو گیا۔ تو اس قسم کے خوابوں پر فی الحال جدید سائنس خاموش ہے۔ البتہ سائنس کے علاوہ دیگر شعبہ جات میں ایسے خوابوں کو حقیقت تصور کیئے جانے کے علاوہ ان خوابوں کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا میں ہر قوم اور دور کے لوگوں نے سچے خواب دیکھے ہیں اور کروڑوں لوگ اب بھی سچے خواب دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ جب کہ کچھ سائنسدان ایسے خوابوں کو اتفاق کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان فقد ایک رات میں کئی خواب دیکھتا ہے اور انہیں بھول بھی جاتا ہے مگر اتفاق سے ان خوابوں میں کوئی خواب کسی حقیقت سے جا ملے تو انسان سمجھتا ہے کہ اس نے سچا خواب دیکھا۔ انسان کبھی ان لاکھوں دیکھے گئے خوابوں کا ذکر نہیں کرتا جو جھوٹے ہو جاتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو کسی معاملے کے ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے تو اسے اس ہی معاملے کے متعلق خواب آتے ہیں اور پھر اگر اتفاق سے وہ معاملہ حقیقت میں وقوع پذیر ہو جائے تو انسان اسے سچے خواب کا نام دے دیتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر سچا خواب محض اتفاق ہوتا ہے تو دنیا کے مشہور واقیات رونما ہونے سے پہلے ایک ہی رات میں کیسے ہزاروں لوگوں ان واقعے سے پہلے ان سے متعلق خواب دیکھا۔ دنیا کے مشہور جہاز ٹائٹینک کو جس رات ڈوبنا تھا تو کیوں اسی رات دنیا بھر میں کئی لوگوں نے خواب میں کسی جہاز کو ڈوبتا ہوا دیکھا۔ اسی طرح سونامی آنے سے پہلے بھی ہزاروں لوگوں نے دعویٰ کیا کہ رات کو انہوں نے خواب میں قیامت کا منظر دیکھا تھا۔

جون 2006 میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ہفتے کے دن قیامت آنی ہے اور پھر ہفتے کے دن ہی گورمنٹ آف پاکستان نے ہمارے علاقے کو ان لیگل قرار دے کر ہم پر قیامت برپا کر دی تھی۔ اگر مجھے اندیشہ بھی تھا تو میں نے خواب میں ہفتے کا ہی دن کیوں دیکھا تھا۔ جب کہ حکومت نے کاروائی کے دن سے کسی کو آگاہ نہیں کیا تھا تاکہ علاقہ مکینوں کی طرف سے کم سے کم مذمت کا سامنا ہو۔ ہمارے علاقے میں کسی کو اس کا علم نہیں تھا کہ ہفتے کے دن حکومت کاروائی کرے گی۔

 

دیجاوو کسے کہتے ہیں:

کچھ مہینے پہلے میں اپنے محلے میں بیٹھا موبائل میں مصروف تھا کہ میرے محلے کی ایک شرارتی بچی نے ایک دم سے آ کے میرے کان میں کچھ کہا میں نے کہا کچھ سمجھ نہیں آئی دوبارہ تیز بولو۔ پھر اس نے ہنستے اور شرماتے ہوئے دوبارہ بتایا کہ 2 دن بعد اس کی سالگرہ ہے اور وہ کیک لائے گی۔ جس کے لئے وہ مجھ سے "بھتہ" وصول کرنا چاہتی تھی۔ بد قسمتی سے میری جیب میں سگریٹ پینے کے پیسے بھی نہیں تھے۔ اتفاق سے میرا دوست آیا تو میں نے اس سے پیسے لے کر بچی کو دیئے وہ پیسے لیتے ہی بھاگی تو فوراً سے احساس ہوا کہ یہ منظر تو میں پہلے بھی دیکھ چکا ہو۔ ہو بہو اسی طرح تو تھا سب کچھ۔ بالکل اسی طرح بچی نے مجھے کان میں بتایا، پہلی باری میں سمجھ نہیں آیا، میرا دوست آیا، میں نے دوست سے پیسے لیے، بچی کو دیئے اور وہ اسی طرح ہنستے ہوئے بھاگی تھی۔

ایسا مجھے اس سے پہلے بھی کئی دفعہ محسوس ہوا کہ میں جو دیکھ رہا ہوں ایسا پہلے بھی ہوا ہے۔ میں اپنے دوستوں سے بھی اس احساس پر تبادلہ خیال کر چکا ہوں مگر اس دفعہ تو یہ بہت زیادہ واضح طور پر تھا۔

