اودھل

2019-11-20 15:36:57 Written by اعتزاز سلیم وصلی

اودھل

 

گاؤں میں بات تیزی سے پھیل گئی۔بالکل ایسے جیسے جنگل میں آگ ۔لیکن نہیں۔۔مجھے یوں محسوس ہوا ،جنگل میں آگ اتنی تیزی سے نہ پھیلتی ہو گی جتنی تیزی سے ماسی نسرین نے یہ خبر گاؤں میں پہنچائی تھی۔ہر زبان پر بس ایک ہی نعرہ تھا۔’’محمود احمد کا بیٹا شہزاد احمد لڑکی کو بھگا لایا ہے‘‘۔محمود چاچا تو چار سال پہلے کچھ بیماری اور کچھ اپنی بیگم کی بدزبانی کی وجہ سے دنیا کو خدا حافظ کہہ چکے تھے مگر گاؤں والوں کی قسمت اتنی اچھی نہ تھی کہ شہزاد بھی اگلے جہان کی ٹکٹ حاصل کرتا۔ہاں لیکن۔۔جتنی بددعائیں اسے دی جاتی تھیں ان میں سے دو فیصد بھی قبول ہو جاتی تو شاید فرشتہ اجل اسے اٹھا لیتا۔گاؤں کی لڑکیوں کی زندگی عذاب میں ڈالنے کے علاوہ شہزادچھوٹی چھوٹی چوریاں ،جیب تراشی اورچند اس طرح کے مزید’’فلاحی‘‘کام کرنے میں مشہور تھا۔خیر۔۔میں بات کر رہا تھا ،اس کے نئے کارنامے کی۔تو اگلے دن کی شام کو جب میں اپنا کالج بیگ کمرے میں رکھ کر شہزاد کے گھر کی طرف روانہ ہوا تو دور سے ہی شور سنائی دیا۔شہزاد کی اماں ،خالہ سکینہ اس وقت شور مچائے ہوئی تھی۔

 

’’ہائے ہائے کس کی لڑکی کو لے آیا ہے۔پولیس آتی ہو گی تیرے پیچھے۔خودتو محمود کو جانے کی جلدی تھی تجھے بھی لے جاتا ساتھ۔ہائے میری زندگی عذاب میں ڈالنے کیلئے چھوڑ گیا تجھے۔کس گاؤں کی ہے یہ ؟کون ہے یہ؟‘‘شہزاد گھر کے دروازے پر کھڑے گاؤں والوں کو دیکھ رہا تھا۔کچھ دیر ہچکچانے کا شغل کرنے کے بعد اس نے کچھ سوچا۔اسی دوران میرے کانوں میں اکبر کی سرگوشی سنائی دی۔

 

’’بول شہزاد بول۔۔بول کے لب آزاد ہیں تیرے۔بتا دے سب گاؤں والوں کو۔کھول دے راز‘‘۔

’’میرے کان میں کیوں مکھیاں ڈال رہا ہے۔ذرا آگے ہو کر اسے کہہ دے‘‘میں نے جھنجلا کر اسے دیکھا۔

 

’’ارے میرے بھائی،پتا تو ہے اس کا۔مارے گا مجھے‘‘

 

’’بس پھر خاموش رہے اور اس کے بولنے کا انتظار کر۔اس سے پہلے اس سینما کی بھی ٹکٹ لینی پڑے،مفت میں خوش ہو‘‘اور اس فلم کا اگلا جذباتی منظر جو میں نے دیکھا وہ یہ تھا کہ شہزاد ماں کے پیر پکڑ کر سرگوشیوں میں کچھ کہہ رہا تھا جسے سن کر سکینہ کے چہرے کے تاثرات ،جون سے دسمبر میں بدل رہے تھے۔

 

’’ہائیں سچی؟‘‘اچانک جیسے آواز صفرسے سو پر ہوئی ہو ایسے ہی شہزاد کی سرگوشی کے بعد خالہ کی آواز بلند ہوئی جسے سن کر شہزاد نے بدمزگی سے ماں کی طرف دیکھا۔

 

’’آہستہ بول اماں،آہستہ‘‘اوراس کے بعد فلم نے بور کرنا شروع کردیا۔گاؤں والے اس گونگی فلم کو دیکھنے کی بجائے آہستہ آہستہ کھسکنا شروع ہو گئے مگر میں اور اکبر وہاں جمے بیٹھے تھے کیونکہ ہماری بچپن کی خواہش پوری ہو رہی تھی۔۔جی جی،ہماری ایک چھوٹی سی معصوم خواہش تھی۔ہم نے کبھی گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کو نہیں دیکھا تھا ۔اس لئے اس فلم کے مرکزی کردار کو دیکھنے کیلئے ہم اندھیرا پھیلنے تک وہاں کھڑے رہے۔شہزاد اور اس کی ماں نے ہماری طرف توجہ نہیں دی۔۔اور پھر۔۔وہ آئی۔دھیمے دھیمے چلتی ہوئی۔سہمی سے ،ویران آنکھیں۔بے رونق چہرہ۔الجھے بال۔سادہ سے نقوش مگر آنکھوں میں عجیب سا کرب۔میں لمحہ بھر کیلئے ساکت رہ گیا۔میرے خیال میں تو وہ کوئی بدزبان سی،آوارہ نظر آنے والی لڑکی ہو گی مگر نہیں۔کچھ تھا اس میں۔کچھ برسوں کا درد چھپائے آنکھیں اور کچھ صدیوں کا عذاب جھیلتے نقوش۔۔اکبر کی آواز نے کانوں میں رس گھولا۔

