سلسلہ معمہ..

2019-11-20 12:26:22 Written by امان سعید خان

سلسلہ "معمہ"

کیس نمبر: 19

"ایریا 51"

 

      خلائی مخلوق کے وجود پر یقین رکھنے والا یا ان کے بارے میں دلچسپی رکھنا والا کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہوگا جس نے "ایریا 51" کے بارے میں نہ سنا ہو۔ جی ہاں یہ وہی امریکی خفیہ علاقہ ہے جہاں عام انسان کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم ہے اور اس سے بڑھ کر امریکی حکومت کو بھی اس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنے کی اجازت نہیں۔ امریکی ریاست نیواڈا کے رہنے والوں نے یہاں سینکڑوں پراسرار اور غیر معمولی سرگرمیاں محسوس کی ہیں۔

اسی لئے نواڈا کے صحرائی علاقے میں واقع ’ایریا 51‘ عرصہ دراز سے دنیا کے لئے معمہ بنا ہوا ہے۔

 

ایریا 51 کیا ہے:

 

      امریکی دستاویزات کے مطابق ایریا 51 امریکی فضائیہ کا ایڈورڈز ایئر فورس بیس ہے۔ یہ نیواڈا ٹیسٹ اور ٹریننگ رینج میں ایک جدا علاقہ ہے اور سی آئی اے کے مطابق علاقے کا نام ہومے ہوائی اڈا (Homey Airport) اور گروم جھیل (Groom Lake) ہے، تاہم ویت نام جنگ کے دور سے سی آئی اے کی دستاویزات میں ایریا 51 ہی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ لاس ویگاس سے سو میل کے فاصلے پر وجود رکھنے والے اس مقام کے دیگر نام ڈریم لینڈ، پیراڈائز رینچ، ہوم بیس اور واٹر ٹاؤن ہیں۔

علاقے کے گرد خصوصی استعمال فضائی حدود کو ممنوعہ علاقہ '4808 شمال' کہا جاتا ہے۔

 

ایریا 51 پراسرار کیوں:

 

      نیواڈا کے رہنے والے اور کئی دیگر ریپورٹرز ایریا 51 کے آس پاس اڑن طشتریاں دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ انہی واقعات کی وجہ سے اب تک سینکڑوں ناولوں میں اس مقام کا زکر کیا گیا ہے اور درجنوں فلموں میں اسے خلائی مخلوق سے جوڑا گیا ہے۔ اور اب تک سینکڑوں افراد نے ان غیر معمولی واقعات کی رپورٹ مختلف سیکیورٹی اداروں کو درج بھی کروائی ہیں مگر کسی بھی رپورٹ کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ البتہ یہاں سے گزرنے والی ہائی وے کا نام سرکاری طور پر نیشنل ہائی وے سے تبدیل کر کے خلائی مخلوق کا ہائی وے رکھ دیا گیا ہے۔

 

      جولائی 1947 کو رازویل میکسیکو میں ایک عجیب واقع رونما ہوا جسے سینکڑوں لوگوں نے دیکھا۔ یہ ایک اڑن طشتری گرنے کا واقع تھا جسے خود امریکی حکومت اور ملٹری نے خلائی مخلوق کی اڑن طشتری کہا اور پھر دوسرے ہی دن اس خبر کو غلط قرار دے کر یہ خبر چلائی کے وہ اڑن طشتری نہیں بلکہ ایک موسمی غبارہ تھا۔ کافی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ تباہ شدہ اڑن طشتری اور اس میں ملنے والی خلائی مخلوق کی لاشوں کو ایریا 51 لیجایا گیا جہاں ان پر اب تک تحقیق جاری ہے۔

 

      ان باتوں میں کتنی صداقت ہے یہ عام انسان کبھی معلوم نہیں کر سکتا کیوں کہ ایریا 51 کے آس پاس عام شخص کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم ہے۔ اس کے علاوہ کسی امریکی حکومتی ادارے کو بھی کبھی ایریا 51 کے بارے میں پوری معلومات نہیں دی جاتی۔

ایریا 51 سے کسی قسم کی کوئی معلومات ہیک (چوری) بھی نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس علاقے میں کوئی ٹی-وی یا ریڈیو کے سگنلز نہیں آتے اور نہ ہی یہاں انٹرنیٹ کا نظام ہے۔

 