مجھے لگا میں نے خواب دیکھا تھا ہو بہو یہی خواب۔

کیا آپ کے ساتھ بھی کبھی ایسا ہوا ہے؟

غالباً آپ کے ساتھ بھی کئی دفعہ ہوا ہوگا کیونکہ یہ مخصوص احساس دنیا میں اکثر لوگوں کو ہوتا ہے۔

اس احساس کو "Deja Vu" کہتے ہیں۔

"دیجا وو" فرانسیسی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہے "پہلے دیکھا ہوا"۔

احساس ہذا کو سائنس تسلیم نہیں کرتی مگر لاکھوں لوگوں کے ساتھ کبھی نہ کبھی اس طرح ہوتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ انسانی دماغ کا کمال ہے جو ہمیں دھوکا دیتا ہے۔ ہمارا دماغ ہمیں ایک جھوٹا احساس دلاتا ہے۔

مگر ہم ہر روز صبح اٹھ کر رات کو دیکھا ہوا خواب بھول جاتے ہیں یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ان لاکھوں بھولے ہوئے خوابوں میں وہ فوراً سے کسی یاد آنے والا منظر بھی ایک خواب ہو جو ہم نے برسوں پہلے دیکھا ہو ہم اسے بھول گئے ہوں پھر اس وقت سچ ثابت ہونے پہ ہمیں یاد آجاتا ہو۔

"دیجا وو" کے متعلق اب تک کوئی واضح طور پر نہیں بتا سکا کہ انسان کو ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے۔

 

خواب اسلام کی نظر میں:

اسلامی عقائد کے مطابق خواب کی دو اقسام ہیں۔ خواب یا تو اللہ کی طرف سے بشارت ہوتے ہیں یا پھر نفسانی خیالات اور شیطانی تصورات کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ یعنی سچے اور جھوٹے خواب۔ اور اسلام دونوں طرح کے خوابوں کی حقیقت تسلیم کرتا ہے۔

قرآن میں نیک خواب کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے۔

اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنo لَھُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ۔(سورہ یونس : 63، 64)

(وہ) ایسے لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (ہمیشہ) تقویٰ شعار رہے۔ ان کے لئے دنیا کی زندگی میں (بھی عزت و مقبولیت کی) بشارت ہے اور آخرت میں (بھی مغفرت و شفاعت کی/ یا دنیا میں بھی نیک خوابوں کی صورت میں پاکیزہ روحانی مشاہدات ہیں اور آخرت میں بھی حُسنِ مطلق کے جلوے اور دیدار)۔

تقریباً تمام مفسرین نے اپنی اپنی تفسیروں میں صراحت کے ساتھ یہ بات درج کی ہے کہ اس قرآنی آیت میں لفظ بشری سے مراد وہ نیک خواب ہیں جو ایمان والے دیکھتے ہیں۔

اسی سورہ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے

وَکَذٰلِکَ یَجْتَبِیْکَ رَبُّکَ وَیُعَلِّمُکَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ (سورہ یوسف: 6)

اسی طرح تمہارا رب تمہیں (بزرگی کے لئے) منتخب فرما لے گا اور تمہیں باتوں کے انجام تک پہنچنا (یعنی خوابوں کی تعبیر کا علم) سکھائے گا۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک طرف جہاں بہت سے کمالات اور معجزات عطا فرمائے، وہیں پر انہیں میں خوابوں کی تعبیر کا علم اور فن بطور خاص عطا فرمایا۔ اور اس بات کا ذکر بطور خاص فرمایا۔ مثلاً بادشاہ مصر اور قیدیوں کے خواب حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے بیان ہوئے۔ آپ نے ان کی تعبیر بیان فرمائی اور اس تعبیر کے مطابق آئندہ واقعات رونما ہوئے۔

اس طرح قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خواب بھی مذکور ہے، جب انہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا تھا:

یٰبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْمَاذَا تَرٰی۔ قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ (۱۰۲) فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ(۱۰۳)(سورۃ الصافات)

اے میرے لخت جگر، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے ذبح کررہا ہوں، پس بتا، تیری کیا رائے ہے؟ اسماعیل نے فرمایا، ابا جان، آپ کو جس بات کا حکم دیا گیا ہے، کر گزریئے، آپ یقیناً مجھے صابر و شاکر پائیں گے

