سلسلہ معمہ.. یتی

2019-11-15 12:49:16 Written by امان سعید خان

سلسلہ "معمہ"

کیس نمبر: 13

"یتی"

امان سعید خان 

 

              یہ معمہ ایک ایسی برفانی مخلوق کا ہے جس کے بارے میں متعدد کہانیاں مختلف قوموں کی لوک روایتوں میں موجود ہیں۔ اس مخلوق کو عام طور پر "یتی" کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسے بڑے پیروں والا (Bigfoot)، الما، کانگ می، میگو اور کئی اور مقامی ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ مخلوق بہت شرمیلی ہے اور انسانوں کی نظروں میں آنے سے بچتی ہے۔ لیکن اس کو دیکھنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ دنیا میں سینکڑوں لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے "یتی" کو دیکھا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ قریباً بارہ فٹ اونچے جانور ہیں۔ یہ لنگوروں کے برعکس بالکل سیدھے چلتے ہیں اور بڑے جثے والے انسان معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے چوڑے جسموں پر ان کے لمبے بازو دائیں بائیں جھولتے معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے لمبے اور بڑے سر ہوتے ہیں اور یہ نیم انسان اور نیم بندر معلوم ہوتے ہیں۔ ان کی کھال بال دار ہوتے ہی جیسی کھال سرخ لومڑی کی ہوتی ہے۔ یہ زیادہ تر پہاڑی چھچھوندر وغیرہ کھاتے ہیں اور کھانے سے پہلے اپنے شکار کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہیں جیسے انسان گوشت کو پہلے کاٹ لیتا ہے۔ یہ تو وہ سراپا تھا جو نیپال کے دیہاتیوں نے بیان کیا تھا۔ وہاں یہ مخلوقات عجیب نہیں سمجھی جاتی۔

 

             مغرب میں اس مخلوق کے حوالے سے پہلی مرتبہ 1832ء میں ایک خبر ایک برطانوی مہم جو بی ایچ ہوڈسن کے ذریعے پہنچی۔ وہ سلسلہ ہائے کوہ ہمالیہ میں نیپالیوں کے درمیان طویل عرصہ رہا تھا۔ وہ اپنے سفرنامے میں لکھتا ہے کہ اس نے ایک دراز قد بندر جیسا ایک شخص دیکھا جس کے جسم پر گہرے بال تھے۔ اس حوالے سے دوسری رپورٹ بھی ایک برطانوی شخص ہی کی طرف سے موصول ہوئی۔ 1887ء میں انڈین آرمی کے ڈاکٹر میجر لارنس ویڈل نے سکم کے قریب ایک علاقے میں غیر معمولی طور پر بڑے پیروں کے نشان دیکھے جن کے بارے میں اس نے کہا کہ یہ کسی ایسی مخلوق کے ہیں جوعام انسانوں کی نسبت کئی گنا بڑی ہے اور جو برفانی چوٹیوں میں رہتی ہے۔ ایسی کچھ اور خبروں کے بعد یورپ میں اس مخلوق کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کا خبط پیدا ہوگیا۔ وہاں سے مہم جوؤں کی کئی ٹیمیں ہمالیہ کی چوٹیوں کی طرف روانہ ہوئیں جن کا مقصد صرف یہ تھا کہ اس مخلوق کے بارے میں مزید معلومات اور شواہد اکٹھے کئے جائیں۔ بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائیوں میں ان مہمات نے برفانی دیو کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کیں۔ کچھ ایسی ہی معلومات ہمالیہ کی چوٹیوں کو سر کرنے کے جانے والے کوہ پیما بھی اپنے ساتھ لائے تو اس مخلوق کے بارے میں باقاعدہ لکھا جانے لگا۔ نیپال کے دیہاتیوں کے مطابق تبت کے لاما اور یتی ایسی مخلوقات ہیں جو پرے برفانی ویرانوں میں رہتی ہیں۔ یہ ویرانے ہمالیہ کے ڈھلوانی جنگلات سے پرے سطح سمندر سے بارہ سے بیس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان مخلوقات کے ٹھکانے پہاڑی غاروں میں ہوتے ہیں اور یہ رات کے وقت ہی اپنے ٹھکانوں سے نکلتی ہیں۔ 