 

’’اب آئے گا مزہ اس آوارہ کو۔شہزاد کے گھر میں ذلیل ہو گی۔ایسا ہی ہونا چاہیے ایسی بھاگنے والیوں کے ساتھ۔‘‘وہ باتیں کررہا تھا اور میں الجھن میں تھا۔میں اس سے اتفاق کرنا چاہتا تھا مگر میرا دل نہیں مان رہا تھا۔۔اس سے پہلے میں دل کو مناتا۔لڑکی منظر سے غائب ہو گئی اور اکبر نے مجھے وہاں سے گھسیٹ لیا۔میں گھر پہنچا تو ہمارے گھر میں امی کے چارپائی کے گرد گول میز کانفرس جاری تھی۔۔جس میں’’اودھل “ (گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی) کے بارے میں گفتگو جاری تھی۔

 

                                   ٭٭٭

 

چند دنوں بعد حقیقت کھل کر سامنے آ گئی۔لڑکی جس کا نام ستارہ تھا ،شہر کے کسی محلے سے تعلق رکھتی تھی۔شہزاد سے اس کا رابطہ نجانے کیسے ہوا مگر شہزاد اسے کسی طرح اپنے جال میں پھنسا لایا تھا۔سننے میں یہ بات بھی آرہی تھی کہ یہ کسی امیر گھر کی لڑکی ہے اور شہزاد ،شہزادہ بننے کی خواہش میں اس شہزادی کو بھگا لایا ہے لیکن روزنامہ خالہ نسرین نیوز نے اس خبر کی سختی سے تردید کی تھی۔بقول ان کے ’’یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کئے۔اس کی چال ڈھال سے پتا چل رہا ہے کسی امیر گھر کی نہیں۔‘‘۔خالہ کے بالوں کی سفیدی پر یقین کرنے والے اس بات پر بھی یقین کررہے تھے ۔ستارہ بیگم کے کوئی قریب نہ جاتا۔شہزاد کے گھر میں ویسے بھی لڑکیوں کا جانا منع تھا مگر اب ’’اودھل‘‘والے گھر میں جانے پر تو لڑکیوں پر باقاعدہ ایران کی طرح پابندیاں عائد کی تھیں۔میں ایک دو بار گزرا تو وہاں خاموشی ہی محسوس ہوئی۔کبھی کبھی کچھ سنائی دیا بھی تو سکینہ کی گالیاں جو وہ اس لڑکی کو دیتی تھیں۔شہزادنے ابھی تک نکاح نہیں کیا تھا۔

 

گاؤں میں رفتہ رفتہ یہ خبر پرانی ہو گئی۔اب بات کرنے کو نئے موضوع مل گئے تھے۔موسم بدل رہا تھا۔شدید سردی کے بعد نرم دھوپ اور اب دھوپ کی نرمی میں چبھن آرہی تھی ایسے میں درختوں کی ٹہنیوں پر نئے پتے ،بہار کی نوید سنا رہے تھے۔انہی دنوں میرے کالج میں آخری ٹیسٹ بھی ہو گئے اور ہماری کلاس کو فارغ کردیا گیا۔اب ہمیں گھر بیٹھ کر ایک ماہ بعد ہونے والے امتحانات کی تیاری کرنی تھی۔میں ایف ایس سی کے دوسرے سال میں تھا۔

 

اس شام میں شہزاد کے گھر کے سامنے سے گزر رہا تھا جب مجھے ایک مدھم سے آواز سنائی دی۔’’سنو‘‘۔میں نے مڑ کردیکھا۔میرے دل کی دھڑکن تیز ہوئی تھی۔میرے سامنے ستارہ کھڑی تھی۔

 

’’جی؟‘‘

 

’’یہ پیسے لے لو اورمجھے پکوڑے سموسے لا کر دے دو۔بھوک لگی ہے‘‘اس کی آواز میں گھبراہٹ تھی۔گھر میں کوئی نہ تھا۔میں نے اس کے ہاتھ میں دبا سو کا نوٹ لیا اور گاؤں کی مسجد کے پاس دکان پرچلا گیا۔دس منٹ بعد جب میں واپس لوٹا تو وہ گیٹ پر ہی کھڑی تھی۔میں نے شاپر اسے پکڑایا۔اس نے جلدی سے پکڑ لیا اور بولی۔

 

’’بھوک نے جان نکال دی۔اس شہزاد اور اس بڑھیا کو تو میری پرواہ ہی نہیں‘‘اس کا لہجہ پڑھی لکھی ہونے کی چغلی کھا رہا تھا۔

 

’’یہ پہلے سوچنا تھا ۔۔بھاگنے کا’’نیک ‘‘کام کرنے سے پہلے‘‘طنز نے میرے لبوں کو چھوا۔نجانے کیوں میں نے یہ بات اسے بول دی تھی۔بالکل غیرارادی طور پر۔۔وہ ٹھٹک گئی۔