پھر اس کے بعد قرآن مجید میں اس خواب کی تعبیر یوں مذکور ہے

فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ(۱۰۳) وَنَادَیْنٰہُ اَنْ یّٰٓاِبْرٰھِیْمُ(۱۰۴) قَدْ صَدَّقْتَ الرُّئْ یَا۔ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۰۵) اِنَّ ھٰذَا لَھُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ(۱۰۶) وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ (۱۰۷) وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ(۱۰۸)سورۃ الصافات

پھر جب باپ بیٹا دونوں فرمانبرداری پر مستعد ہوئے اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا، تو ہم نے اسے پکارا ، اے ابراہیم، (ہاتھ روک لیجئے) آپ نے اپنا خواب سچا کر دکھایا، ہم نیکوں کو اسی طرح جزا دیا کرتے تھے۔ یقیناً یہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی (جس میں آپ پورے اترے) اور ہم نے اس کے بدلہ میں بڑی قربانی دی اور ہم نے اسے پچھلوں کے لیے آپ کا ورثہ اور ترکہ بنا دیا۔

اسی طرح آحادیث رسول ﷺ میں ہیں

الرُّؤْیَا الصِّالِحَۃُ جُزْئٌ مِنْ سِتَّۃٍ وَأَرْبَعِیْنَ جُزْئًا مِنَ النُّبُوَّۃِ

سچا خواب، نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔

(صحیح بخاری کتاب التعبیر)

ایک اور روایت ہے

لَمْ یَبْقَ مِنَ النُّبُوَّۃِ اِلا المُبَشِّرَاتْ

اب نبوت باقی نہیں رہی (ہاں اس کا فیض) مبشرات کی صورت میں باقی ہے۔

(صحیح بخاری کتاب التعبیر)

ایک مقام پر فرمان رسول ﷺ ہیں

إِنَّ الرِّسَالَۃَ وَالنُّبُوَّۃَ قَدْ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ، قَالَ: فَشَقَّ ذَالِکَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ: لَکِن المُبَشِّرَاتُ

میرے بعد نبوت و رسالت کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے، اب کوئی رسول آ سکتا ہے نہ کوئی نبی،اور فرمایا یہ دشوار ہو گا لوگوں پر۔ فرمایا لیکن مبشرات ہوں گی.

(سنن ترمذی ابواب الرؤیاء)

بخاری میں ذکر ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے پوچھا یا رسول ﷺ وہ مبشرات کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا

الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ

وہ نیک خواب جو اہل ایمان کو آتے ہیں۔

(صحیح بخاری کتاب التعبیر)

 

سچے خوابوں کے علاوہ روز مرہ کے عام خوابوں کو اسلام نفسانی خیالات اور شیطانی تصورات کا مجموعہ کہتا ہے۔

اور ان شیطانی تصورات سے بچنے کے لئے اسلام نے کچھ ہدایات بھی انسان کو فراہم کی ہے۔ جس میں کچھ مسنون دعاؤں کے ساتھ ساتھ رسول ﷺ نے دائیں کروٹ سونے کی بھی تلقین کی ہے۔

سائنسی تحقیق نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ بائیں کروٹ سونے والے افراد کو ڈراﺅنے خواب آتے ہیں جبکہ اس کے برعکس دائیں جانب کروٹ لے کر سونے والوں کو پرسکون نیند آتی ہے اور خواب بھی اچھے آتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق بائیں کروٹ سونے والے 40 فیصد افراد نے اعتراف کیا کہ انہیں ڈراﺅنے خواب آتے ہیں جبکہ بائیں کروٹ سونے والے صرف 14 فیصد افراد کو بھیانک خواب آئے۔ رپورٹ کے مطابق دائیں کروٹ سونے والے افراد کو نیند میں بھی تحفظ کا احساس رہتا ہے۔یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اوندھے منہ سونا جنسی اختلاط پر مبنی خوابوں کا باعث بنتا ہے۔

 

ڈراؤنے خواب کیوں آتے ہیں؟

نیند میں ڈراؤنے خواب آنا معمولی بات ہے جس کا بظاہر کوئی نقصان نہیں۔ لیکن اگر کسی شخص کو بار بار ایسے تجربے کا سامنا ہو تو یہ سنگین ذہنی امراض کا شکار ہو سکتا ہے۔ 