کیا واقعی دنیا میں ایسے برفانی انسان موجود ہیں؟

اسکا جواب اکثر لوگ نہیں میں دیتے ہیں۔

تو پھر وہ کیا چیز ہے جسے سینکڑوں لوگوں نے دیکھنے کا دعویٰ کیے ہیں۔

 

            1921ء میں ایک مغربی فوجی نے اس مخلوق کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور یوں اس کا پہلا مغربی عینی شاہد یورپ کو ملا۔ اس فوجی کا نام کرنل سی کے ہاورڈ بری تھا۔ اس نے اپنی آنکھوں سے یتی کو جنگل میں بھاگتے دیکھا تھا۔ کرنل ہاورڈ بری ایک کوہ پیما تھا اور وہ کوہ پیماؤں کی ایک مہم کی سربراہی کررہا تھا جس کا مقصد ماؤنٹ ایورسٹ ماپنا تھا۔ سطح سمندر سے قریباً سترہ ہزار فٹ کی بلندی پر "لہاپکا پاس" کے قریب اس ٹیم نے ایک عجیب مخلوق دیکھی۔ یہ انسان نما جانور کافی تعداد میں تھے۔ اس مخلوق کے گزر جانے کے بعد جب کرنل ہاورڈ کی ٹیم نے اس مقام پر ان کے پیروں کے نشانات کو ناپا تو وہ عام انسانی پیر سے تین گنا بڑے تھے۔ تاہم کرنل نے اپنی ٹیم میں شامل مقامی لوگوں کی اس بات پر اعتماد نہیں کیا کہ یہ یتی کے پیروں کے نشان ہیں۔ بلکہ وہ اسے برفانی ریچھ جیسی کوئی شے سمجھا۔ تاہم اس کے بعد مغربی مہم جوؤں نے اس حوالے سے بہت سی معلومات حاصل کیں۔ سائنس دانوں پر مشتمل ایک ٹیم نے ایک غیر معمولی جثے والے انسان کو برف میں سے پودے اکھیڑ تے ہوئے دیکھا۔ اسی دور میں یہ خبر پھیلی کہ ایک یتی نے ایک مقامی تیرہ سالہ لڑکی کو اغوا کر لیا تھا۔ بعدازاں اس لڑکی کے بارے میں کچھ معلومات حاصل نہ ہو سکیں۔ تاہم اسی خبر کی بنیاد پر ہالی وڈ نے مشہور فلم "یتی" بنائی جس نے باکس آفس پر بہت کاروبار کیا۔ 1937 میں پہلی بار یٹی کے پیروں کے نشانات کی تصویریں حاصل کی گئیں اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کے اخباروں میں شائع ہوئیں۔ یہ تصویریں امریکہ کے ایک اخباری فوٹوگرافر فرینک سمتھ نے کھینچی تھیں۔ اس حوالے سے ایک اور واقعے نے بہت شہرت حاصل کی۔ اس واقعے کا یہاں بیان دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ یہ واقعہ دوسری جنگ عظیم کے دوران 1942ء میں رونما ہوا جب پولینڈ کے پانچ فوجی جنہیں سائبیریا میں قید میں رکھا گیا تھا‘ جیل توڑ کر بھاگے اور پیدل سفر کرتے ہوئے انہوں نے غیر معمولی مسافت طے کی۔ وہ منگولیا اور تبت کے راستے بھوٹان پہنچے اور وہاں سے وہ ہمالیہ کے پہاڑوں سے گزر کر انڈیا گئے۔ راستے میں پہاڑوں میں انہیں ایک عجیب واقعے سے دوچار ہونا پڑا جو انہوں نے واپسی پر سنایا تو اس واقعے کی دنیا بھر میں دھوم مچ گئی۔ کیونکہ اس واقعے نے برفانی دیو کے بارے میں اس سے پہلے بیان کئے جانے والے سراپے کی تصدیق کی۔ جبکہ ان فوجیوں کو اس بارے میں کچھ علم نہیں تھا کہ ان سے پہلے بھی کسی نے اس مخلوق یا اس کی نشانیوں کو دیکھا اور اس کا سراپا بیان کیا تھا۔ ان فوجیوں کے مطابق وہ ہمالیہ کے پہاڑوں میں سے گزر رہے تھے کہ ایک مقام پر وہ ایک درخت کے نیچے