 

’’گاؤں والے تو مجھ سے ایسے دور بھاگتے ہیں جیسے میں چڑیل ہوں۔تم پہلے ہو جو کام آئے اور تم نے بھی طنز کردیا۔۔ہائے ستارہ تمہاری قسمت‘‘پکوڑا منہ میں ڈال کراس نے ٹھنڈی آہ بھری جو یقینا گرم پکوڑے کی وجہ سے گرم ہو چکی تھی۔

 

’’میں الگ ہوں ان سب سے۔‘‘میں نے وہی بات دہرائی جو سب میرے بارے میں کرتے تھے۔

 

’’کیوں تمہارے سر پر سینگ ہیں؟‘‘وہ ہنسی۔

 

’’نہیں۔میری سوچ الگ ہے‘‘۔

 

’’اچھا ہے۔کوئی تو الگ بھی سوچتا ہے میں تو سمجھی سب شہزاد کی طرح صرف پیسے کے لالچی ہیں‘‘اس کی بات سن کر میں چونک گیا۔اسی دوران گلی کی نکڑ سے سکینہ آتی دکھائی دی۔میں جلدی سے آگے بڑھ گیا۔اس کا کوئی بھروسہ نہیں تھا ۔۔وہ مجھے بھی بدنام کرسکتی تھی۔

 

                               ٭٭٭

 

ستارہ سے میری دوسری ملاقات دو دن بعد ہوئی۔اب کی بار بھی اس نے پہل کی۔

 

’’اوئے مسٹرالگ،کدھر منہ اٹھا کے جارہا ہے؟‘‘میں اس وقت کرکٹ کے میدان کی طرف جا رہا تھا۔آج بھی وہ شاید گھر میں اکیلی تھی۔ایسا اکثر ہوتا کیونکہ شہزاد اپنے الٹے سیدھے کاموں کیلئے شہر کا رخ کرتا تھا اور سکینہ محلے کی خبریں لینے کیلئے نکلی رہتی تھی۔

 

’’کرکٹ کھیلنے جارہا ہوں اور میرا نام سکندر بخت ہے۔۔تمہیں شاید آج بھی بھوک لگی ہے‘‘

 

’’نہیں سکندر بدبخت۔ویسے ہی تنہائی کا شکار ہوں باتیں کرنے کا دل کر رہا ہے‘‘

اس کے لہجے کی اداسی پر میں بعد میں غور کرتا مگر پہلے میرے نام میں ’بد‘ کا اضافہ کرنے پر میں نے اسے گھورا۔وہ مسکرادی۔وہ عام سی شکل وصورت کی مالک تھی۔اگر اچھا پہن لیتی تو خوبصورت لگتی مگراسے شاید اپنے حلیہ پر زیادہ توجہ دینے کی عادت نہیں تھی۔

 

’’مجھے بدنام نہیں ہونا تم سے باتیں کر کے‘‘

 

’’اندر آجاؤ۔گلی میں کھڑے ہو کر بدنام ہی ہو گے‘‘میں نہ چاہتے ہوئے بھی اندر داخل ہو گیا۔اس نے گیٹ کے پاس ہی کمروں کے سائے میں چارپائی ڈالی ہوئی تھی۔ہم بیٹھ گئے۔

 

’’کیا کرتے ہو؟‘‘

 

’’پڑھتا ہوں۔ایف ایس سی کا دوسرا سال ہے امتحان ہونے والے ہیں ‘‘

 

’’امتحان قریب ہے تو کرکٹ کھیلنے کیوں جا رہے ہو۔تمہارے حصے کے پیپر کیا رمیز راجہ دے گا؟‘‘میرا اندازہ درست ثابت ہوا تھا۔وہ واقعی پڑھی لکھی تھی۔تھوڑی دیر بعد اس نے تصدیق کردی۔’’میں نے میٹرک کی تھی۔پوری کلاس میں پہلی پوزیشن تھی‘‘اس نے فخر سے بتایا۔

 

’’اتنی عقل مند ہو تو گھر سے کیوں بھاگی؟‘‘میرے دماغ میں گھومنے والا سوال آخر زبان پر آ ہی گیا۔

 

’’ویسے شوق تھا بھاگنے کا۔۔‘‘اس نے طنز کیا۔

 

’’تو ریس میں حصہ لے لیتی یا بدنامی کا شوق بھی تھا ساتھ میں؟‘‘وہ گہری سانس لے کر خاموش ہو گئی۔’’کچھ اس پر روشنی ڈالو‘‘میں نے ضد کی۔

 