فن لینڈ کی ٹیورکو یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ نیند کے دوران نظر آنے والے یہ خوفناک خواب ذہنی امراض کی ابتدائی علامت ہوتے ہیں۔تحقیق کے مطابق اس طرح کے خوابوں کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیئے اور اس حوالے سے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیئے۔ اس تحقیق کے دوران 1972 سے 2012 کے دوران 71 ہزار سے زائد افراد میں کیے جانے والے ایک سروے کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ ایسے خواب زیادہ دیکھنے والے افراد میں مختلف ذہنی امراض کی نشاندہی ہوتی ہے۔ محققین نے ایسے خوابوں کو منفی جذباتی حالت کی نشانی قرار دیا، جس کے نتیجے میں مزاج برہم رہنے سمیت دیگر ذہنی عارضوں کا خطرہ بڑھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں اس حوالے سے مریضوں کی حالت میں بہتری لانے کے لیے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہوگی کیونکہ یہ سنگین مسائل کی ابتدائی نشانی ہے۔ تحقیق میں یہ بات معلوم ہوئی کہ بہت زیادہ ڈپریشن کے شکار افراد کو ہفتے میں کم ازکم ایک بار ڈرائونا خواب آتا تھا جبکہ صرف دو فیصد لوگ ایسے تھے جنہیں کوئی ذہنی تناؤ نہ تھا لیکن انہیں ڈراؤنے خواب آئے . اسی طرح جو لوگ بے خوابی کا شکار تھے ان میں 17فیصد کا کہنا تھا کہ وہ ڈراؤنے خوابوں کا شکار ہوتے ہیں جبکہ پر سکون نیند سونے والے افراد میں سے صرف ایک فیصد کا کہنا تھا کہ انہیں ڈراؤنے خواب آتے ہیں .محقق نیلز سینڈمین کا کہنا تھا کہ اگر آپ ذہنی تناؤ اور بے خوابی کا شکار ہیں تو آپ کے دماغ میں یہ باتیں چلتی رہتی ہیں اور جب آپ سوتے ہیں تو بھیانک خواب کی صورت میں سامنے آتی ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ ہر انسان کے ساتھ ایسا ہو۔

 

کیا آپ کو کبھی ایسا محسوس ہوا ہے:

کیا آپ نے کبھی سوتے ہوئے یوں محسوس کیا ہیں جیسے آپ کا پورا جسم کسی ان دیکھی طاقت میں قید ہو گیا ہے، آپ اٹھنا چاہتے ہیں اٹھ نہیں پاتے، چیخنا چاہتے ہیں، چیخ نہیں پاتے تو اس میں پریشان ہونے والی کوئی بات نہیں کیونکہ اس صورتحال کا سامنا کرنے والے صرف آپ ہی نہیں بلکہ ہر شخص کبھی نہ کبھی اس کیفیت کا شکار ہو جا تا ہے۔ انسان کی اس کیفیت کو "سلیپ پیرالائزز" یعنی نیند کا فالج کہتے ہیں جس پر میں اسی گروپ میں تفصیلی پوسٹ بھی کر چکا ہوں۔ مختصراً بتاؤں کہ جب انسان گہری نیند سو رہا ہوتا ہے تواس کی آنکھیں بند ہونے کے باوجود حرکت کر رہی ہوتی ہیں، بعض اوقات اسی کیفیت میں انسان کا دماغ پوری طرح جاگ اٹھتا ہے، جبکہ جسم ابھی بھی سو رہا ہوتا ہے ایسے میں انسان اٹھنے کی کو شش بھی کرے تو اٹھ نہیں پاتا۔ ماہر نفسیات ڈاکٹروں کا کہنا ہے ہر انسان اپنی زندگی میں کئی بار اس کیفیت کا شکار ہو جا تا ہے لیکن اس سے انسانی جسم یا دماغ پر کسی قسم کے منفی اثرات نہیں پڑتے بلکہ یہ کیفیت چند لمحوں پر محیط ہوتی ہے۔

 

ایسا تجربہ بھی بہت سے افراد کو ہوا ہو گا جب خواب دیکھنے کے دوران یہ احساس بھی ہوتا رہا کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہے ہیں اور اس احساس کے ساتھ ان کا خواب بھی جاری رہا ہو۔ اس حالت کو خوابِ ساطِع (lucid dreaming) کہا جاتا ہے۔ اس حالت میں دکھائی دینے والے خواب انتہائی واضح، روشن اور ساطع ہوتے ہیں۔ خواب ساطع کی حالت میں فہم اس درجے تک پائی جاسکتی ہے کہ وہ شخص فی الحقیقت حالت نیند میں ہونے کے باوجود خواب کا احساس بیدار کرنے والے اعصابی عوامل کو حقیقی سمجھ سکتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق بیس فی صد لوگوں کو خواب ساطع کا تجربہ ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ خواب ساطع کی حالت میں ایک فرد اپنی مرضی کے منظر دیکھ سکتا ہے، یعنی اپنے خوابوں کو کنٹرول کرسکتا ہے. مجھے ایسا خواب صرف ایک بار آیا تھا اور وہ اتنا واضع تھا کہ میں آج بھی نہیں بھولا ہوں۔ میں خواب بھی دیکھ رہا تھا اور یہ بھی محسوس کر رہا تھا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ وہ ایک اچھا خواب تھا سو میں نے اسے کافی دیر تک جاری رکھا تھا۔