سستانے کے لیے بیٹھے تو انہیں درخت کے دوسری طرف نشیبی علاقے میں خود سے چند ہی قدم دور دو انسان نما گوریلے دکھائی دیئے۔ گوریلوں نے بھی دیکھ لیا تھا کہ کوئی یہاں درخت کے پاس موجود ہے تاہم انہوں نے جیسے اس بات کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی۔ وہ کوئی توقف کئے بغیر برف کھودتے رہے۔ فوجیوں نے بتایا کہ وہ کوئی دوگھنٹے درخت کے پیچھے چھپے بیٹھے اس مخلوق کو حیرت سے دیکھتے رہے۔ فوجیوں نے بھی اپنی جگہ سے ہلنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ وہ سمجھ سکتے تھے کہ یہ ان کے سفر کا سب سے دلچسپ تجربہ تھا، اس لیے وہ اس کی تمام تفصیلات کو بغور دیکھنا چاہتے تھے۔ ایسے ہی دو انسان نما گوریلوں کے ایک جوڑے سے ناروے کے دو سیاحوں کی 1948ء میں انڈیا کے علاقے سکم میں مڈبھیڑ ہوئی تھی۔ تاہم اس جوڑے نے سیاحوں پر حملہ کردیا۔ جس کے جواب میں سیاحوں میں سے ایک فرد نے جس کے پاس رائفل تھی، ہوائی فائر کئے۔ وہ جوڑا خوف زدہ ہو کر وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔

 

            انیسویں صدی کے اوائل میں جب ایک انگریز مہم جو نے افریقہ میں گوریلا کو دیکھا تو حیرت سے بھونچکا رہ گیا، اور جب یہ اطلاع اس نے واپس آکر یورپ میں پھیلائی کہ اس نے ایک ایسا جانور دیکھا ہے جو انسانوں جیسا ہی ہے اور جسے ارتقاء کی زنجیر میں انسانوں سے پہلی کڑی قرار دیا جا سکتا ہے تو یورپ بھر میں اس دریافت پر شدید حیرت کا اظہار ہوا تھا۔ حالانکہ افریقہ کے مقامی باشندے اس جانور سے صدیوں سے متعارف تھے۔

اس دریافت نے انسانوں کو جو اطلاع دی، وہ یہ تھی کہ دنیا کا ابھی کتنا ہی حصہ ایسا ہے جو انسانی رسائی سے باہر ہے اور جس تک پہنچنے کی انسان کو کوشش کرتے رہنے چاہئے۔