’’گھر سے بھاگنا کسی لڑکی کا بچپن کا خواب نہیں ہوتا سکندر بدبخت۔‘‘اس کے لہجے میں اداسی غالب آنے لگی۔’’نہ ہی کوئی خواہش کرتی ہے بدنام ہونا۔۔مجبور ہوتے ہیں لوگ۔حالات سے۔۔دل سے۔۔دماغ سے۔۔غلامی سے۔پھر بھاگتے ہیں گھر سے۔پتا ہے مرجانا بہتر ہوتا ہے گھر سے بھاگنے سے مگر ہر کوئی بہادر نہیں ہوتاکہ موت کو گلے لگا کر ساری زندگی کے بعد آخرت میں بھی جہنم خرید سکے۔بس ہوتے ہیں میرے جیسے لوگ،اپنے ہونے پر شرمندہ ہونے والے۔‘‘اس کی مسکراہٹ میں پھیکا پن اور اس کے لہجے میں مایوسی دل چیر دینے والی تھی۔میں کچھ دیر ساکت بیٹھا رہااور جب مناسب الفاظ نہ ملے تو گہری سانس لی ۔

 

’’مجھے کہانی سننی ہے ستارہ۔میں ہمیشہ گھر سے بھاگنے والیوں کو دیکھ کر صرف گالیاں دیتا رہا۔آج مجھے بتاؤ کیوں لڑکی دہلیز پار کرتی ہے گھر کی۔۔‘‘

 

’’ہر لڑکی مجبور بھی نہیں ہوتی سکندر۔کچھ صرف ماں باپ کو بدنام کرتی ہیں اور کچھ مجبور۔۔خیر بات لمبی ہو جائے گی۔ایک منٹ انتظار کرو‘‘وہ اٹھ کر اندر چلی گئی۔واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک ڈائری تھی۔’’اس ڈائری میں واقعات کی ترتیب الٹی سیدھی ہو گی مگر اس میں میری کہانی ہے۔پڑھ لینا۔نجانے کیوں تم پر اعتبار کرنے کو دل کررہا ہے ورنہ یہ ڈائری تو میری موت کے بعد ہی کوئی پڑھ سکتا‘‘۔میں ڈائری لے کر باہر آگیا۔

 

اس رات میرے پاس کیمسٹری کی کتاب کی بجائے کسی کی زندگی کی کتاب تھی جسے پڑھنا ایک تلخ تجربہ تھا اور پہلے پیج کے بعد میں پڑھتا چلا گیا۔۔۔

 

                                   ٭٭٭

 

یکم جنوری 2015

 

نیا سال چڑھ گیا۔۔۔اور آج ایک پرانی دوست اور کلاس فیلو فضا نے مجھے یہ ڈائری گفٹ کردی۔کہتی ہے مجھے اپنے الفاظ اور شاعری لکھنے کیلئے اس ڈائری کو استعمال کرنا چاہیے ۔۔وہ شاید جانتی نہیں ،میرے الفاظ کو قید کرلے گی ڈائری لیکن ان میں چھپے کرب کو کون محسوس کرے گا؟یہ بے جان ڈائری؟۔۔نہیں۔کوئی نہیں ایسا۔اچھا ،اب اپنی ان اکتا دینے والی باتوں سے میں خود بیزار ہوتی جا رہی ہوں اس لئے سنو میرے لفظوں۔۔میری کہانی بھی سنو۔

 

آج سے کئی سال پہلے جب میں نے ہوش سنبھالا تو میں لاڈلی بیٹی تھی اپنے ماں باپ کی۔اکلوتی اولاد جو شادی کے دس سال بعد پیدا ہوئی۔۔ابو دکاندار تھے۔اچھی آمدنی ہو جاتی اور گھر میں کسی قسم کی مالی پریشانی نہ تھی۔۔امی گھریلو خاتون تھی۔سادہ سی اور کام سے کام رکھنے والی۔ان کے تین بھائی تھے جو سب مختلف محکموں میں سرکاری ملازم تھے۔ابو بھی میری طرح اپنے والدین کے اکلوتے تھے۔۔

 

ان دنوں میں چوتھی جماعت میں تھی جب ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں امی اور ابو چل بسے۔۔خریداری کرکے واپس آتے ہوئے ان کی بائک ایک ٹرک سے ٹکرا گئی تھی۔میں اسکول سے واپس آئی تو میری دنیا ختم ہو چکی تھی۔۔والدین کی ستارہ ۔۔ٹوٹ کر بکھر گئی تھی۔میرے رشتے دار آتے اور سر پر ہاتھ پھیر کر میری بدقسمتی کے بارے میں الفاظ بولتے اور چلے جاتے۔۔پر میری پیاری ڈائری۔۔وہ امی کا نرم ہاتھ،وہ ابو کی محبت سب کھو گیا تھا۔زندگی کو دوبارہ شروع کرنے کیلئے مجھے کسی کی ضرورت تھی جو مجھے والدین جیسی محبت دیتا مگر کون تھا ایسا؟۔کوئی بھی نہیں۔۔

 