      ایریا 51 میں کام کرنے والوں سے ایک قانونی معائدہ کیا جاتا ہے جس کے مطابق وہ کسی بھی صورت ایریا 51 میں اپنے کام کی نوعیت ظاہر نہیں کر سکتے۔ اس معاہدے کے مطابق اگر کام کرنے والے کو کسی قانونی مسئلے میں بھی اپنا کام بتانا پڑے تو اسے 10 سال قید ہوگی اور کوئی ادارہ سوائے ایریا 51 کے اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتا کہ وہ شخص ایریا 51 میں کام کر چکا یا وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ مگر اس کے باوجود کئی امریکی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنی مازی میں ایریا 51 میں بطور ملازم کام کر چکے ہیں۔ ان تمام لوگوں نے ایریا 51 کے بارے میں کئی انکشافات کئے مگر ان تمام دعووں کو امریکی حکومت نے ماننے سے انکار کیا۔

 

      ایریا 51 کا وجود 1955 سے قائم ہے مگر جب بھی عوام نے حکومت سے اس پراسرار مقام کا مقصد جانا تو امریکی حکومت نے سرے سے اس مقام کے وجود سے ہی انکار کیا۔ اور آخر کار جب عوام کا دباؤ بڑھتا گیا تو 2013 میں پہلی مرتبہ سی-آئی-اے نے اس کا وجود تسلیم کیا مگر اس بعد بھی ایریا 51 کا اصل مقصد معلوم نہ ہو سکا۔

58 سال تک اس کے وجود کو چھپانے کی وجہ سے یہ مقام مزید پراسرار بن گیا۔

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایریا 51 ایک پراسرار راز ہے اس لئے اس سے متعلق متعدد نظریات سامنے آچکے ہیں۔ ذیل میں کچھ ایسے ہی نظریات کی بات کرتے ہیں جن کو امریکی حکومت مسترد کرتی ہے تاہم ان نظریات کو ماننے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ہیں۔

 

ایریا 51 اور خلائی مخلوق:

 

      ایریا 51 پر اب تک کئی فلمیں اور ڈاکیومنٹریز بنی اور ہزاروں ناولوں میں بھی اسے خلائی مخلوق کا ریسرچ سینٹر بتایا گیا ہے۔ اس کی ایک عام وجہ تو یہ ہے کہ کئی لوگوں نے اس علاقے میں عجیب قسم کی اڑنے والی جہاز نما چیزیں دیکھی ہیں جن کی باقاعدہ ویڈیوز بھی بنائی جا چکی ہیں۔

دوسری ایک وجہ یہ ہے کہ 1989 میں لاس ویگاس ٹی وی چینل پر رابرٹ لیزر نامی ایک شخص نے انٹرویو دیا جس نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ وہ ایریا 51 میں بطور انجینئر کام کر چکا ہے۔

ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہا کہ ایریا 51 میں جو ٹیکنالوجی استعمال ہوتی ہے وہ باقی دُنیا سے 100 سال ایڈوانس ہے اور وہ ٹیکنالوجی ایریا 51 نے خلائی مخلوق کی رازویل میکسیکو میں گھری ہوئی طشتری سے ریورس انجنیئرنگ کے زریعے حاصل کی۔

رابرٹ لیزر کا دعویٰ ہے کہ وہ ایریا 51 میں خلائی مخلوق کی اڑن طشتریوں پر ریورس انجنیئرنگ پر کام کر چکا ہے۔ اس نے بتایا کہ مذکورہ خفیہ علاقے میں کئی طشتریاں موجود ہے اور امریکہ بہت جلد اپنی اڑن طشتریاں بنائے گا۔

رابرٹ لیزر نے ان خوفناک انکشافات میں یہ بھی کہا کہ امریکہ جو طشتریاں بنا رہا ہے اس میں ایک جگہ سے غائب ہو کر کسی دوسری جگہ نمودار ہونے کی بھی صلاحیت ہوگی۔ اس نے اپنی ان افسانوی لگتی باتوں میں اٹھنے والے سوالات کے بہت معقول جوابات بھی دئے۔ مگر امریکی گورنمنٹ نے رابرٹ لیزر کو جھوٹا اور ڈرامے باز کہا۔

پھر 2004 میں ڈان بیورش نامی ایک امریکی شخص نے بھی ایریا 51 میں کام کرنے کا دعویٰ کیا اس کے مطابق ایریا 51 میں خلائی مخلوق کی لاشوں پر مختلف تجربات کئے جا رہے ہیں۔ اس نے بتایا کہ وہ خود J-Rod نامی ایک خلائی مخلوق پر ریورس انجنیئرنگ پر کام کر چکا ہے۔

اس کے علاوہ کچھ لوگوں نے ایریا 51 کو خلائی مخلوق کا ہماری دنیا سے رابطہ کرنے کا اسٹیشن کہا ہے۔

 

خترناک کیمیائی بم:

 

     ایریا 51 پر الزام عائد ہے کہ اس مقام پر ایسے کیمیائی بم تیار کئے جا رہے ہیں جو مستقبل میں دنیا کے انسانوں کے لئے انتہائی خترناک ثابت ہونگے۔

 