1938ء میں بحیرہ ہند میں سے کوئلا کانتھ نامی ایک مچھلی پکڑی گئی تھی جس نے دنیا بھر کے ماہرین حیاتیات کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کیونکہ اس مچھلی کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ایک کروڑ برس پہلے مچھلیوں کی یہ قسم فنا ہو چکی ہے۔ اب صرف اس کے فوسلز ہی موجود تھے۔ لیکن اس مچھلی کی دریافت نے انسانی ذہن کو ایک اورطرح سے سوچنے پر مجبور کیا۔ کچھ ایسی ہی حیرت کی صورت حال سفید گینڈے، دیو ہیکل پانڈے اور کوموڈو ڈریگن کی دریافت کے وقت بھی پیدا ہوئی کیونکہ یہ اسطوریاتی جانور تھے اور ان کے بارے میں عام رائے یہی تھی کہ یا تو یہ لاکھوں سال پہلے فنا ہوچکے ہیں یا پھر یہ کبھی موجود ہی نہیں تھے اور ان کے بارے میں صرف انسانی ذہنوں کی اختراع کردہ کہانیاں ہی موجود ہیں۔ یہ جانور صدیوں سے دنیا میں موجود ہونے کے باوجود انسانوں کی نظروں سے پوشیدہ رہے۔ حتی کہ ان علاقوں میں رہنے والے، جہاں یہ جانور دریافت ہوئے، مقامی لوگ بھی ان کے وجود سے باخبر نہیں تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کو ایسی ہی مزید حیرتوں کے لیے بھی تیار رہنا چاہئے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ایسی بہت سی مخلوقات اور بھی یہاں موجود ہوں، جن کے بارے میں صرف کہانیاں ہی ہمارے پاس موجود ہیں اور جنہیں ہم اسطوریاتی تصور کرتے ہیں۔

تبت کی لاما سے منسوب خانقاہوں میں اس مخلوق کی ممیاں موجود ہیں، اور ان کی کھالوں سے بنا سامان بھی موجود ہے لیکن وہ کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ اس سامان کو خانقاہ سے لے جائے کیونکہ ان کے خیال میں لیبارٹری میں لے جا کر سائنسدان ان چیزوں کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ ان خانقاہوں تک عام لوگوں کی رسائی بھی نہیں ہے۔

ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ ایسا علاقہ ہے جہاں سارا سال برف گرتی ہے اور وہاں ایسے علاقوں کی کثرت ہے جہاں شاذ ہی کبھی کوئی انسان پہنچ پاتا ہے۔ ان برفانی ویرانوں میں ان انسان نما گوریلوں کی موجودگی ممکن ہو سکتی ہے۔

 

            یٹی کے حوالے سے پہلی مرتبہ 1832ء میں ایک برطانوی مہم جو ہوڈسن نے اپنے سفر نامے میں لکھا تھا۔ وہ سلسلہ ہائے کوہ ہمالیہ میں نیپالیوں کے درمیان طویل عرصہ رہا تھا۔ اور ظاہر ہے کہ وہاں کے لوگوں میں اس مخلوق کی کہانی کئی نسلوں سے چلی آرہی تھی۔ ہو سکتا ہے ہوڈسن نے یٹی کو کافی تلاشا ہو اور طویل تلاش کے باوجود اسے کچھ نہ ملا ہو مگر وہاں کہ کافی لوگوں سے ذکر سنا ہو اور پھر اس نے یہ سوچ کر اپنے سفر نامے میں یٹی کا ذکر شامل کیا ہو کہ مستقبل میں اگر یہ برفانی انسان دریافت ہوا تو اس کی تاریخ میں ہوڈسن کا نام اول نمبر پر ہوگا۔

کچھ لوگوں نے ہوڈسن کے تجربے کے بارے میں یہ کہا گیا کہ اصل میں اس نے ہمالیہ کے پہاڑوں میں رہنے والا خاص سرخ ریچھ یا لنگور دیکھا ہوگا جو عام بندروں کی نسبت بڑے حجم کا ہوتا ہے اور ان کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ یا ہوسکتا ہے ہوڈسن نے گوریلا دیکھا ہو کیونکہ اس وقت تک کافی لوگ گوریلا سے ناآشنا تھے۔