ماموں مجھے اپنے گھر لے گئے۔تینوں ماموں ایک حویلی نما گھر میں رہتے تھے۔یہ گھر تین حصوں میں تقسیم تھا۔بڑے ماموں کے دو بیٹے،منجھلے ماموں کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا اور سب سے چھوٹے ماموں کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔اس بھرے گھر میں میرے لئے جگہ بہت کم تھی۔مجھے منجھلے ماموں کی بیٹی فرحانہ کے ساتھ رہنے کیلئے کمرہ دیا گیا۔پہلے دن ہی اس کے ساتھ میرا جھگڑا ہو گیا۔وہ مجھے نیچے قالین پر بستر ڈالنے کا کہہ رہی تھی جبکہ میں اس کے ساتھ بیڈ پر سونا چاہتی تھی۔وہ ممانی یعنی اپنی ماں کے پاس شکایت لے کر چلی گئی۔کچھ دیر بعد ممانی صبا کی آمد ہوئی۔انہوں نے سخت لہجے میں مجھ سے کہا۔’’تمہیں سونا ہے تو نیچے سو جاؤ ۔یہ کوئی تمہارے باپ کا گھر نہیں جہاں تمہارے لئے الگ بیڈ لگایا جائے‘‘۔میں کچھ دیر حیران نظروں سے انہیں دیکھتی رہی۔۔یہ وہی ممانی تھی جو کبھی اگر امی سے ملنے آتی تو امی ان کی خدمت میں دنیا جہان کی چیزیں اکٹھی کر لیتی۔مجھے شدید غصہ چڑھا اور میں ناراض ہو کر کمرے کے دروازے پر بیٹھ گئی۔۔۔

میری پیاری ڈائری۔۔کہاں وہ میری ناراضی جو میرے ماں باپ کے گھر میں ہوتی تھی جو مجھے ایک منٹ بھی ناراض نہ ہونے دیتے اور کہاں یہ ناراضی؟۔۔اس رات مجھے اپنی اوقات کا علم ہوا۔میں ناسمجھ بچی تھی مگر سمجھ چکی تھی کہ یہاں رہنا ہے تو گھر والوں کی مرضی سے چلنا ہو گا۔سردیوں کی وہ رات میں نے بغیر کمبل کے ساری رات ٹھٹھرتے ہوئے گزار دی۔۔دوسری صبح شدید بخار نے گھیر لیا۔میں نیم بے ہوش دروازے پر پڑی رہی۔چھوٹے ماموں نے اتفاق سے مجھے دیکھ لیا۔وہ مجھے اٹھا کر اپنے کمرے میں لے گئے ۔۔بے ہوشی میں مجھے پتہ ہی نہ چلا ۔۔میں نے ان کے بیڈ پر الٹی کردی۔انہوں نے ناراض نظروں سے مجھے دیکھا۔’’لگتا ہے میری بہن اور تمہاری امی نے تمہیں رہنے کے طریقے نہیں سکھائے؟اب یہ کون صاف کرے گا؟‘‘۔

 

دوپہر تک میری حالت کچھ بہتر ہوئی تو میں نے خود اٹھ کر بستر صاف کیا۔۔یہ بس شروعات تھی۔میرا برا وقت ابھی شروع ہواتھا۔۔

 

                              ٭٭٭

 

دو دن بخار نے گھیرے رکھا۔تیسرے دن طبیعت کچھ بہتر ہوئی تو میں نے اسکول بیگ اٹھایا اور اسکول جانے کیلئے تیار ہوئی۔بڑے ماموں کے پاس جا کر انہیں اسکول چھوڑ آنے کا کہا مگر انہوں نے انکار کردیا۔’’بیٹا وہ اسکول مہنگا ہے۔پرائیویٹ اسکول ہے۔مجھے تمہارے علاوہ اپنے بچوں کو بھی پڑھانا ہے اس لئے تم سرکاری اسکول جاؤ گی۔کل میں وہاں سے تمہارا سرٹیفکیٹ لے آؤں گا‘‘۔مجھے اپنا اسکول پسند تھا۔وہاں میری بہت سی دوست تھیں لیکن ماموں کے انکار کے بعد میرا اسکول جانا ناممکن تھا۔تقریباً ایک ہفتے بعد مجھے ایک سرکاری اسکول بھیجا گیا۔یہ چھوٹا سا پرائمری اسکول تھا جس کی حالت انتہائی خراب تھی۔ایک طرف سے دیوار گری ہوئی اور بیٹھنے کیلئے بنچ صرف پانچویں کلاس کیلئے تھے۔مجھے زمین پر بیٹھنا پڑا۔دوسرے دن میں نے اسکول جانے سے انکار کردیا۔ماموں نے ایک دو بار کہا مگر میں پرانے اسکول جانا چاہتی تھی۔۔ممانی نے ماموں کو ضد کرنے سے منع کردیا اور میں اسکول نہ گئی لیکن یہ میری غلطی تھی۔سارا دن ممانی نے مجھ سے کپڑے دھلوائے۔گھر کی صفائی ستھرائی اوربرتن دھونا بھی میرے ذمے لگا دیا۔شام کو تھکی ہوئی ٹانگوں کے ساتھ جب میں قالین پر بچھائے گئے اپنے بستر میں گری تو کچھ ہوش نہ رہا۔دوسرے دن میں صبح ہی تیار ہو کر سب سے پہلے اسکول پہنچ گئی۔۔

 

اب اسکول میرے لئے جنت اور گھر جہنم تھا۔یہاں میں اکثر اپنے کزنز کے ہاتھوں مار کا نشانہ بنتی۔وہ مجھ پر فلموں میں دیکھا گیا ہر طریقہ آزماتے۔میں نے سنا تھا یتیموں کی زندگی عذاب ہوتی ہے مگر میری زندگی عذاب سے اوپر کسی درجہ کی تھی۔میں پڑھائی میں تیز تھی اس لئے پانچویں میں اتنے نمبر حاصل کئے کہ مجھے ہائی اسکول میں مفت ایڈمیشن مل گیا۔