      ٹرلی، جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر قانون ہے جو ایک خیراتی ادارے کے بانی بھی ہے۔ یہ ادارہ مفت میں عوام کو وکیل مہیاء کرتا ہے اور ان کا کیس لڑتا ہے۔ ٹرلی نے ایریا 51 کے خلاف درجنوں مقدمات دائر کئے ہیں مگر کسی بھی کیس میں کامیاب نہ ہوا۔ وہ اب تک 25 سے زیادہ افراد کو قانونی مدد دے کر سامنے لایا ہے جن کے مطابق ان کا کوئی رشتے دار ایریا 51 میں کام کرتے ہوئے ایک پراسرار بیماری سے جان بحق ہوا ہے۔

ان کیسیس میں دو کیسیس عالمی سطح پر مشہور بھی ہوئے تھے جس میں ایک کیس ایک خاتون "سٹیلا" کا تھا جس کا شوہر ایریا 51 میں کام کرتے ہوئے بیمار ہوا تو وہ گھر آیا اس کے بعد اس کی جلد بالکل مچھلی کی جلد کی طرح ہوئی اور اس کے جسم کے نچھلے حصوں سے اس طرح خون نکل رہا تھا جیسے وہ اندر سے شدید زخمی ہو۔ سٹیلا کے پاس ہسپتال کی وہ رپورٹیں بھی موجود تھی جس میں اس کے شوہر کی بیماری کو نامعلوم، لاعلاج اور زہریلے کیمیکل کا ریئکشن قرار دیا گیا تھا۔ سٹیلا کا الزام تھا کہ اس کے شوہر پر ایریا 51 میں کوئی زہریلا کیمیکل آزمایا گیا تھا۔ کئی سالوں تک وہ ٹرلی کی مدد سے اپنا کیس لڑتی اور گورنمنٹ اس کی تمام باتوں کو نیشنل سکیورٹی کا بہانا بناتے ہوئے رد کرتی رہی اور پھر آخرکار 70 سال کی عمر میں 1995 میں سٹیلا انتقال کر گئی اور اس کے ساتھ اس کا کیس بھی بند ہو گیا۔

دوسرا کیس بھی اسی نوعیت کا تھا۔

یہ ہیلن فراسٹ نامی خاتون کے شوہر رابرٹ فرازٹ کا تھا۔ رابرٹ فراسٹ بھی کچھ ایسی ہی نامعلوم بیماری میں مبتلا ہو کر خودکشی کر لی تھی۔

ٹرلی کا کہنا ہے کہ وہ ایسے کئی لوگوں سے مل چکا ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ خود ان زہریلے کیمیکلز پر ایریا 51 میں کام کر چکے ہیں مگر ایریا 51 سے سکیورٹی معاہدے کے مطابق اگر وہ کسی کو اپنا کام بتائے تو انہیں دس سال سزا سنائی دی جائے گی۔

 

چاند پر جانے کا ڈرامہ ایریا 51 میں:

 

       چاند پر انسانی قدم کو متنازعہ ماننے والوں کی نظر میں ناسا کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیو میں کئی نقائص ہیں۔ بل کیسنگ نامی ایک امریکی نیوی افسر نے اپنی کتاب میں کافی نقائص بیان کئے ہیں جیسے۔۔۔

ویڈیو میں خلانوردوں کے سائے مختلف سائز کے ہیں، امریکی پرچم ہوا میں لہراتا ہے، ویڈیو میں آسمان تو نمایاں ہے مگر وہاں کوئی ایک بھی ستارہ دکھائی نہیں دیتا اور اس کے علاوہ ویڈیو میں ایک خلانورد جب زمین پر گرتا ہے تو اسے دوتین مرتبہ اٹھنے کی کوشش کرنا پڑتی ہے جبکہ چاند پر کم کشش ثقل کی وجہ سے ایسا ہونا خود ایک تعجب کی بات ہے۔ ایسے کئی اور نقائص ہیں جن کی تفصیل آپ کو انٹرنیٹ پر کئی ویڈیوز میں مل جائے گی۔

اس میں کوئی شک باقی نہیں رہا کہ انسان چاند پر نہیں گیا بلکہ زمین پر ہی کسی خفیہ مقام پر ایک جالی ویڈیو بنائی۔

بل کیسنگ اور اس خیال کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انسان سچ مچ چاند پر نہیں پہنچا تھا بلکہ امریکہ نے یہ ڈراما ایریا 51 میں فلمایا تھا اور ایریا 51 کو عام لوگوں کی پہنچ سے اسی لئے دور رکھا ہے کہ اگر مستقبل میں بھی امریکہ کو کوئی جھوٹی ویڈیوز بنانی پڑے تو وہ اس خفیہ مقام کا استعمال کر سکے۔