میں اپنے گاؤں جاتا ہوں تو وہاں ہر سنسان جگہ سے متعلق کوئی نہ کوئی غیر معمولی کہانی مشہور ہوتی ہے۔ ناکافی سہولیات کی وجہ سے اس کی تصدیق بھی نہیں ہو پاتی کہ آیا وہ کہانی سچی ہے یہ بنائی ہوئی ۔ اور ایسی کہانیاں اس لئے بھی بنتی ہیں کہ انسان کمال پسند ہے یہ سب کو معلوم ہے اس لئے کہانی سنانے والا بھی چاہتا ہے کہ جسے وہ کہانی سنا رہا ہے تو اسے تفریح مہیا کرنے کے لئے کوئی کمال کی بات کرے۔ اسی کمال کی خاطر وہ ایسی کہانیاں بناتا ہے اور پھر اسے کوئی دوسرا کمال پسند کسی تیسرے کمال پسند کو سناتا ہے اور اس طرح کہانیوں پہ کہانیاں بنتی جاتی ہے۔

برفانی دیو کی کہانی کا چرچا تو دنیا بھر میں ہے لیکن اس حوالے سے یا تو ذاتی وارداتیں ہی ہیں یا پھر کچھ فوٹوگراف جو کہتے ہیں کہ اس مخلوق کے پیروں کے نشانات کے ہیں مگر یہ شواہد ایسے ٹھوس نہیں ہیں جن کی بنیاد پر کسی انوکھی بات کو تسلیم کیا جائے۔

نیشنل جیوگرافک چینل نے پلاسٹک کا ایک بڑا پاؤں بنایا اور پھر ایک گاؤں کے آس پاس رات کو اس پاؤں سے کچی زمین پر پیروں کے نشانات بنائیں اور صبح گاؤں میں بات پھیلا دی کے رات کو گاؤں کی طرف یٹی آیا تھا۔ اس کے دو دن بعد جب نیشنل جیوگرافک والوں نے لوگوں سے انٹرویو لئے تو بڑی عمر کے بزرگوں نے بھی دو دن قبل اسی یٹی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا جھوٹا دعویٰ کیا۔

 

            اکثر کوہ پیما یٹی کے وجود سے انکار کرتے ہیں مگر اٹلی سے تعلق رکھنے والے عظیم کوہ پیما میسنر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک غیر معمولی انسان ہیں۔ ان کے کوہ پیمائی کے ریکارڈ دیکھیں تو دور دور تک ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ وہ دنیا کے پہلے انسان ہیں جنہوں نے آٹھ ہزار میٹر سے بلند دنیا کی تمام چودہ چوٹیوں کو سر کرنے کا کارنامہ انجام دے رکھا ہے۔ وہ بغیر اضافی آکسیجن کے ماﺅنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کا ریکارڈ بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے اکیلے ماﺅنٹ ایورسٹ سر کی جو آسان کام ہر گز نہیں۔ وہ ہمالیہ کے ایسے علاقوں میں بھی جا چکے ہیں جہاں شاید بہت ہی کم لوگ پہنچ سکیں۔

ان سے جب یٹی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا وہ ایک نہیں کم سے کم چار مرتبہ اس مخلوق کا مشاہدہ کر چکے ہیں جسے عام طور پر یٹی کا نام دیا جاتا ہے۔ بقول میسنر ایک دفعہ وہ یٹی کے اس قدر قریب جا چکے ہیں کہ وہ اسے چھو بھی سکتے تھے۔ اس نے کہا کہ یٹی کے وجود پر وہ ایسے یقین کرتا ہے جیسے وہ انسان اور باقی جانوروں کے وجود پر یقین کرتا ہے۔

اس نے نے مذید کہا کہ یٹی خاصی شرمیلی مخلوق ہے ۔ اس کا قد دو میٹر کے قریب ہے اور آپس میں رابطے کے لئے یہ سیٹیوں نما آوازیں نکالتی ہے۔ رات کے اندھیروں میں اس کا نشانہ یاک اور بھیڑ بکریاں ہوتی ہیں جن کا شکار کر کے یہ گزارا کرتی ہے۔