 

مجھے ماموں کے گھر آئے تین سال گزر چکے تھے۔اب میں ہر روئیے کی عادی ہو چکی تھی۔میرے جیسے بچے وقت سے پہلے سمجھدار ہو جاتے ہیں۔مجھے ایک بات کا اندازہ تھا کہ ماموں اور ممانی نے مجھے بلاوجہ گھر نہیں رکھاہوا۔کچھ نہ کچھ میرے ساتھ فائدہ ضرور جڑا ہے۔۔

 

میں نے ہر محرومی کو سہنا شروع کردیا۔برداشت اور صبر میری مجبوری تھے۔مجھے ہر عید پر ایک جوڑا کپڑوں کا اور نئے جوتے مل جاتے ۔۔کپڑے پھٹ جاتے ۔ماموں کی بیٹی فرحانہ کا پرانا یونیفارم میرے کام آتا تو پورے اسکول میں لڑکیاں میرا مذاق اڑاتیں۔صفائی والی ٹیچر روز مجھے سزا کے طور پر جرمانہ کر دیتی اور جرمانہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے دھوپ میں چالیس ،چالیس منٹ کھڑا کیا جاتا۔یہ سزا مجھے اتنی بار ہوئی کہ مجھے اس کا نشہ سا ہو گیا۔اب جس دن ٹیچر چھٹی پر ہوتی میں خود ہی چالیس منٹ دھوپ پر گزار لیتی۔۔ہاہاہا۔۔پاگل تھی ناں میں ڈئیر ڈائری۔خیر۔۔پریشان نہ ہو۔آگے کی کہانی بھی سناتی ہوں۔۔

 

آٹھویں کلاس میں،میں نے ایک بار پھر پہلی پوزیشن اور نوے فیصد سے زائد نمبر حاصل کئے اور ایک بارپھر ماموں ،ممانی کی مرضی کے خلاف نویں میں مفت داخلہ لیا۔گھر میں سارا دن کام کرکے بھی۔۔غریبوں،مسکینوں کی طرح زندگی گزار کر بھی میں نہ ہاری۔مجھے امید تھی کہ وقت میرے لئے اچھی خبر لائے گا۔ ۔اور وقت نے پھر اپنا آپ دکھانا شروع کردیا۔

 

ماموں کا بڑا بیٹا بری صحبت میں پڑ گیا۔شہریار کی اس بری صحبت کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اکثر شراب کے نشے میں گم گھر آتا۔۔ایک دن اسی طرح نشے سے چور اس نے میری عزت پر ہاتھ ڈالا۔گھر پر صرف ممانی تھی۔میرے چیخ کر باہر نکلنے کی وجہ سے پڑوسن نے دیکھ لیا۔شہریار بھاگ گیا مگر بیٹے کو بچانے کیلئے ممانی نے مجھ پر گھٹیا الزام جڑ دیا۔۔اس دن بڑے ماموں نے مجھے گھر سے نکلنے کا حکم دے دیا۔گھر چھوڑ کر میں کہاں جاتی؟۔ ۔میں گھر سے باہر پھٹے کپڑوں میں نکلی ہی تھی کہ مجھے کسی نے روک لیا۔۔۔

 

                                     ٭٭٭

 

میں نظر ہٹائے بغیر ڈائری کو پڑھ رہا تھا۔آخری واقعہ کے اوپر لکھی گئی تاریخ دسمبر چوبیس تھی۔اس کے آگے بس شاعری لکھی ہوئی تھی۔تجسس کے مارے میرا برا حال تھا۔ستارہ کی کہانی نے میرے دماغ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔۔

 

دوسری شام میں جب شہزاد کے گھر کے سامنے سے گزرا تو وہ گیٹ کے پاس ہی بیٹھی باہر دیکھ رہی تھی۔وہ اکیلی تھی۔میں نے گھر میں داخل ہو کر اس سے کہا۔’’یہ تو آدھی کہانی ہے؟‘‘

 

’’آہا۔۔بدبخت... مجھے یقین تھا تم آؤ گے۔اصل میں وہ 2015کی ڈائری ہے۔آؤ 2016کی ڈائری لے لو۔‘‘وہ اندر گئی اور ایک اور ڈائری اٹھا کر لے آئی۔’’باقی کی کہانی ہے اس میں ہے۔۔‘‘۔میں نے ڈائری پکڑ لی۔میرا بس نہیں چل رہا تھا میں وہیں بیٹھ کر اسے پڑھنا شروع کردیتا ۔اس نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا۔’’لگتا ہے میری کہانی کچھ زیادہ متاثر کررہی ہے تمہیں؟‘‘ ۔

 

’’ہاں بہت۔۔‘‘میں نے جواب دیا اور واپس آگیا۔اس رات بادلوں نے تاروں کو قید کررکھا تھا۔ہلکی ہلکی پھوار زمین کو گیلا کر رہی تھی ۔میرے پاس ڈائری تھی اور بلب کی روشنی میں الفاظ میری آنکھوں کے سامنے تھے۔