 

کیا یہ دنیا بھی خواب کی طرح ایک احساس تو نہیں:

خواب میں ہم محسوس کر رہے ہوتے ہیں ہم بھاگ رہے ہیں حقیقت میں ہم بلکل اپنی جگہ سے نہیں ہلتے۔ ہم اپنے آپ کو کسی کے ساتھ گرماگرم بحث میں دیکھتے ہیں اصل میں ہم اپنا منہ تک نہیں کھولتے۔ ہم کسی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر سفر کر رہے ہوتے ہیں مگر اصل میں ہم اپنے بستر پہ پڑے رہتے ہیں۔ خواب میں ہم یہ ساری چیزیں واضح انداز میں تجربہ کرتے ہیں۔ ہمارے درمیان لوگ، ہمارے اطراف میں پائی جانے والی چیزیں اتنی حقیقی نظر آتی ہیں کہ ہم یہ تصّور نہیں کرسکتے کہ یہ سب خواب کا حصّہ ہیں۔

ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ایک کار ہم سے ٹکرائی اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی تکلیف کو ہم واضح طور پر محسوس کرتے ہیں۔ جب کار ہماری طرف آتی ہے تو ہم حقیقی ڈر محسوس کرتے ہیں، اسکی رفتار کو محسوس کرتے ہیں اور اس تصادم کے لمحے کو تجربہ کرتے ہیں۔ ان احساسات کی حقیقت کے بارے میں ہمیں ذرا بھی شک وشبہ نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ ہمارے دماغ میں ہو رہا ہوتا ہے مگر ہمیں ذرا بھی اسکا خیال نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اگر ہمیں خواب میں بتایا جاتا ہے کہ ہم خواب دیکھ رہے ہیں ہم مکمل طور پر اس امکان کو نظر انداز کرتے ہیں اور خواب کی اس دنیا کو ہی حقیقت سمجھتے ہیں۔ جب ہم اٹھتے ہیں تو وہ خواب میں پیش آئی ہوئی باتوں کو اسی طرح محسوس کرتے ہیں۔ کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی یہ جاننے کے لیے کہ اصل میں ہم خواب میں تھے۔ خواب ایک مظبوط اور واضح مثال ہے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ہمارے لیے باہر کی دنیا صرف ایک احساس ہے۔ جسطرح ایک خواب دیکھنے والے شخص کو کوئی اشکال نہیں ہوتا کہ اسکے اطراف میں پائی جانے والی چیزیں حقیقی ہیں بلکل اسی طرح یہ بہت مشکل سے سمجھ آتا ہے کہ جس دنیا کو ہم حقیقی دنیا سمجھتے ہیں وہ صرف ہمارے دماغ میں ہے۔ ہم ان تصویروں کو جنہیں ہم حقیقی زندگی کا نام دیتے ہیں بلکل اسی طرح محسوس کرتے ہیں جس طرح ہم خواب میں تجربہ کرتے ہیں۔ دونوں قسم کی تصویریں ہمارے دماغ میں بنتی ہیں۔ ہمیں دونوں تصویرں کے حقیقی ہونے کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہوتا جیسا کہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔ تاہم ہمارے پاس ثبوت ہے کہ خواب حقیقت نہیں ہے۔ جب ہم اٹھتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ "یہ سب تو ایک خواب تھا” تو ہم کس طرح یہ ثابت کر سکتے ہیں اس وقت جاگنے کی صورت میں ہم خواب نہیں دیکھ رہے۔

تو کیا خواب سے جاگنے کے بعد کی زندگی بھی خواب کی طرح بس ایک احساس تو نہیں۔

خواب میں اگر میں یہ پوسٹ لکھوں تو مجھے کبھی احساس نہیں ہوگا کہ میں پوسٹ خواب میں لکھ رہا ہوں اسی طرح آپ کو بھی یہ احساس نہیں ہوگا کہ آپ میری پوسٹ خواب میں پڑھ رہے ہیں۔

کیا ایسا تو نہیں کہ یہ زندگی بھی ایک احساس ہو خواب کی طرح؟ یہ گروپ، یہاں کے ممبرز اور یہ پوسٹ بس ایک احساس ہو؟؟؟؟