اس نے یٹی کے حوالے سے بیان کرتے ہیں۔

"میں نے جب پہلی بار یٹی کو دیکھا تو اس کے بعد مجھے اس مخلوق کو قریب سے دیکھنے کی خواہش ہوئی ۔ ایسی جگہوں پر جہاں کوئی درخت نہیں اگ سکتا ہم دو ہفتے پورا پورا دن یٹی کی تلاش میں پھریں۔ پھر ہم غیر معمولی یعنی تقریباً پیتیس سینٹی میٹر چوڑے قدموں کے نشانات کا پیچھا کرتے رہیں۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ ہم اتنی جلدی اسے پا لیں گے۔ پہلے میں نے ایک مادہ یٹی کو اپنے بچے کے ساتھ دیکھا۔ بچے کے بال سرخ رنگ کے تھے جبکہ اس کی ماں کے بال کالے تھے۔ جیسے ہی انہوں نے ہمیں دیکھا وہ نہایت تیزرفتاری سے بھاگ کر کہیں چھپ گئے۔ اس کے دو دن بعد ہم نے ایک سوئے ہوئے یٹی تک پہنچے۔

وہ اطمینان سے سورہا تھا، ہم نہایت احتیاط اور خاموشی سے اس کے قریب ہوئے۔ کوئی بیس میٹر کے فاصلے پر رک کر ہم اس کا مشاہدہ کرنے لگے۔ کچھ دیر تک تو وہ سویا رہا لیکن پھر کسی آہٹ سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ جوں ہی اس نے ہمیں دیکھا وہ حیران رہ گیا۔ اس کے تاثرات ایک ایسے بچے کی طرح تھے جس نے پہلی دفعہ کسی کو دیکھا ہو۔ چندمنٹ وہ ہمیں حیرانگی اور بے یقینی کی کیفیت میں دیکھتا رہا اور پھر آہستگی سے اٹھا اور وہاں سے چلا گیا۔

ڈاکٹر کارل شنکر جو انگلینڈ میں ایک زووالوجسٹ ہیں اور یٹی سے متعلق معلومات اور معاملات میں ایک ماہر تسلیم کئے جاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ میسنر کی ان باتوں میں وزن ہے۔ وہ کہتے ہیں ہمالیہ کے دوہزار کلومیٹر رقبے میں جو زیادہ تر پاکستان، تبت اور بھارت کے علاقوں پر مشتمل ہے، یٹی کے شواہد ملتے رہے ہیں۔ ان شواہد کی بنیاد پر ان کی تین قسمیں سمجھ آتی ہیں۔ ایک سرخ یٹی، دوسرا طویل القامت کالا برفانی انسان اور تیسرا سرخی مائل چھوٹے یٹی۔

اگر میسنر کی باتوں کو کارل شنکر کے بیان سے ملایا جائے تو یہ سمجھ آتا ہے کہ سرخ یٹی اصل میں چھوٹی عمر کے بچے کو کہا جا سکتا ہے اور بڑی عمر کے یٹی کالے بالوں والا طویل القامت یٹی ہو سکتا ہے۔ جبکہ ممکن ہے درمیانی عمر کا یٹی کچھ سرخ اور کچھ کالا ہوتا ہو۔

دو سال پہلے برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک کوہ پیما نے کوہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں ایک جگہ قدموں کے نشانات دریافت کئے جن کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ نشانات برفانی انسان یٹی کے قدموں کے ہیں۔ کیونکہ اس دور دراز علاقے میں انسان نہیں آتے۔ اس لئے پاﺅں کے نشانات کسی یٹی یا برفانی انسان کے ہی ہو سکتے ہیں۔ 66 سالہ کوہ پیما کو یہ نشانات بھوٹان میں گنکھر پینسم پہاڑوں پر ملے ہیں جو ایک قطار میں بالکل سیدھے ہیں۔

 