 

                               ٭٭٭

 

شہریار گناہ گار ہونے کے باوجود بچ گیا اور میں بدقسمت۔۔ایک بار پھر ہار گئی۔گھر سے باہر نکل کر میں نے دیکھا۔چھوٹے ماموں میرے پیچھے تھے۔’’کہاں جارہی ہو ستارہ؟‘‘۔

 

’’پتہ نہیں‘‘میں نے بے بسی سے جواب دیا۔پتہ ہوتا تو بتاتی اپنی منزل۔

 

’’آؤ میرے ساتھ۔تم ہمارے ساتھ ہمارے حصے میں رہو گی آج سے۔منور بھائی سے میری لڑائی ہوگئی ہے۔تم اب میری بیٹی ہو‘‘۔میں حیران نظروں سے ان کو دیکھ رہی تھی۔منور بڑے ماموں تھے۔آج سے پہلے کبھی منجھلے ماموں نے میرے سر پر شفقت بھرا ہاتھ بھی نہ رکھا تھا۔۔اور آج اچانک اتنی محبت؟۔سمجھ کچھ نہ آیا لیکن میں خوشی خوشی ایک حصے سے دوسرے حصے میں منتقل ہو گئی۔بڑی ممانی اور بڑے ماموں میری طرف دیکھتے بھی نہ۔۔البتہ منجھلے ماموں ممانی کا پیار عروج پر تھا۔یہ وہی لوگ تھے جو کبھی زمین پر سلاتے تھے۔فرحانہ کے ساتھ میرے لئے بیڈ پر جگہ نہ تھی۔مجھے کچھ سمجھ نہ آ رہا تھا۔۔

 

مجھے ان کے گھر میں ڈیڑھ سال ہو گیا۔میں نے میٹرک کر لی۔میں کالج جانا چاہتی تھی مگر اس دن ماموں کی محبت کی حقیقت سامنے آئی تو میں دنگ رہ گئی۔۔انہوں نے مجھے پاس بلایا اور کہا۔’’ستارہ مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے؟‘‘

 

’’جی ماموں؟‘‘

 

’’بیٹا تمہارے ابو کا گھر اور دکان جو تمہارے نام ہے ان کا کرایہ اب بھی تمہارے بڑے ماموں لے رہے ہیں۔ان سے بات کرو اپنا حق مانگو۔میں پچھلے کئی دنوں سے تمہارا خرچ اٹھا رہا ہوں۔اس پر میرا اور تمہارا حق ہے‘‘۔تو یہ تھا سارا محبت کا قصہ۔ڈئیر ڈائری۔۔منور ماموں مجھے گھر سے نکال چکے تھے مگر آج تک نہ انہوں نے بتایا تھا کہ میرا ابو کی دکان اور ہمارے مکان کا کرایہ آتا ہے گھر میں اور نہ ہی مجھے پتہ تھا۔۔تو میں جو مسکینوں،یتیموں کی طرح زندگی گزار رہی تھی ۔۔حقیقت میں اتنی تھی نہیں۔اس سے پہلے میں ماموں سے حق مانگتی۔۔گھر میں ایک اور بات ہو گئی۔۔ماموں کو ان کے کئے کی سزا قدرت نے دے دی۔شہریار کا ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ مرگیا۔نشے میں بائک چلانے کی سزا اس نے بھگت لی تھی۔وہ ٹوٹ کر رہ گئے۔جوان بیٹے کی موت نے دونوں میاں بیوی کو توڑ دیا تھا۔گھر میں خاموشی رہنے لگی اور منجھلے ماموں مجھے مجبور کرتے رہے کہ اپنا حق مانگ لوں مگر میں اس موقع پر کوئی بات نہ کرنا چاہتی تھی۔میرے انکار کے بعد ان کا انداز بدل گیا۔انہوں نے ایک بار پھر مجھے پرانا روپ دکھانا شروع کردیا۔روٹی ایک وقت پر ملنے لگی۔۔میرے پاس ایک موبائل تھا جو میں نے اپنی جمع پونجی سے خریدا تھا۔۔

 

انہی دنوں میرا اتفاق سے شہزاد سے رابطہ ہو گیا۔میرے لئے گھر دوزخ بنتا جا رہا تھا اور شہزاد کی باتیں جنت۔ہم روزانہ کئی گھنٹے کال پر لمبی باتیں کرتے۔مجھے نہیں پتہ تھا میں ٹھیک کررہی ہوں یا غلط مگر میرے لئے یہ بس ایک فرار تھا۔شہزاد نے جال بچھایا اور میں پھنستی چلی گئی۔۔ 

 

                              ٭٭٭

 

’’اس کی شادی عباد سے کر دیتے ہیں‘‘میں چائے بنا کر ماموں ممانی کے کمرے میں لے جا رہی تھی جب ممانی صبا کی آواز سنائی دی۔میں ٹھٹک کر رک گئی۔عباد ان کے میٹرک فیل بیٹے کا نام تھا جو سارا آوارہ گردی کرتا رہتا تھا۔

 

’’مگر کیوں؟‘‘ماموں نے پوچھا۔

 