 

جدید خفیہ ٹیکنالوجی:

 

      امریکی حکومت اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ نواڈا کا ایریا 51 دراصل ایک ٹیکنالوجی ریسرچ اور ٹیسٹ سینٹر ہے۔ مگر وہاں کونسی ٹیکنالوجی پر کام ہو رہا ہے اس بارے میں اب تک کئی نظریات سامنے آئیں ہیں۔ کافی لوگوں کا ماننا ہے کہ ایریا 51 میں موسمی تبدیلیوں پر کام کیا جا رہا ہے۔ ہارپ نامی ایک ٹیکنالوجی آج کل متنازع بنی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی بدولت امریکہ جب چاہے جہاں چاہے زلزلے اور دیگر قدرتی آفتیں نازل کر سکتا ہے۔ روس نے گزشتہ کئی زلزلوں کے بارے میں رپورٹیں تیار کی جس میں امریکہ پر الزام لگایا ہے کہ وہ زلزلے امریکہ نے اپنی جدید ٹیکنالوجی کی بدولت کرائے ہیں۔

 

ایریا 51 نئے عالمی نظام کا مرکز:

 

کئی لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا کے تمام طاقتور انسان چاہے وہ جس بھی ملک، قوم یا مذہب سے تعلق رکھتے ہوں انہیں آپس میں جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ یہودی سرپرستی میں دنیا میں ایک نیا عالمی نظام لایا جا سکے۔ نیو ورلڈ آرڈر (NWO) کے نام سے دنیا میں لانے والے اس نظام پر کئی لوگوں نے لکھا ہے جس میں اس عالمگیر نظام کو متعارف کروانے میں الومیناٹی اور فری میسن جیسی تنظیموں کا کردار بھی لکھا ہے۔

مذکورہ نظریے کے ماننے والوں کا کہنا ہے ایریا 51 اسی عالمگیر نظام کو متعارف کروانے کے لئے کام کرتا ہے اور یہ اتنے طاقتور نظام ہے کہ امریکی حکومت کو بھی اس معاملے میں دخل کی اجازت نہیں یا ہو سکتا ہو کہ امریکی سرپرستی میں ہی اس نظام کو متعارف کروانے کی کوششیں کی جا رہی ہو۔

 

ایریا 51 امریکی آفیشلز کے مطابق:

      امریکی حکومت اور فوج نے ہمیشہ ایریا 51 اور اس علاقے سے جوڑی گئی کہانیوں کو ماننے سے انکار کیا ہے۔ 58 سال تک اس مقام سے انکار کے بعد جب کچھ دستاویزات لیک ہوئی تو بھی امریکی حکومت نے کہا کہ اس نام سے کوئی علاقہ نہیں بلکہ وہ امریکی ائیر فورس کا ایک ٹیسٹ سینٹر ہے جہاں جاسوسی کرنے والے جہازوں کا ٹیسٹ ہوتا ہے۔ کئی سالوں سے اس ٹیسٹ سینٹر کے وجود کو چھپا کر رکھنے کا سیدھا سادھا مطلب سکیورٹی تھا جو کہ ہر ملک چاہتا ہے۔

خلائی مخلوق کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ایسا کچھ بھی ابھی تک دریافت نہیں ہوا نہ ہی نواڈا کے ٹیسٹ سینٹر میں اس پر کوئی خفیہ کام کیا جاتا ہے۔ البتہ اس ٹیسٹ سینٹر کے آس پاس اڑن طشتریاں کا نظر آنا اصل میں جدید طرز کے جاسوسی طیارے ہیں۔

جیسے کہ۔

1- U-2 Spy Plane

2- The A-12 OXCART.

3- The SR-71 Black Bird.

4- Tacit Blue

 

ان جدید طرز کے طیاروں کی جدید شکلوں اور 70,000 فٹ کی بلندی سے اوپر لگ بھگ 4,000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کی وجہ سے لوگ اسے اڑن طشتری سمجھتے رہے ہیں۔

 

      مگر کچھ لوگ آج بھی ہے کہ امریکی ائیر فورس اپنے ایریا 51 پہ موجود خفیہ طیاروں میں "Mothership" کا ذکر نہیں کرتا جو کہ ایک طشتری نما جہاز ہے جو کسی بھی گاڑی کو اپنی طرف کھینچنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اس الزام کے مطابق مدرشپ جہاز میں استعمال ہوئی یہ ٹیکنالوجی خلائی مخلوق کی اڑن طشتریوں کی ریورس انجنیئرنگ سے حاصل کی ہے۔

کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ؟

کیا کبھی اس پراسرار علاقے کی سچائی کھل پائے گی۔۔؟

یا یہ اسی طرح ایک معمہ ہی رہے گا۔۔۔۔۔۔