یٹی کی موجودگی کے بارے میں سب سے اہم اعتراض جو سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی بھی مخلوق خود اکیلی زندہ اور قائم نہیں رہ سکتی۔ اگر اس کا کوئی وجود ہے تو یہ چند سو کی تعداد میں نا صحیح پچاس کے لگ بھگ تو کہیں اکٹھی ہوں۔ اور اگر کسی بھی مقام پر ان کی اتنی تعداد موجود ہے تو اب تک اس کا یقینی سراغ کیوں نہیں لگایا جا سکا؟

اس اعتراض کے جواب میں میسنر کا کہنا ہے کہ یہ مخلوق خطرے سے دور رہنا چاہتی ہے اور اسی لئے یہ صرف ایسے علاقوں کو اپنا مسکن بناتی ہے جہاں انسان کی پہنچ نا ہو سکے۔ ان کا اندازہ ہے کہ صرف ہمالیہ کے علاقوں میں ہی ان کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ہمالیہ کے یہ علاقے برف اور جنگلات سے بھرے ہوئے ہیں۔ جہاں ایسی کسی بھی مخلوق کا زندہ ہونا عین ممکن ہے۔ یہ رات کو شکار پر نکل کر اپنا گزارا کر سکتی ہے۔ مقامی لوگوں کی طرف سے ایسی کئی شکایات سننے میں آتی رہتی ہیں کہ ان کے جانور گم ہو گئے ہیں۔ اور گم ہونے سے مراد جانوروں کا چوری ہونا نہیں بلکہ کسی گوشت خور جانور مثلاً چیتے وغیرہ کے بھینٹ چڑھنا ہوا کرتا ہے۔

 

            امریکہ، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی کے مغرب سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے اس جانور سے منسوب بالوں کو مختلف ممالک سے اکٹھا کیا اور ان کے ڈی این اے کا تجریہ کیا تاکہ سائنسی بنیادوں پر فیصلہ ہوجائے کہ یہ جانور آخر ہے کیا، ان میں سے اکثر نمونے تو جھوٹے نکلے، یعنی بگ فوٹ کے بجاے کالے ریچھ، گائے، گھوڑے ، کتے اور انسان کے بال نکلے. البتہ ایک نمونہ سائنسدانوں کی حیرت اور دلچسپی کا محور بن گیا ہے۔ یہ نمونہ 40000 ہزار سال پرانے قطبی ریچھ سے ملتا جلتا ہے اور سائنسدان یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ نمونہ آج کے دور میں کہاں سے آ گیا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ شائد یہی جانور "یٹی" ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ یہ 40000 سال پرانا قطبی ریچھ کی نسل سے تعلق رکھنے والا جانور شائد آج بھی زندہ ہے اور برفانی پہاڑوں میں چھپ کر رہتا ہے. سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نئے ثبوتوں کی روشنی میں اس پرسرار جانور کو ڈھونڈنے کے لئے مہم جوئی کی جا سکتی ہے۔

 

            ایک دوسرے برطانوی سائنس دان نے کہا ہے کہ ان کی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمالیہ کا دیومالائی دیوہیکل انسان دراصل بھورے ریچھ کی ایک قسم سے تعلق رکھتا ہے۔

آکسفرڈ یونیورسٹی کی جینیٹکس کے پروفیسر برائن سائیکس نے بالوں کے نمونوں میں ڈی این اے کا تجزیہ کر کے معلوم کیا کہ یہ ڈی این اے ممکنہ طور پر ایک قدیم قسم کے بھورے اور برفانی ریچھ کی دوغلی نسل کا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ لوگوں میں یٹی یا ’مائٹی ہمالین مین‘ کے بارے میں غلط فہمی اس لیے پیدا ہوئی کہ یہ جانور برفانی ریچھ اور بھورے بھالو کی دوغلی نسل سے تعلق رکھتا ہے۔

پروفیسر سائیکس نے بی بی سی کو بتایا کہ یٹی کے تصور کے پیچھے ایک اصلی جانور موجود ہے۔

انھوں نے کہا: ’میرا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ ریچھ، جسے کسی نے نہیں دیکھا، اب بھی پایا جاتا ہو، اور اس کے اندر برفانی ریچھ کی بہت سی خصوصیات موجود ہوں۔