’’ارے شادی کے بعد سب کچھ عباد کے نام کروالیں گے۔دکان اچھی جگہ پر ہے۔مکان کا کرایہ بھی تیس ہزار ہے۔مستقل آمدنی ہو جائے گی‘‘انہوں نے اپنا منصوبہ سامنے رکھا۔

 

’’بات تو ٹھیک ہے پر عباد کو کون منائے گا؟۔‘‘

 

’’میں منا لوں گی۔اچھا ہے گھر کی مستقل نوکرانی بھی ہے اور جائیدار بھی ہے‘‘باتیں سن کر میری آنکھیں کھل گئیں اور اس رات میں نے شہزاد کو اپنی جائیداد کے بارے میں بتا دیا۔اس نے گھر سے بھاگنے کا کہا۔۔میں بھاگ آئی اس کے ساتھ۔ہمیشہ کیلئے۔یہاں اب جب بھی وہ اور سکینہ خالہ آپس میں باتیں کرتے ہیں میں سمجھتی ہوں ایک جہنم سے بھاگ کر دوسرے جہنم میں داخل ہو ئی ہوں۔سب مجھ پر ہنستے ہیں۔۔مجھے آوارہ اور بد کردار سمجھتے ہیں لیکن حقیقت تو خدا جانتا ہے۔۔شہزاد کہتا ہے مجھ سے نکاح کر لے گا اور کس وجہ سے کرے گا؟ڈائری تم تو جانتی ہو ۔۔مکان اور دکان کیلئے۔چند لاکھ کی ان دو بے جان چیزوں کیلئے میں در در کی ٹھوکریں کھاتی پھر رہی ہوں۔کوئی نہیں جو میرے درد کو سمجھے گا۔۔کیونکہ میں اودھل ہوں۔۔

 

                              ٭٭٭

 

میں نے گہری سانس لی۔ستارہ کی کہانی بہت سی لڑکیوں سے ملتی جلتی تھی۔میں اس کی مدد کرنے کا سوچ رہا تھا مگر طریقہ میری سمجھ میں نہ آیا۔

 

اگلی شام کو جب میری ستارہ سے ملاقات ہوئی تو اس کے ہونٹوں پر وہی اداس مسکراہٹ تھی۔میں نے اس کے پاس بیٹھ کر باتیں شروع کردی۔۔ادھر اُدھر کی لایعنی باتیں۔وہ بس میرے چہرے کی طرف دیکھتی رہی۔ہوں ہاں سے زیادہ جواب نہ دیا۔۔پھر اس کی اور میری ملاقاتیں روز ہونے لگی۔میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے جڑ رہا تھا۔۔اس رشتے کو ہم کوئی نام نہ دے سکے لیکن ستارہ بدقسمت تھی۔۔اس کی قسمت میں کوئی مخلص رشتہ نہ تھا۔

 

اس شام ہم مل کر بیٹھے باتیں کررہے تھے جب اماں اور خالہ سکینہ ایک ساتھ گھر میں داخل ہوئیں۔میں ہمیشہ خالہ اور شہزاد کی غیرموجودگی میں آتا تھا مگر شاید خالہ سکینہ کو پتا چل گیا تھا۔

 

’’یہ دیکھ۔۔میں نہ کہتی تھی تیرا بیٹا اس آوارہ کے ساتھ جڑ بیٹھتا ہے۔۔ارے یہ تو شریف بچہ تھا اسی طوائف نے خراب کیا ہو گا۔میرے شہزاد کو بھی اسی نے خراب کیا تھا‘‘خالہ کی زبان نے آگ اگلنی شروع کردی۔

 

’’خالہ خاموش رہیں۔ایسی کوئی بات نہیں‘‘۔۔ابھی میری بات مکمل ہوئی تھی کہ اماں کا تھپڑ پر میرا گال سرخ کر گیا۔

 

’’گھر دفع ہو ۔کرتی ہوں تیرے ابے سے بات۔اب تو اس اودھل کیلئے بڑوں سے بدتمیزی کرے گا؟‘‘۔امی مجھے مارتی ہوئی باہر لے آئی۔میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔سکینہ کی گالیوں سے بے خبر ستارہ میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔کچھ تھا اس کی مسکراہٹ میں۔میں کوئی نام نہ دے سکا۔۔میری گھر میں جو’ عزت‘ ہوئی سو ہوئی مگر مجھے ستارہ کی پریشانی تھی۔۔اور اگلے دن صبح اٹھے تو ہمیں خبر ملی۔۔ستارہ نے خودکشی کرلی تھی۔۔اچھے وقت کی تلاش میں بھٹکتی ہوئی ستارہ کو خود غرض دنیا نگل گئی۔کردار پر لگائی گئی آخری ضرب فیصلہ کن ثابت ہوئی۔۔اب میں جب ستارہ کو یاد کرتا ہوں تو بس اس کا لکھا گیا ایک جملہ ہی دماغ میں آتا تھا۔۔

 

 ’’کوئی نہیں جو میرے درد کو سمجھے گا۔۔کیونکہ میں اودھل ہوں۔۔‘‘

                                                                                                     ٭٭٭

اعتزاز سلیم وصلی