’یہ کسی قسم کا دوغلا جانور ہو سکتا ہے جس کا رویہ عام ریچھوں سے مختلف ہے۔ اور یہی بات اسے دیکھنے کا دعویٰ کرنے والے لوگ کرتے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یہی اس معمے کا حل ہو سکتا ہے۔‘

پروفیسر سائکس نے دو غیر شناخت شدہ جانوروں کے بالوں کے نمونوں پر ڈی اے ٹیسٹ کیا۔ ایک کا تعلق شمالی بھارتی ریاست لداخ سے تھا، جب کہ دوسرا نمونہ 1300 کلومیٹر دور مغربی بھوٹان سے ملا تھا۔‘

ان نمونوں سے حاصل شدہ ڈی این اے کو دوسرے جانوروں کے ڈی این اے کے ڈیٹا بیس سے ملایا گیا۔ پروفیسر سائیکس نے معلوم کیا کہ ان میں سے ایک نمونہ ناروے سے ملنے والے ایک قدیم برفانی ریچھ کے جبڑے کی ہڈی میں پائے جانے والے ڈی این اے سے سو فیصد ملتا ہے۔ اس کی عمر 40 ہزار سال اور ایک لاکھ 20 ہزار سال کے درمیان ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب برفانی ریچھ اور بھورے ریچھ کی نسلیں الگ ہو رہی تھیں۔

یٹی کو ابامینل سنومین بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بن مانس کی طرح کا جانور ہے۔

پروفیسر سائیکس کہتے ہیں کہ وہ نہیں سمجھتے کہ قدیم برفانی ریچھ ہمالیہ میں مٹرگشت کر رہے تھے، البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ ہمالیہ میں بھورے ریچھ کی کوئی ایسی نسل پائی جاتی ہو جو برفانی ریچھ سے نکلی ہو۔

 

            پاکستان کے شمالی اور پہاڑی علاقوں کے لوگ بھی ایسی مخلوق کی موجودگی پر یقین رکھتے ہیں۔ چند بڑے بوڑھے اپنی آنکھوں سے اس مخلوق کو دیکھنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ بعض غیرملکی سیاحوں نے سنو لیک (بیافو اور ہسپر گلیشئیر واقع ضلع نگر ) کے آس پاس بڑے بڑے قدموں کے نشانات کی گواہی دی ہے۔ ضلع دیامر میں نانگا پربت سے ملحقہ نہایت گھنے جنگلات پر مشتمل علاقے فیری میڈوز میں بھی لوگ ’باربنڈو‘ نام کی کسی ایسی ہی مخلوق کی داستانیں سناتے ہیں۔ ایک مرتبہ کیلاش کی وادیوں میں اسی قسم کی ایک مخلوق دیکھی گئی جس کے متعلق بعض خبریں اخبارات میں بھی شائع ہوئیں۔

کچھ عرصہ قبل بنگلہ دیش اور بھارت کی سرحدوں پر واقع برما کے علاقے میں بھی ایسا ہی سنا گیا۔ بغور معائنے کے بعد اس مرتبہ ماہرین کچھ بال وغیرہ بھی اکھٹے کرنے میں کامیاب ہوئے اور پھر مختلف سائنسی بنیادوں پر ان بالوں وغیرہ کے ٹیسٹ نے یہ ثابت کیا کہ کم ازکم یہ کسی ایسے جانور یا مخلوق کے ضرور ہیں جس سے اب تک سائنس واقف نہیں تھی۔

حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اگر یہ مخلوق موجود نہیں تو مختلف مقامات کے بہت سے لوگ ایک جیسی داستانوں پر کیوں یقین رکھتے ہیں اور اگر موجود ہے تو ہر طرح کی ٹیکنالوجی اور انسانی کوششوں کے باوجود اب تک کوئی ٹھوس ثبوت سامنے کیوں نہیں آ سکا؟؟؟